رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم

رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم

مفتی عبد القیوم صاحب مالیگانوی/ استاذ جامعہ اکل کوا

خزاں رسیدہ کھیتی لہلہانے لگی:

            عالَم ؛انس و جن کی برکتوں سے محروم تھا، رشد و ہدایت کی ہوائیں مسدود تھیں، ملاءِ اعلیٰ سے نورانی مخلوق کی آمد کافور تھی، زمینی حالت ابتر سے بدترین ہوچکے تھے، انسان ؛انسانیت سے ہٹ کر حیوانیت کا خوگر اوردرندگی کا اسیر ہوچکا تھا، انسان؛ انسان سے ٹکراتے اور معصوم زندگیوں کو اجاڑ دیے، چلتی سانسوں کو بند کردیتے، آبا و اجداد کی جہالت بھری داستانیں سنائی جاتیں اور فخرومباہات کی محفلیں گرم ہوتی تھیں، جانوں کے لینے اور مالوں کو لوٹنے اور قافلوں پر حملہ آور ہونے کی سازشیں رچائی جاتی تھیں، انسان انسان سے پناہ مانگ رہا تھا۔ بے بسی ولاچاری سایہ کی طرح انسان کے ساتھ لگی ہوئی تھی، دور دور تک جینے کی امنگ اور امن کی صورت دکھائی نہیں دیتی تھی، لیکن کائنات کے حاکم و مالک کے لیے اس بزم کی تقدیر بنانے اور سنوارنے کا وقت آچکا تھا۔ چناں چہ آمنہ بنت وہب کی گود ایک ایسے معصوم ومقدس متحرم وماہ جبیں کی گل کاریوں سے آباد ہونے والی تھی، جسے مولیٰ نے سب سے حسین ، سب کا دلارا، آنکھوں کا تارا ، رب کا پیارا ، خوب صورت نظارہ ، عظمت کا ستارا، قوم کا رہبر، نجات کا محور ، ہدایت کا مرکز، عبد المطلب کا پوتا، عبداللہ کا بیٹا بناکر انسانیت کو زنیت بخشی، جن کے آنے سے جاں بہ لب انسانیت کی سانسیں واپس آگئیں۔ دم توڑتی قدریں اجاگر ہوئیں، خزاں رسیدہ کھیتی مسکرانے، بل کہ لہلہانے لگی، جیسے زمانہ دراز سے خشک شدہ بنجر زمین پر باران رحمت کے چھینٹوں سے تازہ اور نرم ہوجاتی ہے۔

            واقعتا مولانا الطاف حسین حالی# نے منظر کشی کا حق ادا کر دیا #

وہ نبیوں میں رحمت لقب پانے والا

مرادیں غریبوں کی برلانے والا

اتر کر حرا سے سوئے قوم آیا

اور ایک نسخہٴ کیمیا ساتھ لایا

رہے اس سے محروم آبی نہ خاکی

ہری ہوگئی ساری کھیتی خدا کی

ایک اونٹ کاواقعہ:

            آپ کا آنا نہ صرف جن وانس کے لیے رحمت ثابت ہوا، بل کہ ہر ہر مخلوق نے آپ کی شانِ رحمت دیکھی اور اس کی برکتوں سے فیض یاب بھی ہوئیں۔ آپ نے ایسی شانِ رحمت پائی کہ انسان تو انسان جانور تک زبانِ حال سے اپنی داستانِ غم اور اپنی آپ بیتی آپ کو سنائے اور شکوہ کناں ہوکر اپنی تکالیف کا انسداد چاہتے۔ چناں چہ ایک مرتبہ ایک اونٹ اپنی پریشانی اور الجھن آپ کے سامنے پیش کررہا تھااور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سماعت فرمارہے تھے کہ میرا مالک مجھ سے کام خوب لیتا ہے، میری استطاعت سے زیادہ مجھ پر بوجھ ڈالتا ہے، لیکن پیٹ بھر مجھ کو کھانا نہیں دتیا ہے۔ اس الم ناک کہانی کوسن کر آپ کا دل بھر آیا، لہٰذا آپ نے اس کے مالک کو بلواکر تنبیہ کی اور سمجھایا کہ جانوروں کے ساتھ حسنِ سلوک کیاکرو۔

محبوبِ رب ؛طائف کی سرزمین پر:

            ہم تاجدار حرم رحمة للعالمین صلی اللہ علیہ وسلم کی نرمی ، خوش اخلاقی، عفو و کرم اور در گزر کی کیفیت کا کیسے ادراک کرسکتے ہیں؟ طائف کی بستی ہے، آپ وہاں اللہ کے پیغام کو پہنچانے کے لیے تشریف لاتے ہیں، اس ارادہ سے کہ مکہ والوں نے اِس نعمتِ توحید وایمان کو ٹھکرادیا اور آپ پر ہر طرح کے الزامات تراشے۔ چناں چہ ایک شکستہ دل لیکن امیدوں سے آباد ، محبوب خدا طائف پہنچے، شاید کہ یہ لوگ عظیم دولت کو قبول کرکے دنیا و آخرت کی لازوال نعمتوں سے مالا مال ہوجائیں، لیکن معاملہ پہلے سے زیادہ سنگین اور حالت ماضی سے زیادہ پر خطر ثابت ہوئے۔گویا کہ اہلِ طائف کی بد بختی پر مہر ثبت ہوچکی ہو، کسی نے بات نہ سنی ، بل کہ سخت سست کہا۔ اوباشوں کے ذریعہ آپ کو زخمی کردیا اور آپ کے قلب حزیں کو ٹھیس پہنچاکر اپنی بدبختی اور حرماں نصیبی پر مہرلگالی۔ اس جگر خراش اور دلدوز منظر کی ترجمانی کرتے ہوئے مالیگاوٴں کے ایک جواں سال اور خوش الحان شاعر جناب انور آزاد صاحب نے کہا #

