مقالہ نگار: مولانا محمد حذیفہ غلام محمد وستانوی
برموقع دہ روزہ سیمینار (۱۲/جنوری تا ۲۱/ جنوری۲۰۱۰ء)
جامعہ اسلامیہ اشاعت العلوم، اکل کوا، ضلع نندوربار، مہاراشٹر
زیرنگرانی: مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی، حیدرآباد
الحمد للہ رب العا لمین و الصلوة و السلام علی سید المرسلین و معلّم الجن و الانس أجمعین و علی اٰلہ الطاھرین و أصحابہ الموٴیدین و علی من تبعھم باحسان إلی یوم الدین․ أما بعد!
قال اللہ تبا رک و تعالی: اقرأ باسم ربک الذی خلق۔ خلق الانسان من علق۔ اقرأ وربک الأکرم۔ الذی علم بالقلم۔ علم الانسان ما لم یعلم۔ کلا ان الا نسا ن لیطغی۔ ان رأہ استغنی۔ ان إلی ربک الرجعی۔
و قال ایضاً: أم حسب الذین اجترحوا السیئات۔ ان نجعلھم کالذین اٰمنو ا و عملوا الصالحات۔ سواءً محیاھم و مماتھم ساء ما یحکمون۔
ہم سب سے پہلے اس رب ذو الجلا ل کے شکر گذا ر ہیں، جس نے ہم کو اور ہما ری ضروریات کو وجود بخشا اور ہمیں اشر ف المخلو قا ت کی صورت میں پیدا کیا؛ سا تھ ہی ہدایت ِاسلام سے آراستہ وپیراستہ کیا اور اس سے بڑا احسان یہ ہوا کہ ہمیں سید الخلا ئق، افضل البشر اما م الانبیا ء و المر سلین قائدالاتقیا ء، رئیس الز اہدین، معلم البشر، صاحبِ خلق عظیم، احمد مصطفی محمد مجتبیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کی امت میں پیدا کیا اور اللہ کے احسا نا ت کی بارش اس پر نہیں تھمی ؛بل کہ ہم کو تعلیم وتعلّم سے وا بستہ کیا اور وہ بھی دینی تعلیم سے وابستگی سو نے پر سوہاگ کا صحیح مصدا ق ہے۔
اللہ ہمیں نعمتِ انسا ن، نعمتِ ایمان، نعمتِ فردِ امت محمدیہ اور نعمتِ علمِ دین کی قدر دانی کی تو فیق بخشے، اور اللہ ہم سے راضی ہو جا ئے۔ آمین یا رب العالمین!
اللہ کی حمد وثنا ا ور تشکر بالنعم کے بعد میں اپنے مضمو ن ”تعلیم اور سما جی خرابیاں“ پر کچھ روشنی ڈالنا چاہو ں گا۔
دعا فر ما ئیے! اللہ تعا لیٰ مفید اور کا ر آمد با تیں بیان کر نے کی تو فیق مر حمت فر ما ئے۔ آمین یا رب العا لمین ۔
عنوا ن کے دو جز ہیں:
ایک ہے ”تعلیم“ اور دوسرا ہے ”سما جی خرا بیاں“ ۔
میں پہلے ”تعلیم“ کے با رے میں کچھ بنیا دی اور ضر وری امو ر پر روشنی ڈالنا چاہوں گا ، پھر ”سما جی خرابیوں“ پر ۔
”تعلیم“ یہ در اصل عربی زبا ن کا لفظ ہے، یہ مشتق ہے ”علم“ سے، با ب تفعیل کا مصدر تفعیلٌ کے وزن پر تعلیمٌ ہے، جس کے معنی ہے ”سکھانا“ اور باب تفعیل کے منجملہ خاصوں کے ایک خا صہ ”تکلیف“ ہے یعنی کسی چیز کو بہ تکلف انجا م دینا۔
اس سے یہ بات معلو م ہو ئی کہ بہر حال سکھا نا کو ئی آسا ن کا م نہیں، سکھا نے میں محنت اور مشقت سے کا م لینا ہو تا ہے، تب جا کر سیکھنے والے کو کچھ حا صل ہو تا ہے ۔
جیسا کہ ابھی ابھی بیا ن کیا گیا کہ ”تعلیم“ یہ مشتق ہے ”علم“ سے، اور مشتق اور مشتق منہ میں ربط کا ہو نا ضروری ہے ،لہٰذا تعلیم کے مغر بی اور اسلا می مقا صد اور نظر یا ت کو جاننے سے پہلے، ہم ”علم“ کی لغوی واصطلا حی تعریف اور اس کی تقسیم اور اسلا م اور مغر ب کا اس با رے میں کیا نظر یہ ہے؟ اس سے واقف ہو جا ئیں، کیوں کہ علم پر تعلیم کا مدار ہے، لہٰذا تعلیمی نظریا ت میں اختلاف کا پہلا زینہ ہی ”علم“ ہے، اگر علم کی حقیقت میں اختلا ف ہوگا تو تعلیمی نظر یہ پر بھی اس کا اثر ہوگا۔
علم کی لغوی تعریف:
علم کہتے ہیں اس چیز کو جس کے ذریعہ اشیائے مختلفہ کا ملکہ پیدا ہو۔ (ابن فارسی)
اصطلاحی تعریف:
”الصورة الحاصلة فی الذہن“ علم :ذہن میں حاصل ہونے والی صورت کو کہا جاتا ہے۔
علم شرعی کی تعریف:
”علم ما انزل اللہ علی رسولہ من الہدی و البیان“۔علم شرعی اس کو کہتے ہیں ،جو اللہ رب العزت نے نبیٴ کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر ہدایت اور وضاحت کی غرض سے نازل کیا ۔
اسلامی تناظر میں ’علم‘ کا اطلاق جمہورعلماء اہلِ سنت والجماعت کے نزدیک ”علم شرعی“ پر ہوتا ہے، کیوں کہ عام طورپر قرآن وحدیث میں ’علم‘ کا لفظ جب معرفہ استعمال کیاگیا، یعنی ”العلم“تواس سے مراد”علم شرعی“ ہی ہوتاہے، جیسے ایک مقام پر ارشادِخداوندی ہے : ”ولئن اتبعتَ اہواء ہم من بعد ماجاء ک من العلم“۔حدیث میں بھی ”طلب العلم فریضة“سے اسی جانب اشارہ ہے۔
اورقرآن نے جب ”علمِ شرعی“ کے علاوہ کسی اور دنیوی علم کے لئے ”علم“ کااستعمال کیاتومثلاً:قارون کاقول نقل کیا ”قال انما أوتیتہ علی علم عندی“، علم نکرہ ہے، زمین سے خزانہ نکالنے کا فن اورہنرمرادہے۔ قرآن وحدیث میں غوروخوض سے اکثریہ ہی محسوس ہوتا ہے۔
علم کاصحیح اسلامی مفہوم ومقصد
علم اور اسلام:
اسلام کا نظریہٴ علم، بالکل واضح ہے، اسلام نے اول یوم ہی سے علم کی ترغیب دی ہے، اور اس کے بے شمار فضائل اور مناقب بیان کیے ہیں، بل کہ اسے مقصدِ حیات اور عبادت کا لازمی عنصر قرار دیا ہے، سب سے پہلی وحی علم ہی کے بارے میں نازل ہوئی، کیوں کہ علم کے بغیر معرفتِ الٰہی ممکن نہیں، اور معرفتِ الٰہی کے بغیر اس کی عبادت صحیح معنوں میں متصور نہیں، اور عبادت کے بغیر زندگی نہیں، گویا زندگی کو بامقصد گذارنے کے لیے علم زینہ اور وسیلہ ہے، اور بغیر وسیلے اور زینے کے انسان کا بلندی پر چڑھنا ممکن نہیں، اسی طرح اللہ تک پہنچنا بھی بغیر علم کے ممکن نہیں، اسی لیے بعض مفسرین نے:”و ما خلقت الجن و الانس الا لیعبدون“ کی تفسیر ”اِلاَّ لَیَعلمون“ سے کی ہے، یعنی پہلے ”یعلمون“ تب جاکر ”یعبدون“علی وجہ المطلوب ادا ہوگا ،و رنہ بغیر علم کے ”یعبدون“ کا تصور کماحقہ ناممکن ہے، جیسے وضوکے بغیر نماز نہیں ہوسکتی، آگ کے بغیر لذیذ کھانا نہیں پک سکتا، بالکل اسی طرح علم کے بغیر لذیذ یعنی صحیح عبادت نہیں ہوسکتی، اسی لیے غارِ حرا کی پہلی وحی میں ”اِقرأ بسم ربک“ کو نازل کیا گیا ”اعبُد رَبک“ کو نہیں نازل کیا۔
اس سے معلوم ہوا کہ علم وسیلہٴ عبادت ہے ؛بل کہ امام ابن شہاب زہری تو کہا کرتے تھے، کہ عبادتوں میں سب سے افضل عبادت ”تحصیلِ علم“ہے، اب یہ بات روز ِروشن کی طرح عیاں ہوگئی کہ علم اور اسلام کا چولی دامن کا ساتھ ہے، اسلام نے دنیا میں بے شمار انقلاب پیدا کیے، اسی میں سے ایک علمی انقلاب بھی ہے، اسی لیے اسلام نے معاملات اور معاشرت کے احکام پر اکتفا نہیں کیا، بل کہ ان علوم ِشرعیہ کے ساتھ ساتھ علوم ِکونیہ، علوم تجربیہ سے بھی بحث کی، اور ہر طرح کے علم کو، نیَّتْ کی درستگی کی صورت میں مفید اور باعث ِاجر وثواب گردانا، بلکہ کسی کو فرض کفایہ، کسی کو فرض عین، کسی کو مستحب اور کسی کو مندوب قرار دیا۔
اسلام نے اہلِ علم کو سب سے افضل قرار دیا، قرآن نے اعلان کیا: ”انما یخشیٰ اللہ من عبادہ العلماء“، کہیں ”قُل ہَلْ یستوی الذین یعلمون و الذین لا یعلمون“، کہیں قلم کی قسم کھا کر کتابت علم کی طرف اہتمام کا اشارہ دیا: ”ن ، و القلم و ما یسطرون“، کہیں تفکر اور تدبر کی دعوت دی اور کہا: ”ما تری فی خلق الرحمن من تفاوت فارجع البصر ہل تری من فطور“، کہیں کہا :”أ فَلا یتدبرون القرآن“، کبھی حقائق کو معلوم کرنے کے لیے ”سیروا فی الأرض فانظروا“کہہ کر حوصلہ افزائی کی، کہیں خود اپنی خلقت پر غور و فکر کی دعوت دی: ”و فی انفسکم أ فلا تبصرون“ کہا، تم خود اپنی ذات پر غور و فکر نہیں کرتے، کہیں چاند اور سورج کی منزلوں، رات و دن کے آنے جانے کو معجزہٴ الٰہی کے طور پر بیان کیا۔
خلاصہ یہ کہ اسلام نے ”علوم“ کے دروازے کھول کر رکھ دیے اور مسلمانوں کو اس میں غوطہ زنی کی دعوت دی، اور بابِ علم میں مسابقہ آرائی پر آمادہ کیا، اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ”امتِ مسلمہ“ نے اس باب میں بے مثال کردار ادا کیا، اور ہر فن میں اولویت کا اسے شرف حاصل ہے، تاریخ نے اپنے صفحات پر نقش کر لیا کہ روئے زمین پر تخلیق آدم سے لے کر اب تک اگر پڑھنے لکھنے کا ریکارڈ کسی کے نام ہے، تو وہ اسی امت محمدیہ کے نام ہے، جس نے علم کی تحصیل ، تالیف و تصنیف، تدوین و تحقیق، جدت اور ابتکار، اور دقت و عمق میں جو عظیم کردار ادا کیا، کوئی نہ اس سے پہلے اس کا ہمسر ہو سکا اور نہ آئندہ ہونے کا امکان ہے۔
آغوشِ اسلام میں اتنے علوم و فنون پلے بڑھے اور وجود میں آئے کہ اس کا احاطہ ناممکن ہے، آج دنیا میں جو بھی ظاہری و باطنی ترقی ہو رہی ہے، وہ سب امتِ مسلمہ کے فیض ِبے مثال کا نتیجہ اور ثمرہ ہے، ان تمام علوم کی تخم ریزی اسلام اور اہلِ اسلام نے ہی کی ہے، اور چھان پھٹک کا صحیح حق اسی نے ادا کیا ہے (یعنی فلاسفہٴ یونان، ہند، فار س وغیرہ نے اپنی کاوشوں میں جو ٹھوکریں کھائی تھیں، ان کی تحقیقات کا غائرانہ اور ناقدانہ مطالعہ کرکے اس کی نشاندہی کی) اللہ علمائے اسلام کو اس کا بہترین صلہ عطا فرمائے۔ آمین!
