مفتی محمد سلمان صاحب مظاہری
ناظم: دار الافتاء برائے تجارتی و مالیاتی امور
زکوٰة کا حکم اور اس کی حکمت:
زکوٰة ایک ایسا مالی فریضہ اورعبادت ہے، جو پچھلے تمام انبیاء اور ان کی شریعتوں میں ایک اہم دینی فریضہ کی حیثیت سے جاری رہا ہے؛ اگرچہ نصابِ زکوٰة، مقدارِ زکوٰة اور مصرفِ زکوٰة کی صورتیں مختلف رہی ہیں ،مگر اللہ کی راہ میں اپنے مال کا کچھ حصہ خرچ کرنے کی قدرِ مشترک سب میں یکساں ہے۔
قرآنِ مجید کا بیان ہے کہ حضرتِ عیسیٰ علیہ السلام نے اعلان فرمایا ”واوصانی بالصلوٰة والزکوٰة ما دمت حیّا“ کہ مجھے زندگی بھر اقامتِ صلوٰة اور ادائے زکوٰة کی ہدایت کی گئی ہے۔
اور حضرت اسماعیل علیہ السلام کے بارے میں قرآن ِپاک کا بیان ہے کہ وہ بھی اپنے اہل و عیال کو زکوٰة کا حکم دیا کرتے تھے ” کان یامر أھلہ بالصلوٰة والزکوٰة“ ۔
چناں چہ اللہ جل جلالہ عم نوالہ نے انسانی معاشرے کی سدھار اور فلاح کے لئے زکوٰة کے حکم کو، جس طرح سے تمام شریعتوں میں نافذ کیا ؛اسی طرح خصوصیت کے ساتھ قرآنِ مجید نے بھی تقریباً ۲۸/مقامات پر زکوٰة کو اسلام کے رکن ِاول نماز کے ساتھ ذکر کیا ہے، اور کیوں نہ ہوکہ زکوٰة کی ادائیگی سے بجائے مال کے اندر کمی واقع ہونے کے مال مزیدبڑھتا ہے۔
زکوٰة کی ادائیگی سے مال بڑھتا ہے:
وما اٰتیتم من زکوٰة تریدون وجہ اللہ فاولئک ھم المضعفون
(روم: ۳۹)
”اور جو زکوٰة تم اللہ تعالیٰ کی خوشنودی حاصل کرنے کی نیت سے دیتے ہو تو ،یہی وہ لوگ ہیں جو اپنے مال کو کئی گنا بڑھالیتے ہیں “ ۔
اس آیت ِ کریمہ سے معلوم ہوا کہ زکوٰة ادا کرنے سے بظاہر ہمیں کچھ مال کم ہوتا ہوا محسوس ہوتاہے، لیکن اللہ تعالیٰ کے ارشاد سے معلوم ہوتاہے کہ زکوٰة کی ادائیگی سے درحقیقت مال میں اضافہ ہوتا ہے، کمی نہیں ہوتی۔
احادیث میں زکوٰة کا حکم:
احادیث ِ کریمہ میں بھی آقائے نامدار تاجدار ِ مدینہ سرکار ِدوعالم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی امت کو زکوٰةادا کرنے کی ترغیب دی ہے۔ایک حدیث میں فرمایا:
” کہ جس شخص نے اپنے مال کی زکوٰة ادا کردی، اس نے اس کے شر کو دور کردیا“۔
(کنز العمال، مجمع الزوائد ۳ /۶۳ )
ایک اور حدیث میں ہے کہ : ”وما منع قوم الزکوٰة الا ابتلا ھم اللہ بالسنین “۔
(المعجم الاوسط: ۴۵۷۷)
ترجمہ: جب کوئی قوم زکوٰة ادا نہیں کرتی، تو اللہ تعالیٰ ان پر قحط سالی مسلط فرمادیتا ہے۔
قرآن و حدیث کی انہی تاکیدات اور تصریحات کے پیشِ نظر فقہاء اور سلفِ صالحین کا زکوٰة کے فرض ہونے پر اجماع و اتفاق ہے۔
زکوٰة کے فرضیت کی حکمت:
انسانی معاشرے میں کچھ لوگوں کا دولت مند ہونا اور کچھ کا غریب و ضرورت مند ہونا نظامِ قدرت اور تقاضہٴ فطرت ہے اس لیے ہر سماج کے لوگوں پرلازم ہے کہ اس کے خوش حال اور مال دار لوگ اپنے ضرورت مند اور غریب بھائیوں کی مدد اور ان کی ضروریات کی تکمیل کے لیے اپنی دولت کا کچھ حصہ اسی مقصد کے لیے نکالیں۔
