عمل اور نیکی میں نیت کا دخل

انوار نبوی ا                                                                                  پہلی قسط:

درسِ بخاری: حضرت مولانا حذیفہ صاحب وستانوی#

مرتب: محمد ہلال الدین بن علیم الدین ابراہیمی#

            الحمدللہ! مدیر شاہرا ہ حضرت مولانا حذیفہ صاحب کے دروسِ بخاری، مسلم اورترمذی، کا سینکڑوں صفحات پر مشتمل درسی مسودہ تیار ہے۔جس میں بڑی عمدہ بحثیں اور مفید باتیں ہیں۔ آپ کے دروس میں آپ کا شوقِ مطالعہ اور محققانہ مزاج صاف صاف جھلکتا ہے؛لہذا ذہن میں یہ بات آئی کہ درسِ حدیث کے ان مباحث کو جو مفید ِعوام و خواص ہیں ، قدر ِمرتب کرکے مضمون کی شکل دے کر قارئین کی خدمت میں پیش کیا جائے۔درس کا اکثر حصہ ؛جو خالص علمی اور تحقیقی تھا،تذکیری پہلو کی رعایت میں اسے حذف کردیا ہے۔ دعا کریں کہ درس ِحدیث کتابی شکل میں آ جائے تو ساری بحثیں اس میں شامل ہو جائیں گی، جس کی علمی حلقے میں کافی پذیرائی کی امید ہے۔

بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

            وَبِہ قَالَ حَدَّثَنَا الْحُمَیْدِيُّ قالَ حدَّثَنَا سُُُُُُُُُُُُُفْیَانُ قَالَ حدَّثنَا یَحْیَ بنُ سَعیدِ الَانصاريَّ،قَالَ اَٴخْبَرَنِيْ مُحَمَّدُ بنُُ ابرَاہیمَ التَّیْمِيِّ اَٴنَّہ سمِعَ عَلقمةَ بنَ الوقَّاصِ الَّیْثِيِّ یقولُ:سمعتُ عُمرَ بنَ الخَطَّابِ رَضیَ اللہُ عنہُ علَی المِنبرِ قالَ:سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ علیہِ وَسلَّمَ یَقُوْلُ:اِنَّمَا الْاَعْمَالُ بِالِّنیَّاتِ، وَاِنَّمَا لِکُلِّ امْرِیءٍ مَّا نَوٰی، فَمَنْ کَانَتْ ھِجْرَتُہ الٰی دُنْیَا یُصِیبُہا، اَٴوْ الٰی امْرَأةٍ یَنْکِحُھَا، فَہِجْرَتُہ اِلٰی مَا ھَاجَرَ اِلَیْہِ۔

ترجمہ:امام بخاری نے کہا: کہ ہمیں بیان کیا امام حمیدی نے اور حمیدی کہتے ہیں کہ ہمیں بیان کیا سفیان نے،وہ فرماتے ہیں ہمیں بیان کیا یحییٰ ابن سعید الانصاری نے وہ فرماتے ہیں کہ مجھے بیان کیا محمد بن ابراہیم نے اور وہ فرماتے ہیں کہ انہوں نے علقمہ بن وقاص سے سنا اور وہ فرماتے ہیں کہ انہوں نے حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے فرماتے ہوئے سنا ،اس حال میں کہ حضرت عمر منبر پر تھے۔ حضرت عمر بن خطاب فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ ”تمام اعمال کا مدارنیتوں پر ہے اور یقینا ہر شخص کے لیے وہی ہے، جس کی اس نے نیت کی،لہٰذا جس کسی نے دنیا حاصل کرنے کے لیے یا کسی عورت سے نکاح کی خاطر ہجرت کی تو اس کی ہجرت اسی چیز کے لیے ہوگی، جس کے لیے اس نے ہجرت کی ہے“۔

