محدث العصر حضرت مولاناسید محمد یوسف بنوری
تقریبا ًانتیس ۲۹/ سال پہلے ۱۳۵۷ھ۱۹۳۸ ء کے اوائل میں مصر جانے کا اتفاق ہوا تھا اور قاہرہ کے ایک دینی ہفتہ وار مجلہ ”الا سلام“ کے دفتر میں اپنے رفیق مولانا سید احمد رضا صاحب بجنوری کی معیت میں بسلسلہ اشاعت ِمضامین جانا ہوا تھا؛ وہیں مجلہ ”الاسلام“ کے دفتر میں مصر کے ایک مشہور عالم اور مفسر قرآن( ۱) شیخ جوہری طنطاوی مرحوم سے تعارف اور ملاقات کا موقع ملا، وہ بھی اس مجلہ میں کوئی مضمون شائع کرانے کی غرض سے تشریف لائے تھے، تعارف کے بعد علامہ موصوف نے مجھ سے دریافت فرمایا کہ کیا میں نے ان کی تفسیر کا مطالعہ کیا ہے؟ میں نے جوا باً عرض کیا کہ جی ہاں! اس قدر مطالعہ کیا ہے، جس سے اس کے متعلق رائے قائم کر سکا ہوں کہ وہ کیسی تفسیر ہے۔
علامہ نے فرمایا کہ میں وہ رائے سننا چاہتا ہوں!
میں نے عرض کیا کہ ”مشکلات القرآن“ (۲) کے مقدمہ میں آپ کی تفسیر کے متعلق مختصر طور پر اپنی رائے لکھ چکا ہوں، وہ مختصرسی رائے تھی، اگر آپ اجازت دیں تو اب ذرا تفصیل سے عرض کروں، فرمایا بہت خوشی سے، اس کے بعد میں نے عرض کیا:
آپ نے علمائے امت پر یہ تو بڑا احسان کیا کہ علوم ِجدیدہ خصوصاً طبیعیات وفلکیات و ہیئت وغیرہ کو جو یورپ کی زبانوں میں تھے اور علماء ان سے استفادہ نہیں کر سکتے تھے، فصیح وبلیغ عربی میں منتقل کر دیا اور اس سے ہمارے لیے استفادہ کی راہیں کھل گئیں، اس احسان کے ہم سب ممنون ہیں؛ لیکن قرآنی دعوت کو آپ نے جس انداز سے بیان کیا ہے، اس کا تو حاصل یہ ہے کہ مسلمانوں نے ان قرآنی حقائق کو سمجھنے میں انتہائی تقصیر کی ہے اور یورپ کی قوموں نے ان کو خوب سمجھاہے اور انہوں نے ہی صحیح طور پر ان پر عمل کیا اور پورا فائدہ اٹھایا ہے، یورپین اقوام کی ترقی و تقدم اور مسلمانوں کی پستی و تاخر کا سب سے بڑا سبب یہی ہے۔
حاشیہ:(۱)علامہ شیخ جوہری طنطاوی نے ”الجواہر فی تفسیر القرآن الکریم“نامی ایک ضخیم تفسیر لکھی ہے۔
(۲)”مشکلات القرآن“امام العصر حضرت مولانا سید محمد انور شاہ کشمیری رحمةاللہ علیہ کی بے مثل تفسیر ہے، جس میں قرآن کریم کے مشکل مسائل کا تفسیری حل پیش کیاگیا ہے اس پر امام العصر رحمة اللہ علیہ کے تلمیذ خاص ہمارے شیخ حضرت مولانا محمد یوسف صاحب بنوری رحمةاللہ علیہ نے مقدمہ تحریر فرمایا ہے۔
