حذیفہ بن مولانا غلام محمد صاحب وستانوی#
اللہ رب العزت نے نبی کریم صلی ا للہ علیہ وسلم کے ذریعہ سید الخلائق اور اشرف المخلوقات حضرت انسان تک اپنا مکمل پیغام جس کو انسانی زندگی کا ”دستور ِحیات“ کہا جانا ہی مناسب ہوگا پہنچا دیا، جس میں صرف احکامات ہی پر اکتفا نہیں کیا، بل کہ مستقبل میں قیامت تک پیش آنے والے بہت سے احوال سے باخبر کیا، اور ان سے بچنے کی تدابیر بھی بیان کردی، قرآن میں ایسی آیات کو اور ذخیرہٴ احادیث میں ایسی حدیثوں کو ”پیشن گوئی“ سے تعبیر کرسکتے ہیں، کیوں کہ احوال کے آنے سے پہلے ہی اللہ او ررسول اللہ صلی ا للہ علیہ وسلم نے ہمیں ان سے باخبر کیا، مثلاً رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ”سَتَفْتَرِقُ اُمَّتِیْ․․․․․“ عنقریب میری امت ۷۳/فرقوں میں تقسیم ہو جائے گی۔ اسی طرح نبی ٴکریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”خِلاَفَةَ عَلٰی مَنْہَجِ النُّبُّوةِ“تیس سال ہوگی۔ اسی طرح ”اشراط الساعة“ یعنی قیامت کی نشانیاں یہ یہ ہیں، من جملہ ان پیشن گوئیوں کے ایک پیشن گوئی یہ بھی دی کہ ”إِنَّ اللّٰہَ یَبْعَثُ لِہٰذِہِ الْاُمَّةِ عَلٰی رَأْسِ کُلِّ مِائَةِ سَنَةٍ مَنْ یُّجَدِّدُ لَہَا دِیْنَہاَ۔
(و ہو حدیث صحیح رواہ حاکم في المستدرک و البیہقي في کتاب المعرفة و الطبراني في المعجم الاوسط و صححہ العراقي و ابن حجر و السیوطي، سنن أبی داوٴد:۴/۱۰۹ عن أبي ہریرة)“
کہ اللہ رب العزت ہر قرن یعنی سو سال پر میری امت میں ایسا آدمی پیدا فرمائیں گے، جو دین کی تجدید کا کام انجام دے گا۔ تو آیئے ہم اسی پر گفتگو کرتے ہیں کہ تجدید ِدین کا کیا مطلب؟مجدد کس کو کہتے ہیں؟ قرونِ سابقہ میں کون کون مجدد گذرے ہیں؟ مجدد کی علامات کیا کیا ہیں؟ وغیرہ۔ اور ساتھ ہی اس پر بھی توجہ دیں گے کہ تجَدُّدْ اور تجدید میں کیا فرق ہے،؟ تجدد مطلوب ہے یا تجدید مطلوب ہے؟ متجددین کون گذرے ہیں؟ اور اس وقت متجددین کون ہیں؟ اور متجددین قدیمہ و جدیدہ میں کیا اوصاف مشترکہ ہیں؟
معرکہٴ تجدید و تجدد کا نقطہٴ آغاز:
اللہ رب العزت نے نبی ٴکریم صلی اللہ علیہ وسلم کو جو شریعت اور دین دے کر بھیجا ، وہ دین اور شریعت مکمل و تام ہی نہیں، بل کہ ہر طرح کی تحریف و تغییر سے پاک وصاف ہے؛ کیوں کہ اس کے اِکمال کا اعلان بھی اللہ نے : ﴿اَلْیَوْمَ اَکْمَلْتُ لَکُمْ دِیْنَکُمْ وَ اَتْمَمْتُ عَلَیْکُمْ نِعْمَتِيْ﴾ سے کیا ،اور حفاظت کا اعلان بھی ﴿وَاِنَّا لَہ‘ لَحَافِظُوْنَ﴾ ہے۔
کیا جب دونوں اعلان اللہ کی جانب سے کیے جاچکے، تو ظاہر بات ہے اس میں شک و شبہ کی کوئی گنجائش نہیں، کیوں کہ قرآن ہی کا اعلان ہے: ﴿وَ مَنْ اَصْدَقُ مِنَ اللّٰہِ حَدِیْثًا﴾کہ اللہ سے زیادہ سچا کون ہوسکتا ہے؟ اللہ نے اپنا وعدہ سچ کر دکھایا ،اس لیے کہ شریعتِ محمدیہ علی صاحبہا اَلْف اَلْف َتِحیَّةٍ وَ سَّلَام آج چودہ سو سے زیادہ صدیاں گذر جانے کے باوجود، الحمدللہ ہرطرح کی تحریف و تغیر سے پاک و صاف ہے ا ور قیامت تک رہے گی، ان شاء اللہ!
قرنِ اول یعنی پہلی صدی ہجری اپنے اختتام کو پہنچ رہی تھی، اسلام دنیا پر چھایا چلا جارہا تھا، اسلام کا سورج مشرق سے نکل کر مغرب کو بھی اپنی ضیاپاشیوں سے منور کر رہا تھا، اور یہ اسلام کی اشاعت تلوار اور طاقت کے زور پر نہیں ہو رہی تھی؛ بل کہ حسنِ اخلاق، عدل و انصاف،ادائیگی ٴحقوق، اعانة المظلوم، معقول اور فطری تعلیمات ِاسلامیہ،عقائد حقہ کی بنیاد پرہورہی تھی۔
غرض یہ کہ ہر سمت اسلام کا دور دورہ تھا، اللہ کا اس دین کے ساتھ بڑا فضل و احسان رہا ہے کہ ہر زمانہ میں اللہ نے کتاب اللہ کے ساتھ ساتھ رجال اللہ بھی مہیا کیے، جنہوں نے کتاب اللہ اور دین اللہ کو ہر طرح کی تحریف و تغییر اور افراط و تفریط کا شکار ہونے سے بچایا، اور بچائے چلے جارہے ہیں، اور ان شاء اللہ قیامت تک یہ مبارک سلسلہ جاری رہے گا۔
قرن ِاول کے اواخر میں قبل اس کے کہ ایک باطل تحریک ”اعتزال“ کے نام سے سر اٹھائے ، اللہ رب العزت نے حسن بصری، عمر ابن عبدالعزیز جیسے مجددین کو رشد و ہدایت کے آفتاب و مہتاب بناکر پیدا کردیا تھا، جنہوں نے معتزلہ کا زور دار تعاقب کرتے ہوئے مقابلہ میں برسرِپیکار رہ کر ان کی تمام تر باطل کوششوں کو تارتار کردیا اور اس کے بعد بھی اللہ رب العزت ہر زمانہ میں حق کو ہر طرح کی تحریف سے بچانے کے لیے زمانہ کی ضرورت کے مطابق اہل اللہ کو پیدا کرتے رہے، اور یہ سلسلہ ہنوز جاری ہے۔
یہی ”اعتزال“ درحقیقت ”تجدُّدْ“ کی بنیاد و اساس ہے، بعد میں چل کر اس کے نام بدلتے رہے، مگر کام وہی رہے، جس کے اثرات ”صنعتی انقلاب“ کے بعد مستشرقین کی نامسعود مساعیٴ خبیثہ سے کچھ زیادہ اُبھر کر سامنے آئے۔ کبھی اس کو ”نیچریت“ اور ”طبیعیت“ سے موسوم کیا گیا، کبھی ”اعتدال پسندی“ سے، کبھی ”سیکولرزم“ سے، کبھی ”ترقی پسندی“ سے ،کبھی ”عقلیت پسندی“ سے، کبھی ”روشن خیالی“ سے، کبھی ”موڈرنزم“ سے، کبھی ”مغربیت پسندی“ سے، کبھی ”جدت پسندی“ سے، کبھی ”تجدد“ سے، کبھی ”وسعت پسندی“سے، کبھی ”نیو اسلام“سے ، کبھی ”اہلِ قرآن“ سے، کبھی ”حقیقت پسندی“ سے، کبھی ”سیکولر اسلام“ سے، کبھی ”اشتراکی اسلام“ سے، کبھی ”جدیدیت“ سے، کبھی ”اصلاح ِعقائد و تعلیم“ سے۔
غرض یہ کہ نئے نئے نام سے ”تجدد“ کو متعارف کروایا جاتا رہا، مگر سب کے تانے بانے وہی ”اعتزال“ سے ملتے ہیں؛ کیوں کہ اعتزال کا بنیادی مسئلہ ”عقل کو نقل پر ترجیح دینا“ (ان کے یہاں ایمان کے معنی ہیں” تَصْدِیْقُ بِمَااَوْفَقَ عَقْلٌ مِمَّا جَاءَ بِہِ النَّبِیُّ صَلّٰی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمْ ‘ ‘یعنی ایمان کہتے ہیں اس چیز کے ماننے کو جو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی بیان کردہ باتوں میں سے ان کی عقل کے مطابق ہو۔ف)
اور ان سب متاخرین جدت پسندوں کا بھی یہی حال ہے، گویا ”اَلْاِعْتِزاَلُ فِیْ ثَوْبِہِ الْجَدِیْد“کا مظاہرہ عصرِ حاضر کے ان متجددین کے یہاں ہوتا ہے، مگر یہ نئے ”معتزلہ“ کچھ زیادہ ہی چال باز اور چالاک ثابت ہوئے، اس لیے کہ انہوں نے جہاں امت کو گمراہ کرنے کے لیے ہر طرح باطل تاویلات کو روا رکھا، وہیں اپنے آپ کو ”مجدد“ ثابت کرنے کی بھی کوشش کی؛ لہذا ہم یہاں قرآن و حدیث کی روشنی میں یہ بتلانا چاہیں گے کہ تجدید و تجدد میں کیا فرق ہے، تو آیئے سب سے پہلے ”تجدید“ کو سمجھتے ہیں۔
تجدیدِ دین کا صحیح مفہوم:
تجدید باب ”تفعیل“ سے مصدر ہے اس کے معنی : کسی چیز کو نیا بنانا۔
اور عربی زبان میں ”خلقٌ“ کے ضد کے طور پر بھی استعمال کیا جاتا ہے، جس کے معنی ”پرانا“، تجدید کے معنی ”نیا“ ہونا، جب عربی زبان کے اس لفظ ”تجدید“ پر غور کیا گیا، تو معلوم ہوا کہ تین معانی متصلہ کے مجموعہ کو ”تجدید“ کہا جاتا ہے:
(۱) تجدید کا لفظ کسی چیز کے لیے اس وقت مستعمل ہوگا ،جب کہ وہ پہلے سے موجود ہو اور لوگ اس سے متعارف ہوں، کیوں کہ تجدید تب ہوگی جب کہ وہ پرانی صورت میں ہو، ا گر اس کی اصل ہی نہ ہو، تو اس کو تجدید نہیں کہیں گے ؛کیوں کہ اس کے معنی ہیں ”نیا“ کرنا تو نیا کرنا کب ہوگا؟ جب پرانا ہو۔
(۲) تجدید کا اطلاق کسی چیز پر اس وقت ہوگا، جب کہ ماضی میں وہ موجود ہو، اب وہ پرانی ہوگئی ہو تو اس کو ”نیا“ کیا جائے۔
(۳) پہلے کوئی چیز نئی تھی، پھر پرانی ہوگئی، اب اس کو دوبارہ پہلی حالت اور کیفیت پر کردیا جائے تو اس کو تجدید کہیں گے۔ (۱)
اس پوری تفصیل سے معلوم ہوا کہ تجدید کا تصور اسی وقت ہوگا، جب کہ کسی قدیم اور پرانی‘ پہلے سے موجود چیز کو ایام کے گذرنے سے پرانی ہونے کی وجہ سے دوبارہ اس کی اصل حالت اور کیفیت اولیٰ کی طرف لوٹا دیا جائے، جب لغوی اعتبار سے یہ بات ثابت ہوگئی، تو اب تجدید کا سمجھنا اصطلاحاً بھی آسان ہو گیا؛ کیوں کہ معنیٴ لغوی و اصطلاحی میں گہرا ربط ہوتا ہے، لغت کی رعایت کر کے ہی اصطلاحی کلمہ کو منتخب کیا جاتا ہے، مگر بڑے افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے، قرن ِاول کے اواخر ہی سے ”اختراع پرداز“ اور ”تجدد پسند“ کچھ افراد نے نفسانی خواہشات پر عمل درآمد کے لیے، قر آن و حدیث کی مَنْ مانی تفسیر و تاویل کی، یہاں تک کہ مسلَّم عقائد کو بھی، اپنی باطل تاویلات کے لیے تختہٴ مشق بنا لیا اور پھر یہ نامراد و نامسعود کوشش صرف وہیں نہیں ٹھہری، بل کہ ہر زمانہ میں کچھ نہ کچھ ”ہوا پرست“ اپنے زمانہ کے اعتبار سے یہ ناکام کوشش کرتے رہے، مگر ”صنعتی انقلاب“ کے بعد مغرب نے جدت پسندی اور سیکولرزم کو اپنے ایجنڈے میں شامل کرکے مسلمانوں میں ذرائع ابلاغ کے ذریعہ زیادہ سے زیادہ عام کرنے کی کوشش کی، تاکہ مسلمانوں سے ”روح ِایمانی“ کھینچ لی جائیں اور ان پر اپنے تسلط کو تادیر برقرار رکھا جاسکے، لیکن ان شاء اللہ کلی کامیابی تو انہیں ملنے والی نہیں ہے،(کیوں کہ اَلْیَوْمَ یَئِسَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْامِنْ دِیْنِکُم کی نص قطعی سے اشارہ موجودہے۔ف) مگر ہم امت کو متنبہ کرنے کے لیے ان کی جزوی کامیابی(جو مسلمانوں کے خود اپنے ضعف ِایمان وعمل کے نتیجے میں حاصل ہوئی ،ان ۔ف) کو بھی روکنے کی سعی پیہم کرنی چاہیے، اللہ ہمیں حق کو حق سمجھنے اور اس پر جم جانے کی توفیق عطا فرمائے اور باطل کو باطل گردانتے ہوئے اس سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین یارب العالمین!