حدیثِ ہذا کا سببِ ورود کیا؟

            اب اس کے بعد دوسری بات یہ ہے کہ جس حدیث کو بیان کیا جارہا ہے،اس حدیث کا سببِ ورود کیا ہے؟تو اس حدیث کے سببِ ورود کے سلسلہ میں بیان کیا جاتاہے کہ اس حدیث کو جن صحابی کے سلسلہ میں نبیٴ کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بیان کیا ،حضرات صحابہ ان صحابی کو مہاجرِ ام قیس کہاکرتے تھے، ان کا نام کہیں نہیں ملتا ہے۔ یہ حضراتِ صحابہ کی خصوصیت ہے کہ اگر اپنے ساتھی میں سے کسی سے کوئی غلطی ہو جاتی تھی، تو اس غلطی کی صورت میں اس کا نام بیان نہیں کرتے تھے۔ہاں نام ا س وقت بیان کرتے تھے جب غلطی کے ساتھ ساتھ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی کثرتِ فضیلت بیان کی ہو۔جیسے حضرت ماعزِ اسلمی ان کا نام بھی حضرات صحابہ نے اس لیے بیان کیاکہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی توبہ کے بارے میں بیان کیا کہ اگر ان کی توبہ کو تقسیم کیا جائے تو پورے اہل مدینہ منافقوں سمیت جنت میں داخل ہو جائیں گے۔

مہاجرِ ام قیس صحابی کا واقعہ:

            حضراتِ شارحین فرماتے ہیں: ایک صحابی تھے ،جو مدینہ منورہ میں آباد ایک عورت ام قیس سے شادی کرنا چاہتے تھے۔ ام قیس کا نام بھی کسی کو معلوم نہیں۔ تو ام قیس نے یہ شرط لگائی کہ میں آپ سے نکاح کر لوں گی؛لیکن ایک شرط کے ساتھ کہ آپ کو ہجرت کرنی پڑے گی۔ہجرت کرکے مدینہ آنا پڑے گا،تو انہوں نے اس شرط کو قبول کر لیا کہ ایک تیر سے دو شکار ہو رہے ہیں ہجرت بھی اور شادی بھی؛اسی وجہ سے صحابہ نے ان صحابی کا نام رکھا مہاجر ام قیس۔اور یہ حدیث ا ن ہی کے بارے میں وارد ہوئی ہے۔اس حدیث میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: فہجرتہ الی ما ھاجر الیہ۔

            حضراتِ شارحین فرماتے ہیں:چوں کہ ا صالةً نیت ام قیس سے نکاح کی تھی اور متابعةً ہجرت اس کے کہنے پر آپ نے کی ؛لہٰذا اصالت کا اعتبار کیا جائے گا کہ اصل ہجرت تو اس عورت کے لیے کی نہ کہ ہجرت کی، جیسا کہ اللہ کے رسول نے اللہ کے کہنے کے مطابق حکم دیا تھا۔تو اس وجہ سے اس روایت کو اور جس صحابی کے سلسلہ میں وارد ہوئی اس صحابی کو مہاجر ام قیس کہا جاتاہے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کو جمع کیا اور جمع کرنے کے بعد آپ نے کہا :”یا ایھا الناس“:مسند احمد وغیرہ میں اس روایت کو اسی طرح بیان کیا گیا ہے۔ تو لوگ آپ کی طرف متوجہ ہوئے۔ یَا اَیُّھَا النَّاسُ اِنَّمَا الَاعْمَالُ بِالنِّیَّاتِ وَاِنَّمَا لِامْرِءٍ مَا نَوٰی فَمَنْ کَانَتْ ھِجْرَتُہ اِلٰی دُنْیَا یُصِیبُھا، اَٴوْاِلٰی امْرَئَةٍ یَنْکِحُھَا فَہِجْرَتُہ الٰی مَا ہَاجَرَ اِلَیہِ۔یہ ہے اس حدیث کا سببِ ورود۔

صحابہ کی چوک بھی ہمارے لیے باعث رحمت:

             ان کو گرچہ مہاجر ام قیس کہا گیا،لیکن ان کی برکت سے اتنی عظیم روایت تو امت کو مل گئی۔ ان سے اگرچہ خطا ہوئی، چوک ہوئی ،مگر وہ چوک نہ کرتے تو اس روایت کا ورود نہ ہوتا۔اور کوئی ذریعہ نہ بن سکتا تھا، مگر ہمارے لیے تو یہی ذریعہ بن گئے۔لہٰذا ہمارے لیے تو یہ صحابی محسن ہیں۔ فجزاہ اللّٰہ عنا وعن امة محمد خیر الجزاء۔