آج اگر کوئی یہ دعویٰ کرے کہ اسلام اور مسلمانوں کی ترقی،فلسفہٴ ہند، فلسفہٴ فارس ، فلسفہٴ روما کے دوش پر ہے، تو سراسر ناانصافی اور غلط بیانی ہے،اور حقائقِ تاریخ میں تحریف ہے، اس لیے کہ اہلِ اسلام نے ان فلسفوں میں جو غش اور کھوٹ تھی، اسے چھان کر منقیٰ کیا، ”علم ِوحی“ کے بعد ، جو کہ خالق و مالک نے اپنے لامحدود اور وسیع علم سے عطا کیا تھا؟
انصاف پسندوں کو یہ بات تسلیم کرنی ہوگی کہ مسلمانوں نے ایک ہزار سال سے زائد عرصے تک علم پر محنت کرکے ”انسانوں“ کو صحیح رُخ پر لاکھڑا کیا، اسی کے روشن کئے ہوئے چراغوں سے آج دنیا روشنی حاصل کررہی ہے، ”انسانیت“ کو اس بات پر مسلمانوں کا احسان مند ہونا چاہیے اور بجائے اس کے کہ وہ ان پر ظلم کرے انہیں مزید موقع دینا چاہیے، تاکہ ”مکار“ مغرب کی طرح علم کے نام پر دنیا ضلالت و گمراہی کی راہ سے ہٹ کر مدلل و مبرہن اسلام کو قبول کرلے، اگر واقعتا ان میں ”علمیت پسندی“ اور ”جذبہٴ معرفت“ ہے؛کیوں کہ دنیا اور آخرت کی کامیابی کے لیے اس کے بغیر کوئی چھٹکارہ ہی نہیں۔
کیا لوگوں کی عقلیں ماری گئی ہیں اور بینائی سلب ہو چکی ہے، اس بات کے سلسلہ میں کہ ”امتِ محمدیہ صلی اللہ علیہ وسلم“ کے ہزاروں افراد نے اپنی قیمتی زندگیوں کو محض انسانیت کی نفع رسانی کی لیے صرف کردیا،اور ”اُخرجت للناس“ کا حق ادا کردیا، جس کے نتیجہ میں کتابوں سے مکتبے کے مکتبے بھر گئے، آج ان کی کاوشوں کے عُشر عشیر کی طباعت کے بعد یہ حال ہے، حالاں کہ ابھی تو اس سے دسیوں گُنا کاوش مخطوطات کی صورت میں طباعت کی منتظر ہے، اور اعدائے اسلام نے دشمنی کی خاطر کتنے بڑے ذخیرے کو تودریا برد کردیا، یا جلا دیا، یا سمندروں کی نذر کردیا۔
علوم کی تعداد:
اس امت نے انسانوں کو کتنے علوم مدون کرکے فراہم کیے ، اس سلسلے میں امام رازی اپنی کتاب ”الاَنوار فی حقائق الاَسرار“ میں تحریر فرماتے ہیں کہ ”امتِ محمدیہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مدون کردہ علوم کی تعداد ۶۰/ہے، امام عبدالرحمن بن محمد بسطامی کی رائے کے مطابق ۱۰۰/ علوم ہیں، شیخ عصام الدین احمد ابن مصطفی طاش کبری زادہ کی تحقیق کے مطابق ۵۰۰/ ہیں، اور بعض نے اس سے بھی کئی گنا زیادہ شمار کرائے، کسی کو اگر یہ شبہ ہو کہ یہ سب مبالغہ آرائی ہے، تو اس کی دو وجہیں ہو سکتی ہیں، یا تو تعصب یا تاریخ سے عدم ِواقفیت، کیوں کہ یہ بات بالکل عیاں اور واضح ہے۔ آپ ”علمائے اسلام“ کے تصنیفی، تالیفی، اور علمی کارناموں کو اٹھا کر پڑھئے، بات سمجھ میں آجائے گی۔
اور ایسا کیوں نہ ہو جب کہ اس مذہب نے علم کو دین کا ایک لازمی جز اور عضو قرار دے دیا، جس کے بغیر کسی کو چارہٴ کار نہیں اور اعلان کیا: ”طلب العلم فریضة علی کلم مسلم“۔ (تنزیہ الشریعة:۱/۲۵۸ ،بحوالہ جامع بیان العلم وفضلہ:ابوعمر یوسف ابن عبدالبر)
علم کا صحیح اسلامی مفہوم:
اِختراعات کے اس دور میں جو فتنوں کے عروج کا دور ہے، جہاں بہت سارے الفاظ و اصطلاحات کو اس کے اصل مفہوم سے ہٹا کر غیر اصل کی طرف مائل کرنے کی کوشش کی گئی، انہیں میں سے ایک علم بھی ہے۔ ”روشن خیال“ مسلمانوں کے ساتھ ساتھ ہمارا اچھا خاصا سنجیدہ دین دار طبقہ بھی بے جا وُسعت ظرفی کا مظاہرہ کرتے ہوئے، معنیٴ علم میں بے جا وسعت دینے کے درپے ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ علم ایک اِکائی ہے، اس کی تقسیم ممکن نہیں، لہٰذا علم دین اور علمِ دنیا یہ تقسیم غلط ہے، تمام علوم ایک ہی ہیں۔ قرآن و حدیث نے جس علم کی فضیلت بیان کی ہے، وہ ان تمام کو شامل ہے، جب کہ علمائے ربانیین اور راسخین فی العلم کی اکثریت بل کہ جمہور علما اس کے قائل ہیں کہ یا تو علم کی تقسیم ہی مُسَلَّم نہیں، علم صرف ایک ہے اور وہ ہے علم دین، کیوں کہ وہ آخرت کی فکر پیدا کرتا ہے، لہٰذا قرآن و حدیث میں جو فضیلت وارد ہے، وہ صرف اسی کی ہے، کسی اور کی نہیں، اور دنیوی علم، علم کے زمرے میں داخل ہی نہیں، وہ تو فن، ہنر اور کاریگری ہے، وہ علم کہے جانے کے قابل ہی نہیں، تب ان کا بھی موقف یہی ہے کہ علم اِکائی نہیں بل کہ علم ایک ہی ہے، اور اگر لغتاً معلومات کے معنی میں لیا جائے تب تو تقسیم کے سوا چارہٴ کار نہیں، آخرت کی فکر پیدا کرنے والا علم دین، اور دنیا اور معاش کا مسئلہ حل کرنے والا علم دنیا۔ اسی کو ”علم معاش و علم معاد“ بھی کہتے ہیں۔
حکیم الامت مجدد ملت حضرت مولانا اشرف علی تھانوی نور اللہ مرقدہ فرماتے ہیں: علم کا شرف معلوم کے شرف پر موقوف ہے، اور معلوم اس کو کہتے ہیں، جس کے حالات اس علم میں بیان کیے جائیں۔
علم دین کا معلوم حق تعالیٰ شانہ کی ذات ہے، اور تمام علم دین کا حاصل بھی یہی ہے، اور دیگر تمام علوم کا معلوم ماسوی اللہ ہے، پس جو نسبت دنیا یا ماسوی اللہ کو حق تعالیٰ کے ساتھ ہے، وہی نسبت علوم دنیویہ کو علم دین کے ساتھ ہوگی، اور اس کی نسبت بجز اس کے کیا کہا جاسکتا ہے۔
ع چہ نسبت خاک را باعالم پاک
حق تعالیٰ کی ذات وصفات تو کسی چیز کے ساتھ کچھ نسبت نہیں رکھتی، وہ باقی اور سب فانی، وہ زندہ اور سب مردہ، وہ غنی اور سب محتاج، وہ موجود اور سب معدوم (کل شیء ہالک الا وجہہ)۔
غرض دونوں چیزوں میں کوئی نسبت نہیں قرار دی جاسکتی ہے، سوائے اس کے کہ علم دین پر موجود کا اطلاق کیا جائے، اور علم دنیا پر معدوم کا، اب میرا دعویٰ قریب الفہم ہوگیا ہے، کہ علم دین کے سامنے دیگر علوم علم کہلانے کے مستحق ہی نہیں، تو مقابلہ کیا کیا جائے! علومِ دنیا کو علم مت کہو، فن کہو، پیشہ کہو، حرفت کہو۔ (انفاس عیسیٰ)
شیخ الاسلام ترجمان اہل سنت و الجماعت حضرت مولانا شبیر احمد عثمانی نور اللہ مرقدہ تو ”جدید دور میں علم اور اس کا استعمال، فتنہٴ الفاظ کا جائزہ“ کے تحت فرماتے ہیں: موجودہ دورکے علمی و ذہنی فتنوں میں سے ایک بڑا فتنہ ’ ’فریب الفاظ“ کا بھی ہے، ایک لفظ جسے ہم بولتے ہیں، وہ اپنے مفہوم کے اعتبار سے ایسے حقائق پر مشتمل ہوتا ہے، جو بالکل صحیح و صادق، مقدس و متبرک، اور نہایت معقول و محمود ہے، مگر اسی لفظ کے عام لغوی معنی کی وسعت سے ناجائز فائدہ اٹھاکر اسے بہ طور تلبیس و تلمیح، ایک ایسے معنی کے لیے استعمال کیا جاتا ہے ،جو بجائے مقبول ہونے کے مردود اور مذموم ہوتا ہے، اس کا مقصد صرف یہ ہے کہ مخاطب کو مغالطہ دے کر، محض خوش نما اور دل فریب الفاظ سے مسحور کردیں۔
آزادی ، مساوات ، تہذیب ، ترقی اور اسی طر ح کے اور الفاظ ہیں، جو اگر اپنے اصلی وحقیقی معانی میں مستعمل ہوں ، نہا یت محمود، مستحسن اور قابلِ تعریف ہیں ، لیکن جب کسی زشت وشنیع مفہوم کو خوبصورت ظاہر کرنے کے لیے یہی الفاظ بطو ر نقاب استعمال ہونے لگیں، تو یہ خالص تلبیس و خداع ہے ۔ ٹھیک یہی صورت آج کل، لفظ ”علم “کے متعلق واقع ہوئی ہے۔