کیوں کہ زکوٰة سماج کے غریب طبقہ کو تحفظ و ضمانت عطا کرتا ہے۔ آقائے نامدار تاجدارِ مدینہ سرکار ِدو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے خوب فرمایا ہے کہ اگر تمام لوگ زکوٰة ادا کریں تو کسی کو غذا اور لباس سے محروم نہ ہونا پڑے۔
چناں چہ ایک حدیث میں اللہ کے نبی سرکار دو عالم ﷺ نے ارشاد فرمایا:
”انّ اللہ فرض علی الاغنیاء فی اموالھم بقدر ما یکفی فقرائھم وان جاعوا وعروا وجھدوا فی منع الاغنیاء ،فحق علی اللہ ان یحاسبھم یوم القیامة ویعذبھم علیہ“۔
(کنز العمال ۳/۳۰۰)
ترجمہ: اللہ تعالیٰ نے اہل ِدولت پر جو زکوٰة فرض کی ہے ،وہ اتنی مقدار ہے کہ فقراء کے لیے کافی ہوجائے، اگر یہ بھوکے ، بے لباس اور پریشان رہیں ،تو یہ اغنیاء کے فریضہٴ زکوٰة ادا نہ کرنے کی وجہ سے ہوگا اور اللہ تعالیٰ کو حق ہے کہ قیامت کے دن ان کا محاسبہ کریں اور ان کو اس پر عذاب دیں۔
چناں چہ مال جہاں انسانی معیشت کی بنیاد ہے، وہاں انسانی اخلاق کے بنانے اوربگاڑنے میں بھی اسے گہرا دخل ہے، بعض دفعہ مال کا نہ ہونا انسان کو غیر انسانی حرکات پر آمادہ کردیتا ہے، اور وہ معاشرے کی نا انصافی کو دیکھ کر معاشرتی سکون کو غارت کرنے کی ٹھان لیتا ہے۔حتیٰ کہ بعض اوقات وہ چوری ،ڈکیٹی، سٹہ اور جواجیسی قبیح حرکات شروع کردیتا ہے، کبھی غربت وافلاس کے ہاتھوں تنگ آکر وہ اپنی زندگی سے ہاتھ دھولینے کا فیصلہ کرلیتا ہے، اور کبھی فقر و فاقہ کا مداوا ڈھونڈنے کے لیے اپنے دین و ایمان کا سودا کر بیٹھتا ہے، اسی بنا پر ایک حدیث میں فرمایا گیا ہے :
”کاد الفقر أن یکون کفراً“
یعنی” فقر و فاقہ آدمی کو قریب قریب کفر تک پہنچا دیتا ہے“ ۔
یہ تمام غیر انسانی حرکات، معاشرے میں فقر وفاقہ سے جنم لیتی ہیں، اور بعض اوقات گھرانوں کے گھرانوں کو برباد کرکے رکھ دیتی ہیں، ان کا حل تلاشنا معاشرے کی اجتماعی ذمہ داری ہے۔ جس کا حل زکوٰة وصدقات کے ذریعہ خالق ِ کائنات نے بتایا ہے اور ان برائیوں کا سد ِباب فرمایا ہے۔
زکوٰة کی ادائیگی میں چند کوتاہیاں:
لیکن زکوٰة جتنا بڑا فریضہ ہے اور جتنے بے شمار اس کے فائدے ہیں، اتنی ہی اس کی طرف سے ہمارے معاشرے میں غفلت برتی جارہی ہے، چناچہ شیخ الاسلام حضرت اقدس مولانا مفتی تقی عثمانی صاحب حفظہ اللہ اس اہم فریضہ سے غفلت برتے جانے کے اسباب پر روشنی ڈالتے ہوئے ارشاد فرمایاکہ:
” بہت سے لوگ اس وجہ سے زکوٰة ادا نہیں کرتے کہ ان کے دلوں میں اسلام کے فرائض ، واجبات اور ارکان کی اہمیت ہی نہیں ہے، جو پیسہ آرہا ہے آنے دو غنیمت ہے اور اس کو اپنے ہی کاموں میں خرچ کرتے رہو، اللہ تعالیٰ ہر مسلمان کی ایسا بننے سے حفاظت فرمائے آمین۔
زکوٰة ادا کرنا کمالِ ایمان کی دلیل :
معجم کبیر کی روایت ہے کہ حضور ﷺ نے ارشاد فرمایا:
اِنَّہ منِ تَمامِ اِسلامِکم اَن توٴَدوّا زَکاةَ اَموالِکم
(معجم الکبیر ۱۸ /۸)