            انما الاعمال بالنیات۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان اقدس سے یہ حدیث ادا ہوئی اور دین کی ایک بہت بڑی ضرورت کو پورا کیا گیا۔

حدیثِ ہذا کو روایت کرنے والے صحابہ کی تعداد:

            اس حدیث کو روایت کرنے والے صحابہ کی تعداد پانچ بیان کی جاتی ہے۔ایک تو اس روایت کو حضرت علی نے بیان کیا ہے۔دوسرے: راویة الاسلام حضرت ابو ہریرہ،تیسرے: حضرت عمر ابن الخطاب رضی اللہ تعالی عنہ، چوتھے: حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ۔پانچویں :حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ تعالی عنہ۔اس طرح سے پانچ صحابہ نے اس روایت کو نقل کیا ہے۔

            البتہ اس روایت پر حکم کے سلسلہ میں حضرات محدثین کے یہاں مختلف باتیں بیان کی جاتی ہیں۔حضرات محدثین نے یہاں پر ایک تعجب کا اظہار یہ کیا ہے کہ اس روایت کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے منبر پر بیان کیا۔مگر یہ روایت حضرت عمر ابن الخطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے تفرداً منقول ہے۔اسی لیے سند کے اعتبار سے اس روایت کو غریب السند کہا جاتاہے۔

محدثین کے نزدیک حدیثِ ہذا کا کیا حکم ہے؟

            اب محدثین کے ہاں اس حدیث کا حکم کیا ہے؟تو حضرات محدثین کے سلسلے میں بیان کیا جاتاہے کہ حضرات محدثین کے اصول کے اعتبار سے اس حدیث کو خبر آحاد میں سے شمار کیا جائے گا۔کیوں کہ محدثین کے ہاں اگر کسی حدیث کو عزیز یا مستفیض یا متواتر بننا ہے، تو ہر طبقہ میں دو تین چار ایسے راویوں کا ہونا ضروری ہے اور یہاں پر وہ چیز پائی نہیں جاتی ہے۔لہٰذا محدثین کے اصول کے اعتبار سے یہ حدیث خبر واحد کے حکم میں ہے۔ نہ عزیز کے حکم میں ہے نہ مستفیض کے حکم میں ہے اور نہ متواتر کے حکم میں ہے۔البتہ ”خَبَرٌ وَاحِدٌ صَحِیْحٌ“۔البتہ خبر واحد تو ہے لیکن صحیح ہے۔

 اسمائے حدیثِ نیت کے سلسلے میں بحث:

            بعض حضرات نے کہا اس حدیث کو ”حدیث النیة“ کہا جاتاہے۔ بعض حضرات نے کہا اس حدیث کو حدیث” طلیعة الکتب“ کہا جاتاہے۔ یعنی اس حدیث کے ذریعہ کتابوں کا آغاز کیا جاتاہے۔اسی لیے امام کرمانی وغیرہ فرماتے ہیں کہ آدمی جب بھی اپنی کسی کتاب کو لکھنا شروع کرے، تو اسے شروع میں خود اپنی نیت درست کرنے کے لیے ”انما الاعمال“ کو لکھنا چاہیے۔اور اسی سے اپنی بات شروع کرنی چاہیے۔اسی مناسبت سے اس حدیث کو کہا جاتاہے حدیث طلیعة الکتب،کہ جس سے کتابوں کا آغاز کیا جاتاہے۔

            بعض حضرات نے اس کو حدیث الاعمال کہا، اس لیے کہ اعمال اسی وقت درست ہوں گے ؛جب کہ اس حدیث کے مطابق نیت کو درست کیا جائے۔تو اس طریقے سے اس حدیث کے محدثین نے مستقل نام دیے ہیں۔کسی نے حدیث النیة کہا جو سب سے زیادہ مشہور ہے۔

 کسی نے حدیث الاعمال کہا۔کسی نے حدیث طلیعة الکتب کہا۔ اس طریقے سے اس کے متعدد نام ہیں۔

ترجمہٴ حدیث:

            اعمال کی قبولیت وصحت کا دارومدار نیت پر ہے۔بعض حضرات نے کہا” انما الاعمال بالنیات“ کا مطلب ہے ”انما قبول الاعمال بالنیات“کہ عند اللہ اعمال اسی وقت قبول ہوتے ہیں، جب کہ نیت درست ہو۔اگر نیت درست نہ ہو تو عمل قبول نہیں ہوتاہے۔