”تجدید“کے سلسلہ میں اسلاف کا موقف:
لفظ ”تجدید“ کا استعمال چوں کہ حدیث شریف میں صراحةً ہوا ہے، لہٰذا محدثین نے اس کو موضوعِ بحث بنایا ،اور قرنِ اول ہی سے اس کی صحیح تشریح کی کوشش کی گئی، ہم یہاں علماءِ اہل سنت و الجماعت میں مشہور اور معتبر محدثین و فقہاء و علماء کا موقف بیان کرنے جارہے ہیں، تاکہ مسئلہ منقح ہوکر سامنے آجائے، کیوں کہ عہدِ نبوی کے قرب کی وجہ سے ان کی تشریحات زیادہ صحیح اور معتبر ہوگی۔ حدیث میں ہے کہ نبی ٴکریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: إِنَّ اللّٰہَ یَبْعَثُ لِہٰذِہِ الْاُمَّةِ عَلٰی رَاْسِ کُلِّ مِائَةِ سَنَةٍ مَنْ یُجَدِّدُ لَہَا دِیْنَہَا۔(۲)
حضرت ابوہریرہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ: اللہ ہر سو سال پر ایک ایسا آدمی پیدا فرمائیں گے جو دین کی تجدید کرے گا۔ (اس حدیث کو امام ابوداوٴد، امام حاکم، امام طبری نے نقل کیا ہے اور امام عسقلانی اور امام سیوطی نے اس کو صحیح قرار دیا ہے)۔ اس حدیث کی شرح میں امام ابن شہاب زُہری جو مدوّن حدیث کہے جاتے ہیں، فرماتے ہیں کہ ”تجدید دین“ در اصل نام ہے ”اِحْیَاءُ مَا انْدَرَسَ مِنَ السَّنَةِ“ یعنی مرورِ زمانہ کی وجہ سے دین کی جو باتیں متروک العمل ہوگئی ہوں، ان کو زندہ کرنا۔ (۳)
امام حجر عسقلانی نے بھی زہری کی تائید کی ہے اور دونوں نے حضرت عمر بن عبدالعزیز کو مجددِ اول گردانا ہے، یعنی دونوں نے کہا کہ عمر ابن عبدالعزیز یہ پہلی صدی کے مجدد تھے، کیوں کہ خلافت ِبنوامیہ منہج نبوت سے ہٹ چکی تھی، آپ نے دوبارہ منہج نبوت پر اس کو استوار کیا، لہٰذا آپ ”اِحْیاَءُ مَا انْدَرَسَ مِنَ السَّنَةِ“ کے مصداق ٹھہرے۔
امام ابن اثیر تجدید کی تعریف ان الفاظ میں کرتے ہیں:
قاَلَ اَنْ یَّکُوْنَ ذٰلِکَ (اَیْ اَلتَّجْدِیْدُ) اِشَارَةٌ اِلٰی حُدُوْثِ جَمَاعَةٍ مِّنَ الْاَکاَبِرِ اَلْمَشْہُوْرِیْنَ عَلٰی رَأْسِ مِائَةِ سَنَةٍ یُجَدِّدُوْنَ لِلنَّاسِ دِیْنَہُمْ وَ َیحْفَظُوْنَ مَذاَہِبَہُمْ اَلَّتِیْ قَلَّدُوْا فِیْہَا بِمُہْتَدِیْہِمْ وَ اَئِمَتِہِمْ۔ (۴)
تجدید سے اشارہ ہو رہا ہے اس جانب کہ سو سال پر اللہ علماء کی ایک جماعت پیدا فرمائیں گے، جو شہرت یافتہ ہوگی اور لوگوں کو دین صحیح معنی میں سمجھائے گی، اور اپنے مذہب فقہی تقلیدی کی حفاظت کرے گی اور ائمہ ٴہدایت کی راہ پر ہوگی۔
امام ِحجر عسقلانی نے حاکم کے حوالہ سے نقل کیا کہ تجدید نام ہے ”ازالة البدعة“ کا۔ یعنی بدعات و خرافات کو مٹانے کی کوشش کرنا۔ (۵)
امام جلال الدین السیوطی نے فرمایا : ”عَالِماً یُّجَدِّدُ دِیْنَ الْہُدٰی لِاُمَّةٍ مُّجْتَہِدًا“ گویا مذہبی جزوی اجتہاد کرنے کو بعض علماء نے تجدید سے تعبیر کیا ،یعنی یہ زمانہ میں پیش آمدہ مسائل جدیدہ کو (فقہاء کے بیان کردہ اصول وقواعد کی روشنی میں استنباط اور ۔ف)اجتہاد کے ذریعہ حل کرے، تو اسے ”تجدید“ کہا جاتا ہے۔
محقق اسلام حضرت مولانا سید سلیمان ندوی رحمة اللہ علیہ تحریر فرماتے ہیں : مجدد کی بڑی پہچان جس سے خواص اس کو پہچان اور عوام اس کو جان سکتے ہیں کہ اس کی تعلیم و تلقین اور جدوجہد اور دعوت و تبلیغ سے زمانہ کی ظلمتیں اور خیالات کی بدعتیں اور اعمال کے مفاسد دور ہوکر، وہ اصل دین نمودار ہو جائے، جس کی صحیح تصویر نبی کریم علیہ الصلوٰة و التسلیم کے نگار خانہٴ کتاب و سنت میں محفوظ ہے۔ (۶)
امام زہری ، امام حجر عسقلانی، امام ابن کثیر، امام ابن اثیر ، امام سیوطی، علامہ سلیمان ندوی وغیرہ نے جو تجدید کی تعریف کی ہے، اس سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ تجدید ”احیائے سنت“ اور ”ازالہٴ بدعت“ کا نام ہے۔ مگر عصر حاضر میں مغرب کی دیکھا دیکھی اور ان کی اندھی تقلید میں کچھ نام نہاد مسلمانوں نے بھی ”تجدید اور تخریع“ کے فرق کو سمجھے بغیر تخریع کو تجدید پر چسپاں کرنے کی بے جا جسارت کی ہے، جس پر ہم عنقریب روشنی ڈالیں گے، اس سے قبل تجدید کے بارے میں چند بنیادی اور ضروری امور کو ذکر کئے دیتے ہیں۔
مجدد کی ضرورت کیوں؟
حضرت مولانا شاہ سید سلیمان ندوری رحمة اللہ علیہ مجدد کی ضرورت پر روشنی ڈالتے ہوئے رقم طراز ہیں۔
”حضور رسالت مآب، خاتم النبیین محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے وجود پر جب شریعت اتمام پر پہنچی اور دین کامل ہوگیااور اس کی حفاظت کی ذمہ داری اللہ تعالیٰ نے اپنے اوپر لی، تو نسل ِانسانی کو شریعت کی راہ دکھانے اور اس دین کے مسائل کو بتانے اور نئے نئے زمانہ کے نئے نئے فتنوں سے محفوظ رکھنے اور دین وشریعت کو تحریف و تبدیل سے بچانے اور شکوک و شبہات کو مٹانے کے لیے ہر دور میں ایسی ہستیاں ظاہر فرمائی جاتی ہیں، جو دین کو اپنے اصل جادہ پر قائم رکھ سکیں اور اس کے چشمہٴ صافی کو گردوغبار سے صاف کرکے مصفیٰ رکھیں۔ (۷)
حکیم الاسلام حضرت قاری طیب صاحب نورہ اللہ مرقدہ کے سچے وارث اور خیر خلف لخیر سلف کے مصداق، صاحبزادے مولانا سالم صاحب فرماتے ہیں:
اللہ کی فطرت تجدید کی حامل ہے، لہٰذا ایک صدی میں جب دو تین نسلیں گذرتی ہیں، تو آئندہ نئی صدی میں آنے والے پچھلوں سے آگے نکلنے کے لیے نئے نئے راستے اپناتے ہیں، ایسے موقع پر دین ہر طرح کی تحریف سے محفوظ رکھنے کے لیے مجددِ ین کا سلسلہ اللہ نے جاری رکھا، اس دین کو افراط سے محفوظ رکھا ۔(۸)
ان دونوں اقتباسات سے معلوم ہوا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد چوں کہ کوئی نبی آنے والا نہیں اور اللہ نے اس دین کی حفاظت کا وعدہ کیا ہے اور دین کی ہر طرح سے حفاظت کے لیے کتاب اللہ کے ساتھ ساتھ رجال اللہ کی بھی سخت ضرورت ہوتی ہے، لہٰذا اللہ نے ہر زمانہ کی ضرورت کے اعتبار سے رجال اللہ اس امت ِمرحومہ محمدیہ کو مہیا فرمائے۔ اور قرب قیامت تک یہ سلسلہ جاری و ساری رہے گا۔ ان شاء اللہ!
نبی اور مجدد کے درمیان فرق:
نبی کی ضرور ت اصل احکام کے منجانب اللہ انسانوں تک پہونچانے کے لئے ہے۔ یعنی نبی اللہ تعالیٰ سے پاکر بند وں تک پہونچانے میں واسطہ ہے۔ وہ عقل وقیاس اور علم وفہم سے نہیں کہتا، بلکہ وہ جو کچھ کہتاہے وحی سے کہتاہے، اور خدا سے پا کر کہتاہے، اس کی وحی و تعلیم ہر خطا سے پاک، اور وہ خود ہر غلطی سے معصوم ہے۔ مگر مجدد کایہ حال نہیں ہے، بلکہ کتاب وسنت اور وحی ورسالت کے احکا م و پیغام کو سمجھ کر اور اپنی فراست ایمانی، صفائے ذہن، عقلِ مستقیم اور قیاس صحیح اور رائے صواب سے، صحیح غلط میں تمیز کرتاہے، دین کوغیر دین سے،ارشادات ِالٰہی کو ایجادات انسانی سے،سنت کوبدعت سے ممتاز کرتا ہے، اور اپنی علمی وعملی زندگی کی طہارت ونزاہت اور ثبات واستقامت اور نبی کی اتباعِ کامل اور اقتدا ئے تام سے، محبوبیت و مقبولیت کی شان پیداکرتا ہے۔ (۹)
نبی اور مجدد کی دعوت میں فرق:
نبی اورمجدد کی دعوتوں کی نوعیت میں فرق ہے، نبی ہر شخص کو اپنے اوپر ایمان لانے کی دعوت دیتا ہے، اور نبی کی نبوت پر ایمان لانا ایمان کا جز ہے، جس کے بغیر کوئی مومن نہیں ہوسکتا، کیوں کہ نبی کو نبی مانے بغیر اس کے واسطہ سے آئے ہوئے احکام الٰہی اور کلام ربانی تک رسائی نہیں ہوسکتی، لیکن مجدد اپنی شخصیت کی دعوت نہیں دیتا، یہاں تک کہ مجدد کو مجدد ماننا ایمان کا ادنیٰ جز بھی نہیں ہے، خصوصاًکسی ایک زمانہ کے کسی خاص مجدد کو مجددتسلیم کر نا بھی ضروری نہیں۔ (۱۰)
نبی کی نبوت قطعی اور مجدد کی مجددیت ظنی ہوتی ہے:
اسی فرق سے دوسرا فرق بھی پیداہوتا ہے، نبی کواپنا نبی ہونا یقینی او رقطعی طور سے معلوم ہوتاہے، اور اس کو اللہ کی تعلیم او ر خبر سے اس واقعہ کاہونا یقینی بدیہی معلوم ہوتا ہے، جس کے لئے اس کو دلیل کی بھی ضرورت نہیں، لیکن مجدد کو اپنا مجدد ہونا ظن وتخمین سے زیادہ معلوم بھی نہیں ہوتا، بل کہ اگلے زمانہ کے مجددِ دین کا مجدد ہونا بالعموم ان کی وفات کے بعد ان کے پاکیزہ کارناموں اور مقدس حالات اورتجدیدانہ مساعی سے خواصِ امت پر ظاہر ہوا۔ (۱۱)
نبی اور مجدد کی اطاعت کا حکم:
نبی کومانے اور اس پر ایما ن لائے بغیر انسان اصل شریعت سے محروم رہتا ہے، اور کفر سے لپٹا رہتا ہے، اس لئے اس پر نعیمِ آخرت کا ہر دروازہ ہمیشہ کے لئے بند اور عذاب آ خرت کا ہر دروازہ ہمیشہ کے لئے کھل جاتا ہے ؛ لیکن مجدد کے نہ ماننے سے وہ صرف کتا ب وسنت کی صحیح ترجمانی سے محروم رہتا ہے۔ بدعت و فسادات کی آمیزشوں سے بچ نکلنے میں اس کومشکلیں پیش آتی ہیں‘ اس لیے ہوسکتا ہے کہ جنت تک پہونچنے میں اس کو عذاب کی صعوبتوں سے دو چار ہونا پڑے۔ (۱۲)
حضرت مولانا عبدالباری صاحب ندوی فرماتے ہیں: یہ محرومی بھی کتنی بڑی محرومی ہے کہ دولتِ ایمان رکھ کر بھی اس کے دینی و دنیوی ثمرات و برکات سے گویا عملاًمحروم ہی رہتا ہے۔(۱۳)
مجدد کے اوصاف و شرائط:
مجدد ہونا امر ظنی ہے، لہٰذا یقینی طور پر کسی کے مجدد ہونے کو بیان نہیں کیا جاسکتا ہے، ہاں البتہ چند اوصاف و شرائط اگر اس کے اندر پائی جائیں، تو اس کے بارے میں یہ گمان کیاجاسکتا ہے کہ یہ مجدد ہے۔
(۱)وہ شخص علوم ظاہریہ و علوم باطنیہ کا ماہر ہو۔
(۲) سنتوں کو زندہ کرنے والا اور بدعات و خرافات کو مٹانے والا ہو۔
(۳) اس کی تدریس و تالیف و تذکیر سے لوگوں کو بے حد و حساب فائدہ ہو۔
(۴) اس کا ظہور صدی کے اخیر یعنی ایک صدی کا آخر اور دوسری کے شروع میں ہو۔ (۱۴)
یہ آخری شرط مختلف فیہ ہے، یعنی بعض حضرات نے اس کو ضروری نہیں قرار دیا، البتہ محدثین نے اسے لازم قرار دیا ہے، بعض حضرات کی رائے یہ ہے کہ تجدید سے مراد اجتہاد و فقہ میں تجدید ہے، یعنی پیش آمدہ جدید مسائل کو مجدد صحیح اجتہاد سے حل کرتا ہے، کیوں کہ دین کا اہم جز حلال و حرام کی تمیز ہے، اور اس کا تعلق فقہ ہی سے ہے، لہٰذا بعض حضرات کا میلان اس جانب ہوا؛حالاں کہ صحیح یہ ہے کہ اجتہاد صحیح بھی ایک اہم تجدیدی میدانوں میں سے ہے، البتہ صحیح یہی ہے کہ جس زمانہ میں، جس دینی میدان میں ضرورت ہو اس پر مجدد کی توجہ زیادہ ہوتی ہے، جیسے قرن ِاول میں میدان خلافت وسیاست میں ضرورت تھی، تو عمرابن عبدالعزیز مجدد قرار دیے گئے، قرنِ ثانی میں فقہ کی ضرورت تھی فقہاء مجددقرار دیئے گئے، قرنِ ثالث میں حدیث اور عقائد صحیحہ میں ضرورت تھی، تو امام احمد ابن حنبل مجدد قرار دیئے گئے، پھر کبھی علم کلام کے میدان میں امام غزالی کو مجدد قرار دیا گیا؛ غرض یکہ یہ بات مسلم ہے کہ مجدد اپنے زمانہ کے فاسد و باطل منحرف امور ِدینیہ کو قرآن و حدیث کی روشنی میں صحیح طور پر ثابت کرنے اور اس کے خلاف کی تردید کرکے، دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی کردے۔
(نیچریت زدہ اور تجدد پسند بعض حضرات چوں کہ اس بات کے قائل ہیں کہ دین وسیاست ومملکت جمع نہیں ہوسکتے،لہذا مسلک ِاہل حق اس باب میں واضح ہوجانا ضروری ہے۔چناں چہ حضرت حکیم الامت مولانا اشرف علی تھانوی فرماتے ہیں”مجدد کے لئے صاحب حکومت ہونا ضروری نہیں ہے۔کبھی صاحب حکومت ہوتاہے، کبھی صاحب حکومت نہیں ہوتا ؛بل کہ صرف عالم ہوتاہے جو حق وباطل کو ممیز کردیتاہے اور ہرصدی پر ایک ہونا بھی ضروری نہیں بل کہ کبھی ایک ،کبھی دو، کبھی کئی کئی بھی ہوتے ہیں۔ سید احمد صاحب مجدد تھے اور صاحب حکومت بھی ہوجاتے مگر شہید ہوگئے“ ۔
(ملفوظات حکیم الامت ۱۱،جدید ملفوظات:۲۱۵)
یہاں یہ بھی وضاحت کردینا مناسب معلوم ہوتاہے کہ مجدد کو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا نائب کامل ہونا چاہیے ۔اس کی صراحت ان الفاظ میں تو کہیں ملی نہیں؛البتہ قواعد اور مزاجِ شریعت کے مناسب معلوم ہوتی ہے اور نائب کامل کسے کہیں گے اس کی پہچان حضرت حکیم الامت نے یہ بیان کی ہے کہ ”حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا نائب وہ شخص ہوسکتاہے ،جس میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کامل تشبہ ہو(گوکیفیت میں فرق عظیم ہوگا) معاملات میں صفائی اور تیقظ ہو۔اتباع کے لیے احتساب اور داروگیرہو۔معاشرت سادہ اور پاکیزہ، مخلوق پر شفقت ہو۔اگر یہ نہیں تو وہ نائب کامل نہ ہوگا۔“
(ملفوظات حکیم الامت ج:۲۵،اسعد الابرارص۱۸۴،۱۸۵۔ف)
مذکورہ تفصیل سے اہل سنت والجماعت کا صحیح موقف واضح ہوتا ہے، حضرات ِصحابہ سے لے کر آج تک محدثین فقہاء اور علماء کا یہی موقف رہا ہے۔
تجدُّدْ کیا ہے؟
یورپ میں صنعتی انقلاب کے ساتھ ساتھ تجدد (جدت پسندی) کے نام پر دین سے بیزاری کا گویا نعرہ لگایا گیا، محمد حسن عسکری مرحوم تحریر فرماتے ہیں کہ ”نشأة ِثانیہ“ کا اصل مطلب وحی پر مبنی علوم کو بے اعتبار سمجھنا، اور ”عقلیت“ اور ”انسان پرستی“ اختیار کرنا۔ اسی لیے اس تحریک کا دوسرا نام ”انسان پرستی“ (Humanism) بھی ہے، چوں کہ نیا دور اسی زمانہ میں شروع ہوتا ہے، اور جدیدیت کی خدوخال نمایاں ہونی شروع ہوتی ہے۔(۱۵)
مغرب کو تجدُّدْ کی ضرورت کیوں پیش آئی؟
”تجدد“ یا ”جدت پسندی“ یا ”نشأة ثانیہ“ کی مغرب کو کیوں ضرورت پیش آئی؟یہ بھی غور کرنے کا ایک پہلو ہے، تاکہ واضح ہو جائے کہ کیا مغرب کی طرح مشرق یعنی اسلام اور مسلمانوں کو بھی ”تجدد“ کی ضرورت ہے؟
اہلِ مغرب دراصل یہودیت اور عیسائیت کے پیروکار ہیں، مگر بدقسمتی سے ان کی مذہبی تعلیمات محفوظ نہیں رہ سکیں، بل کہ وحی کے ذریعہ ملنے والے علم کو انہوں نے ہوس پرستی اور شہوانیت کے لیے محرَّف کر کے رکھ دیا، ویسے بھی شریعتِ موسوی و شریعت عیسوی اپنے خاص زمانہ کے لیے کامل تھی ،قیامت تک کہ لیے نہ تھی، پھر جو تھی وہ بھی محرَّف کر دی گئی، اوروہ دیگرتہذیبوں خاص کر یونانی تہذیب سے متأثر ہوگئی اور دیکھتے ہی دیکھتے، وَثنِیت اور شرک کی شکار ہوگئی۔ پھر اس کے لیے جدید دور کے تقاضوں کو پورا کرنا امر ِمحال ہوگیا، تو پھران اہل یورپ ”صنعتی انقلاب“ کے دور کو ”نشأة ثانیہ“، ”تجدد“ اور ترقی“ کا نام دیا۔ تو آیئے ہم انہیں کے موٴرخین کے حوالے سے یورپ کی بدترین صورت حال کو جو ”نشأة ثانیہ“ سے پہلے تھی ذکر کرتے ہیں۔
یورپ کا ایک نامور، دانشور (بزعمہم) ڈریپر(Draper) ،اپنی کتاب (Towner? The philosophy of Civilization, Vol-1, P.117) میں لکھتا ہے:
”یورپ کے وحشی باشندے ابھی اپنی وحشیانہ حالت سے ذرابھی بلند نہ ہوئے تھے ،ان کے بدن غلیظ، ان کے ضمیر غیر متمدن ، وہ ایسی جھونپڑیوں میں رہتے تھے کہ اگر ان کے فرش پر گھاس اگ رہی ہو اور دیواروں پر پھوس کی چٹا ئیاں لگی ہوئی ہوں تویہ بات ثروت کی علامت سمجھی جاتی تھی۔ ان کی خوراک حقیر سی تھی مثلا سیم، آڑو، جڑیں اور د رختوں کی چھا لیں بھی وہ کھانے میں استعمال کرتے تھے۔ ان کالباس کیاتھا ؟ جانوروں کا کچا چمڑا ، بہت ہوا تو پکائی ہو ئی (Tanned ) کھالیں پہن لیں۔پائیداری میں ہوسکتا ہے کہ کھالوں کو دوامی حیثیت حاصل ہو، مگر ذا تی پاکیزگی میں یہ کسی طرح بھی ممد ومعاون نہیں ہوسکتیں۔ شاہی شوکت کے لحا ظ کے اظہار کے لئے یہ کا فی سمجھا جاتا تھا کہ باد شاہ کی سواری ایک بیل گاڑی پر مشتمل ہو، جس کے سامنے بیلوں کی کم ازکم دوجوڑیاں لگی ہو ں۔ ان بیلوں کی رفتار تیز کرنے کے لئے غلام آنکس لئے پیا دہ پا ساتھ چلتے تھے، جن کی ٹانگوں پر پرال کے پولے بندھے ہوئے ہوتے تھے۔ مذہب میں ابتذال پیدا ہوچکا تھا …ان کے مذہبی رہنماوٴں میں خواص امت کا ساورع واحتیاط نہیں رہ گئی تھی ؛بل کہ نوبت بدکرداری تک پہونچ چکی تھی، اس لئے مذہبی تقدس کے لحاظ سے ان کااعتبارکم ہوگیا تھا ۔
بعض شہروں میں جن میں سب سے زیادہ کثیر تعداد میں زہاد اور راہبین پیدا ہوئے تھے، وہ وہی تھے جن میں عیش پرستی اور بدچلنی کی سب سے زیادہ گرم بازاری تھی؛ البتہ انسانی ضمیرکومذہب کا دھڑ کا ہوسکتا تھا، لیکن اسے بھی اس اعتقاد نے مٹا دیا تھا کہ دعاؤ ں وغیرہ کے ذریعہ سے سارے گناہ معاف ہوسکتے ہیں ۔ مکاری‘ دغا بازی ‘ دروغ گوئی کی وہ گرم بازاری تھی جو قیاصرہ کے زمانہ میں بھی نہ تھی۔ البتہ ظلم وتشدد، شقاوت اور بے حیا ئی اتنی نہ تھی، لیکن اس کے ساتھ حریت فکر ‘ آزاد خیا لی اور جوش قومیت میں بھی کمی تھی۔ (۱۷…بتغیریسیر)