”تمھارے اسلام کے مکمل ہونے میں یہ بات شامل ہے کہ تم اپنے اموال کی زکوٰة ادا کرو“
مگرکچھ لوگ ایسے ہیں جو یہ سوچتے ہیں کہ ہم تو دینی کاموں کے لیے پیسے دیتے رہتے ہیں، کبھی کسی کام کے لیے اور کبھی کسی کام کے لیے، لہذا ہماری زکوٰة تو خود بخود نکل رہی ہے،اب الگ سے زکوٰة نکالنے کی کیا ضرورت ہے؟
اور بعض لوگ وہ ہیں جن کو یہ پتہ ہی نہیں کہ زکوٰة کس وقت فرض ہوتی ہے، وہ لوگ زکوٰةکے احکام سے نا واقف ہیں، ان کو یہ بھی معلوم نہیں کہ زکوٰة کس شخص پر فرض ہوتی ہے، اس کا نتیجہ یہ ہے کہ وہ لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ ہمارے ذمے زکوٰة فرض ہی نہیں ہے، حالاں کہ ان پر زکوٰة فرض ہے۔ وہ ایسا اس لیے سمجھ رہے ہیں کہ ان کو صحیح مسئلہ معلوم نہیں کہ کس شخص پر زکوٰة فرض ہوتی ہے،اس کے نتیجے میں وہ لوگ زندگی بھر زکوٰة کی ادائیگی سے محروم رہتے ہیں۔
(اصلاحی خطبات ۱۴/۲۹۲)
بقول شیخ الاسلام مفتی تقی عثمانی صاحب دامت برکاتہم کے، امت کا ایک بڑا طبقہ زکوٰة کے احکام سے ہی نا واقف ہے، جس کی وجہ سے وہ اس اہم فریضہ کی اد ائیگی سے محروم رہتے ہیں، چناں چہ وقت کی اہم ضرورت ہے کہ امت ِ مسلمہ کو اس اہم فریضہ سے کما حقہ آگاہ کیا جائے اور خصوصاً جدید مسائل سے متعلق جو زکوٰة کے احکام ہیں ان سے امت کوروشناس کرایا جائے۔
زکوٰةکی بنیادی چار چیزیں
زکوٰة کے اہم اور بنیادی مسائل سمجھنے کے لئے مندرجہ ذیل چار چیزوں کو سمجھنا ضروری ہے۔
(۱)… اشیائے زکوٰة ۔
(۲)… نصابِ زکوٰة ۔
(۳)…شرائطِ زکوٰة ۔
(۴)…مصارفِ زکوٰة۔ا
آج کی قیمت کے حساب سے ایک گرام سونا تقریباً 4,900 87.47)گرام سونا( تقریباً 428,603 روپئے کا ہے۔
آج کی قیمت کے حساب سے ایک گرام چاندی64روپئے کی ہے 612.35) گرام چاندی(تقریباً 39,190 روپئے کا ہے۔
لہٰذا اگر کسی کے پاس صرف دو چیزیں ہوں یعنی تھوڑا سونا ہو اور تھوڑی چاندی ہو : مثلاً سات گرام سونا ہے جس کی قیمت ) (34,300 چونتیس ہزار تین سوروپئے بنتے ہیں اور سو گرام چاندی ہے جس کی قیمت تقریباً ) (6,400چھ ہزار چارروپئے بنتے ہیں، اب اگر دونوں کو ملائیں گے تو اس کی کل قیمت چالیس ہزار سات سو روپئے (40,700)بنتی ہے تو اس پر زکوٰة واجب ہوگی، چاندی کے نصاب مکمل ہونے کی وجہ سے۔
اسی طرح اگر کسی کے پاس تین چیزیں ہوں مثلاً صرف پانچ گرام سونا ہے، جس کی قیمت تقریباً (24,500) روپئے بنتی ہے، اور صرف ستر گرام چاندی ہے جس کی قیمت تقریباً ) (4,480 روپئے بنتے ہیں، اور ساتھ ہی ساتھ اس کے پاس کچھ نقد رقم تقریباً ) (15,000پندرہ ہزار روپئے ہیں، اب ان تینوں کو ملانے سے کل رقم(43,980) روپئے ہوتے ہیں تو اب اس پر زکوٰة واجب ہوگی ۔
شرائط زکوٰة:
۱) سال گزرچکا ہو۔ ۲) مالی واجبات سے زائد ہو۔ ۳) بطورِ تملیک دی جائے۔
۱) سال گزرچکا ہو۔(ہر ہر چیز پر سال گزرنا ضروری نہیں ، بل کہ سال کے پہلے اور آخری دن نصاب کا پورا ہونا کافی ہے ، بیچ کے اونچ نیچ کا اعتبار نہیں ۔)
