کامیابی کا ضامن: وحیِ الٰہی اور نبیٴ مرسل سے تعلق:

معار ف کا پو د روی

کامیابی کا ضامن: وحیِ الٰہی اور نبیٴ مرسل سے تعلق:

            انبیا علیہم الصلوة والسلام نے دنیا میں بسنے والے انسانوں کو بتایا کہ دیکھو تمہارے اندر دو قسم کی صفات ہیں:

             ایک تو یہ کہ تمہارے اندر شریروں اور جنوں کی صفات ہیں؛ مثلاً تمرد اور شہوت تمہارے اندر ہے۔

             اور دوسرے یہ کہ تمہارے اندر فرشتوں کی صفات بھی ہیں؛ مثلاً عبادت و اطاعت بھی تمہارے اندر ہے۔

             اور اصل مقصد یہ ہے کہ عبادت و اطاعت کے ذریعہ اللہ ہی کی ذات کے ساتھ اپنے آپ کو وابستہ کرو اور آخرت کی زندگی کا اپنے دل میں یقین پیدا کر و اور یہ ذہن میں رکھو کہ دنیا کی زندگی چند روزہ ہے، اس کے بعد ہمیں اس دنیا سے چلے جانا ہے، ہمیں دنیا میں صرف امتحان کے لیے بھیجا گیا ہے۔ یہ دنیا فقط دار الامتحان ہے ”الدنیا مزرعة الآخرة“ یہ دنیا آخرت کی کھیتی ہے، جیسا ہم یہاں بوئیں گے ویسا ہی وہاں پائیں گے۔

             دنیا میں ہم اس لیے آئے تا کہ ہم اپنے اعمال کو اس انداز سے سنواریں کہ اللہ بھی ہم سے راضی ہو جائے اور ہماری آخرت کی زندگی؛ جو ابد الآباد کی زندگی ہے بہتر ہو جائے۔ لیکن جب بھی انسانوں کا تعلق اس روئے زمین پر اللہ ہی سے کٹ گیا اور وحی الٰہی سے انسان دور ہوا اور نبوت کی روشنی سے اس نے فائدہ نہیں اٹھایا، تو انسان اتنا نیچے گرا اتنا نیچے گرا کہ وہ حیوانوں سے بھی نیچے چلا گیا، یا تو یہ طاعت و فرماں برداری کر کے فرشتوں سے آگے نکل جاتا تھا یا پھر سرکشی و تمر د کر کے شیطانوں سے نیچے چلا جاتا ہے۔

             انسان کا حال عجیب و غریب ہے﴿ ثُمَّ رَدَدْنٰہُ أَسْفَلَ سَافِلِینَ ﴾ وہ بالکل تحت الثریٰ یعنی بالکل نیچے کے درجے میں پہنچ جاتا ہے۔ اس کی طبیعت میں بری بری اُمنگیں پیدا ہوتی ہیں اور وہ ایسی ایسی بہیمانہ حرکتیں کرتا ہے کہ کوئی جانور بھی اس طرح کی حرکتیں نہیں کر سکتا۔ ایسی حرکتیں دنیا میں بسنے والے انسان کرتے ہیں؛ مثلاً اپنے بھائیوں کو بھی کاٹ ڈالتے ہیں، اپنے ماں باپ کو بھی ذبح کر دیتے ہیں اور بیوی بچوں کو مار ڈالتے ہیں، چھوٹے چھوٹے معصوم بچوں کو آگ میں پھینک دیتے ہیں، یہ سب انسانیت سے گری ہوئی حرکات ہیں۔

            ابھی یہاں پر جو حالات ہیں اور آپ حضرات روزانہ سنتے ہوں گے کہ ہندستان میں یا دوسرے ملکوں میں کیا ہو رہا ہے؟ جس کو اللہ تعالیٰ نے ذرا سا بھی شعور دیا ہے اور جس میں ذراسی بھی انسانیت ہے، وہ اس حد تک نہیں جا سکتا کہ ایک معصوم چھوٹا ساتین چار سال کا بچہ جو اپنی ماں کی گود میں کھیل رہا ہے، اسے پکڑ کر آگ میں جھونک دے اور اس کی ماں اسے بے بسی سے تکتی رہے۔ آپ ذرا اس کا تصور کریں کہ اس بے چاری ماں پر کیا گزر رہی ہوگی، ایک دو نہیں، ہزاروں زندہ انسان آگ کے اندر جلائے جارہے ہیں؛ لیکن ان کے ضمیر کو بالکل اس کا احساس نہیں ہے، یہ انسانیت کی گراوٹ کی انتہا ہے۔