یہ تھی یورپ کی صورتِ حال اب ظاہر بات ہے ایک تو ان کے یہاں رہبانیت کا چرچہ تھا، دوسرا آزادی فکر نہ تھی۔ تیسرا علم وحی نہ تھا۔ اگر کچھ تھا تو وہ بھی تحریف شدہ۔ ایسے میں اسلام اندلس کے راستے وہاں پہنچااور ان کی آمد ورفت اہل اسلام کے درمیان شروع ہوئی، تو اسلامی آزادیٴ فکر سے وہ متأثر ہوئے، اور قرطبہ، غرناطہ اور اشبیلیہ میں مسلمانوں کے شانہ بشانہ اپنے راہبوں سے چوری چھپے علم حاصل کرنے لگے، مسلمانوں نے انہیں افادہ میں کوئی کسر نہ چھوڑی، مگر چوں کہ ان کی نیتیں تحصیل علم سے ”مادی ترقی “ کی تھی، لہٰذا وہ ہدایت سے محروم رہے، اور نقل صحیح کی پیروی نہ کرنے کی وجہ سے، وہ ”عقلیت“ کے شکار ہوگئے، راہبوں اور پادریوں کے مظالم کی وجہ سے انہوں نے دین اور مذہب ہی کو ”ترقی“ کے لیے رکاوٹ سمجھا اور یوں ”جدیدیت“ اور ”نشأة ثانیہ“ کے نام پر مذہب ہی کو دیس باہر کر دیا، اور ”لامحدود آزادی“اوربے جا ،مساوات“ کی رٹ لگا کر، آخرت کی فکر سے غافل ہوگئے، اور مادہ پرستی میں پھنس گئے، گویا وہ علم جو غلط نیت سے مسلمانوں سے حاصل کیا تھا، اس کا ری ایکشن ہوگیا اور یوں ”الحاد“، ”بے دینی“، ”جاہلیت جدیدہ“ نے یورپ میں فروغ پایا۔
یورپ ایک (Darkages) سے نکل کر دوسرے ڈارک ایجز (Darkages) میں داخل ہوگیا، ایک زمانہ تک وہ اسے ترقی ہی سمجھتے رہے، تو ظاہر سی بات ہے، جب غلط ہی کو صحیح تصور کیا جائے، تو اصلاح کا کوئی امکان ہی نہیں، اب اہلِ مغرب کی آنکھ کھل رہی ہے، اور وہ خود اپنی تہذیب و تمدن سے جو ”جدیدیت“ کے نام پر وجود میں لائی گئی تھی، سے پریشان ہیں، اور جائے پناہ کی تلاش میں ہیں؛ ظاہر بات ہے اسلام کے سوا ان کے لیے کوئی جائے پناہ بھی نہیں، اس لیے اہل مغرب تیزی سے اسلام میں داخل ہو رہے ہیں۔
خلاصہ یہ کہ ”جدیدیت“ کے نام پر برپا کی گئی اس تحریک نے بقول حسن عسکری ”انفرادیت پرستی“ اور ہر طرح کی ”اطاعت سے انکار“ کو جنم دیا۔ لیکن جہاں تک اسلام کی بات ہے تو اسلام کو نہ تو ایسی ”جدیدیت“ کی ضرورت ہے اور نہ ضرورت پڑے گی، کیوں کہ مسلمان کے پاس اس کا اپنا کامل و مکمل دین ہے، جو مفید، محدود، آزادی، عدل، اجتماعیت اور اللہ رسول، قرآن و حدیث کی مکمل تابعداری و طاعت کی تعلیم دیتا ہے، مگر افسوس کہ پھر بھی مسلمانوں میں ایک طبقہ اس طرح پیدا ہواجوجدیدیت کی ڈگراور تجددکی راہ پر چل پڑا۔ اب ہم اسی کا تعارف کرواتے ہیں:
مسلمان متجددین ”تاریخ، آراء، افکار، نظریات“:
قرنِ اول کے اختتام اور قرنِ ثانی کے آغاز ہی میں، اعتزال کے نام سے ایک فرقہ وجود میں آگیا تھا، جو درحقیقت ”تجدد اور عقل پرستی“ کا داعی تھا، عصر حاضر کے ”تجدد پسندوں“ اور ”معتزلہ“ دونوں بہت سے اصول میں بالکل ہم آہنگ ہیں، لہٰذا دونوں ہی کا تعارف مناسب ہوگا۔
اعتزال کا بانی واصل ابن عطاء (۸۰-۱۳۰ھ)کو قرار دیا گیا، واصل حضرت حسن بصری کے درس میں بیٹھا کرتا تھا، ایک دن اصحاب کبائر (گناہ کبیرہ کرنے والے) کا ذکر ہوا، تو اس نے حضرت حسن بصری سے اختلاف کیا اور کہا کہ وہ ”منزلة بین المنزلتین“ میں ہوں گے، اور دوسرے دن سے اس نے اپنا الگ درس شروع کردیا، تو حضرت حسن بصری نے کہا کہ” اعتزل عنا“ وہ ہم (اہل حق) سے الگ ہوگیا۔
اسی طرح بعد میں چل کر، جب فلسفہ یونان کا ترجمہ ہوا، تو ان فاسد معتقدات میں اضافہ ہوتا رہا اور یوں وہ ایک مستقل باطل فرقہ قرار پایا۔
معتزلہ کے افکار و نظریات:
”اعتزال“ اور ”معتزلہ“ کے بارے میں عربی اور اردو کتابوں میں تفصیلی مواد مہیا ہے، مگر ہم یہاں اختصار کے ساتھ ان کے افکار کو ذکر کرنے جارہے ہیں، اس لیے کہ ”جدیدیت“ یا ”جدت پسندی“ اور ”موڈرنزم“ (Modernism) نے جب سر اٹھایا ہے، توامر بھی بے حجاب ہوجاناچاہیے، اس کے بیشتر افکار معتزلہ کے افکار سے موافقت رکھتے ہیں۔
(۱)(یونان وہند وفارس کی تہذیب ووثنیت سے متاثر تھا فلسفہ بھی اس سے متاثر ہوئے بغیرنہ رہاجس کا نتیجہ یہ ہوا کہ بہت سے وہ افراد جو عقل وفلسفہ کے مدعی تھے،اصل فلسفہ(حقیقت کو پانے کی جستجو)کو چھوڑکراور عقل صحیح سے روگردانی کرکے تہذیبی رسوم میں ،طور طریقوں میں حتی کہ خیالات وعقائد میں ان کی عقلیں بھی وثنی ہوچکی تھیں۔ف) معتزلہ ، چوں کہ فلسفہ یونان ، فلسفہ ہند اور فارسی ادب سے بے حد متأثر ہوئے،لہٰذا ان کی عقلیں بھی اسی رخ پرچل پڑیں ، جو بلارہنمائے وحی ہر چیز کو، یہاں تک کہ”الٰہ“ اور ”رازق“ سب کو عقل سے متعین کرتے ہیں اور عقل کو وحی الٰہی سے بھی ٹکراتے ہیں،اس طرح گویا عقل کے نام پر وہ ”ظاہریت پرستی“ کے شکارہوگئے تھے، بس معتزلہ نے بھی قرآن وحدیث کے مقابلہ میں غیبیات ومعتقدات میں عقل کو معیار بنایا اور انہیں کی راہ پر چل کر عقائد ِاسلامیہ جو قرآن و حدیث سے ثابت تھے، وَثنی عقل سے اس کی تعبیر اور تاویل کی، اور عقل کو نقل پر راجح قرار دیا، یعنی چاہے جوہو جائے، عقل اگر قبول کرے تو ٹھیک؛ورنہ غلط۔ چاہے نقل کتنا ہی صحیح کیوں نہ ہو۔
(۲) انبیاء، صحابہ اور رسولوں کو، معتزلہ دیگر بشر کی طرح مانتے ہیں، لہٰذا (العیاذ باللہ) ان پر نقد و جرح کرنے کو جائز سمجھتے ہیں، حضرت آدم، حضرت نوح، حضرت عیسیٰ،حضرت ایوب، حضرت یوسف علیہم السلام، اسی طرح صحابہ میں حضرت ابوبکر، حضرت عثمان، حضرت علی، حضرت طلحہ، حضرت زبیر، حضرت سمرہ بن جندب، حضرت عبداللہ بن مسعود، حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہم اجمعین وغیرہ پر نقد کیا۔
(۳) توحید میں غلو، یہاں تک کہ اللہ کی صفات کا بھی انکار کردیا، قرآن کو مخلوق کہا، اللہ کے دیدار کا بھی انکار کردیا۔
(۴) معنی عدل میں غلو، جس کے نتیجہ میں ”قدر“ یعنی ”تقدیر“ کا انکار اور بندہ کو خالقِ عمل قرار دیا، اصحاب کبائر کو بعض نے کافر قرار دیا، اللہ پر اجر اور عذاب کو لازم قرار دیا، اور اصحاب کبائر ہمیشہ جہنم میں رہیں گے، کا اعتقاد گڑھ لیا۔
(۵) قرآن کی تفسیر کے لیے احادیث کی ضرورت سے انکار کیا، اور عقل کی روشنی میں تفسیر بالرائے کو مطلق جائز ہی نہیں ، بل کہ مستحسن قرار دیا، اور قرآن کی آیتوں کی تفسیر میں دور دور کی تاویلات کیں۔
(۶) بہت سے معتزلہ نے وجود جِن کا انکار کیا، جادو کی تأثیر کا انکار کیا۔
(۷) معجزات کا انکار کیا، مثلاً شقِ قمر کے بارے میں نظام معتزلی نے کہا کہ :صحابہ نے جو شق قمر کے دیکھنے کو بیان کیا، وہ کذب اور جھوٹ ہے۔
(۸) حجیت حدیث کا انکار کیا، مثلاً خبرِ واحد سے استدلال کو ناجائز قرار دیا اور کہا کہ عقل سے فیصلہ کیا جائے، اسی لیے عذابِ قبر، حوضِ کوثر، پل صراط، میزان، شفاعت کا انکار کیا۔ بلکہ نظام نے تو احادیث ِمتواترہ میں بھی کذب کے احتمال کو بیان کیا، یہاں تک کہ حدیث کی تعلیم و تعلم کی مذمت کی۔
(۹)اجماع کی حجیت کا انکار کیا۔
(۱۰) قیاس کی حجیت کا انکار کیا۔(۱۸)
یہ تھے معتزلہ کے افکار۔(یہ ہے متجددین اور معتزلہ کا باہم ذہنی توارد ، فکری مناسبت اور اعتقادی مماثلت ۔ جس کا ذکر باقاعدہ”معتزلہ و متجددین کے درمیان امورِمشترکہ“کے عنوان کے تحت بھی آئے گا۔ف) اہل سنت والجماعت نے اول یوم ہی سے ان کی تردید کی۔ مذکورہ تمام افکار کو خلافِ شرع اور قرآن و حدیث کے صریح مخالف قرار دیا، دوسری طرف مستشرقین نے معتزلہ کی تعریف کی اور کہا کہ ”معتزلہ کا موقف جو تفوق عقل کا ہے، وہ بالکل درست اور صحیح ہے، انہی کی پیروی ہونی چاہیے، اس لیے کہ یہی لوگ صحیح معنی میں آزاد عقل اور سیدھے راستہ کے حامی ہیں“۔(۱۹)
اعتزال کا نیا روپ:
مستشرقین نے جب دیکھا کہ مسلمان اتنی آسانی کے ساتھ دین ِاسلام سے برگشتہ نہیں ہوسکتا، تو انہوں نے ایک نیا طریقہ اختیار کیا وہ یہ کہ کچھ مادہ پرست لوگوں سے ربط کیا اور اعتزالی و مغربی افکار کو مسلمانوں میں پھیلانے کے لیے انہیں آلہٴ کار بنایا، جنہوں نے معتزلہ سے دو قدم آگے بڑھ کر اس کام کو انجام دیا۔
”روشن خیالی“، ”ترقی“، ”جدیدیت“ ”ترقی پسندی“، ”جدت پسندی“ کے نام پر تجدید کی جو تعریف کی گئی، اگر اسے ما ن لیا جائے تو شاید دین کے تمام ستون ایک ایک کرکے زمین بوس ہو جائیں، کیوں کہ ”ضرورت وقت“ ”تقاضہٴ عصر“ کے نام پر قرآن کی آزادانہ تفسیر، حدیث پاک سے صریح انحراف، اجماع کا انکار، تقلید سے دوری، ان کے یہاں جرم اور گنا ہ نہیں بل کہ ”مستحب اور فرض“ کے درجہ میں ہے۔ لاحول و لاقوة الا باللہ!