۲) مالی واجبات سے زائد ہو۔(قرض ، ادھار پر لی ہوئی چیز کی موجودہ واجب الاداء قسطیں منہا کرکے جو بچے اس پر زکوٰة لازم ہوگی۔)
۳) بطورِ تملیک دی جائے۔(یعنی مالکانہ حقوق کے ساتھ کسی مستحق کے سپرد کی جائے۔ محض استعمال کے لیے دینے یا قرض معاف کرنے سے زکوٰة ادا نہیں ہوگی۔)
مصارف ِ زکوٰة
انسانی معاشرے کے دو طبقے ہیں:
پہلا طبقہ: جس کے پاس چار قابل زکوٰةچیزوں کا مجموعہ بقدر نصاب( 613گرام چاندی ہو) ۔
دوسرا طبقہ : جس کے پاس چار قابل زکوٰةچیزوں کا مجموعہ ملاکر بھی چاندی کے نصاب کے برابر نہ ہو۔
۱۔ پہلے پر زکوٰة دینا فرض ہے۔
۲۔ دوسرے کے لئے زکوٰة لینا جائز ہے۔
مصرف ِ زکوٰة:
انسانی معاشرے کا دوسرا طبقہ جو غربت کی شرعی لکیر سے نیچے جیتا ہے۔بشرطیکہ :
1۔ غیر مسلم نہ ہو۔(غیر مسلم کو صرف نفلی صدقہ دیا جاسکتا ہے)
2 ۔ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کے خاندان (یعنی ہاشمی، سید) سے نہ ہو۔
3 ۔ زکوٰة دینے والے کا قریبی رشتہ دار یا قریبی تعلق دار نہ ہو۔
قریبی رشتہ دار :
جن سے انسان پیدا ہوا : والد، والدہ ، دادا، دادی، نانا، نانی۔( اصول)۔
یا جو انسان سے پیدا ہوئے: بیٹا، بیٹی، پوتا،پوتی، نواسہ، نواسی(فروع)۔
قریبی تعلق دار:
میاں بیوی(ایک دوسرے کو زکوٰة نہیں دے سکتے)۔
ریل اسٹیٹ(Real Estate)پر زکوٰة
مسئلہ نمبر1:مکان یا پلاٹ فروخت کرنے کی نیت سے خریدنا۔
اگر کسی شخص نے کوئی مکان یا پلاٹ فروخت کرنے کی نیت سے خریداہے یعنی اس نیت سے خریدا ہے کہ میں اس مکان یا پلاٹ کو فروخت کرکے اس سے نفع کما وٴں گا، تو اس صورت میں اس مکان یا پلاٹ کی کل مالیت پر زکوٰة واجب ہوگی، اگر صرف رہائش کی نیت سے خریدا ہے ،تو اس پر زکوٰة واجب نہیں ہوگی۔
اس کے برخلاف اگر کسی شخص نے کوئی مکان یا پلاٹ فروخت کرنے کی نیت سے تو نہیں خریدا تھا؛لیکن بعد میں فروخت کرنے کا ارادہ ہوگیا تو جب تک اس کو فروخت نہ کردیا جائے اس وقت تک اس پر زکوٰة واجب نہیں ہوگی۔ (ھدایہ 1/167)
مسئلہ نمبر:2مکان یا پلاٹ کو کرایہ پر دینے کی نیت سے خریدنا:
اگر کسی شخص نے کوئی مکان یا پلاٹ اس نیت سے خریدا ہے کہ میں اس مکان یا پلاٹ کو کرایہ پر دے کر اس سے آمدنی حاصل کروں گا، تو اس صورت میں مکان یا پلاٹ کی کل مالیت پر زکوٰة واجب نہیں ہوگی، بل کہ جو کرایہ آئے گا وہ اگر نصاب کو پہنچے تو اس پر ڈھائی فیصد کے حساب سے زکوٰة واجب ہوگی۔(طحطاوی 389:)
مسئلہ نمبر:3زمین خریدکر اس پر مکان بنا کر بیچنا:
سوال: ایک شخص زمین خرید کر ا س پر مکان بنا رہا ہے اور اس کی نیت مکان بناکر بیچنے کی ہے، تعمیری کام ابھی مکمل نہیں ہوا ہے ،تو اس مکان کی زکوٰة ادا کرنا لازم ہے یا نہیں؟
جواب: مکان چوں کہ تجارت کی نیت سے بنایا جارہا ہے ،اس لئے اس کا شمار مال ِ تجارت میں ہوگا، مکان کی موجودہ حالت کے اعتبار سے قیمت متعین کرکے اس کی زکوٰة ادا کی جائے گی۔(فتاوٰی رحیمیہ 159/7.)