            بعض حضرات نے کہا:”انما صحة الاعمال بالنیات“کہ اعمال کی صحت کا مدار نیت پر ہے۔ مثلاً ایک آدمی ہے نماز شروع کرتا ہے، مگر کوئی نیت ہی نہیں کرتا ہے، تو اس کی نماز صحیح نہیں ہوگی۔ اس لیے کہ نیت ہی نہیں تو نماز کیسے صحیح ہوگی؟ پتاچلا کہ جو اہم ترین عبادتیں ہیں ان کی صحت کا مدار بھی نیتوں پر ہے۔

نیت کو اتنی زیادہ اہمیت کیوں ؟

            سوال پیدا ہوتا ہے کہ نیت کو اتنی زیادہ اہمیت کیوں دی گئی؟ تو اس لیے کہ نیت ایک ایسی چیز ہے ،جو اللہ کی سب سے معزز ومکرم مخلوق انسان اور غیر انسان کے درمیان فارق ہے۔اس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ کی مخلوق بے حد وحسا ب ہے۔ اورقرآن پوری تاکید سے بیان کرتا ہے وَاِنْ مِّنْ شَیْءٍ اِلَّا یُسَبِّحُ بِحَمْدِہ۔

            دنیا میں کوئی چیز ایسی نہیں جو اللہ کی تسبیح مع تحمید کے بیان نہ کرتی ہو۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ دنیا کی ہر چیز ذکر اللہ میں مشغول ہے۔ذی روح اور غیر ذی روح دونوں؛ یہاں تک کہ دروازوں کے کھلتے اور بند ہوتے وقتچرچر کی آواز۔کہا وہ چر چر کی آواز نہیں، انہ یسبح اللّٰہ۔ وہ اللہ کی تسبیح بیان کرتی ہے۔

(معارف القرآن۔ج:۵۔ص:۴۸۷)

            اس سے معلوم ہوا کہ جمادات ہوں،نباتات ہوں یاحیوانات ہوں،سب کے سب اللہ کی تسبیح میں لگے ہوئے ہیں۔اسی لیے اللہ رب العزت فرماتے ہیں ہم نے زمین وآسمان سے کہا: اِئْتِیَا طَوْعًا اَوْ کَرْھًا،قَالَتَا اَٴتَیْنَا طَائِعِیْنَ۔(حم السجدہ:۱۱)ظاہر سی بات ہے کہ آسمان وزمین اس میں کوئی جان نظر نہیں آتی، انسان ایسا سمجھتا ہے کہ یہ بے جان چیزہے،لیکن حقیقت ایسی نہیں ہے، جن چیزوں کو ہم بے جان سمجھتے ہیں، ان چیزوں میں بھی کوئی نہ کوئی جان ہوتی ہے۔ جیسے ایک زمانے تک دنیا میں یہ کہا جاتا تھا کہ درخت بے جان ہوتاہے،مگر آج کی سائنسی تحقیق وتجربہ نے اس بات کو ثابت کیا کہ درخت میں بھی جان ہے۔کہا کہ درخت میں جان ہونے کی علامت ہے اس کا نمو، اس لیے کہ کوئی بھی چیز بغیر جان کے بڑھ نہیں سکتی،لیکن وہ بڑھ رہی ہے، اس کا مطلب یہ ہے کہ اس میں جان ہے۔

            قرآن کریم تو یہاں تک کہتا ہے کہ پتھر بھی اللہ کا ذکر کرتا ہے۔ ثُمَّ قَسَتْ قُلُوْبکم مِن بعدِ ذلِکَ فَہِیَ کَالحِجَارَةِ اَوْ اَشَدُّ قَسْوَة۔واِنَّ من الحجارةِ لماَ یتفجَّرُ منہُ الانہارُ وَاِنَّ منھاَ لماَ یشقَّقُ فیخرُجُ منہُ الماءُ وانَّ مِنْہَا لماَ یھبِطُ منْ خشْیةِ اللّٰہِ وما اللہُ بغافِلٍ عماَّ تعملونَ۔(البقرة:۷۴)اللہ فرماتے ہیں کہ پہاڑ سے جو پتھر گرتا ہے یہ اللہ کے خوف سے گرتا ہے، اس کا مطلب یہ ہے کہ جس پتھر کو جماد سمجھا جاتاہے، وہ پتھر بھی اللہ کی ہیبت کو اپنے اندر رکھتا ہے۔