معنی ٴتجدید میں انحراف(مفاہیم تجدید میں کج روی):
انیسویں صدی کے کے اواخر میں (Modernism) کے نام پر جو تحریک برپا کی گئی اس نے ”تجدید“ کا مفہوم بالکل بدل کر رکھ دیا، اس طور پر کہ ”تقاضائے عصر“ اور ”تقدم علمی“ ”ثقافت معاصرہ“ سے ہم آہنگ ہونے کے لیے تمام ادیان کی تعلیمات پر ازسر ِنو غور کرنے اور تقلید سے بے زار ہوکر ”فلسفہ“ اور ”تحقیق“ کے سہارے زمانہ سے ہم آہنگ کر دیاجائے، کی آواز بلند کی؛ اس کا اثر یہودیت، عیسائیت پر تو یہ ہوا کہ اس کے ماننے والے ”الحاد“ اور ”بے دینی“ کی دہلیز پر پہنچ گئے، مذہب کو ”پرائیویٹ مسئلہ“ قرار دے دیا گیا۔ ”سیاست“، ”معیشت“، ”معاشرت“ وغیرہ تمام شعبہ ہائے حیات سے مذہب کو نکال دیا گیا، اور اللہ کا عجیب نظام کے یہودیوں نے ہی سب سے پہلے یہ اقدام کیا تھا،اور سب سے پہلے شکار بھی یہودیت ہی ہوئی، کیوں کہ المانیا میں ”آزاد یہودیت“ اور ”یہودیت جدیدہ“ یا ”اصلاحیة“ کے نام پر تجدید کاری کا آغاز ہوا؛ جس میں طریقہائے عبادت کو جاذب نظر بنانے کے لیے موسیقی وغیرہ کو شامل کیا گیا، اور یہ کہہ کر کہ ”یہ دنیا جو ہمارے اردگرد ہے، تغییر پذیر ہے تو اگر ہم ایسا نہ کریں تو پیچھے رہ جائیں گے“ تمام ہی امور ِدینیہ میں تغییر شروع ہو گئی، پھر فرانس، جرمنی ، امریکہ، برطانیہ میں آباد یہودیوں میں بھی یہ وبا پھیل گئی اور یوں ”یہودیت منحرفہ“، ”یہودیت فانیہ“ کے گھاٹ اتر آئی، یہی حال ”نصرانیت“ کا ہوا؛ غرض یکہ دینی امور اگر ترقی کے لیے رکاوٹ ہوں، تو اس کاا نکارکردیا جائے، یہ گویا ایک مزاج بن گیا۔ (۲۰)
مسلمانوں پر پورا نہیں مگر کچھ نہ کچھ اثر تو ضرور ہوا، جس کا اندازہ نیچے دیے جارہے ”متجددین“ اور ”موڈرنزم“ کے حامیوں کے افکار سے لگایا جاسکتا ہے۔
عالم ِاسلام اورحاملین ِجدیدیت کے افکار:
مغرب کو ”جدیدیت“ کی ضرورت کیوں پیش آئی؟ کے ذیلی عنوان کے تحت ہم بتاچکے ہیں کہ شریعتِ موسوی اور شریعتِ عیسوی اپنے زمانہ کے لیے کامل تھیں؛ لیکن قیامت تک کے لیے نہ تھیں اور پھر یہودیوں اور نصرانیوں نے ان میں تحریف بھی کرڈالی تھی، اورچوں کہ یہ لوگ وثنیت ِیونان سے متأثر ہوچکے تھے، لہٰذا قدیم اصولوں پر جدید دور کا انطباق مشکل ہو رہا تھا، تو اہلِ مغرب نے ”جدید“ اور (Modernism) کی راہ اپنائی۔
اب سوال پیدا ہوتا ہے کیا اسلام اور مسلمانوں کے لیے بھی مغرب کی طرح Modernism کے راستے کو اختیار کرنا ضروری ہے؟ تو اس کا سیدھا جواب یہ ہے کہ اسلام اور مسلمانوں کو Modernism کی قطعی ضرورت نہیں، کیوں کہ اسلام کامل و مکمل دین ہے، اس میں ”عالمگیریت“ اور ”آفاقیت“ بھی ہے وہ انحراف سے بھی محفوظ ہے، تو بھلا اسلام میں مغربی خطوط پر چل کر Modernism کی راہ اپنانے کی کیا ضرورت ہے؟ ہاں اجتہادِ مقید کا دروازہ کھلا ہوا ہے، لہٰذا قرآن و حدیث اور اصول ِفقہ و فقہ، تفسیر وغیرہ پر عبور رکھنے والوں کے لیے یہ گنجائش ہے، کہ وہ پیش آمدہ مسائل کا استنباط و استخراج کریں، البتہ عقائد میں اور اصول میں اجتہاد کی قطعی گنجائش نہیں، جدیدیت اور Modernism کے دلداداوٴوں نے عقائد و اصول تک کو توڑ مروڑ کر رکھ دیا۔
مصر اور ”دعوت جدیدیت“:
محمد حامد الناصر اپنی کتاب ”العصرانیون بین مزاعم التجدید و میادین التغریب“ میں مسلمانوں میں دعوتِ جدیدیت یعنی Modernism کے بارے میں تحریر فرماتے ہیں کہ اس کا آغاز مصر سے ہوا اور اس کا سب سے پہلا داعی جمال الدین افغانی ہے، جو پس ِپردہ دنیا کی خفیہ ترین یہودی تخریبی تحریک ”ماسونیت“ سے گہرے تعلق رکھتا تھا، قابلِ گرفت امر یہ ہے کہ جمال الدین افغانی کی زندگی بڑی پر اسرار رہی، اس کے حامیوں نے اس کے بہت سے اعمال کو درپردہ رکھا، اس لیے کہ اس کی وجہ سے اس کی شخصیت آشکارہ ہو جاتی اور یہ ماسونیت کے ایجنڈے کے خلاف ہے، اس کی اصل بھی مخفی ہے، آیا وہ ایرانی ہے یا افغانی؟ اس کے اردگرد یہود و نصاریٰ کی بڑی تعداد رہا کرتی تھی، اس کا خصوصی طبیب بھی ہارون تھا، جو یہودی النسل تھا، خلافتِ اسلامیہ عثمانیہ کے آخری خلیفہ سلطان عبدالحمید نے اپنی ڈائری میں تحریر کیا ہے:
”برٹش وزارة ِخارجہ کا ایک خط میرے ہاتھ لگ گیا، جس میں جمال الدین افغانی کا بھی اور ایک سنیت نامی انگریز کا بھی نام تھا، جو تر کی سے خلافت ِاسلامیہ کے سقوط کے قائل تھے، اور شریف حسین امیرمکہ کو (جو انگریزوں کا باج گزار تھا) خلیفہ بنانا چاہتے تھے۔ (۲۱)
افغانی کے یہ، اور اس جیسے اور بہت سے اسرار اب صیغہٴ راز میں نہیں رہے ؛بل کہ آہستہ آہستہ منظر عام پر آرہے ہیں، جمال الدین سے متأثروں میں محمد عبدہ سرِ فہرست ہے۔ ہاں! البتہ افغانی اور عبدہ میں یہ اختلاف تھا کہ وہ سیاست کے راستے سے انقلاب چاہتا تھا، اور عبدہ اصلاح ِتعلیم کے راستے سے، لیکن یہ محض ظاہری اختلاف ہے، حقیقت کچھ نہیں۔ دونوں ہی انگریز کے اسیر اور فرماں بردار تھے، انگریز نے عبدہ اور سرسید دونوں کی خوب تعریفیں بھی کیں۔
اصلاحیوں کے افکار:
(۱)عقل نقل پر مقدم اور راجح ہے، عبدہ اپنی کتاب ”الاسلام و النصرانیة: ص ۷۴“ پر تحریر کرتا ہے:
”الأصل الأول للإسلام النظر العقلی․․․․․․․․․․․․․ و الاصل الثانی تقدیم العقل علی ظاہر الشرع عند التعارض“۔
(۲) حجیت حدیث کا کلاً یا جزء اً انکار، جیساکہ عبدہ اور رشید رضا نے کبھی خبر ِآحاد سے استدلال کرنے کو، کبھی اسرائیلیات سے استفادہ کرنے کو ، کبھی احادیث ِصحیحہ کی غیر مطلوب تاویل کے ذریعہ انکار کیا۔محدثین کی مذمت اور ان کے نہج پر طعن کرتے ہوئے محمد عبدہ لکھتا ہے: ”أللہم إلا فئة زعمت أنہا نفضت غبار التقلید، و أزالت الحجب التی کانت تحول بینہا و بین النظر فی آیات القرآن، و متون الأحادیث، لتفہم أحکام اللہ منہا، و لکن ہذہ الفئة أضیق عطناً، و أحرج صدراً من المقلدین و إن أنکرت کثیرا من البدع“۔(۲۲)
(۳) تقلید کا انکار اور باب ِاجتہاد کی مطلق اجازت جیساکہ عبدہ نے تحریر کیا: ”وقد صرح الائمة الأربعة بالنہی عن التقلید“ ۔(۲۳)
(۴) احادیث سے مدد لیے بغیر آز ادا نہ تفسیر بالرائے کی کھلی ا جازت رشید رضار قم طراز ہے:
” و ما ادری این یضع بعض العلماء عقولہم عند ما یغترون ببعض الظواہر و ببعض الروایات الغریبة التی یردہا العقل“۔ (۲۴)
(۵) ربوٰ کو باطل تاویلات کے ذریعہ جائز قرار دیا، مثلاً عبدہ نے ایک فتوی میں تحریر کیا: ”حل ایداع الاموال فی صندوق التوفیر و اخذ الفائدة علیہا“۔ (۲۵)
(۶) معجزات، اخبار غیبیہ کا انکار یا بھونڈی تاویل مثلاً رشید رضا نے تو حیرت انگیز جرأت کر ڈالی: ”أنہ لو لا حکایة القرآن لآیات اللہ التی ایّد بہا موسیٰ و عیسیٰ علیہما السلام لکان اقبال احرار الافرنج علیہ اکثر و اہتداوٴہم بہ اسرع و اعم“۔ (۲۶)
اگر قرآن ان معجزات کو بیان نہ کرتا، جس سے موسی اور عیسی علیہما السلام کی تائید کی گئی تو آزاد خیال انگریز قوم اسلام کی طرف لپک آتی اور ہدایت کو قبول کرنے میں تأمل نہ کرتی۔(لاحول و لاقوة الا باللہ) گویا انگریزوں کی اسلام سے دوری کا الزام بھی اللہ اور قرآن پر لگایا گیا ”ان ہذا البہتان عظیم“اعاذنا اللہ مثل تلک الآراء الشاذة الباطلة۔
(۷) شق قمر کا انکار کیا اور صحابہ پر بھی کذب بیان کے بہتان باندھے۔”و قد أول الآیة الکریمة: إقتربت الساعة و انشق القمر، ای طلع و انتشر نورہ“۔ (۲۷)
(۸) جنات کے وجود کا انکار کیا، اور لکھا کہ ”انہ نوع من المکروسکوبات الخفیة“۔ (۲۸)
(۹) شیطان کا انکار کیا اور حدیث ”ان الشیطان یجری فی الانسان مجری الدم“کی تشریح کرتے ہوئے لکھا ”ان الجراثیم تلک تجری فی خلایا الجسم“۔ (۲۹) شیطان سے مراد جراثیم ہیں جو بدن میں گھومتے رہتے ہیں۔
(۱۰) قیامت کی نشانیوں کا انکار یہ کہہ کر کہ وہ آحاد سے ثابت ہیں، اور آحاد قابلِ حجت نہیں، مثلاً نزول عیسیٰ، ظہور دجال، دابة الارض کا انکار۔(۳۰)
(۱۱) صحیحین، صحیح بخاری و مسلم کی بعض احادیث کے بارے میں شک کا اظہار رشید رضا مجلة المنار مجلد ۲۹، صفحہ ۱۰۷ پر رقم طراز ہے:
”و دعوی وجود احادیث موضوعة فی احادیث البخاری المسندة بالمعنی لا یسہل علی احد اثباتہا․․․․“ حالاں کہ امت نے اصح الکتب بعد کتاب اللہ البخاری پر اجما ع کیا ہے۔
(۱۲) سنت کی باطل تقسیم ”سنت عملیہ اور سنت غیر عملیہ“ گویا احادیث ِقولیہ کا انکار کردیا، تب تو احادیث کا بڑا ذخیرہ ضائع ہو جائے گا۔”إن سنتہ التی یجب أن تکون أصل القدوة ہی ما کان علیہ ہو و خاصة أصحابہ عملا و سیرة، فلا تتوقف علی الأحادیث القولیة“۔(۳۱)
(۱۳) صحابہ پر جرح و تنقید ابوریہ نے اپنی کتاب میں بڑی بے باکی کے ساتھ کلام کیا ہے، کتاب کا نام
”اضواء علی السنة النبویة: ص۳۱۰“۔
(۱۴) ایک سے زیادہ بیویاں کرنا عصر حاضر کے مزاج کے خلاف، لہٰذا جائز نہیں۔”و لا بد من منع تعدد الزوجات“۔ (۳۲)
(۱۵) عورت کو آزادی دی جائے، پردے کی ضرورت نہیں۔ قاسم امین نے اپنی کتاب ”تحریر المرأة“ میں اس پر تفصیل سے کلام کیا ہے۔
(۱۶) دین اور سیاست یا مملکت جمع نہیں ہوسکتے، دونوں الگ الگ ہیں۔شیخ علی عبدالرزاق نے ”الإسلام اصول الحکم“ میں اس پر تفصیل سے کلام کیا ہے۔
کرومر# اور بلنت# نے افغانی اور عبدہ کی خوب ستائش کی، گویا انگریز اور مستشرقین جو اسلام کے شدید دشمن ہیں، ان کے مداح تھے، محمد عبدہ نے جامعہ ازہر کو بھی بہت نقصان پہنچایا۔
یہ تھے محمد عبدہ رشید رضا مصری، محمد احمد خلف اللہ احمد لطفی السید طہٰ حسین، علی عبدالرزاق، قاسم امین، ابوریہ، مصطفی المراغی، مصطفی صبری، محمد شلتوت، عبدالعزیز جاویش، محمد فرید وجدی، احمد المراغی وغیرہ کے افکار و آراء ۔
برصغیر ہندوپاک میں تجدد کی دعوت:
نیچریت کے نام پر تجدد کی دعوت شروع ہوئی، جس کے محرک سر سید ہیں، ویسے تو سرسید کا رَدْ اول یوم ہی سے شروع ہوگیا تھا، اور حضرت تھانوی نے تو باقاعدہ امداد الفتاوی کی چھٹی جلد میں تفصیل کے ساتھ فرقہٴ نیچریہ کے عقائد و افکار کا جدول قائم کرکے ،اس کی تردید کی ہے۔ ہم یہاں پر سرسید کے افکار کو نقل کرنے کے بعد حضرت تھانوی کے کیے گئے کلام کا خلاصہ پیش کریں گے۔ان شاء اللہ تعالی!