فلیٹ خریدنے کے لئے پیشگی دی گئی رقم پر زکوٰة کا حکم:
ایک شخص کسی بلڈر سے فلیٹ بک کراتا ہے، اور کچھ رقم پیشگی مالک( بلڈر) کو ادا کرتا ہے ، مثلا ً پچیس لاکھ روپئے کا فلیٹ ہے اور خریدار نے پیشگی تین لاکھ روپئے جمع کرائے، خریدار نے جوپیشگی تین لاکھ روپئے ادا کئے ہیں اس کی زکوٰة خریدار پر آئی گی یا بلڈر پر آئی11؟
اس سلسلہ میں علماء نے یہ لکھا ہے کہ جب خریدار نے تین لاکھ روپئے بلڈر کے حوالے کردیے، تو اب اس کی دو صورتیں ہوسکتی ہیں:
۱) اگر وہ تین لاکھ روپئے بیعانہ (Advance) اور معاہدہٴ بیع کے طور پر ہو تو، اس کی زکوٰة ادا کرنا خریدار پر لازم ہے۔ اس لیے کہ ابھی بیع(Contract) تام نہیں ہوئی؛ اسی وجہ سے اگر خریداری کی بات بیچ میں ہی ختم ہوجاتی ہے، تو بلڈر پر اس رقم کی واپسی شرعاً لازم ہے۔
۲) اگرپیشگی دی گئی رقم یعنی تین لاکھ روپئے بیعانہ (Advance) اور معاہدہٴ بیع کے طور پر نہیں ہے؛ بل کہ عقد ِ بیع مکمل ہونے کے بعد قیمت کا ایک حصہ دیا گیا ہے، تو اب اس کی زکوٰة بائع (بلڈر) پر واجب ہوگی نہ کہ خریدنے والے پر۔ (ماخوذ ازفتاویٰ قاسمیہ )
کرایہ کے دکانوں یا مکانوں کے اڈوانس پر زکوٰة:
کرایہ کے دکانوں اور مکانوں پر جو” اڈوانس “دیا جاتا ہے اور عقد ِاجارہ کے ختم یا فسخ ہونے پر کرایہ دار کو واپس کیا جاتا ہے، اس پر زکوٰة ہے یا نہیں ، اور ہے تو کس پر ہے،کرایہ دار پر یا مالک مکان پر؟
اس کے سلسلہ میں تین قول ہیں:
۱) پہلا قول بعض علماء کا یہ ہے کہ اس اڈوانس رقم کی زکوٰة مالک ِ مکان پر آئی گی کیوں کہ مالک ِ مکان اس رقم کا مالک ہوجاتا ہے، لہذا زکوٰة بھی مالک ِ مکان پر ہی آئے گی نہ کہ کرایہ دار پر، کرایہ دار پر اس لئے نہیں آئے گی کہ اس’ اڈوانس “ رقم پر کرایہ دار کی ملکیت ِ تامہ حاصل نہیں ہے۔
۲) دوسرا قول بعض دیگر علماء کرام کا یہ ہے کہ اس ”اڈوانس“ رقم کی زکوٰة نہ کرایہ دار پر آئے گی نہ ہی مالک ِ مکان پر، اس لئے کہ اڈوانس کی رقم شئی مرہون کے مشابہ ہے، اور شئی مرہون کی زکوٰة نہ راہن پر آتی ہے نہ مرتہن پر۔لہٰذا اس اڈوانس رقم کی زکوٰة کرایہ دار پر نہ آنے کی وجہ یہ ہے کہ اس اڈوانس رقم پرکرایہ دار کا مکمل قبضہ نہیں ہے، اسی طرح اس کی زکوٰة مالک ِ مکان پر بھی نہیں آئے گی، اس لئے کہ اس اڈوانس کی رقم پر ملک ِ تام نہیں ہے؛ اسی قول کو حضرت اقدس مفتی شعیب اللہ خان صاحب دامت برکاتہم نے اپنی کتاب ”نفائس الفقہ“میں ترجیح دی ہے۔