کسی مسلم اسکو ل کا افتتا ح ہو ، کسی کا لج کی بنیاد رکھی جائے، کسی یو نیور سٹی کی تقسیم ِاسناد کا جلسہ ہو ، آپ دیکھتے ہیں کہ حضرات مقررین کس شدومد سے ”علم “ کے فضائل میں، قرآنِ پاک کی بہت سی آیات اور رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بے شمار احادیث پڑھتے رہتے ہیں، گویا اپنے اس طرزِعمل سے مخاطبین پر یہ ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ جدید علم کے ایسے ایسے فضائل قرآن پاک میں موجود ہیں، حالاں کہ قرآن ِکریم کو ایک سرسری نظر سے پڑھ جائیے تو ظاہر ہوجائے گا کہ وہ خود علم کی دو قسمیں قرار دیتا ہے:
ایک علم نافع ومطلوب ومحبوب؛ دوسرا مضرومردود․․․․․․اس کے نزدیک ایک علم زہر ہے، دوسرا تریاق، ایک پاک شراب ہے، دوسرا محض سراب۔ ایک سببِ ہلاکت ہے ، دوسرا سامانِ نجات۔ ایک آسمان کی بلندیوں پر اٹھا نے والا ہے ، دوسرا اسفل السافلین کی پستیوں میں پہونچانے والا ۔
جو علم اپنے اثرات کے اعتبار سے آخرکار خشیت الٰہی اور رغبتِ آخرت پر منتج نہ ہو ، جو علم انسان کو خدا سے نڈراور زندگی کے آخری انجام سے بالکل غافل کردے، جو علم ایسی مادی دنیا کی لذت وانبساط وشہوات ِحیوانیہ کو (خواہ وہ کتنی ہی ترقی یافتہ شکل میں ہوں) انسان کا معبود ٹھہرائے ، کیا ایسا علم بارگاہ رب العزت میں درخور اعتنا یا لائق التفات ٹھہرسکتا ہے؟ یا قرآنِ حکیم اس کے اکتساب کی ایک لمحہ کے لیے بھی ترغیب دے سکتا ہے ؟
قرآن تو ایسے علم کی نسبت صاف طور پر یہ حکم دیتا ہے:” فَاعرض عن من تولیٰ عَن ذکرِنا و لم یرد الا الحیوة الدنیا ذلک مبلغھم من العلم “یعنی تومنہ پھیرلے اس کی طرف سے ، جس نے ہماری بات سے منہ پھیرلیا اور جس کا مقصد اس دنیوی زندگی سے آگے کچھ نہیں ،ان کے علم کی رسائی اور پرواز یہیں تک ہے۔
اس کے بالمقابل ایک وہ لوگ ہیں ، جو اللہ سے ڈرتے ہیں ، اس کی مخلوق پر رحم کھاتے ہیں اور ادب وتہذیب کے قاعدوں پر عمل کرتے ہیں۔اخلاقی پاکیزگی ان کا جوہر ہے ، ایمان کے نور سے ان کے دل روشن ہیں؛غرض کہ علم ان کے اندر اِنابت الی اللہ، رحمت علی الخلائق کے اوصاف پیدا کرتا ہے، تو اسی طرح کے اولواالعلم کے حق میں حق تعالیٰ کا ارشادہے: ”یرفع اللہ الذین اٰمنوا منکم و الذین أوتوا العلم درجات“۔
قرآن پاک نے ایک شخص (قارون ) کا ذکر کیا ہے ، جس کی دنیوی دولت اب تک ضرب المثل ہے۔ جس کے خزائن کی کثرت کا اندازہ ”ان مفاتحہ“ کے الفاظ سے ہوسکتا ہے ، جس کا سامان دیکھ کر لوگوں کی آنکھیں خیرہ ہوئی جاتی تھیں ، حتی کہ بہت سے تمنا کرتے تھے کہ”یالیت لنا مثل ما أوتی قارون انہ لذو حظ عظیم “ اس نے ترقی کی اس معراج پر پہونچ کر ایک علم کا دعویٰ کیا تھا ، جس کے ذریعہ اس کویہ عروج حاصل ہوا ”قال انما أوتیتہ علی علم عندی “۔
بہر حال وہ علم تھا ، اس کے بالمقابل دوسرا گروہ تھا ، جس کا ذکر حق تعالیٰ اس طرح فرماتا ہے : ”و قال الذین أوتوا العلم ویلکم ثواب اللہ خیر لمن آمن و عمل صالحًا“یہ”الذین اوتوا العلم “ اُس علم والے تھے جوقارون کے اُس تمام ترقیات اور علم وہنر کو حقیر سمجھ رہے تھے اور اُدھار کو نقد پر ترجیح دے رہے تھے۔ قرآن کریم نے تو ایک آیت میں مسئلہ کا دوٹوک فیصلہ کردیاہے: ”انما یخشی اللّٰہ من عباہ العلماء“۔
اس ”انما“کے لفظ پرغور کیجئے ۔ گویا جو علم قلب میں خشیت الٰہی پیدا نہ کرے ، وہ علم ہی نہیں ۔ ایسے اصطلاحی علم سے جہل ہزاردرجے بہتر ہے ۔
حدیث ِصحیح میں نبیٴ کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس علم سے پناہ مانگی ہے ، جو نفع سے خالی ہو، قرآن ِکریم میں بھی ہے: ”و یتعلمون ما یضرھم و لا ینفعھم “(سورہٴ بقرہ:۱۰۲)
معلوم ہوا کہ علم نافع بھی ہوتا ہے اور مضر بھی ۔
پس ایسے علوم جو انسان کو شیطان یا درندہ بنادیں یااسے ترقی یافتہ بہائم کے زمرہ میں داخل کردیں۔ ان کی طرف ترغیب دلانے کے موقع پر مطلق علم کے فضائل قرآن وحدیث سے پیش کرنا ،انتہائی تلبیس اور گمراہی ہے۔
مقصد یہ ہے کہ ہم یہ نہیں کہتے کہ علوم وفنون حاصل نہ کیے جائیں ، لیکن درخت اپنے پھل سے پہچانا جاتا ہے ، اگر علم وفن کی ترقی کا ما حاصل یہی ہے جو ہم دیکھ رہے ہیں تو فی الحقیقت ایسے علم سے جہل بہتر ہے ، اگر علم وفن کی چکا چوند کرنے والی ترقیات مذہبی اور دینی علم وتہذیب کے ماتحت رہتیں تو دنیا کو ایسے بھیانک نتائج ہرگز نہ دیکھنے پڑتے ۔
(بیداری ، حیدرآباد ،سندھ ، جون۲۰۰۶ء)
مذکورہ بالا تفصیل سے معلوم ہوا کہ علم کی دو قسمیں ہیں: ایک علم دین اور دنیا کے اعتبار سے۔ اور دوسرا نفع اور نقصان کے اعتبار سے۔ تحصیل علم دین تو خیر الناس والا عمل یعنی انسانوں کے کاموں میں سے ایک بہترین کام ہے، البتہ علم دنیا کے بارے میں یہ نہیں کہہ سکتے، ہاں اگر اچھی نیت ہو مثلاً کسبِ حلال کی نیت سے دینی تمام احکام کی رعایت کرتے ہوئے اسے حاصل کیا جائے تو ہوسکتا ہے کارِثواب ہو جائے ، جب کہ کوئی حلال چیز کا کسب ،حلال طریقے سے ہو، اور اگر محض ”علمِ دنیا“ ہی مقصود ہو، تب تو ہلاکت اور ضرر کے علاوہ کچھ بھی نہیں، جتنی احادیث اور آیات فضیلتِ علم میں وارد ہوئی ہیں، وہ سب علم دین کے بارے میں ہیں۔
حضرت تھانوی تو فرماتے ہیں کہ علم نام ہی علمِ نافع کا ہے، ورنہ اگر عمل نہ ہو تو علم نہیں معلومات ہے، چاہے علمِ دین ہی کیوں نہ ہو، کیوں کہ ایسا علم دین جس پر عمل نہیں بندہ پر حجت اور دلیل بن جاتا ہے، جو ازدیادِ عذاب کا سبب ہوگا، اسی لیے مفتیٴ اعظم حضرت مولانا مفتی محمد شفیع صاحب نوراللہ مرقدہ تحریر فرماتے ہیں، کہ علم کا ثمرہ اور اس کی حقیقی علامت اللہ تعالیٰ کی خشیت ہے۔
علم کی تعریف ومقصد:
مگر یہاں یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ علم وہی ہے، جس سے انسان کو انسانیت کا سبق ملے ، اخلاق فاضلہ میں رسوخ حاصل ہو ، تہذیب وشرافت پروان چڑھے،اور اس کے ساتھ وہ حق و باطل میں تمیز ، مغز وپوست میں فرق ، اور صلاح وفساد میں امتیاز کرنے کی صلاحیت بخشتا ہو، اور انسان کو صراطِ مستقیم پر گامزن کرتا ہو اور رضائے الٰہی اور قرب خداوندی کی دولت سے مالا مال کرتا ہو، اس کی کوئی پرواہ نہیں کہ وہ سائنس وٹکنالوجی (Science & Technology) کے علوم ہوں یا طب وانجینئری کے فنون ہوں، تاریخ وفلسفہ کے اسباق ہوں،یازبان وادب کے دروس ہوں، اگر یہ تمام علوم وفنون انسان کو اس مقصد تک پہنچاتے ہیں ،جو ابھی مذکور ہوا، تو بلا شبہ یہ علوم و فنون ہیں اور اگر اس مقصد تک نہیں پہنچاتے تو یہ سب ایک شعبہٴ جنون ہیں۔
علامہ اقبالنے کہا ہے
جوہر میں ہو لاالٰہ تو کیا خوف
تعلیم ہو گو فرنگیانہ
(جواہرِ شریعت:ج۱/۱۰۷)
تعلیم اور ہمارے اسلاف :