حضرت عقیل ابن ابی طالب کا دل چسپ واقعہ:

            حضرت عقیل ابن ابی طالب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا ایک واقعہ مشہور ہے۔ کہ حضرت عقیل ابن ابی طالب رضی اللہ تعالیٰ عنہ ایک مرتبہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مدینہ سے باہر تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو وضو کے لیے پانی کی ضرورت پیش آئی تو آپ پانی تلاش کرتے ہوئے کنویں پر پہنچے،جو ایک پہاڑی کے دامن میں تھا،تو حضرت عقیل ابن ابی طالب نے جب وہاں سے پانی لینے کا ارادہ کیا،تو اچانک کسی کے رونے کی آواز آئی،کہا :کہ ایسے کوئی رو رہا تھا جیسے کوئی بچہ روتاہے۔حضرت عقیل ابن ابی طالب فرماتے ہیں کہ میں ڈھونڈنے لگا کہاں ہے؟ کہا میں نے جب بہت غور کیا تو مجھے ایسا محسوس ہوا کہ کانَّ الجبلَ یبکِیْ۔کہ پہاڑ رو رہا ہے۔ فرماتے ہیں مجھے حیرت ہوئی کہ کیا پہاڑ بھی رو سکتاہے؟ فرماتے ہیں: کہ اچانک وہ پہاڑ متوجہ ہوا، اللہ کے لیے کوئی چیز بھاری نہیں ہے۔تو حضرت عقیل ابن ابی طالب کے دل میں اللہ نے بات ڈالی ،انہوں نے پہاڑ سے گفتگو کی توپہاڑ نے کہا:قرآن کریم میں یہ آیت جب سے نازل ہوئی کہ ہم انسان اور پتھر سے جہنم کو سلگائیں گے،وقودہا الناس والحجارة۔کہ انسان اور پتھر جہنم کا ا یندھن ہوں گے،کہا اس وقت سے میں رو رہا ہوں۔سوال پیدا ہوا کیوں رو رہے ہیں؟ وقودہا الناس والحجارة۔یہ آیت جب سے نازل ہوئی ہے مجھے ڈر لگا ہوا ہے کہ جس حجارة کو جہنم میں ڈالا جائے گا، کہیں میرا شمار بھی تو اس حجارہ(پتھر) میں نہیں ہے۔

            انسان کو اللہ نے عقل دی ، سمجھ دی، قرآن کے پورے تیس پارے نازل ہوئے اور۱۱۴/ سورتیں نازل کی گئیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اتنے سارے ہزاروں لاکھوں کی تعداد میں فرامین ہیں، مگر اس کے باوجود انسان پر اس کا اثر نہیں ہوتاہے۔حضرت عقیل ابن ابی طالب اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے، حضور نے سوال کیا کہ آپ لیٹ کیوں ہوگئے؟ کہا کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اس طرح کا واقعہ پیش آیا۔ تو حضور پر وحی نازل ہوئی، تو حضور نے فرمایا :آپ اس سے جاکر کہیے کہ تو اس میں سے نہیں ہے جسے جہنم میں ڈالا جائے گا۔ تو حضرت عقیل ابن ابی طالب فرماتے ہیں جب میں نے اسے آکر یہ خبر دی،تو اس پہاڑ کا رونا بند ہوگیا۔اس سے معلوم ہوتاہے کہ دنیا کی ہر چیز اللہ کے ذکر میں لگی ہوئی ہے۔ (تفسیر الصافی ج:ا ص:۱۵۱)

انسان اور دیگر مخلوقات کی عبادت میں فرق:

             حضرت سلیمان علیہ السلام کے ساتھ چیونٹی کے بات کرنے کا واقعہ مشہور ہے،جس چیونٹی کو ہم کوئی اہمیت نہیں دیتے۔حضرت سلیمان علیہ السلام سے ہدہد نے بات کیا،جو چھوٹا سا پرندہ ہے ۔ حضرت سلیمان سے آکر کہتا ہے کہ میں نے ایک عورت کو دیکھاکہ وہ سورج کو سجدہ کر رہی ہے۔ یعنی ہدہد دعوت کا کام کررہاہے۔ حضرت سلیمان کو آکر شکایت کرتا ہے کہ آپ کی بادشاہت بڑی زبردست ہے، لیکن ابھی تک آپ کو یہ پتا نہیں ہے کہ لوگ شرک کرر ہے ہیں، تو وہ بھی سمجھتا ہے کہ ایک اللہ کی عبادت اور ایک اللہ کا ذکر ہونا چاہیے۔

            معلوم یہ ہوا کہ انسان اور دیگر مخلوقات کے درمیان فرق کرنے والی چیز ہے”النیة“۔جنت میں انسان جائے گا، انسان کے علاوہ دیگر کوئی مخلوق نہیں جائے گی۔ جن روایتوں میں کہا جاتاہے کہ ناقہٴ نوح،(نوح علیہ السلام کی اونٹنی) سمک ِیونس(یونس علیہ السلام کی مچھلی) اور دیگر جانوروں کے بارے میں آتا ہے کہ وہ بھی جنت میں ہوں گے، ان روایتوں پر کلام ہے۔الشاذ والنادر کالمعدوم۔

             لاکھوں ، اربوں اور کھربوں جانوروں میں یہ معدودے چند ہیں۔انسان اور غیر انسان میں فرق یہی ہے کہ انسان اپنے اختیار سے اللہ کی عبادت اور اللہ کا ذکر کرتاہے۔اور غیرِ انسان کو اللہ ر ب العزت نے اختیار نہیں دیا، اسے جس تسبیح کا مکلف کیا ہے، وہ بغیر اللہ کی نافرمانی کے اور بغیر نیت کے اسی میں لگا ہوا ہے۔ اس لیے انسان سے نیت کروائی جاتی ہے کہ آپ کسی بھی کام کو کرنے سے پہلے یہ نیت کریں کہ اس کام کو آپ کس نیت سے کر رہے ہیں؟ اس کام کو کرنے کی آپ کی غرض کیا ہے؟ آپ کا دنیوی مفاد اس سے وابستہ ہے یا اخروی مفاد۔ آپ اللہ کی رضا کے لیے کر رہے ہیں یا لوگوں کو خوش کرنے اور ان کی توجہ بٹورنے کے لیے، کس کے لیے کر رہے ہیں؟

            اس لیے فرماتے ہیں: انما الاعمال بالنیات۔کہ نیت انسان کے لیے ما بہ الامتیاز ہے۔اعمال اسی وقت درست ہوتے ہیں، جب کہ انسان کی نیت درست ہوتی ہے۔

نیت کیا ہے؟

            نوی، ینویکے معنی آتے ہیں: ارادہ کرنا،لیکن اردو زبان میں بھی یہ نیت استعمال ہونے لگا، جیسے عربی زبان میں۔اور نیت کہتے ہیں :ارادة القلب۔انسان کسی بھی کام کو کرنے سے پہلے دل میں کیا ارادہ کرتاہے۔اس لیے نیت جتنی درست ہوتی ہے اتنا اعمال میں مزہ آتاہے۔اور نیت کا جتنا استحضار نہیں ہوگااور نیت میں جس قدر درستگی نہیں ہوگی، اتنا ہی انسان اعمال میں تغافل، تساہل اور تکاہل کا شکار ہوتاہے۔

استحضار نیت اور حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ:

             حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ رات میں تہجد میں کھڑے ہوتے تھے اور کھڑے ہوکر اپنے نفس کو مخاطب کرتے تھے، اے میرے نفس! تو مجھے دھوکہ دیتاہے، اپنی داڑھی کو پکڑتے تھے اور روتے تھے۔اور طرح طرح کی نصیحتیں اپنے نفس کو کرتے تھے۔اور جب آپ نماز کے لیے کھڑے ہوتے تو آتا ہے کہ آپ کا جسم کانپتا تھا۔آپ کی سیرت میں لکھا ہے، کسی نے سوال کیا آپ کیوں کانپنے لگتے ہیں؟ تو کہا کہ کیوں نہیں کانپوں گا؟ میں خالق ارض وسماء کے سامنے کھڑا ہوتاہوں، تومیں سوچتاہوں کہ اتنی بڑی ہستی کے سامنے مجھ جیسا انسان کیسے کھڑا ہو سکتاہے؟