۳) تیسرا قول بعض علما کاجیسے شیخ الاسلام مفتی تقی عثمانی صاحب حفظہ اللہ وغیرہ کا یہ ہے کہ ڈپازٹ کی رقم کی حیثیت مالک ِ مکان کے پاس مدت ِ اجارہ کے ختم ہونے تک قرض کی ہے ، اورڈپازٹ کی رقم اس غرض کے لئے ہوتی ہے کہ جب کرایہ دار مکان خالی کرے تو اگر اس نے مکان میں کوئی نقصان کردیا ہوتو اس کا ضمان اس سے لیا جاسکے، لہذا اس ڈپازٹ کی رقم کو رہن نہیں کہہ سکتے؛ بل کہ یہ قرض ہی ہے، اور اس کی زکوٰة کرایہ دار پر آئے گی۔
(فتاویٰ عثمانی ۳ / ۴۲۰)
پیشگی کرایہ کی پوری رقم پر زکوٰة
آج کل مارکیٹ میں اس کا رواج بھی چل پڑا ہے کہ بڑی بڑی دوکانوں کے مالک کرایہ دار سے کرایہ طے کرکے ماہانہ کرایہ لینے کے بجائے پیشگی ہی مدت ِ کرایہ کی تمام رقم ایک ساتھ لے لیتے ہیں، مثلاً اگر ایک دکان کا کرایہ ماہانہ دس ہزار روپئے ہے اور عام طور پر گیارہ مہینہ کی مدت کے لئے معاہدہ ہوتا ہے ، تو اب مالک ِ مکان کرایہ دار سے یک مشت پیشگی ہی ایک لاکھ دس ہزار روپئے لے لے تا ہے؛ تاکہ ہر مہینہ کرایہ کے لئے چکر کاٹنا نہ پڑے۔ گیارہ مہینہ کی مدت کے بعد معاہدہ کے حساب سے کرایہ دار مکان یا دکان خالی کردیتا ہے یا مزید مدت کے لیے آپس میں معاہدہ کرلیتے ہیں۔ اب سوال یہ ہے کہ کرایہ دار نے پیشگی کرایہ کی جو رقم یعنی ایک لاکھ دس ہزار روپئے مالک ِ مکان کوجو دئے ہیں، اس کی زکوٰة کس پر لازم ہے؟
اس کے سلسلہ میں فقہاء کرام کا قول یہ ہے کہ پیشگی کرایہ لینے سے مالک ِ دوکان اس کرایہ کا مالک بن جاتا ہے ، کرایہ دار اس سے مطالبہ بھی نہیں کرسکتا، اس لئے اس پیشگی کرایہ کی زکوٰة مالک ِ دوکان پر ہی آئے گی نہ کہ کرایہ دار پر۔
(فتاویٰ حقانیہ :۳/۵۰۷ )
مارٹ گیج پر دی(Mortgage) ہوئی رقم پر زکوٰة:
آج کل عام طور پرمکان یا دکان وغیرہ کرایہ پر لینے کی صورت میں حقیقی کرایہ داری کا معاملہ کرنے کے بجائے مارٹ گیج(Mortgage)کا بہت زیادہ رواج ہوگیا ہے کہ ایک شخص بڑی رقم مثلا ً پانچ لاکھ یا سات لاکھ روپئے وغیرہ مالک ِ مکان کو دیکر بلا کرایہ مکان ایک متعینہ مدت کے لئے حاصل کرلیتا ہے ، اور جب وہ متعینہ مدت پوری ہوجاتی ہے تو رقم دینے والا مکان خالی کردیتا ہے اور مالک ِ مکان اس رقم کو واپس کردیتا ہے، جو اس نے پیشگی لیا تھا۔