چناں چہ جس دور میں یہ تمام علوم وفنون اہل اسلام کے ہاتھوں پروان چڑھ رہے تھے، ان علوم وفنون سے انسان کو انسانیت کا سبق ، شرافت کا درس ، اخلاق ِفاضلہ میں رسوخ ، حق وباطل میں تمیز وپہچان کی صلاحیت ، بھرپور طریقے پر حاصل ہوتی رہی اور انسان ہدایت کی شاہراہ پر گامزن اور صراط ِمستقیم پر قائم تھا ، سائنس کا ہر سبق اس کے لیے وجودِ خداوندی اور توحید باری کا سبق تھا ،ٹکنالوجی کے فنون اس کے لئے قدرتِ خداوندی پر یقین کا باعث بن جاتے تھے،تاریخ کے واقعات اور قوموں کے عروج وزوال کی داستانیں ،اس کے لئے عبرت وموعظت کے اسباق قرار پاتے تھے ،اور وہ ان سے ہدایت حاصل کرنے پر مجبور ہوجاتاتھا:غرض یہ کہ تمام علوم وفنون اس کی رہنمائی کرتے تھے اور وہ رضائے الٰہی و قرب خداوندی کی دولت سے مالا مال ہوجاتا تھا۔
(ایضاً:۱۸)
زوالِ اسپین کے بعد:
مگراسپین کے زوال کے بعد جب یہ تمام علوم وفنون ( جس کو ہمارے اسلاف نے ایمانی فراست اور روحانی حرارت کے ذریعہ پروان چڑھایا تھا اور ان علوم وفنون سے انسانیت کی خدمت لیتے رہے) الحاد ودہریت کے شکار لوگوں ، خداورسول کے باغیوں ، انسانیت وشرافت سے محروم لوگوں ، حرص و ہوس کے پجاریوں کے ظالمانہ ومجرمانہ پنجے اور قبضے میں چلے گئے ، تو ان علوم وفنون کو ان کے اصل مقصد ومنشاء کے خلاف استعمال کیا جانے لگا اوراپنے ذاتی مفادات کے لیے ان کا کھلے طور پر استحصال کیا جانے لگا ۔اور یہ ملحد وزندیق اور اہلِ حرص وہوا لوگ اپنی مکاری وعیاری ، چالاکی وچالبازی سے شعبئہ تعلیم پر چھاتے ہی چلے گئے ، یہاں تک کہ ان علوم و فنون کو انہوں نے خدا اور رسولوں سے بغاوت ، مذہب وایمان سے عداوت ، انسانیت وتہذیب سے تلعب و استہزاء اور اخلاقی اقدار کی تحقیر وتوہین کے لئے استعمال کرنا شروع کردیا۔
اور آج کے دور میں علم وتعلیم نام ہی اس بات کا ہے کہ مذہب وایمان کو فضول اور بے کارچیز سمجھا جائے، اخلاقی اقدار جیسے شرم وحیاء تواضع و انکساری، احسان وسلوک وغیرہ کو عجز و کمزوری پر محمول کیا جائے اور انسانی اقدار کو دقیانوسی ٹھہرایاجائے اور اس کے برعکس ہر بے حیائی اور بے شرمی کو تعلیم کا لازمہ اور ہر بے ایمانی اور بد اعتقادی کو عقل وشعور کا نتیجہ اور ہر بد اخلاقی و بدتہذیبی کو روشن خیالی کا اثر قرار دیا جائے ۔ (ایضاً:۱۹)
اب آیئے! علم کے بارے میں مغربی نظریات پرایک اُچکتی ہوئی نظر دوڑائیں۔
علم کے بارے میں مغربی نظریات:
الحمدللہ! اللہ نے ہمیں مشرق میں پیدا کیا کیوں کہ اسم کا اثر مسمّٰی میں پایا جاتا ہے؛ مشرق کے معنی ”روشن“۔ اور الحمدللہ! مشرق کی تاریخ ہمیشہ روشن رہی ہے، پہلے نبی بھی اور اولواالعزم انبیاء بھی اسی حصے میں مبعوث کئے گئے؛ بلکہ تمام انبیاء اسی خطے میں مبعوث ہوئے۔ مغرب میں انسان آباد ہی مدتوں بعد ہوا، وہ انسان کی آبادی کے اعتبار سے بھی موٴخر اور اس کے افکار و نظریات بھی ظلمت کے شکار، ان کے اخلاق و اطوار بھی نہایت پست اور ان کی معیشت و معاشرت برائیوں سے تعبیر۔ تو آیئے! مغربی نظریہٴ تعلیم کے بارے میں ان کے نظریات پر ایک نظر ڈالتے ہیں۔
مغربی نظریہٴ علم کی اساس اور بنیاد ”عقل ِانسانی، مشاہدہ، تجربہ“ ہے؛ وحی سے کٹ کر محض ”عقل، تجربہ اور مشاہدہ“ پر پوری صلاحیتیں مرکوز کی جائے۔
(مستفاد از اسلام اور تہذیب مغرب کی کشمکش:۵۲)
اسی مغربی نظریہٴ علم کی وجہ سے مغرب نے دنیا کو ملحد دیے ، اس کا اندازہ ذیل میں دیے جارہے نظریات اور اقوال سے بخوبی ہوسکتا ہے۔
سورج کی مرکزیت کا نظریہ: کوپرنیکس (Copernicus-1473-1543)نے کائنات کا مرکز سورج کو ثابت کیا، جس سے ا نسان کی اشرفیت بھی ختم ہوگئی ؛کیوں کہ قرآن نے اصل مخلوق انسان کو قرار دیا۔ ”خلق لکم ما فی السموات وما فی الأرض“۔
خالص مادہ پسندانہ نظریہ: دیکارٹ (Descartes-1597-1650)کا نظریہ: دیکارٹ نے روح کو مادی جز سے اور ذہن کو جسمانی جز سے جدا کردیا، جس کے نتیجہ میں روح پر محنت کو ترک کر کے، انسان مادہ اور مادیت کے پیچھے لگ گیا اور اسی طرح گمراہیوں کا دروازہ کھول دیا گیا، اسی لئے دیکارٹ کو الحادِ جدید کا محرک کہا جاتا ہے؛ اس نے وحی کا انکار کردیا اور کہا: ”علم“ حواس اور عقل ہی سے حاصل ہو سکتا ہے۔
نظریہٴ انکار خالق: اسحق نیوٹن(Isac newton-1642-1727)نے خالق کا انکار کیا اور دعوی کیا کہ کائنات اور تمام اشیاء خود بہ خود وجود میں آگئی اور طبعی قوانین کے روشنی پر دنیا جاری وساری ہے۔
مادے کے غیرفانی ہونے کا نظریہ: لوائے زر (Lavoisier-1743-94) نے مادے کو غیرفانی قرار دیا یعنی یہ دنیا غیرفانی قرار دیا یعنی یہ دنیاغیر فانی ہے کبھی فنا نہ ہوگی، جس کو اب خود سائنس نے غلط ثابت کردیا ہے۔
مادے کے وجود حقیقی کا نظریہ: ٹائٹ (P.G.Tait-1876)نے کہا کہ حقیقی وجود مادے کا ہے انسان مادے کو نہ فنا کرسکتا ہے اور نہ پیدا کرسکتا ہے۔
نظریہٴ ارتقاء: آخر کار چارلس ڈارون (Dorwin-1809-82)نے کہاکہ طبعی قوانین کے زیرِ اثر دنیا میں حیات نمودار ہوئی اور حیات سے جرثومہ اور جرثومہ سے خلیہ اور خلیہ سے حیوان اور حیوان سے ترقی کرتے کرتے انسان وجود میں آگیا ،مگر بیسوی صدی میں خود سائنس نے اس کی تردید کر دی اور ثابت کیا کہ ہر مخلوق الگ الگ ہے، ڈارون نے یہ بھی دعوی کیا عقلِ انسانی غذا تلاش کرنے کا ایک آلہ ہے۔
نظریہٴ جنسیت: فرائڈ (Frend-1856-1939)نے ذہن انسانی غیر مادی نہیں اور انسان کے اعمال کا محرک ِاول جذبہٴ کشش جنسی ہے۔ اس کے افکارنے آزادشہوت رانی کی راہ ہموار کی اور ازدواجی تعلقات کی اہمیت ختم ہوگئی۔
نظریہٴ انکار مذہب: ڈرکھائم (Durkheim-1912)نے دعوی کیا کہ مذہب کا آغاز طوطمیت کے خرافات سے ہوا ،خوف ،خرافات ،شرک وبت پرستی کے مختلف مراحل سے گذر کر توحیدی مذاہب وجود میں آئے اس طرح مذہب کی بندش سے انسان کو آزاد کر دیا گیا۔
نظریہٴ انکار شعور: واٹسن (Watson-1958)نے انسان کے ذہنی شعور کا انکار کر دیا اور جسمانی کردارہی کو اصل قرار دیا۔
نظریہٴ نقص انسان ماضی: والٹیئر(Voltair-1758) نے ماضی کے انسان کو ناقص قرار دیا،جس سے انبیاء کی عظمت کو پامال کر دیا گیا۔
نظریہٴ ضبط ولادت: مالٹھیس (Malthus-1834)سے اللہ کی رزاقیت کا انکار کیا اور برتھ کنڑول کانظریہ پیش کیا۔
نظریہٴ انکار غیب: ہیگل(Hagla-1831) نے دعوی کردیا کہ جو موجود ہے وہی حقیقت، اسی طرح غیبیات کا انکار لازم آیا۔
نظریہٴ تفریق معیشت و دین: آدم اسمٹی (Adam smith-1823)نے معاشیات کے مذہب کو خارج کر دیا۔
نظریہٴ تفریق قانون و مذہب: جین آسٹن (Jane Austin-1813)نے قانون سے مذہب کو نکال باہر کیا۔
نظریہٴ انکار مذہب: ۱۷۶۶ء میں فری میشن لاج (Free mosson ladae)نے انسانی معاملات سے مذہب کو خارج کر دیا اور سیکولرزم کی بنیاد باقاعدہ ڈال دی۔
نظریہٴ عدم ابدیت خیر و شر: اسٹورٹ مل (Sturt Mill-1873)نے خیر وشر کو نفع بخش اور مضرت رساں کے پیمانہ پر رکھ دیا کہ جو نافع ہے وہ خیر اور جو مضر ہے وہ شر۔