علامہ ابوالحسن الندوی سرسید کے افکار کے بارے میں رقم طراز ہیں:
مغربی ثقافت کی تقلید پر سرسید کی فکری عمارت کی تعمیر اور بنیاد ڈالی گئی ہے، جس میں عصری علوم اس کے تمام لوازمات کی ساتھ ہضم کرنے کی دعوت دی گئی ہے اور قرآن اور اسلام کی تفسیر، جدید معلومات اور مدنیت پر کی گئی ہے، جو مغربی خواہشات کے مطابق ہے، اور غیرحسی و(غیر۔ف) تجرباتی امور کا مذاق اڑایا گیا ہے۔(۳۳)
محمد حامد الناصر ا پنی کتاب ”العصرانیون“ میں تحریر فرماتے ہیں کہ : قابل ِگرفت بات تو یہ کہ سرسید اور محمد عبدہ ،دونوں کی تحریکات کا زمانہ ایک ہی ہے اور دونوں کے نظریات و افکار باہم مماثل ہیں۔ (۳۴)
سر سید کے افکار خود ان کی زبانی:
قرآن کی فصاحت کے معجزہ ہونے کا انکار کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
(۱) قرآن مجید کی فصاحتِ بے مثل کو معجزہ سمجھنا ایک غلط فہمی ہے۔ ﴿فَأتُوْ بِسُوْرَةٍ مِّنْ مِّثْلِہ﴾ کا مقصد یہ نہیں۔ (۳۵)
معتزلہ کی تائید اور اہل سنت کی تردید کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
(۲) تمام مفسرین کی سوائے معتزلہ کی، یہ عادت ہے کہ اپنی تفسیروں میں محض بے سند اور افواہی روایتوں کو بلاتحقیق لکھتے چلے جاتے ہیں۔ (۳۶)
ناسخ و منسوخ کا انکار کرتے ہوئے ر قم طراز ہیں:
(۳)ہم نے تمام قرآن میں کوئی حکم ایسا نہیں پایا، اوراس لیے ہم کہتے ہیں کہ قرآن میں ناسخ و منسوخ نہیں۔ (۳۷)
آسمانی کتابوں کی عدم تحریف لفظی کو ثابت کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
(۴) میں اس بات کا قائل نہیں ہوں کہ یہود یوں اور عیسائیوں نے اپنی کتب مقدسہ میں تحریف ِلفظی کی ہے۔ (۳۸)
احادیث سے حجیت کے ا نکار کا بہانہ ڈھونڈتے ہوئے تحریر کرتے ہیں:
(۵) حدیث کی کتابوں میں ایسی حدیثیں مندرج ہیں، جو عقل ِانسانی کے برخلاف یا مافوق الفطرت ہیں․․․․․ ان کے نامعتبر اور ناقابل ہونے کو (یہ) کافی ہے۔ (۳۹)
تقلید کا انکار کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
(۶)جس قدر نقصان اسلام کو تقلید نے پہنچایا ہے، اتنا کسی چیز نے نہیں پہنچایا۔ (۴۰)
(۷) اجتہاد ِمطلق کی دعوت دیتے ہوئے تحریر کرتے ہیں:
ٹھیٹ مذہب ِاسلام کی رو سے ہر ایک شخص کو آزادای ہے کہ خود قرآن ِکریم کے احکام پر غورکرے اور جو ہدایت اس میں پائے اس پر عمل کرے․․․․ ہر شخص اپنے آپ کے لیے مجتہد ہے۔ (۴۱)
(۸) ستفترق أمتي والی روایت ِصحیحہ کو موضوع قرار دیتے ہوئے تحریر کیا ہے:
․․․․․․․․․ اسلام میں تہتر فرقے ہیں اور ناجی ان میں سے ایک․․․․․․ یہ تو ایک موضوع روایت ہے۔(۴۲)
(۹) نیچر کے بارے میں عجیب خرافات بکی ہے، لکھتے ہیں:
پس جو مذہب ہمارے سامنے پیش کیے جاتے ہیں، ان کی صداقت کی یہی بات معیار ہوسکتی ہے کہ اگر وہ مذہب فطرت ِانسانی یا نیچر کے مطابق ہے تو سچا ہے۔ (۴۳)
(۱۰) وحی میں عموم کا نظریہ پیش کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
مطلق وحی کا آنا صرف انبیاء ہی پر منحصر نہیں، بل کہ انبیاء کے سوا مقدس لوگوں پر بھی وحی آتی ہے۔ (۴۴)
(حالاں کہ یہ بات واضح رہنا چاہیے کہ نصوص ِشرعیہ میں غیر ِانبیاء پر جووحی کااطلاق ہواہے، وہ الہام کے معنی میں ہے نہ کہ وحی اصطلاحی میں۔ف)
(۱۱) ملائکہ کا انکار کرتے ہوئے تحریر کرتے ہیں:
فرشتے، نہ کوئی جسم رکھتے ہیں اور نہ دکھائی دیتے ہیں۔ ان کا ظہور بلاشمول مخلوق موجودکے نہیں ہوسکتا۔ (۴۵)
(۱۲) جبرئیل کا انکار کرتے ہوئے لکھا ہے:
ہم ․․․․․․․․․․․․ جبریل کو خارج از خلقت ِانبیاء مخلوق جداگانہ تسلیم نہیں کرتے۔ (۴۶)
(۱۳) جنات کے وجود کا انکار کرتے ہوئے لکھا ہے:
قرآن مجید سے جنوں کی جداگانہ مخلوق ہونے کا ثبوت نہیں۔ (۴۷)
(۱۴) شیطان کا انکار کرتے ہوئے لکھا ہے:
شیطان کا، حقیقت میں کوئی وجود ِخارجی معنوی للانسان موجود نہیں ہے۔ (۴۸)
(۱۵) معجزات و کرامات کا انکار کرتے ہوئے لکھا ہے:
مذہب ِاسلام اس امر کا جس کو لوگ معجزہ و کرامت کہتے ہیں سخت مخالف ہے۔ (۴۹)
(۱۶) حضرت عیسیٰ کے لیے باپ ثابت کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
حضرت مریم کا خطبہ یوسف سے ہوا تھا۔ (۵۰)
میرے نزدیک قرآن مجید سے ان (حضرت عیسیٰ) کا بے باپ ہونا ثابت نہیں ہے۔ (۵۱)
(۱۷) حضرت عیسیٰ کے رفع آسمان کا انکار کرتے ہوئے لکھا ہے:
وہ (حضرت عیسیٰ) اپنی موت مرے۔ (۵۲)
(۱۸) معراج کا انکار کرتے ہوئے لکھا ہے:
قرآن مجید میں کہیں بیان نہیں ہوا ہے کہ اسرا اور معراج بجسدہ و حالت ِبیداری میں ہوئی تھی۔ (۵۳)
(۱۹) شق قمر کا انکار کرتے ہوئے لکھا ہے:
شق قمر کا ہونا محض غلط ہے اور بانی ٴاسلام نے کہیں اس کا دعوی نہیں کیا۔ (۵۴)
(۲۰) قیامت کی نشانیوں کا انکار کرتے ہوئے لکھا ہے:
ہمارے نزدیک تو نہ عیسیٰ آسمان سے اترنے والے ہیں، نہ مہدی موعود پیدا یا ظاہر ہونے والے ہیں۔ (۵۵)
(۲۱) قرب ِقیامت یاجوج و ماجوج کا نکلنا عیسائیوں اور یہودیوں کا اعتقاد ہے، قرآن مجید سے ثابت نہیں ہے۔ (۵۶)
اس کے علاوہ عذاب ِقبر، پل صراط ، کراماً کاتبین، میزان اعمال، شفاعت، جنت و جہنم، وغیرہ کا بھی انکار کیا ہے، تجارتی سود کو جائز قرار دیا ہے۔
یہ سر سید اور ان کے ہم نواوٴں مثلاً چراغ علی، امیر علی، محمد علی، خلیفہ عبدالحکیم، خدا بخش وغیرہ کے بعض افکار ہیں؛ اور انہیں کے مشن کو آگے بڑھاتے ہوئے منکرین حدیث اور قادیانی پیدا ہوئے۔ عبداللہ چکڑالوی، خواجہ احمد امین، اسلم جے راج پوری، غلام احمد پرویز وغیرہ، گویا ہندوستان میں نیچریت ہی انکار ِحدیث اور دعویٴ نبوت قادیانی کے لیے محرک ٹھہرا۔
ڈاکٹر ابوسلمان شاہجہاں پوری ”خود نوشت افکار سرسید“ مرتبہ ضیاء الدین لاہوری، کے حرفے چند میں تحریر فرماتے ہیں: ”بلاشبہ اگر ان (سرسید) کے مذہبی عقائد کو اگر اختیار کر لیا جائے تو مذہبی عقائد و ایمانیات کا پورا نظام درہم برہم ہو جائے۔ (۵۷) ضیاء الدین لاہوری صاحب نے بڑی ہی جاں فشانی اور عرق ریزی سے سرسید کے افکار کو مذکورہ کتاب میں جمع کردیا ہے، تاکہ انکار کرنے والے کے لیے کوئی راہ نہ مل سکے، ہم نے سرسید سے متعلق جتنے افکار نقل کیے ہیں، وہ اسی کتاب سے ہیں۔
(اب ہم سرسید کے افکار کا خلاصہ حکیم الامت حضرت تھانوی کے حوالے سے پیش کرتے ہیں، جس کااوپروعدہ کیا گیا تھا۔ف )حکیم الامت مجدد ِملت حضرت مولانا اشرف علی تھانوی سے کسی نے سرسید اور اس کے متبعین یعنی ”فرقہ ٴنیچریہ“کے حکم کے بارے میں استفتاء کیا تو حضرت نے بڑی تفصیل کے ساتھ اس کا جواب دیا، جس کا خلاصہ یہ ہے :
جیسے حق تعالیٰ جل جلالہ کی عادت اس امت میں یہ جاری ہوئی کہ ہر صدی کے شروع میں ایک مجدد پیدا ہوتا رہا، وہ بدعات و مخترعات کا قلع قمع کرتا رہا، جیسے قرن ِاول میں عمر ابن العزیز، قرن ثانی میں امام شافعی اور اسی طرح ہر قرن کا حال رہا، ایسے ہی ہر صدی پر ایک مخرب ِدین، ماحی آثار اسلام متین پیدا ہوا کرتا ہے، جو بدعتوں اور خرافات کا شیوع کرتا ہے، جیسے قرن ِاول میں حجاج بن یوسف(حجاج بن یوسف کا نام قرن ِاول کے مقدس اور پاکیزہ معاشرہ کو دیکھتے ہوئے محض سیاسی انتظامی اور عملی نوعیت سے خرابیوں کے تحت آگیاکہ، جن قواعد کو ،بدگمانیوں کو اور مخالفتوں کو اس نے راہ دی اوراسی کے تحت حکومت کی حکمتِ عملی مقررکی وہ کسی بھی طرح ”ابرہا قلوباً اعمقہا علماً اقلہا تکلفاً“والے صحابہ وتابعین کے معاشرہ اور ان کی حیات ونظام سے جو ڑ نہیں کھاتا؛ورنہ حجاج بن یوسف کا نام مامون رشید، معتزلہ ،نیچریہ اور متجددین کے فکری بگاڑسے کوئی نسبت نہیں رکھتا۔کہاں حجاج کی انتظامی وسیاسی کارروائیاں کہ جس میں اس کے مامورومحکوم اور مطیعین،تابعین تک تھے اور کہا ں اعتزال نیچریت اور تجدد؛البتہ اس کی بے انصافیاں اور زیادتیاں بہت کثرت سے ہیں،جس کی وجہ سے اسے قرن ِاول میں خرافات کا شیوع کرنے والا کہا گیا ۔ف )
قرن ِثانی میں مامون جس نے ”خلق قرآ ن“ کے نام پر علماء کو انواع و اقسام کی اذیتیں دیں۔ یہ سلسلہ بھی اسی طرح چلتا رہا یہاں تک کے اس چودھویں صدی کے قریب ہندوستان میں یہ فرقہ نیچریہ پیدا ہوا ہے، جس نے تمام علمائے اسلام کی تغلیط کی اور احکام ِشرعیہ کی تخلیط اور اصول و فروع کو توڑ مروڑ کر محدثین پر طعن اور مفسرین پر تشنیع و لعن علی الاعلان کرنا شروع کیا :
﴿وَہُمْ یَحْسَبُوْنَ اَنَّہُمْ یُحْسِنُوْنَ صُنْعاً Oوَ اِذَا قِیْلَ لَہُمْ لَا تُفْسِدُوْا فِي الْاَرْضِ قَالُوْا اِنَّماَ نَحْنُ مُصْلِحُوْنَ أَلَاْ اِنَّہُمْ ہُمُ الْمُفْسِدُوْنَ وَ لٰکِن لاَّ یَشْعُرُوْنَ﴾