اگر آپ کے اس بیان کو بلا تاویل صحیح مان لیا جائے ،تو یہ بھی تسلیم کرنا پڑے گا کہ اس معاملہ میں سب سے زیادہ عملی تقصیر خود اس مقدس شخصیت سے ہوئی (معاذ اللہ)، جس پر قرآن ِکریم نازل ہوا تھا اور جوسب سے زیادہ قرآنی حقائق کی عالم تھی ۔ اس کے بعد خلفائے راشدین اور صحابہ کرام نے بھی یہی تقصیر کی (معاذ اللہ) اور یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ صحا بہ کرام سے زیادہ قرآن ِکریم پر صحیح عمل کرنے والی قوم روئے زمین پر پیدا نہیں ہوئی، لیکن آپ کے بیان کے مطابق حضرات ِصحابہ رضوان اللہ علیہ اجمعین کی یہی قوم سب سے زیادہ مقصر (کوتا ہی کرنے والی) ہوگی۔
آپ فرماتے ہیں کہ جو قوم ان حقائق ِکو نیہ کو زیاد ہ جانے گی، اللہ تعالیٰ کی معرفت کے میدان میں وہی قوم گو سبقت لے جائے گی، گویا یورپ کا ایک سائنسدان آپ کے فرمانے کے مطابق صحابہ کرام اور عارفین امت سے زیادہ اعرف باللہ ہوگا اور ایک یور پین کا فرو فاسق سائنسداںآ پ کے نزدیک سید الطا ئفہ حضرت جنید بغدادی سے زیادہ عارف باللہ ہوگا۔
پھر آپ قرآنی آیات سے بسا اوقات ایسے طرز پر استدلال کرتے ہیں کہ قرآنِ حکیم کی شان رفیع اس واہی اور کمزور استدلال سے بہت اعلیٰ وارفع ہوتی ہے۔ مثال کے طور پر میں نے سورہٴ آل عمران کی تفسیر میں ایک موقعہ پر علامہ موصوف کے ایک استدال کا حوالہ دیا، جس میں موصوف نے فوٹو کے جواز پر استدلال کیا تھا، میں نے اس کی کمزوری اور اس کے رکیک انداز کو اچھی طرح واضح کیا۔
علامہ طنطاوی مرحوم بڑے غور سے میری بات سنتے رہے اور اس کے بعد ان کا جواب دینا شروع کیا اور میں موصوف کی ان جوابی وضاحتوں کا رد واعتراض اور جواب در جواب دیتا رہا۔
عجیب بات یہ تھی کہ مرحوم کوئی مؤثر اور وزنی بات نہیں فرما سکے اور اس سے زیادہ عجیب اتفاق یہ تھا کہ اس وقت اللہ تعالیٰ نے میرا سینہ اس طرح کھولا اور زبان و بیان میں ایسی طاقت و روانی عطافرمائی، جو میں نے اس سے پہلے کبھی محسوس نہیں کی تھی اور اس کا میں نے یہ اثر دیکھا کہ گرمی ٴبحث کے دوران علامہ طنطاوی مرحوم نے بے ساختہ فرمایا:
”مَا أَنتَ عالمٌ ہندیٌ إنما أنت مَلَکٌ نَزَلَ مِنَ السَّماء لإ صَلاحِی“!