نظریہٴ انکار آخرت: ہولیاک (Holyake-1906)نے آخرت کے وجود کا انکار کردیا۔
نظریہٴ وجودیت: جان پال سارتر(John Pall Sarter)نے وجودیت کے نظریہ کی تائید کی ،اور کہا آزادی کے لئے خدا ،مذہب اور اخلاق سے بے زاری لازم ہے۔
نظریہٴ انکار خدا: کارل مارکیس (Karl Marc-1883)نے کارزار حیات میں خدا کی کار فرمائی کا انکار کردیا۔
نظریہٴ موت خدا: نطشے (Nietshe-1900)نے توایسی جرأت کی کہ(الامان والحفیظ)” خدا مر چکا “ہے ،اناللہ وإنا الیہ راجعون۔
نظریہٴ انکار اخلاق: جان دیوی (John Dewy-1902)نے اخلاقی قدروں کا انکار کر دیا۔
نظریہٴ تفریق قوانین و مذہب: ۱۶۴۸ء میں یورپ کے سیاست دانوں نے صلح نامہ ویست فیلیا (Treaty of west phalia)کے ذریعہ مذہبی اور دنیوی قوانین میں تفریق کی قرارداد پاس کی ۔
نظریہٴ حقوق نسواں: والسٹن کرافٹ (Wall stone craft-1797)نے خواتین کے حقوق کا ہوّا کھڑاکیا۔
نظریہٴ پرستش وطن: فکٹے نے سب سے پہلے وطن پرستی کی دعوت دی۔
نظریہٴ حقوق انسانی: ۱۷۸۹ ءFrench Revolution کے دوران”حقوق انسانی “کے نام پر قانون عوام کی رضامندی کی مطابق ہو،کااعلان کیا گیا۔
نظریہٴ ریاست پرستی: ہیگل (Hagal)نے ریاست پرستی کی دعوت دی۔
نظریہٴ مساوات مردوزن: اسٹورٹ مِل (Sturt Mill-1873)نے مساوات مردوزن کا نعرہ بلند کیا۔
نظریہٴ نسل پرستی: گوبینو (Gobineau-1862)نے نسل پرستی کا نظریہ پیش کیااور کہاکہ انسانوں میں سفید فارم سب سے اعلیٰ ہے۔
نظریہٴ ہم جنسیت: تھامس مین(Thams mann-1955) نے ہم جنسی اختلاط میں زبردست پروپیگنڈہ کیا۔
نظریہٴ اجتماعیت: لینین (Lenin-1924)نے قومیتوں کا نظریہ پیش کیا ۔
(مستفاد از مغربی فلسفہ تعلیم کا تنقیدی مطالعہ:ص۴۰ تا ۵۸)
یہ تو مشت از خروار کے چند مشہور نظریات کو بیان کیا گیا، ورنہ ایسے دسیوں اور سیکڑوں نہیں ہزاروں نظریات مغرب میں ظاہر ہوئے اور فنا بھی ہو گئے، کسی نے صحیح کہا ہے کہ انسان کو (۲۴) گھنٹے میں ۸۰ ہزار وسوسے آتے ہیں ۔
مقصدتعلیم مغربی نقطہٴ نظر سے: بیکن Francis Bacon,1561-1626 (انگلستان) نے دعوی کیا کہ تعلیم فرد اورقوم کے ہاتھ میں ایک طاقت ہے۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ تعلیم فردکی تہذیب نفس یا تطہیر افکار یا معاشرے کی اصلاح اور فلاح و بہبود کا ذریعہ نہیں ہے جیسا کہ اہلِ کلیسا بتاتے تھے، ، بلکہ تعلیم مادی غلبہ حاصل کرنے کا ذریعہ ہے۔افراد کو افراد پر اورقوموں کو قوموں پر غلبہ حاصل کرنے کاذریعہ ہے۔اس معنی میں یہ مقصد تعلیم میں عظیم تبدیلی ہے ۔اب تعلیم اصلاحِ نفس کا ذریعہ نہیں رہی بلکہ مادی قوت حاصل کرنے کاذریعہ بن گئی ہے۔ نو آباد یاتی دور میں تو اس مفہوم کو بڑی مقبولیت حاصل ہوئی۔
فطری تعلیم: رُوسو Rousseau, 1712-1778(فرانس)نے دعوی کیا کہ تعلیم کا مقصدبچے کے اندر فطری قوتوں کو پروان چڑھاناہے۔ جس طرح ورزش سے جسمانی قوتوں کی پرورش کی جاتی ہے، اسی طرح تعلیم سے ذہنی قوتوں کی پرورش کی جاتی ہے۔اس کو ”واقعی اورحقیقی تعلیم“ Realistic and Positive کے نام سے موسوم کیا گیاہے۔ اب مطمحِ نظریہ قرارپایا کہ بچے میں جو قوتیں ہیں ، بس ان کو ترقی دینا تعلیم کا مقصود ہے۔نہ یہ کہ کوئی معیار خارج سے ان پر مسلط کرنا۔ روسونے تعلیم کے عیاری Normative ہونے اور اخلاقی اور مذہبی ہونے کی سخت ترین الفاظ میں مخالفت کی۔اس تصورسے تعلیم میں عظیم انقلاب برپا ہوگیا۔تصورِ تعلیم ہی بدل گیا۔طبعی تعلیم نے فروغ پالیا اور اخلاقی اورمذہبی تعلیم کی مخالفت شروع ہوگئی۔
تعلیم برائے پیداوار: آدم سمتھAdam Smith, 1723-1790 (انگلستان) نے تعلیم کا مقصد ملکی پیداوار میں اضافے کو قراردیا۔اب یہ بات واضح ہوگئی جدید مفکرین کے نزدیک انسان مقصود بالذات نہیں ہے۔یہ دنیا انسان کے لئے نہیں بلکہ انسان دنیا کے لئے ہے۔تعلیم کا مقصد تعمیرِ سیرت نہیں ہے بلکہ پیداواربڑھانا ہے۔ اس کے بعد تعلیم کو معاشی اقدارکے ساتھ وابستہ کردیا گیا۔
تعلیم برائے ملازمت: میکالے Macaulay, 1800-1859(انگلستان)نے ہندوستان میں جونظامِ تعلیم رائج کیا۔اس کا مقصد حکومت کو کاروبارِ حکومت چلانے کے لئے کلرک فراہم کرنا تھا۔دنیا میں شایدہی کسی نے نظام تعلیم کا مقصد اتنا پست مقررکیاہو۔
تعلیم برائے مسرت: نیلAlexander Neli, 1883(امریکہ)نے دعویٰ کیا ہے کہ تعلیم کامقصد حصولِ مسرت ہے،کھیل کا مقصد بھی حصولِ مسرت ہے۔ اس نقطہٴ نظر سے کھیل بھی تعلیم ہے اور ہر کھلنڈرلڑکا تعلیم حاصل کررہاہے۔(ایضاً :ص۱۱۵ تا ۱۲۲)
مغربی تعلیم کے اثرات: اب جب ایسے ملحدانہ اور بے دلیل اور غیر معقول نظریات کو سامنے رکھ کر تعلیمی نظام بنایا جائے، تو ظاہر سی بات ہے اس کے نتائج اوراثرات کے بھیانک ہونے میں کوئی بعد نہیں ہو نا چاہئے۔
محترم سید محمد سلیم صاحب بڑے پتے کی بات فرماتے ہیں:
اللہ، انسان اور آخرت، انسانی زندگی کی اہم حقیقتیں ہیں۔ فکر انسانی کی یہ تین اکائیاں ہیں۔ ان کے متعلق رائے قائم کیے بغیر انسان کے لئے کوئی چارہ کار نہیں ہے۔ خواہ یہ خیال آرائی بچکانہ ہو، دیو مالا کے افسانے ہوں، فلسفانہ افکار ہوں، مثبت ہوں یا منفی ہوں، یہی خیال آرائی یا افکار کا مجموعہ کسی قوم کا نظام تصورات Idealogy کہلاتا ہے۔
کسی قوم کے نظامِ حیات کی تعمیر اس کے نظام تصورات کی بنیاد پرقائم ہوتی ہے۔ مغرب میں نظام حیات کی عمارت مغربی تصورات اور افکارکی بنیاد پر استوار ہوئی ہے۔ ان افکار وخیالات کی اہمیت انسانی زندگی میں بہت زیادہ ہے۔ اہل ِمغرب نے لادینی تحریک کے زیر اثر خدا اور آخرت کا انکار کر ڈالا۔ اس نے ان کی انفرادی او راجتماعی زندگی کو بری طرح مجروح کردیا۔
انفرادی کردار اور باہمی روابط دونوں عدم استحکام اور عدم توازن کا شکار ہوگئے۔ اس کے بعد اخلاقی زندگی کے لئے کوئی بساط باقی نہیں رہی۔ عالم غیب اور غیر حسی حقیقتوں کا انکار کر دینے کے بعد اغراض وخواہشات، نمود ونمائش ان کے فکر وخیال کا محور بن گئے۔
اہل مغرب نے خدا، آخرت اور روحانیت کے متعلق جو منکرانہ نظریات پھیلائے ہیں ، وہ سب بے بنیادہیں۔ ان کا انداز غیر علمی ہے۔ انہوں نے اپنی حدود سے تجاوز کیا ہے۔ان کی یہ جسارت خود عقل کے خلاف ہے۔ اس طرزِ عمل سے نفس میں پوشیدہ مذہب بے زاریTheophobia کے جذبے کی تسکین تو ہوگئی ،لیکن اس طرح انہوں نے عقلیت پرستی کے خودقائم کردہ اصولوں کی قطعی نفی کرڈالی۔اس غلط اقدام نے علم وآگہی کے قافلے کو گمراہی کے راستے پر ڈال د یا،جس کے بعد آج تک انسانیت کا قافلہ بدبختی کی ٹھوکریں کھاتاپھررہاہے۔
(ایضاً :ص۶۹ تا ۷۰)
شیخ الاسلام حضرت مولانا تقی صاحب فرماتے ہے:
(میکالے کا) سب سے بڑا مشن یہ تھا کہ ہندوستان کے باشندوں بالخصوص مسلمانوں کو اپنے سارے تہذیبی ورثے کے بارے میں شدید احساس ِکمتری کا شکار بناکر ان کے دلوں پر مغرب کی ہمہ گیر بالا دستی کا سکہ بٹھا دیا جائے، اور نئی نسل کو ہر ممکن طریقہ سے یہ یقین کرلینے پر مجبور کردیا جائے کہ اگر دنیا میں ترقی اور سربلندی چاہتے ہو تو اپنی فکر،اپنے فلسفے، اپنی تہذیب ، اپنی معاشرت اور اپنے ماضی پر ایک حقارت بھری نظر ڈال کر مغرب کے پیچھے پیچھے آوٴ اور اپنی زندگی کا ہر راستہ اسی کے نقوش قدم میں تلاش کرو“۔ ( ہمارا نظام تعلیم ص۴۸)
مفکر اسلام حضرت مولانا سید ابو الحسن علی ندوی فرماتے ہے:
”یہ مغربی نظام تعلیم در حقیقت مشرق اور اسلامی ممالک میں ایک گہرے قسم کی لیکن خاموش نسل کشی کے مرادف تھا، عقلائے مغرب نے پوری نسل کو جسمانی طور پر ہلاک کرنے کی فرسودہ اور بدنام طریقہ کو چھوڑ کر اس کو اپنے ساچے میں ڈھال لینے کا فیصلہ کیا اور اس کام کے لیے جا بجا مراکز قائم کئے ، جن کو تعلیم گاہوں اور کالجوں کے نام سے موسوم کیا“۔
(مسلم ممالک میں مغربیت اور اسلامیت کی کشمکش:۲۴۷)
مریم جمیلہ فرماتی ہے:
مسلمان ماں کو کسی بھی قیمت پر اپنے بچوں کو عیسائی مشنری اسکول، یا کانونٹ کو بھیجنے پر راضی نہ ہو نا چاہیے، جہاں ان بچوں کو پوری طرح اپنے مذہبی و معاشرتی ورثا سے الگ کر دیا جاتا ہے۔ اگرچہ یہ بھی یقین کرنا چاہیے کہ سرکاری اسکول بھی کچھ زیادہ تسلی بخش سامان مہیا نہیں کرتے۔ (Islam and Women Today-10)
نو مسلم مغربی مصنف محمد اسد فرماتے ہے:
مسلم نوجوانوں کی مغربی تعلیم ان کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیغام پرایمان و یقین رکھنے اور اپنے آپ کو اس مخصوص الٰہی تمدن وتہذیب کا نمائندہ سمجھنے کے قابل نہ رکھے گی، جو اسلام لے کر آیا ہے ۔
اس کے بعد پھرآگے چل کر فرماتے ہیں :
یعنی جو کچھ بھی ہو، اس میں شبہ نہیں کیا جاسکتا کہ ”ان روشن خیالوں “کے اندر دینی عقائد بڑی تیزی کے ساتھ کمزور ہوتے جارہے ہیں، جن کی تعلیم مغربی بنیاد وں پر ہوئی ہے )۔
پھر آگے ایک عجیب بات فرماتے ہیں کہ :
ہماری(مسلمانوں کی)پوری تعلیمی پسماندگی اور بے بضاعتی ان مہلک اثرات کے مقابلہ میں کوئی حیثیت نہیں رکھتی ،جو دینی بنیادوں پر مغربی تعلیم کی اندھی تقلید کی وجہ سے مرتب ہوں گے۔ (islam at the Cross Road P.100)
بعض بلکہ اکثر لوگ آج مسلمانوں کی تعلیمی پسماندگی کا رونا روتے ہیں اور ان کو مشورہ دیتے ہے کہ جو کچھ بھی اور جیسا بھی بن پڑے، وہ عصری علوم حاصل کریں؛ ایسے لوگ محترم محمد اسد صاحب کی اس عبارت کو باربار پڑھیں اور غور کریں کے انہوں نے کیا فرمایا ہے؟
بلا شبہ پسماندگی بری چیز ہے، مگر مغربی تعلیم پر اندھا دھند فریفتہ ہونا اور اس کو جوں کا توں از اول تا آخر لے کر خوش ہو جانا، ایمان اور دینی بنیادوں پر کیا مہلک اثرات مرتب کرتا ہے؟ اس کا موازنہ تعلیمی پسماندگی سے کیا جائے ،تو اس پسماندگی کی کوئی حیثیت نہ ہوگی؛ بشرطیکہ ایمان واسلام کی قدر دل میں ہوں۔
مغرب نے تعلیم کو کاروبار بنا دیا ہے ،اسلام میں تعلیم خدمت اور مشن ہے ،تعلیم کا مقصد ملازمت قرار دیا گیا ،رات ورات امیر بننے کی خواہش پیدا کی ،عزت کا معیار دولت کو قرار دیا، سیکولرزم یعنی اسلامی مذہبی احکام سے بے اعتنائی اور دین کو محض چند رسوم ورواج کا مجموعہ سمجھا جانے لگا ، اورعقائد ، تجارت، معاشرت، اورمعیشت سیاست سے دین کو نکالا، اس کی جگہ انسان پرستی humanism اور موجودیت یعنی خدا کی جگہ انسان کو خود مختار بناکر اس کی خدائی کا اعلان آخرت کے مقابلہ دنیوی زندگی پر اصرار،اور العیاذ باللہ خداکے اقتدار کا خاتمہ سیکولرزم کے روپ میں مذہبی اور اخلاق کے بجائے مادہ اور جسم کو ترجیح دینے کے لئے مادہ پرستی (materilism) کو فروغ دیا اور وحی اور عقل کو چھوڑ کر تجربیت (empirism) نتائجیت ایجابیت اور افادیت پسندی کو عام کیا،اسلام میں تجدید کی کوشش کرنا دین کو دنیوی ترقی کا ذریعہ نہ سمجھنا ،مغربی نظریات کو عین اسلامی قراردینا، یہ سمجھنا کہ سودکے بغیر معیشت نہیں چل سکتی ،سگریٹ و نسوارپینا،فحش فلموں ، گندے ڈراموں، اور گانوں کو گناہ نہ سمجھنا ، مغربی لباس کو تفاخر کے طورپر پہننا ، کھیل کود کو پیشہ اور مقصد حیات بناناوغیرہ۔(اسلامی اور تہذیب مغرب کی کشمکش)
عالمی سطح پر wto اور gat کے ذریعہ اقوام عالم کو ایک ایسی لادین اور سیکولرزم تعلیمی پالیسی میں شامل ہونے پر مجبور کردیا ہے جو محض معاشی حیوان پیدا کر سکتی ہے۔
زندگی کے چند اہم شعبوں میں اسلامی و مغربی عقائد و نظریات کا موازنہ پیش خدمت ہےش دین میں تفریق صرف دنیا کی کامیابی اور کسی پر غلبہ حاصل ہو جائے۔
اسلامی اور مغربی تعلیم میں بنیادی فرق :
تعلیم کے تین اجزا ہوتے ہیں: تعلم،تحقیق اور تربیت، یعنی علم سیکھنا، اس کا منہاج اور اس پر عمل۔
علم کا انحصار تصور علم (Epstemology) پر ہوتاہے اورتصور علم کی اساس ہر معاشرے اور قوم ورلڈ ویو ہوتاہے، ورلڈ ویو سے مراد تصور الہٰ ہے۔ تصور کائنات اور تصورانسان جیسا کسی قوم کا ورلڈ ویو ہوگا ویسا ہی اس کا تصور علم ہوگا، اسی کی مطابق اس کے علوم ترقی پائیں گے اور نظام تعلیم ایک مخصوص شکل اختیار کرے گا۔ اب مسلمانوں کا ایک مخصوص ورلڈ ویو ہے، جس کے مطابق انسان کا اور کائنات کا خالق اللہ ہے ،انسان اللہ کا عبد ہے ، یہ دنیا عارضی اور ا نسان کے لیے امتحان گاہ ہے، اورابدی زندگی آخرت کی ہے۔ اگر انسان اللہ کے ہدایت کے مطابق، دنیا کی زندگی گزارے گا توآخرت میں اللہ اس سے خوش ہوگا،اور اسے نعمتوں سے نوازے گا۔دنیا میں انسان کی کامیابی کا انحصار اس امر پر ہے، کے پورا معاشرہ اللہ کے اطاعت کے راستہ پر چلے۔
اس کے مقابلہ میں مغربی فکر وتہذب کا ایک دوسرا ولڈویو ہے، جس کے مطابق انسان اس دنیا میں خود مختار بلکہ مختار ِمطلق ہے۔ اللہ کو انسان کی ا جتماعی زندگی میں مداخلت کا کوئی حق نہیں۔ زندگی بس یہی دنیا کی زندگی ہے ؛لہٰذا اس میں کامیابی ہی انسان کا مرکزی ہدف ہے۔ ظاہر ہے مغرب کا یہ ورلڈویو مسلمانوں کے ورلڈ ویو سے بالکل مختلف بلکہ اس کے الٹ اور متضاد ہے۔لہٰذا دونوں کا تصور ِعلم بھی ایک دوسرے کے برعکس اور متضاد ہے اور نتیجتاً دونوں کے تصورات ِتعلم، تحقیق اور تربیت بھی ایک دوسرے کے خلاف ہیں اور دونوں نہ ہم آہنگ ہو سکتے ہیں، نہ یکجا سما سکتے ہیں۔ (ہمارا تعلیمی بحران اور اس کا حل:۲۰،۲۱)
خلاصہٴ کلام یہ کہ مغربی نظام تعلیم نے ہمارے پورے سماج کو تہہ و بالا کر کے رکھ دیا، کوئی شعبہٴ حیات اس کے اثر سے محفوظ نہ رہ سکا، تو اب سماجی خرابیاں کیا ہیں؟ اور اس کو کیسے دور کیا جائے اس پر مختصر روشنی ڈالتے ہیں:
سماجی خرابیاں اور اس کی اصلاح:
یہ بات پیش نظر رہے کہ اسلام دنیا میں آیا ہی ہے ،اس معاشرے اور سماج کی اصلاح کے لیے، کیوں کہ قرآن نے اعلان کیا: وقاتلوہم حتی لا تکونَ فتنةٌ“ اور تم قتال کرو یہاں تک کہ فتنہ فساد ختم ہو جائے۔