اس طائفہ کے رئیس کشمیری الاصل ہیں، انہوں نے دہلی میں ایسے وقت میں نشو و نما پائی کہ غیرمقلدین کا زور تھا، آخر ہوتے ہوتے یہ حضرت بھی مجتہد بنے، اور ناصحوں کو دیوانہ سمجھا․․․․ لندن․․․․ کی سیر نصیب ہوئی اور وہاں مدت سے الحاد کا شیوع اور مذہب سے اعراض ہو رہا ہے، چند روز ایسے دہری ملحد لوگوں کی صحبت کا اتفاق ہوا، مزاج میں پہلے سے آزادی تھی، اب کھل گئے اور وہاں سے آکر کھلم کھلا نیچریہ کی دعوت شروع کی، اور نیچر جس کو وہ قانون ِفطرت کہتے ہیں، حالاں کہ ہنوز کسی نے اس کے قواعد منضبط نہیں کئے․․․․․ خیالات و رسوماتِ ملاحدہ یورپ جس کا نام ”علوم ِواقعیہ“ و ”تحقیقات نفس الامریہ“ و ”تہذیب“ رکھا ہے، اس کو سنت ٹھہرا کر، جو ان دونوں کے خلاف پایا اگر وہ اجماع ِمسلمین تھا بے دھڑک اس کو خیال جاہلیت بتایا؛ اگر حدیث سے ثابت تھی تو اس کو معنعن کہیں مرسل، کہیں منقطع اور کچھ بھی نہ بن پڑا تو مخالف فطرت ٹھہرا کر غلط ٹھہرایا، روات کو کاذب اور مفتری فرمایا، اگر قرآن ہوا تو اس پر معلوم نہیں کس مصلحت سے تکذیب و تردید کی تو عنایت نہیں فرمائی، لیکن کہیں کہیں تمثیلی قصہ کہیں خواب و خیال، کہیں صرف موافقت خیال مخاطبین جہال، کہیں الہام کا دعوی کرکے، کہیں تحریف فرماکر پیچھا چھڑایا۔ (۵۸)
کتاب الاعلام بقواطع الاسلام میں ہے: من کذب بشئ مما صرح بہ في القرآن من حکم أوخبر أو أثبت ما نفاہ أو نفی ما أثبتہ علی علم منہ بذٰلک أو شک في شئ من ذٰلک کفر ۔
حجةاللہ البالغہ میں ہے: و تثبت الردة بقول یدل علی نفي الصانع أو الرسل أو تکذیب رسول أو فعل تعمد بہ استہزاءً صریحاً بالد ین وکذا انکا ر ضروریات الدین ۔
فتاوی ظہیریہ میں ہے: ان الاخبار المر ویة عن رسول اللّٰہ (صلی اللّٰہ علیہ وسلم ) علی ثلث متواتر فمن انکرہ کفر و مشہور فمن انکرہ کفر الا عند عیسی ابن ابان فانہ یضلل و لا یکفر، و ہوالصحیح و خبرالواحد فلا یکفر جاحدہ غیر انہ یأثم بترک القبول و من سمع حدیثا فقال سمعناہ کثیرا بطریق الاستخفاف کفر و قال ابن الہمام فی التحریر انکار حکم الاجماع القطعی یکفر عند الحنفیة و طائفة قال السبکی فی جمع الجوامع جاحد المجمع علیہ المعلوم من الدین بالضرورة کافر مطلقا آھ قال امام الحرمین فی منکر الاجماع نبدعہ و نضللہ۔
پس روات ِمذکورہ سے معلوم ہوا کہ اقوال مذکورہ میں سے بعض منکر بکفر، بعض مرتبہ بدعت و ضلالت میں، شاید شبہ ہو کہ مأوّل تو کافر نہیں ہوتاہے ۔جواب یہ ہے کہ بعض تو تاویل بھی نہیں کرتے، اور جو کرتے بھی ہیں تب بھی ہر تاویل دافع کفر نہیں ہے، بل کہ جو تأویل بحسب ِقواعد ِعربیہ محتمل لفظ ہو، اور نیز معنی ظاہرضروریات دین سے نہ ہو، وہ البتہ کفرسے بچاسکتی ہے؛نہ ایسی تاویلات بے سر وپا، خصوصاَ ضروریات دین میں۔ ورنہ چاہیے کہ ہر فرقہ تاویل کرکے اپنا مذہب قرآن کے مطابق کرکے کفر سے بچ جائے، اورہر ظاہر شریعت سے بالکل امان مرتفع ہوجائے، جیسے کسی نے آمنت باللّٰہ کی تاویل کی تھی کہ آمنت باللّٰہ اللہ میاں کا ایک بلا ّتھا، ”وملٰئکتہ“ اس کی ملائی کھاجایا کرتا تھا، وکتبہ اس نے ایک کتا پالا، ورسلہ اور رسی میں باندھ کر رکھا۔
نعوذباللہ من ہذہ الخرافات، في شرح العقائد النسفیة والنصوص تحمل علی ظواہرہا․․․․․․ما لم یصرف عنہا دلیل قطعي و العدول عنہا الی معان یدعیہا اہل الباطن إلحاد، قال الخیالي فی حاشیة علی شرح العقائد تأویل الفلاسفہ لدلائل حدوث العالم لایدفع کفرہم قال المولوی عبدالحکیم علی الخیالی لأنّ ذالک ضروریات الدین و التأویل فی ضروریا ت الدین لا یدفع الکفر ۔
ایسے ہی تاویلات کے حق میں کہ واقع میں تحریفات ہیں، اللہ تعالی فرماتا ہے: ﴿اِنَّ الَّذِیْنَ یُلْحِدُوْنَ فِيْ اٰیٰاتِنَا لَا یَخْفَوْنَ عَلَیْنَا﴾
اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں: من فسر القران برأیہ فقد کفر․․․ الحدیث۔
مولوی رحمت اللہ فرماتے ہیں :
بر ہوا تأویل قرآن می کنی
پست و کثر شد از تو معنی سنی
چوں ندارد جان تو قندیلہا
بہر ہیش میکنی تأویلہا
اسی وجہ سے جب مولوی بخش صاحب نے علمائے حرمین سے بعض اقوال کو مع تأویل کے نقل کرکے استفتا ء کیا، انہوں نے جواب میں یہ الفاظ لکھے:
” اعتقادہ فاسد و الیہود و النصاریٰ اہون حالا منہ ضال مضل ہو خلیفة ابلیس اللعین یکفر لہذا الاعتقاد“ اور ان علماء کے دستخط بھی ہیں:
حسن بن ابراہیم مفتی مالکیہ، عبد الرحمن الحنفی، احمد بن زید د حلان، سید محمد رحمت اللہ مہاجر، محمد بن عبداللہ مفتی الحنابلہ ، محمد امین ما لی مفتی الاحناف بالمدینة۔
اور نیز جناب مولانا محمدیعقوب صاحب کی رائے بھی اس باب میں نہایت شدید تھی اور فرماتے تھے کہ شیطان کی اور اس شخص کی کفر کی وجہ ایک ہی ہے یعنی اصلاح وترمیم احکام شرعیہ میں یہ اقوال تو اہل ظاہرکے ہیں، اب جو کچھ اہل باطن کا اس بارے میں قول ہے وہ سننا چاہئے۔
حضرت عمدة الاولیاء قدوةالاصفیاء جناب مولانا محمد یعقو ب صاحب مرحوم و مغفور ومبرور مجھ سے بلا واسطہ فرماتے تھے کہ ایک زمانہ میں کوئی مرد غیبی آکر مجھ کو کچھ امور بتلاتا تھا، ایک بار میں نے رئیس الطائفہ (سرسید)کی نسبت دریافت کیا کہ یہ کیسا شخص ہے؟ جواب دیا کہ یہ دجال ہے۔ میں نے پوچھا کہ دجال یک چشم ہو گا! خدائی کا دعویٰ کرے گا! جواب دیا، وہ دجال معروف نہیں،بل کہ قرب قیامت میں جو تیس دجال ہوں گے، جیسا کہ حدیث میں آیا ہے، ان میں سے ایک ہے۔ میں نے کہا کہ اس حدیث میں :کلہم یزعم انہ نبی اللّٰہ۔ یہ تو نبوت کا مد عی نہیں؟ جواب دیا کہ دعویٰ عام ہے صریح وضمنی سے، ضمناً یہ بھی مدعی نبوت ہے؛کیوں کہ نبی کے احکا م کو خلاف ِعقل بتاتا ہے، اور معترِض معترَض علیہ کے ساتھ مسا وات کا مدعی ہوتا ہے۔ نبی کا مساوی نبی ہوگا۔ درپردہ دعویٴ نبوت ہے۔ پھر کہا: اس امرکو مشتہر کردو، وہ حالت فرو ہوئی۔ مولوی صاحب فرماتے تھے، میں مدرسہ میں آیا، پرچہ ”تہذیب الاخلاق“ کا رکھاتھا، اٹھاکر جو دیکھا ”بطلان استرقاق“ کی بحث لکھی تھی، اس وقت تصدیق مکاشفہ کی ہوئی۔
او ر نیز مولانا ممدوح الذکر ارشاد فرماتے تھے، مکاشفہ سے دریافت ہوا کہ جو قوم امام مہدی علیہ السلام سے لڑے گی وہ نیچری ہوں گے۔ راقم کہتا ہے کہ کچھ عجب نہیں، کیوں کہ ”ظہورمہدی“ کے تو منکر بھی ہیں، جب وہ مہدیت کادعوی کریں گے، غالباً ان کی تکذیب کرکے مقابلہ ومقاتلہ سے پیش آئیں گے ،چوں کہ امر کفراشد واغلط ہے۔ اگر چہ مجھ کو ان روایات ومکاشفات پر اطمینان وافی ہے ، مگر میں بسبب ادعائے ظاہری اسلام کے اطلاق، اس لفظ (کفر) سے احتیاط کرتا ہوں، البتہ اعلیٰ درجہ کا گمراہ اور مبتدع کہتا ہوں ۔ (۵۹)
معتزلہ و متجددین کے درمیان امور مشترکہ:
دکتور عبدالعزیز مختار ابراہیم اپنے مقالہ ”حدیث (ان اللہ یبعث لہذہ الامة․․․ من یجدد لہا دینہا) روایة و درایةً “میں العصرانیة (Modrenism ) اور المعتزلہ کے درمیان مماثلت بیان کرتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں:
(۱) معتزلہ فلسفہ ٴیونان سے متأثر تھے، اور تجدد پسند، فلسفہٴ مغرب سے متأثرہیں۔
(۲) معتزلہ کے یہاں عقل ہر مسئلہ میں حاکم اور فیصلہ کرنے والی، اسی طرح متجددین کے یہاں بھی عقل حاکم و فیصلہ کرنے والی ہے۔
(۳) معتزلہ نے مختلف حیلے اور بہانے بنا کر سنت یعنی حدیث کا انکار کیا، تو تجدد پسندوں کا بھی یہی حال ہے۔
(۴) معتزلہ نے صحابہ اور سلف ِصالحین کو تنقید کا نشانہ بنایا، تو تجدد پسندوں نے بھی اس میں انہی کی تقلید اعمی (اندھی تقلید)کی۔
(۵) معتزلہ نے اسلاف ِامت جو خیر ِامت کے مصداق ہیں، کو جب تنقید کا نشانہ بنایا تو ساتھ ساتھ ان کے علوم کا استخفاف کیا، حالاں کہ وہ کتاب و سنت کے صحیح اصول پر مبنی ہیں، اور فلسفہ یونان اور منطق یونان کو معیار بنادیا؛ بالکل اسی طرح عصرانیین نے فلسفہ ٴمغرب اور تہذیب مغرب کو معیار تسلیم کر لیا اور علوم ِاسلاف کا انکار کردیا۔ (۶۰)
یہ تھے وہ امور جو متجددین اور معتزلہ کے درمیان مشترک ہیں، گویا ”تجدد“ ”اعتزال“ کا نیا روپ ہے، بلکہ یہ تجدد پسند تو ان سے دو قدم آگے ہیں، اس طور پر کہ یہ لوگ تو مغربی جمہوریت کو بعینہ تسلیم کروانے پر مصر ہیں۔ اسی طرح قومیت اور اشتراکیت کے بھرپور داعی ہیں؛ بل کہ اتحاد ِادیان اور تقاربِ ادیان کے نام پر اسلام ہی سے بیزار ہونے پر رضامند ہیں۔ گویا تجدد پسندوں کے نزدیک تجدید کا مفہوم ہے ”اسلاف کی ڈگر سے انحراف اور اسلاف و اخلاف کا ناطہ توڑنا، اور مغربی کلچر و تہذیب کو بلا کم و کاست تسلیم کرلینا ، اس کے لیے چاہے جو صورت اپنانی پڑے۔
دکتور یوسف القرضاوی رقمطراز ہیں: یہ ”متجددین“ جو اپنے آپ کو ”مجدد“ ثابت کرنے پر تلے ہوئے ہیں، حقیقت میں ”مبددین“ ہیں، یعنی دین کی اصل جڑ سے اکھاڑ پھینکنے والے ہیں۔ یہ درحقیقت استعمار کے معاونین ہیں، اور مستشرقین اور متنصرین (نصاری بنانے والے) کے تلامذہ ہیں، ان کو تو دراصل (عبیدالفکر الغربی) ”مغربی افکار کے غلام و دلدادہ“ سے یاد کرنا چاہیے، یہ مغربی استاذوں کے تلامذہ کہے جانے کے قابل نہیں، کیوں کہ تلمیذ یعنی شاگرد تو کبھی کبھی استاذ کی رائے سے اختلاف بھی کرتا ہے، مگر یہ لوگ تو غلطی سے بھی اختلاف کرنے کے لئے تیار نہیں، بل کہ مغربیت کی مکمل بلا کسی کمی بیشی کے تابعداری اور انقیاد کو لازم سمجھتے ہیں۔ (۶۱)