اپنی قسمت پر بہت پھوٹ کر روئے پتھر

دامنِ مصطفی کو خوں میں جب تر بتر دیکھا

            واہ رے گردشِ زمانہ! ہائے رے ستم ظریفی! جو اُن کی کام یابی کے لیے بھٹکا، ان کی جنت سنوارنے نکلا، ان کی نسلوں کو تباہی سے بچانے کے لیے عازم سفر ہوا۔ بعض اپنے حقیقی رب ملانے کے لیے بھوکا ، پیاسا سرگرداں چلا، اپنوں سے بیزار ہوکر انہیں اپنا بنانے کی فکر کرنے لگا، ان ہی قسمت کے ماروں ، ناعاقبت اندیشوں نے آپ کے آبگینہ جیسے دل کو چور چور کردیا۔ کہتے ہیں کہ زندگی کے تمام دعوتی سفر اور مواقع میں طائف کا سفر سب سے زیادہ آپ کے لیے رنج وغم کا باعث بنا۔ چنا ں چہ اسی شکستہ دل کے ساتھ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے مولیٰ سے دست بدعا ہوئے کہ بارِ الٰہا انہیں معاف کردے ، یہ میرے مقام و مرتبہ کو نہیں جانتے۔ اللہم اغفرلہم فانہم لا یعلمون

فیصلہ ہندستان کے لیے:

            اگر آج یہ ایمان نہیں لائے، آئندہ ان کے نسلوں میں اس کے علمبردار اور داعی پیدا ہوں گے۔ بس کیاتھا محبوب کی یہ دعائیں رب کائنات نے قبولیت کے ساتھ ایسی گھڑی کے لیے محفوظ کرلی کہ ہندستان کی بنجر اورنا آشنا سرزمین کے لیے جس کا فیصلہ ہوچلا اور طائف کے قبیلہ بنو ثقیف میں سے صحابہٴ کرام یہاں قدم رنجہ ہوئے اور ایمان کی شمعیں روشن کیں۔ کسی نے کیا بہتر کہا ہے #

تو بچا بچا کر نہ رکھ اسے کہ یہ آئینہ ہے وہ آئینہ

جو شکستہ ہو تو عزیز ہے نگاہِ آئینہ ساز میں

            ایمان کی دولت ، اسلام کی یہ امانت ہمیں حقیقتاً نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی فکروں ، دعاوٴں اور قربانیوں کے نتیجہ میں ملی ہے اور آپ کی رحمت بے کراں کا اثر ہے۔ اللہ اپنے محبوب نبی کو پوری امت کی طرف سے جزائے خیر عطا فرمائے۔

غیروں نے بھی اعتراف کیا:

            آپ کی رحمت کے نمونے زندگی کے تمام گوشوں اور بے شمار لمحات زندگی کو شامل ہیں۔ جس ابر کرم سے دنیا کی تمام مخلوقات سیراب ہوئیں اورکیوں نہ ہوتیں، جب کہ رحمت، ہمدردی، کرم، سب کو اس کی ضرورت ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بلا تفریق مذہب و ملت ، کیا اپنے ، کیا پرائے کیا مسلم اورغیرمسلم ، کیا دوست ، کیا دشمن سب کو تقسیم کیا اور دنیا آپ کے رحم و کرم اورآپ کے دریا دلی کا اعتراف کیے بغیر نہ رہ سکی۔چنا ں چہ غیر مسلم موٴرخین اسکالر ز نے اپنی کتابوں ، تحریروں اورخطابات میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی شخصیت ِ عظمیٰ کوسب سے عظیم قرار دیا ۔ یقینا ”الفضل ما شہدت بہ الاعداء “ اصل کمال اسی کو کہتے ہیں، جس کا دشمن بھی اعتراف کرے۔

رب کریم ہمیں بھی توفیق دے:           

            اللہ نے ایسا نبی رحمت ، ساقیِ کوثر، راہبر و راہنما ہمیں عطا کیا ہے، جن کے بے حد و حساب ہم پر احسانات ہیں، جس کا تقاضا یہ ہے کہ ہم دل و جان سے ان کی سنتوں کو اپنائیں اور ان کے بتائے ہوئے نقوش اور خطوط پر ہم گامزن ہوں تا کہ ابدی سعادت ہمارے قدم چومے ۔ اللہ رب العزت ہمیں توفیق عمل عطا کرے اور سچا عاشقِ نبی بنائے۔ آمین یا رب العالمین!