            تو یہ ہے استحضارنیت ۔اللہ کی عظمت کے استحضار کی لذت ۔جس کی نماز شروع ہونے سے پہلے یہ کیفیت ہو، ا س کی نماز میں کیا کیفیت ہوتی ہوگی؟

 حضرت مولانا حسن صاحب امروہی کا استغراق فی الذکر:

            ہمارے آخری دور میں حضرت تھانوی  کے خلیفہ تھے۔ حضرت مولانا حسن صاحب امروہوی رحمة اللہ علیہ یہ پاکستان بننے کے بعد پاکستان چلے گئے تھے، ان کی سیرت میں بھی لکھا ہے کہ ڈاکٹروں نے ان کا آپریشن کرنے کے لیے ان کو بے ہوش کرنا چاہا۔انہوں نے کہا نہیں بے ہوش ہونے کی حالت میں اللہ کے ذکر سے غفلت لازم آتی ہے۔اور اللہ کے ذکر سے غفلت ایک لمحہ کے لیے مجھے پسند نہیں ہے۔لوگوں نے کہا کہ بغیر بے ہوشی کے آپریشن کیسے ہوگا؟ کہا میں اللہ کا ذکر کرتا رہوں گا میرے بدن سے تمہیں جو کرنا ہو کرنا کوئی فرق نہیں پڑتاہے۔فرماتے ہیں کہ آپ ذکر میں مشغول ہوگئے، پھر آ پ کا ایک بڑاآپریشن تھا وہ آپریشن کر دیا گیا۔آپریشن ہونے کے بعد لوگوں نے ان سے کہا کہ حضرت آپریشن ہوگیا تب ان کو پتا چلا۔یہ انسان کا اللہ سے تعلق ہوتا ہے۔حضرات صحابہ کے قصے سننے کے بعد ہم سوچتے ہیں کہ وہ صحابہ ہیں ہم کہاں ہیں؟ تو ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ ہمارے ماضی قریب میں بھی ایسے لوگ گزرے ہیں۔(اور ابھی ہم نے غزہ کے مسلمانوں میں صحابہ کا سا ایمان دیکھا۔ ایک ویڈیو میں گیارہ بارہ سال کابچہ ہے، پیر کا آپریشن ہونا ہے، سن کرنے کے آلات نہیں ہیں؛ وہ معصوم مجاہد تلاوت قرآن کر رہا ہے اورڈاکٹر اس کے پیر کی سلائی کر رہا ہے۔غزہ کے مسلمانوں نے ایسی ایسی مثالی قربانی دی ہے کہ کتابی واقعات کو زندہ پیش کر دیا ہے ۔اللہ ان معصوموں اور بے سہارا لوگوں کا حامی وناصر ہو۔ صحیح معنوں میں ایمان ہو تو اس کی لذت اور طاقت کسی زمانے کے ساتھ خاص نہیں ہوتی ؛بل کہ مومن کی روحانی قوت بن کر رگ و پے میں دوڑتی ہے)اصل میں ہمارے یہاں سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ ہماری نیتیں درست نہیں ہوتی ہیں۔ توکسی بھی اعمال میں ہماری طبیعت خاطر خواہ نہیں لگتی اور اس عمل میں مزہ نہیں آتا، بس کسی طرح ختم کرکے بھاگنے کی فکر ہوتی ہے۔

            اللہ جزائے خیر دے امام بخاری کو کہ آپ نے حدیثِ نیت کو سب سے پہلے بیان کرکے انسان کی زندگی کے سب سے اہم ترین کام کی طرف اشارہ کیا ۔کہ پیارو! سب سے پہلے اپنی نیت کو درست کرو! باقی سب بعد میں۔نیت درست ہوگی تو سب درست ہو جائے گا اور نیت درست نہیں ہوگی تو انسان کتنا ہی بڑا عمل کرلے اس سے کوئی فائدہ حاصل نہیں ہوتاہے۔ اسی لیے امام بخاری نے اپنی پہلی حدیث کو انما الاعمال بالنیات سے شروع کیا۔ (جاری………)