            یہ بات ہرگز خوش ہونے کی نہیں ہے کہ بڑی بڑی یونیورسٹیاں قائم ہو گئیں اور دنیا نے بہت ترقی کر لی۔ سائنس نے بڑی بڑی ایجادات کر لیں اور انسان بہت Top Level پر پہنچ گیا، یہ کوئی خوشی کی بات نہیں ہے۔ انسان نبوت کے راستے اور پیغمبروں کے طریقے کو چھوڑ کر ان ساری ترقیوں کے باوجود اسفل سافلین؛ یعنی اتنی پستی میں جارہا ہے جس کا تصور نہیں ہو سکتا۔

ایک کھوکھلا دعویٰ:

            ایک طرف تو وہ دعویٰ کرتے ہیں کہ ہمارے مذہب کی بنیاد دو چیزوں پر ہے: ”اَہِنْسَا “ اور” دَیا“۔ ہندی میں عدم تشدد کو” اہنسا“ کہتے ہیں اور” دیا“ کے معنی ہیں رحم دلی۔ یعنی ہم کسی کے ساتھ بھی سختی نہیں کرتے؛ بل کہ رحم دلی سے پیش آتے ہیں اور وہ کہتے ہیں کہ اس لیے ہم جانوروں کو نہیں کاٹتے کہ یہ رحم دلی کے خلاف ہے۔

            دیکھئے! یہ جانوروں کا تو اتنا خیال کرتے ہیں اور انسانوں کو ہلاک کر رہے ہیں اور وہ بھی کتنی بیدردی سے!یہ ان کی کیسی پالیسی ہے؟کہا کچھ جاتا ہے اور کیا کچھ جاتا ہے۔

             میرے دوستو! ہمارا فرض ہے کہ ہم پوری دنیا میں جناب محمد ا کے پیغام کو لے کر جائیں اور اس امن کے پیغام کو پوری دنیا میں عام کریں اور بتلائیں کہ” اہنسا“ اور” دیا“ کے اصول پر کون عمل پیرا ہے؟

آزمائش ہوتی رہے گی:

            مسلمانوں کے ساتھ جو معاملات ہورہے ہیں یہ کوئی نئی بات نہیں ہے، یہ تو پہلے سے چلا آ رہا ہے۔

             قرآن مجید ہمیں بتاتا ہے کہ جب مسلمان صحیح راستے سے ہٹتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کو تنبیہ کرتے ہیں۔

 اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :﴿وَلَنَبْلُوَنَّکُمْ بِشَیْ ءٍ مِّنَ الْخَوْفِ وَالْجُوعِ وَنَقْصٍ مِنَ الْأَمْوَالِ وَالْأَنْفُسِ وَالثَّمَرَاتِ وَبَشِّرِ الصّٰبِرِیْنَ، الَّذِینَ إِذَا أَصَابَتْہُمْ مُصِیبَةٌ قَالُوا إِنَّا لِلّٰہِ وَإِنَّا إِلَیْہِ رَاجِعُونَ

            اللہ فرماتے ہیں اور ہم تم کو ضرور آزمائیں گے تھوڑے ڈر سے اور بھوک سے اور مالوں، جانوں اور پھلوں میں نقصان سے اور آپ ان صبر کرنے والوں کو خوش خبری دیجیے کہ جب ان کو کوئی مصیبت پہنچتی ہے تو وہ کہتے ہیں کہ ہم تو اللہ ہی کے ہیں اور ہم اسی کی طرف لوٹ کر جانے والے ہیں۔

             تمہارے اوپر بھوک اور ڈر کے حالات آئیں گے اور تمہارے مالوں اور پھلوں کے اندر کمی آئے گی اور تمہاری جانوں کے اندرکمی آئے گی: چناں چہ آج ہم پر خوف بھی طاری ہے، بھوک بھی مسلط ہے، جانیں بھی جارہی ہیں اور کروڑہا کروڑ روپے کا مالی نقصان بھی ہورہا ہے۔