سوال یہ ہے کہ جو رقم بطور ِ مارٹ گیج کے دی گئی ہے، اس کی زکوٰة ادا کرنا کس پر لازم ہے ، رقم دینے والے پر یا جس نے رقم لیا ہے یعنی مالک ِ مکان پر؟ اس سلسلہ میں اکثر علما ئے کرام کی رائے یہ ہے کہ بطورمارٹ گیج(Mortgage) دی گئی رقم پر زکوٰة رقم دینے والے پر آئے گی نہ کہ مالک ِ مکان پر۔ کیوں کہ مالک ِ مکان تو اس رقم کا مالک نہیں ہے اور حقیقت میں وہ رقم اس پر قرض ہے، جس کا واپس کرنا اس پر لازم ہے، اس کے برخلاف رقم دینے والا اس رقم کا مالک ہے، جس کی واپسی بھی یقینی ہے، لہذا اس رقم پر زکوٰة رقم دینے والے پر آئے گی نہ کہ مالک ِ مکان پر۔(نفائس الفقہ)
مال ِ تجارت کی قیمت ادا کرکے قبضہ نہیں کیا
مال ِ تجارت جس کی قیمت پیشگی ادا کردی گئی ہو، لیکن مال کی وصولی اب تک نہیں ہوسکی ہے ، تو اب سوال یہ ہے کہ جو قیمت خریدار کی جانب سے ادا کی جاچکی ہے اس پر اور وہ مال جوخریدار کے قبضہ میں نہیں آیا ہے اس کی زکوٰة واجب ہوگی یا نہیں؟
اس کے سلسلہ میں حکم یہ ہے کہ جس مال ِ تجارت کی خریدار نے قیمت ادا کردی ہے، لیکن ابھی قبضہ نہیں کیا ہے، اس کی زکوٰة خریدار پر ابھی ادا کرنا واجب نہیں ہے، البتہ قبضہ کے بعد خریدار پر گذشتہ سالوں کی بھی زکوٰة ادا کرنا واجب ہے۔اور خریدار نے مبیع (goods) کی جو قیمت بائع کو ادا کردی ہے، اس پر بائع کی ملکیت اور قبضہ دونوں جمع ہوکر ملکیت ِ تامہ کے دائرہ میں داخل ہوچکی ہے، اس لئے اس کی زکوٰة بائع پر ادا کرنا واجب ہے۔(فتاویٰ قاسمیہ)
متفرق مسائل
زکوٰة کی رقم سے قرض کی وصولی :
عام طور پر بعض لوگ کسی محتاج کو حسبِ ضرورت قرض دیتے ہیں،لیکن اب اس قرض کی وصولی کی کوئی صورت نہیں ہے، تو کیا وہ شخص اپنے زکوٰة کی رقم سے اپنے قرض کو وصول کرسکتا ہے؟
زکوٰة کی ادائیگی میں ضروری ہے کہ اسے محض اللہ کی رضا کے لئے دیا جائے اورکسی قسم کا نفع نہ اٹھایا جائے ؛البتہ قرض کی وصولی چوں کہ آپ کاپہلے سے ثابت شدہ حق ہے؛ لہذا جس شخص کو قرض دیا گیا ہے اگر وہ مستحق ِزکوة ہے تو آپ قرض کی وصولی سے مشروط کرکے زکوٰة اداکرسکتے ہیں، لیکن خیال رہے کہ زکوٰة باقاعدہ ادا کی جائے اور پھر مستقلاً قرض کی مد میں وصول کی جائے، صرف معاف کرنے سے زکوٰة ادا نہیں ہوگی ۔
اگر ایسی شرط لگاکر زکوٰة دی گئی تو اس شخص پر شرط کی پابندی ضروری نہ ہوگی،البتہ جس سے قرض وصول کرنا ہے اس کو ترغیب دے سکتے ہیں کہ وہ اس رقم سے قرض ادا کرے۔(الدر المختار)
صدقہ کی نیت سے زکوٰة ادا کرنا:
زکوٰة کی ادا ئیگی کے لیے نیت ِزکوةہونا ضروری ہے، اگر زکوٰة کی رقم جدا کرتے وقت نیت کرلی تو بھی کافی ہے اگرچہ دیتے وقت نیت نہ ہو، البتہ اگر رقم بنیتِ زکوٰة علیحدہ نہیں کی گئی ،ویسے ہی نیت کرلی کہ جو میں دوں گازکوٰة ہو گی ا ور صدقہ کرتا رہا پھرسال کے آخر میں یہ نیت کرلی کہ جو صدقہ میں سال بھر کرتا رہا،وہ میری طرف سے زکوٰة ہے تو یہ کافی نہیں ہے، اس صورت میں زکوٰة دیتے وقت نیت کرنا ضروری ہے، ورنہ زکوٰة ادا نہیں ہوگی۔