خلاصہ کے طور پر ہم یہی کہہ سکتے ہیں کہ ان متجددین کے یہاں ”تجدد“ کا مفہوم ہے دین کے بنیادی اور قطعی امور کو مغربی حضرات کی خاطر بدل کر رکھ دینا۔ چاہے وہ کتاب اللہ سے ثابت ہو یا حدیث سے یا اجماع سے۔ ”مصلحت“ کا لیبل لگا کر اجتماعی، اقتصادی، معاشرتی، سیاسی ہر میدان میں ”مغربیت“ کے موافق تبدیلیاں کردینا، اجتہاد کے دروازے کو ہر کس و ناکس کے لیے کھول دینا، چاہے عالم ہو چاہے جاہل کوئی بھی ہو۔ سنت یعنی احادیث ِمبارکہ ”عقل “”قرآن“ اور ”زمانہ“ سے متصادم ومعارض ہے، کہہ کر کلی یا جزوی طور پر انکار کردینا۔ ان کے یہاں تجدید نام ہے، حاضرکاماضی سے اور خلف کا سلف سے مکمل طور پر ناطہ توڑنے کا؛ اسی طرح تجدید نام ہے اہل ِسنت والجماعت کی تذلیل و تردید کا۔ اور فِرَقِ باطلہ مثلاً: معتزلہ، خوارج ،شیعہ ، وغیرہ کی تعظیم وتمجید اور تائید وپیروی کا۔ تجدید نام ہے عقل کو نقل پر مقدم اور راجح کرنے کا۔اسی طرح مغرب سے متأثر ہوکر خلافت کا انکار اور جمہوریت کو شوریٰ والی آیتوں اور حدیثوں سے صحیح ثابت کرنے کا۔
یہ تھا تجدد پسندوں کے نزدیک تجدید کا مفہوم، جوسراسر خلاف ِشرع بل کہ شریعت کو معطل کرنے کے مرادف ہے ۔(۶۲)
اہل سنت والجماعت کے یہاں تجدید کا صحیح مفہوم:
معنی تجدید سلف صالحین کے نزدیک تجدید اور مجدد کامفہوم وہ نہیں جو تجدد پسندوں کے یہاں ہے، بل کہ سلف ِصالحین مجدد کہتے ہیں، ان خواص امت کو، جو علم ِصحیح اور حق وباطل کو ممیز وممتاز کرنے میں مشہور ومعروف ہوئے؛ امام سیوطی فرماتے ہیں: یشار بالعلم الی مقامہ ۔(۶۳)
جوسنت کا احیاء کرے اور بدعات کا زور دار انداز میں رد کرے۔ مجددکے آثار اور اثر امت پر بڑا گہرا ہوتا ہے، مجدد سلف صالح کے طریقہ کا پیروکار ہوتاہے، اورحاضر کو ماضی سے مربوط کرتاہے ، مجدد صرف زبانی جمع خرچ کرنے والا نہیں ہوتا ہے بل کہ اسلام اس کی زندگی کا جزء لاینفک ہوتا ہے، یعنی عملی طور پر وہ اسلام کا مکمل تابعدار اور مطیع ہوتا ہے، ”مجدد“ اسلاف ِامت کا احترام کرنے والا اور ان کا احسان مند ہوتا ہے، ”مجدد“ اپنے مجدد ہونے کا دعویٰ نہیں کرتا، بل کہ امت ان کی عظیم خدمات دینیہ کو دیکھ کر انہیں ”مجدد“ سے یاد کرتی ہے۔ (۶۴)
علماء نے قرنِ اول سے لے کر اب تک کے مجددین کے نام اس طرح گنوائے ہیں:
مُجَدِّدِیْن (پہلی صدی سے چودھویں صدی تک ):
پہلی صدی میں : حضرت عمر بن عبدالعزیز ۔
دوسری صدی میں : حضرت محمد بن ادریس شافعی ۔
تیسری صدی میں: حضرت الحافظ ابوالعباس احمد بن شریح ۔
چوتھی صدی میں : ابوبکر بن الخطیب باقلانی اور امام سہل بن ابو حامد۔
پانچوی صدی میں : ابوحامد الغزالی ۔
چھٹی صدی میں : ابو عبد اللہ رازی اور امام رافعی۔
ساتوی صدی میں: تقی الدین بن دقیق العید ۔
آٹھویں صدی میں: زین الدین عراقی و شمس الدین جزری و سراج الدین بلقینی رحمہم اللہ تعالیٰ۔
نویں صدی میں: جلال الدین عبدالرحمن سیوطی اور شمس الدین سخاوی رحمہما اللہ تعالیٰ ۔
دسویں صدی میں: شمس ابن شہاب الدین رملی اور ملا علی قاری رحمہما اللہ تعالیٰ ۔
گیارھویں صدی میں:حضرت شیخ احمد سرہندی مجدد الف ثانی ۔
بارھویں صدی میں: حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی ۔
تیرھویں صدی میں: شاہ اسماعیل اور سید احمد شہید بریلوی۔
چودھویں صدی میں: حضرت شاہ اشرف علی تھانوی رحمہ اللہ تعالیٰ ۔ (۶۵)
یہ تھی تجدید و تجدد کے بارے میں تفصیلات۔ بہرحال حق و باطل کی خارجی و داخلی معرکہ آرائی ہمیشہ جاری رہی ہے اور تاحین ِقیامت جاری رہے گی، مگر سب سے زیادہ عبرت انگیز اور سبق آموز بات ہمارے لیے یہ ہے کہ ہم حق کو تسلیم کریں اور حق ہی پر قربان ہو جائیں، اور ہر طرح کے باطل اثرات سے اپنے آپ کو بچانے کی کوشش کرتے رہیں، اس مقالہ کے ذریعہ کسی کی اہانت ہرگز مقصود نہیں، بس نیت اور مقصد یہ ہے کہ دارالامتحان دنیا میں جو ہمارے اِردگرد وسائل ِخیر وشر گردش کرتے رہتے ہیں، تو ہم وسائل خیر کو اپنائیں اور وسائل شر سے اپنے آپ کو بچائیں۔
حواشی و مأخذ:
(۱)مجلة ”الرابطة“العدد۵۰۳، ۱۴۲۹ھ ۲۰۰۸ء، ص۵۰
(۲) و ہو حدیث صحیح رواہ حاکم فی المستدرک و البیہقی فی کتاب المعرفة و الطبرانی فی المعجم الاوسط و صححہ العراقی و ابن حجر و السیوطی، سنن ابی داوٴد:۴/۱۰۹ عن ابی ہریرة
(۳)توالی التاسیس:ص۴۸
(۴)جامع الاصول:ج۱۱/ص۳۲۱
(۵)توالی الناس:۴۹
(۶)از مقدمہ تجدید دین کامل:ص۲۲
(۷)مقدمہٴ تجدید دین کامل:ص۱۹
(۸)کلیدی خطبہ فقہ اکیڈمی کے سیمینار برہانپور کے موقع پر بندے نے خود سنا اور تحریر کرلیا تھا اسی یادداشت سے یہاں نقل کیا گیا ہے
(۹)از مقدمہ تجدید دین کامل:ص۲۲
(۱۰)از مقدمہ تجدید دین کامل:ص۲۳
(۱۱)از مقدمہ تجدید دین کامل:ص۲۳
(۱۲)از مقدمہ تجدید دین کامل:ص۲۲
(۱۳)از مقدمہ تجدید دین کامل، حاشیہ۱:ص۲۲
(۱۴)مجموعہ فتاوی عبدالحئ :ج۱/ص۱۱۶
(۱۵)جدیدیت کا تنقیدی تناظر:ص۳۸
(۱۶)سائنسی ترقی میں اسلام اور مسلمانوں کی خدمات:۳۷،۳۸
(۱۷)سائنسی ترقی میں اسلام اور مسلمانوں کی خدمات:۳۹،۴۰
(۱۸)العصرانیون بین مزاعم التجدید و میادین التغریب:ص۱۳-۲۹، ملخصاً
(۱۹)موقف المدرسة العقلیة من السنة النبویة:ص۳۵۵، الامین الصادق
(۲۰)مجلة ’الرابطة‘، العدد۵۰۳، ۱۴۲۹ھ ۲۰۰۸ء، ص۵۵
(۲۱)مذاکرات السلطان عبدالحمید:ص۶۷
(۲۲)الإسلام و النصرانیة: بحوالہ العصرانیون:ص۵۹
(۲۳)منہج :ص۳۵۶
(۲۴)تفسیر المنار:ج۲/ص۵۶۱
(۲۵)الاعمال الکامل لعبدہ:۵/۸۴
(۲۶)تفسیر المنار:۱۱/۱۵۵
(۲۷)مجلة المنار، مجلد ۳۰، جزء۵/۳۷۲
(۲۸)مجلة المنار:ج۴۳/ص۹۴
(۲۹)مجلة المنار:ج۲/۵۶۶
(۳۰)موقف المدرسة العقلیة من السنة النبویة:، الامین الصادق:ص۶۴۴
(۳۱)مجلة المنار:ص۸۵۲، مجلد۱۰
(۳۲)تاریخ الإمام محمد عبدہ: ۳/۸۴
(۳۳) الصراع بین الفکری الاسلامیة و الفکرة الغربیة:ص۷۱
(۳۴)العصرانیون بین مزاعم التجدید المیادین التغریب:ص۷۸
(۳۵)تصانیف احمدیہ:ج۱/ص۲۱، بحوالہ خودنوشت افکار سرسید:۳۵
(۳۶)ترقیم :ص۲۱، بحوالہ خودنوشت افکار سرسید:۳۸
(۳۷)تفسیر القرآن:۱۶۷ ، سرسید، بحوالہ خودنوشت افکار سرسید:۴۰
(۳۸)تبیین الکلام:۲۶۸، بحوالہ خودنوشت افکار سرسید:۴۱
(۳۹) آخری مضامین:ص۱۳۳، بحوالہ خودنوشت افکار سرسید:۴۲
(۴۰) خطوط سرسید:۱۰۰، بحوالہ خودنوشت افکار سرسید:۴۷
(۴۱) خطبات احمدیہ:۱۸۲، بحوالہ خودنوشت افکار سرسید:۴۷
(۴۲) تہذیب الاخلاق:ص۳۹۲، بحوالہ خودنوشت افکار سرسید:۴۹
(۴۳) سفرنامہ پنجاب:ص۱۹۷، بحوالہ خودنوشت افکار سرسید:۵۶
(۴۴) تبیین الکلام:ص۷، بحوالہ خودنوشت افکار سرسید:۶۲
(۴۵) تفسیر القرآن:ص۴۷۲، بحوالہ خودنوشت افکار سرسید:۶۵
(۴۶) ایضا:۲۴۱، بحوالہ خودنوشت افکار سرسید:۶۶
(۴۷) ایضا:۸۰،۸۱، بحوالہ خودنوشت افکار سرسید:۶۸
(۴۸) ایضا:۲۱۱، بحوالہ خودنوشت افکار سرسید:۷۰
(۴۹) مقالات سر سید:۱۲۷، بحوالہ خودنوشت افکار سرسید:۷۵
(۵۰)تفسیر القرآن:ص۲۷، بحوالہ خودنوشت افکار سرسید:۸۵
(۵۱) مکتوبات سرسید:ص۱۱۶، بحوالہ خودنوشت افکار سرسید:۸۵
(۵۲) تفسیر القرآن:ص۴۸، بحوالہ خودنوشت افکار سرسید:۸۹
(۵۳) ایضا:۸۰، بحوالہ خودنوشت افکار سرسید:۹۰
(۵۴) تصانیف احمدیہ حصہ اول، ج۱/ص۲۱، بحوالہ خودنوشت افکار سرسید:۹۱
(۵۵) آخری مضامین:ص۱۰۴، بحوالہ خودنوشت افکار سرسید:۱۱۹
(۵۶)تفسیر القرآن:ص۲۵۳، بحوالہ خودنوشت افکار سرسید:۱۲۰
محمد عبدہ اور سرسید کے بعد کلی یا جزوی طور پر ذیل میں دی جارہی شخصیات بھی ان کے ہمنوا ٹھہریں:وحیدالدین خان، ارشد شاز، ڈاکٹر فرحت نسیم ہاشمی، غامدی، ڈاکٹر فضل ا لرحمن، عمر احمد عثمانی، ڈاکٹر اسرار احمد، ڈاکٹر محمد گورایہ، محمد حنیف ندوی، محمود الشرقاوی، امین الخولی، عبداللہ العلایلی، محمد فتحی عثمان، حسین جوزی، محمد نویہی، محمد خلف اللہ، قاسم امین، امینہ ودود، محمد ذیشان خان،سید حامد، ڈاکٹر مسعود الدین عثمانی، محمد اکبر شاہ، تمنا عمادی، نیاز فتح پوری،غلام جیلانی برق، علامہ مشرقی، ڈاکٹر حسن تُرابی، رفاعہ طہطاوی، خیرالدین تونسی، محمد عمارہ، حسن حنفی، وغیرہ )
(۵۷) خودنوشت افکار سرسید:ص۱۵
(۵۸) امداد الفتاوی:ج۶/ص۱۶۷،۱۶۸
(۵۹) امداد الفتاوی:ج۶/ص۱۸۳،۱۸۴
(۶۰) مجلة الشریعة و الدراسات الاسلامیة، العدد۶۸، صفر ۱۴۲۸، مارس ۲۰۰۷ء
(۶۱) من اجل صحوة راشدہ: ص۴)
(۶۲) مجلة ”النور“ جامعہ اکل کوا، المجلد ۲۹،العدد ۶۱،ص۳۰،۳۱،۳۲، رجب، شعبان، رمضان،۱۴۲۹
(۶۳) التنبئة: ۴۷
(۶۴) مجلة ”النور“ جامعہ اکل کوا، المجلد ۲۹،العدد ۶۱،ص۳۳، رجب، شعبان، رمضان،۱۴۲۹
(۶۵) عجائب المخلوقات:ص۵۶، و مجموعہ فتویٰ:۱/۶۵
(مقالہ کی تیاری میں مذکورہ بالا مآخذ سے رجوع کیا گیا لیکن بعض جگہ تغیر یسیر سے کام لیا گیاہے، اور بعض عبارات میں کچھ باتیں درست تھیں اور کچھ میں فکر، فاسد اور تعبیر، نامناسب تھی ان کوبدل دیاگیا۔اس کے بعد بھی اگر مقالہ میں کوئی ایسی بات آگئی ہو جومسلکِ اہل حق کے خلاف ہو اور فکر ِصحیح کی ترجمانی نہ کرتی ہو تو اگر کوئی صاحب توجہ دلائے تو سمجھ میں آجانے کے بعد آئندہ اس سے رجوع کرنا آسان ہوگا، اور اس قلمی تعاون میں اعانت علی الخیر اور الدال علی الخیر کے تحت وہ صاحب اجر کے بھی مستحق ہوگے۔انشاء اللہ ۔ف)