کہیں قرآن نے کہا: و الفتنة أشد من القتل“ فتنہ انگیزی قتل سے بھی بڑھی ہوئی ہے۔
کیونکہ قاتل ایک کو قتل کرتاہے مگر فساد و فتنہ پرور پورے معاشرے کو برباد کرنے اور ستانے کے درپے ہوتا ہے ، اسلام کا ورود جس معاشرے میں ہوا، اس معاشرے پر بھی ایک نظر ڈالیں کیسا بھیانک اور تباہ کن وہ معاشرہ تھا، قتل وغارت گری، ایذا ء رسانی ،دھوکہ بازی،زنا خوری،غنڈہ گردی‘ اس معاشرے میں عام تھی، مگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو جو دین دیا گیا اس نے اس بدترین معاشرے کو بہترین نہیں؛ بلکہ تاریخ کے لئے قابلِ نمونہ معاشرہ بنادیا، کیونکہ اسلام نے تمام خرابیوں کی جڑ ”جہالت“ کوقرار دیا، اور ان پر علمی و عملی محنت کی گئی، مگر وہ علم”علم دین“ تھا نہ کہ ”علم دنیا“ اور علم دین نے انہیں حقوق اللہ اور حقوق العباد سے روشناس کیا، اور تعلیم دی کہ اللہ کو راضی کرنے اور معاشرے کے افراد کوتکلیف نہ پہنچانے میں تمہاری کامیابی مضمر ہے۔
گویا اللہ تک پہنچنے کے لئے بندوں کو نہ ستانا لازم ہے، اسلام نے معمولی باتوں پر کتنی تاکیدکی اس کا اندازہ آپ کو ذیل میں دی جارہی چند احادیث سے ہوگا:
ایک حدیث میں ہے: من غشّنا فلیس منا(شرح السنة :۴/ ۳۲۳،والدارمی:۲۴۲۹) جو کسی کو دھوکہ دے وہ ہم میں سے نہیں ہے۔گویا دھوکہ دہی انتہائی عظیم جرم قرار دیا گیا، جو ہمارے معاشرے میں عام ہے۔
دوسری حدیث میں : لیس منا من لم یوٴقر کبیرنا و لم یرحم صغیرنا۔
جو ہمارے بڑے کا اکرام نہ کرے اور چھوٹے پر رحم نہ کرے وہ ہم میں سے نہیں۔
(الصحیح البخاری:۵۴۴۵)
قرآن میں ارشاد خداوندی ہے: یاأیھا الذین اٰمنوا اجتنبوا کثیرا من الظن۔ اے ایمان والو! کثرتِ بدگمانی سے پرہیز کرو۔
ایک حدیث میں ہے: الغیبة أشد من الزنا“ غیبت زنا سے بھی زیادہ سخت گناہ ہے۔
(سنن أبو داوٴد:ج۲/۳۱۳)
ایک اور روایت میں ہے: المسلم من سلم المسلمون من لسانہ و یدہ“ مسلمان وہ ہے جس کی زبان اور ہاتھ کی ایذا سے مسلمان محفوظ رہیں۔ یعنی کسی کو تکلیف نہ پہنچائے۔(بخاری شریف :۱ /۲۶)
ایک اور روایت میں: من سلم الناس“ بھی ہے ۔یعنی تمام لوگ محفوظ ہو۔
(مسند احمد:۲/۳۷۹)
ایک اور حدیث میں ہے: ”ان دمائکم وأموالکم وأعراضکم علیکم حرام“۔ تمہارے خون، تمہارے مال، تمہاری آبروئیں تم پر حرام ہے ۔ یعنی مال کو، جان کو، عزت کو ،ناحق طریقہ سے پامال کرنا حرام ہے۔(بخاری شریف:۱/۲۳۴)
ایک حدیث میں ہے: لیس منا من دعا الی عصبیة“(ابوداوٴد :۴۴۵۶)
عصبیت کی طرف بلانے والا ہم میں سے نہیں ۔
ایک اور روایت میں: من حمل علینا السلاح فلیس منا‘
(بخاری ،ومسلم ،وترمذی، ونسائی ،وابن ماجہ)
جس نے ہم پر سلاح اٹھایا، وہ ہم میں سے نہیں۔
ایک اور حدیث میں ہے: من ادعی مالیس لہ فلیس منا“ (صحیح الجامع الصغیر وزیاداتہ) جس نے دعوی کیا ایسی چیز کا جو اس کی نہیں ،وہ ہم میں سے نہیں۔
ایک اور حدیث میں: جو بھلائی کا حکم نہ دے اور برائی سے نہ روکے وہ ہم میں سے نہیں۔
(ترمذی :۱۸۴۴)
ایک حدیث میں ہے من انتھب فلیس منا۔ جو زبردستی مال چھینے وہ ہم میں سے نہیں ۔
(الترمذی:۱۵۲۷)
مذکورہ آیات او راحادیث سے ثابت ہوتا کہ اسلام نے سماج اورمعاشرے کی اصلاح کے لیے موٴثر اسلوب اختیار کیے ہیں۔
اگر آپ مقاصد شریعت سے واقف ہو تو اندازہ ہوگا کہ پورے حلال اور حرام کی بنیاد کس پر ہے ۔
علامہ شاطبی وغیرہ فرماتے ہیں کہ مقاصد شریعت پانچ ہیں:
(۱) تحفظ دین(۲) تحفظ جان (۳) تحفظ عرض(۴)تحفظ نسل(۵)تحفظ مال۔
پوری شریعت کا خلاصہ یہ ہے کہ جو چیزیں مذکورہ پانچ چیزوں کو نقصان پہنچائے وہ حرام، جو اسے تحفظ فراہم کرے وہ واجب اور لازم ہے۔
شریعت نے ہر اس چیز کو ناجائز قرار دیا جوتکلیف دہ ہو، چاہے اس سے فرد کو تکلیف پہنچے یا معاشرہ کو، انسان کو، جانوروں کو، جیسے شریعت مزاق اڑانے کو، برے القاب سے کسی کو پکارنے کو ،گالی گلوچ کرنے کو،ضرورت سے زیادہ آواز کسنے کو، سیٹی بجانے کو، گزرگاہوں میں رکاوٹ ڈالنے کو ،راستوں پر کھیلنے کو، غلط جگہ پارکنگ کرنے کو، غلط ڈرائیونگ کرنے کو، وقت کو فضول ضائع کرنے کو، ٹیلی فون پر بے ضرورت لمبی لمبی باتیں کرنے کو، صفائی نہ رکھنے کو، بلااجازت کسی کی چیز استعمال کرنے کو، دیواروں پر چاکنگ کو، کسی کوذہنی تکلیف دینے کو، جھوٹ بولنے کو، لعن طعن کرنے کو، تہمت اور الزام تراشی کو، نااہل کے لیے سفارش کرنے کو ،چھوٹی گواہی دینے کو ، آپسی معاملات خراب کرنے کو، میراث کو،نا انصافی کو، بداخلاقی کو، جانوروں کو بیجا مارنے کو، فقیر اور یتیم کو جھڑکنے وغیرہ کو ناجائز اور حرام قرار دیتی ہے۔
ہم مسلمان ہیں ہمارا رب ایک، ہمارے رسول ایک، ہماری کتاب ایک، ہمارا دین ایک، ہم مستقل تہذیب کا حامل ہیں، ہم ایک کامل دین کے پیروکار ہیں، لہٰذا ہمیں اپنی سماجی خرابیوں کو اپنے تناظر میں حل کرنا چاہیے، اگر ہم اپنے معاشرے میں اصلاح چاہتے ہیں، تو ہمیں ایک لائحہٴ عمل طے کرنا ہوگا، تو آیئے ! میں لائحہ عمل پیش کرتا ہوں۔
مولانا نجم الحسن تھانوی تحریر فرماتے ہیں:
”سماج کی اصلاح کوئی اچھوتا عنوان نہیں بلکہ دیکھا جائے تو ہر شخص کے دل کی دھڑکن ہے اور ہر شخص اس کا خواہشمند ہیں کہ سماج میں صلاح کیسے آئے؟کیوں کہ معاشرہ اور سماج کے بگاڑ کا نقصان ہر شخص کو اٹھانا پڑتا ہے؛کیوں کہ اسی کی وجہ سے ملک کا امن و امان تباہ ہوچکا ہے، دلوں کا سکون و چین برباد ہوگیا، خیرخواہی اور ہم دردی کی فضاء بدل گئی اور بدامنی، بے اطمینانی، دھوکہ بازی،جھوٹ، فریب،غیبت، بدمعاملگی، بدزبانی، چوری، ڈکیتی، دھاندلی، اغواء، ایذاء رسانی، اضاعت وقت، گانابجانا، ہمارا روزمرہ کا معمول بن گیا، بلکہ یہ چیزیں خوبیوں میں شمار ہونے لگی۔
سماج کی اصلاح اگر غیرمسلم کو کرنا ہے تو اس کے طریقے جدا ہوں گے؛ لیکن مسلمانوں کے سماج کی اصلاح صرف اسلامی تعلیمات پر عمل درآمد اورتربیت ہی سے ممکن ہے۔
حکیم الامت، مجدد ملت حضرت تھانوی فرماتے ہیں کہ اسلام پانچ چیزوں کے مجموعے کا نام ہے :(۱)عقائد (۲)عبادات (۳) اخلاق (۴) معاملات (۵) معاشرت
یہ پانچوں چیزیں ایک دوسرے کے ساتھ مربوط ہیں، عقائد درست ہوں گے توعبادات درست ہوگی، عبادت درست ہوگی تو اخلاق درست ہوں گے،اخلاق درست ہوگے تو معاملات درست ہوں گے، اور معاملات درست ہوں گے تو معاشرت درست ہو جائے گی۔
(مستفاد از اسلام کے بنیادی احکام)
لہٰذا سب سے پہلے ہمیں اپنے عقائد پر توجہ مرکوز کرنے کی ضرورت ہے، صحابہ کے عقائد اللہ پر، رسول پر ، آخرت پر، یوم حساب پر انتہائی مضبوط تھے۔ جس کا نتیجہ تھا ان کی عبادات بھی مکمل اہتمام سے ادا ہوتی تھی، ان کے اخلاق بھی بہت اعلیٰ تھے، ان کے معاملات بھی صاف ستھرے تھے اور ان کی معاشرت بھی بے مثال تھی اسی لیے امام مالک نے کہا:
لن یفلح آخر ہذہ الأمة الا بما صلح بہ اولہ۔کہ جیسے اولین لوگوں کے سماج کی اصلاح ہوئی تھی،بالکل اسی طرح آخری دو ر والے بھی اگر ان کے نقش قدم صلاح سے مزین ہوں گے۔
سب سے زیادہ ضرورت ہے امت کو حقوق العباد اور حلال و حرام کے احکام،فرائض و واجبات سے واقف کرنے کی، سماج اور معاشرے میں جتنی برائیاں عام ہور ہی ہیں، اس کی اصل وجہ عقیدے میں کمزوری اوراحکام سے ناواقفیت۔
حکیم الاسلام قاری طیب فرماتے ہیں کہ اگر ہم اپنے معاشرے کو برائیوں سے بچانا چاہتے ہیں تو امور کو انجام دیناہوگا۔
(۱) تشبہ بالکفار سے اجتناب کرنا ہوگا؛ کیوں کہ معاشرے میں بگاڑ کی اصل وجہ ہی یہ ہے کہ بے پردگی، لباس میں تنگی، ناچ گانا، موسیقی سے شغف ،فلم بینی یہ سب وہ امور ہیں جوتشبہ کی وجہ سے معاشرے میں برپا ہیں اور یہی ہمارے تباہی اور بربادی کے اسباب ہیں۔
(۲) صلحاء سے محبت اور ان کی صحبت کا التزام قرآن نے بھی کونوامع الصادقین کاحکم دیا ہے۔
(۳) تنظیم و اتحاد یعنی کلمہ کو اپنا آخری مقصد بنالیں،متحدہوکر برائیوں کو ختم کریں اور صرف اللہ پر بھروسہ کریں اسی سے مدد مانگے۔
(۴) جذبہٴ انقلاب اپنے اندر پیدا کریں، ہم اس دارالعمل میں کچھ کرکے جائیں گے، کسی شاعر نے کیا خوب کہا ہے #
جلال آتش و برق سحاب پیدا کر
اجل بھی کانپ اٹھے وہ شباب پیدا کر
تو انقلاب کی آمد کا انتظار نہ کر
جو ہو سکے تو خود ہی انقلاب پیدا کر
(۵) صلوة وجماعت: مسلمان ایک ذمہ دار،مدبر اور بااثر مخلص جماعت بن کر مرکزیت کے ساتھ اپنے منتشر قویٰ کو جمع کریں، اس کا واحد ذریعہ مساجدمیں مکمل نماز باجماعت کا اہتمام کریں۔
(۶) اپنی بستیوں میں امربالمعروف نہی عن المنکر کی کمیٹیاں قائم کریں، جو معاشرے کے بگاڑ کو حکمت ومصلحت کے ساتھ دور کرے۔
(۷) تبلیغ و نصیحت: قرآنی تعلیمات کو عام کرنے کے لیے موٴثر ذرائع استعمال کریں؛ تعلیمِ دین، تعلیمِ احکام، تعلیمِ قرآن، تعلیمِ اخلاق، تعلیمِ معاشرت کے حلقے لگائیں اور امت کو اسلامی تعلیمات سے باخبر کریں؛ اس کے لیے حضرت تھانوی کی کتابیں بہت مفید ہوگی، مثلاً ”حیاة المسلمین“ ، ”اسلام کے بنیادی احکام“ ، ”آداب معاشرت“، ”حقوق العباد“ وغیرہ سے استفادہ کریں۔
اور اخیر میں میری رائے یہ ہے کہ آخرت کی فکر اور موت کی یادتازہ کریں، تقریروں میں اس کو خاص اہمیت دیں، موت کا جھٹکا، دوزخ کا کھٹکا، کیا آپ موت کے لیے تیار ہیں؟، مرنے کے بعد کیا ہوگا؟، موت کی یاد وغیرہ کتابوں کو زیرِ مطالعہ رکھیں۔
روحانی بیماریوں کی طرف خود بھی توجہ دیں اور معاشرے کومتوجہ کریں، دل کی دنیا، روحانی بیماریاں اور اس کا علاج کامطالعہ کریں اور مشائخ سے بیعت و ارادت قائم کریں؛ گناہوں سے بچنے اورمعاشرے کو بھی گناہوں سے بچنے کی تلقین کیجئے۔ حضرت تھانوی کی ”جزاء الاعمال“ کا مطالعہ کریں۔ آپ نے ثابت کیاکہ جسمانی مصائب گناہوں سے آتے ہیں۔ ”کتاب الکبائر“، ”احیاء العلوم“ ، ”موسیقی اور اسلام“وغیرہ کا مطالعہ کیجئے۔
آج کے سائنس نے اسلام کے عقائد و احکام کی حقانیت اور افادیت کوتسلیم کرلیا ہے، اسی لیے اسلام محرمات کے نقصان دہ ہونے کا بھی اعتراف کیا ہے۔ سنتِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم اور سائنس، سائنس اور اسلام، اسلام اور مغربی تہذیب، کسی کو تکلیف نہ دیجئے، علم جدید کا چیلنج، عقلیات اور اسلام، پردہ اور جدید السیر، عورت کی اسلامی زندگی جدید سائنسی تحقیقات، قرآن کے سائنسی انکشاف، قرآن رہنمائے سائنس، انکشاف قرآن اور مذہب اور جدید چیلنج، تخلیق انسان اور معجزات قرآن، الاعجاز العلمی فی القرآن و السنة، اور مذہب اور سائنس، خواتین کی اسلامی زندگی اور سائنسی حقائق، فریب تمدن، خطبات ذوالفقار، بیانات طارق جمیل وغیرہ کا مطالعہ کریں اور لوگوں کے سامنے ثابت کرکے دیکھائیں کہ اکیسویں صدی کی سائنس اسلام کے سامنے سربہ سجود ہے، وہ ایک ایک کرکے تمام چیز کی تائید پر مجبور اور مغربی خود ہی اپنے نظریات اور افکار کو رد کرچکا ہے۔
خلاصہ یہ ہے کہ آپ امت کے لیے عظیم انقلاب کا ذریعہ بن سکتے ہیں اور معاشرے کی صلاح میں موٴثر کردارادا کرسکتے ہیں، اپنے پاس آنے والے طلبہ کی تربیت کیجئے، خود بھی ضیاعِ وقت سے دُکانوں اور چوراہوں پر گھومنے پھرنے سے، گٹکھا بیڑی سے اجتناب کریں، علماء کے لیے بہت سے مباح کام ناجائز ہو جاتے ہیں۔
شیخ الاسلام، فقیہ العصر حضرت مولانا محمدتقی عثمانی دامت برکاتہم، ہمارے معاشرے کے بگاڑ کی اصل وجہ اور بنیادی سبب اور اس کا علاج بڑے عمدہ پیرایہ اور مختصر اندازمیں بیان فرماتے ہیں:
مولانا فرماتے ہیں کہ آج ہمارے معاشرے کے بگاڑ کی اصل وجہ یہ ہے کہ ہر شخص دوسروں سے اپنے حقوق کو حاصل کرنے پر مصر ہے، مگر خود اس پر جو لوگوں کے حقوق ہے اسے نظرانداز کردیتا ہے اور پورا کرنا نہیں چاہتا، اسی وجہ سے لڑائی جھگڑے اور فتنہ فساد ہوتا رہتا ہے، اس کا صحیح حل یہ ہے کہ ہر شخص اپنے اوپر عائد حقوق کو ادا کرنے کا مکمل اہتمام کرے، اور اس کے جو حقوق دوسروں پر ہے اس کے بارے میں نرمی اور چشم پوشی سے کام لے، ہمارے تمام معاشی بگاڑ اس طرح آسانی سے حل ہوجائیں گے۔ (ماخوذ از حقوق و فرائض)
————————————
مأخذ:
(۱) القرآن الکریم (منزل من اللہ)
(۲) شرح السنہ (امام بغوی)
(۳) سنن دارمی (امام دارمی)
(۴) الجامع الصحیح (امام بخاری)
(۵) سنن ابو داوٴد (امام ابو داوٴد)
(۶) مسند احمد (امام احمد)
(۷) الجامع الصحیح (امام مسلم)
(۸) صحیح الجامع الصغیر و زیاداتہ (․․․․․․․)
(۹) سنن ترمذی (امام ترمذی)
(۱۰) الموافقات (امام شاطبی)
(۱۱) جامع بیان العلم و فضلہ (ابوعمر یوسف ابن عبدالبر)
(۱۲) الأنوار فی حقائق الاسرار (امام رازی)
(۱۳) انفاس عیسیٰ (مولانا عیسیٰ)
(۱۴) ملفوظات حکیم الامت (حضرت تھانوی)
(۱۵) اسلامی کے بنیادی احکام (افادات حضرت تھانوی)
(۱۶) معارف ملی اعظم (مفتی شفیع صاحب)
(۱۷) جواہر شریعت اول ثانی (مفتی شعیب اللہ صاحب)
(۱۸) اسلام اور تہذیب مغرب (قاری طیب صاحب)
(۱۹) مسلم ممالک میں مغربیت اور اسلامیت کی کشمکش (مولانا علی میاں ندوی)
(۲۰) حقوق و فرائض (مولانا تقی عثمانی)
(۲۱) ہمارا نظام تعلیم (مولانا تقی عثمانی)
(۲۲) کواشف و زیوف (عبدالرحمن حبنکہ المیدانی)
(۲۳) وہ ہم میں سے نہیں (مولانا محمد اویس سرور)
(۲۴) کسی کو تکلیف نہ دیجئے (محمد حنیف عبدالمجید اور محمد جاوید)
(۲۵) تعارف العلوم خصوصی شمارہ شاہراہ علم (اکل کوا، نندوربار)
(۲۶) مجلہ بیداری (حیدرآباد، سندھ)
(۲۷) مغربی فلسفہ تعلیم کا تنقیدی مطالعہ (پروفیسر سید محمد سلیم)
(۲۸) اسلام اور تہذیب مغرب کی کشمکش (ڈاکٹرمحمد امین)
(۲۹) مسلم نشأة ثانیہ اساس اور لائحہ عمل (ڈاکٹرمحمد امین)
(۳۰) ہمارا تعلیمی بحران اور اس کا حل (ڈاکٹر محمد امین)
(۳۱) Islam at the Cross Road) (محمد اسد)
(۳۲) Islam and Woman Today (مریم جمیلہ)