زکوٰة میں کس مقام کی قیمت معتبر ہوگی:
ادائیگی زکوٰة میں مالِ زکوة کی قیمت اس جگہ کی معتبر ہوگی ،جہاں زکوٰة ادا کرنے والا ہے یا اس مقام کی معتبر ہوگی جہاں مال موجود ہو؟اس کے سلسلہ میں فتاویٰ ہندیہ کے اندر یہ صراحت مذکور ہے کہ جہاں مال موجود ہو وہاں کی قیمت معتبر ہوگی نہ کہ جہاں زکوٰة ادا کرنے والا ہے وہاں کی۔(ہندیہ ۱/۱۸۰)
عیدی کے نام سے زکوٰة دینا:
زکوٰة میں دینے والے کی نیت کا اعتبار ہوتا ہے، اگر اسے عیدی کہا جائے اور اسی نام سے مستحق رشتہ داروں کو دی جائے تو اس کی زکوٰة ادا ہوجائے گی، بشرطیکہ جسے دی جارہی ہے وہ مستحقِ زکوٰة ہو۔
زکوٰة میں کس وقت کی قیمت معتبر ہوگی:
سونے چاندی کی زکوٰة میں کس وقت کی قیمت معتبر ہوگی، جس وقت زکوٰة واجب ہوئی یا جس وقت زکوٰة ادا کی جارہی ہے؟ اس کے سلسلہ میں دونوں قول ہیں، احتیاط اس میں ہے کہ جو قیمت زیادہ ہو وہ لگائی جائے۔
سامانِ تجارت کی زکوٰة میں قیمت فروخت معتبر ہوگی:
تجارت کے سامان کی زکوٰة خریدے ہوئے حساب سے ادا کی جائے گی یا جس قیمت سے فروخت کرے اس حساب سے؟ تو اس کے بارے میں مسئلہ یہ ہے کہ اس میں قیمت فروخت معتبر ہوگی یعنی سامان کی جو قیمت مارکیٹ میں ہو اس کے حساب سے زکوٰة ادا کی جائے گی۔(فتاویٰ شامی ۲/۲۸۶)
گروی پر رکھی ہوئی چیزوں میں زکوٰة کا حکم:
مالِ زکوٰة (نقدی، سونا،چاندی،مالِ تجارت) جب گروی کے طور پر قرض خواہ کے پاس رکھا جائے تو اس کی زکوٰة نہ قرض خواہ پر لازم ہے نہ مقروض(مالک) پرلازم ہے،نہ ابھی ا ور نہ واپس لینے کے بعد گذشتہ سالوں کی زکوٰة ادا کرنا ضروری ہے۔یہ گروی جس چیز کے بدلے رکھی گئی ہے خواہ اس کے بقدر ہو یا اس سے زیادہ قیمت والی ہو، دونوں صورتوں میں حکم یہی ہے۔(فتاویٰ شامی ۲/۲۶۳)
گذشتہ سالوں کی زکوٰة ادا کرنے کا طریقہ:
گذشتہ سالوں کی زکوٰة ادا کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ پہلے سال کی زکوٰة ادا کرنے کے بعد مابقیہ سے دوسرے سال کی زکوٰة ادا کی جائے گی ، حتیٰ کہ جب تک نصاب سے کم نہ ہوجائے زکوٰة ادا کرتے رہیں گے، اور جب نصاب سے کم رہ جائے، تو پھر زکوٰة لازم نہیں۔
گذشتہ سالوں کی زکوٰة ادا کرتے ہوئے اس بات کا لحاظ رکھنا بہت ضروری ہے کہ گذشتہ سال کی زکوٰة امسال کی قیمت کے اعتبار سے ادا کرنی ہوگی، یہی راجح اور مفتی بہ قول ہے۔(فتاویٰ قاسمیہ)