تم محض ایک ہندی عالم نہیں بلکہ در حقیقت فرشتہ ہو جو آسمان سے میر ی اصلاح کے لیے اترا ہے۔
اور بحث کے درمیان کبھی کبھی کانوں پر ہاتھ رکھ کر بہت ہی تعجب کے لہجہ میں فرماتے:
”ألآن أفہم منک معنی ہذا الحدیث“۔
اس وقت میں تم سے اس حدیث کے معنی سمجھا ہوں۔
یہ اعتراف علامہ مرحوم کا حسن ِاخلاق تھا اور اس طرف یہ میرا کوئی کمال نہ تھا؛ بل کہ اس جماعت کی برکت تھی، جس کی طرف میرا انتساب تھا اور ان اکابر کی کرامت تھی، جن کے جوتے میں نے اٹھائے تھے کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے رسوا نہیں فرمایا اور میرے جہل و نادانی سے میرے اکا بر بدنام نہیں ہوئے۔
اس تمام بحث و تفصیل کا حاصل یہ ہے کہ کائنات اور کونیات حق تعالیٰ کے کمالات، قدرت اور صفات ِجلال و جمال کا ایک صحیفہ ہے، جس کے مطالعہ سے اور اس میں غور و فکر کرنے سے ایمان میں پختگی پیدا ہوتی ہے اور اس حیثیت سے طبیعیات کے جدید علوم ان اصحاب کے لئے بلاشبہ بصیرت افزا اور بے حد بصیرت افروز ہیں، جن کو وحی والہام اور مکاشفہ کی راہ سے وصول الی اللہ حاصل نہ ہو۔معرفت الہٰیہ ان علوم پر منحصر نہیں ہے ؛بل کہ ظاہر میں ان اصحاب کے لئے حصول معرفت کا یہی ایک راستہ باقی رہ گیا ہے۔
علمی معارف کے بعد عملی نتائج ہیں اور اس علم وعمل سے حقیقی فوائد حاصل کرنے کے لئے صحت ِ مقصد کی ضرورت ہے اور تصحیح ِمقصد کے لئے ایمان باللہ، ایمان بالرسول اور ایمان بالآخرة کے سوائے کوئی دوسری راہ نہیں ہے۔ ایمان ویقین سے محرومی اور بے مقصد علم و عمل ہی کی وجہ سے روس، امریکہ اور یورپ کی قومیں ان سائنسی ترقیات اور محیر العقول ایجادات و اختراعات کے باوجود انسانیت کی صفوں سے نکل کر پوری درندگی کی حدوں تک پہنچ چکی ہیں۔ نبوت ختم ہو چکی ہے اس لئے معجزاتِ نبوت اور انبیاء کے خوارق کی جگہ اللہ تعالیٰ ان علمی راہوں سے ان پر اپنی حجت پوری کر رہا ہے اور خود انہیں کے ایجاد کردہ علوم سے ان حقائق کو اس نے واشگاف کر دیا ہے کہ بے شعور طبیعت اور اس کے ان حیرت انگیز مظاہر اور حیرت افزا خواص و منافع میں کرشمہٴ الہیہ کے اعتراف کے سوائے اور کوئی تو جیہ نہیں ہوسکتی۔
ایک طرف سائنس کی موجودہ ترقیات اور حیرت انگیز ایجادات و اختراعات کو دیکھ کرعقل دنگ ہو جاتی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انسانی عقل میں کیا کیا صلاحیتیں رکھی ہیں اور جب ان صلاحیتوں سے کام لیا گیا ہے، تو عقل نے کہاں تک رسائی حاصل کرلی ہے، ان چیزوں کو دیکھ کر سائنس دانوں کے کمال کا اعتراف کرنا پڑتا ہے، لیکن یہ صورت کمال کا صرف ایک ہی رخ ہے؛ اسی تصویر کا دوسرا رخ دیکھیے کہ ان آیات ِقدرت اور عجائبات و تکوین کو دیکھنے کے بعد بھی وہ اب تک اللہ تعالیٰ پر ایمان نہیں لائے، اور ایمان باللہ کی دولت سے محروم ہیں تو حیرت ہوتی ہے کہ یہی عقلا، فکر ونظر کے اس رخ پر اس قدر جاہل کیسے رہ گئے؛ لیکن حق تعالیٰ ان کے کفر و انکار کی حقیقت سے بھی پردہ اٹھاتا ہے،ارشاد ہے:
”یَعْلَمُونَ ظَاہِرًا مِّنَ الحَیَوةِ الدُّنْیَا وَہُمْ عَنِ الْآخِرَةِ ہُمْ غَافِلُون“۔
(الروم: ۷)
وہ حیات ِدنیا کے ظاہری میں سے کچھ جانتے ہیں اور یہی لوگ آخرت سے تو بالکل غافل ہی ہیں۔
دنیا کا بھی ظاہر اور وہ بھی بہ ہمہ جہت محدود مقدار میں جانتے ہیں، ان کا ذہن اور ان کی فکر و نظر اس طرف بالکل نہیں جاتی کہ اس حیرت انگیز کائنات اور پر اسرار و حقائق مخلوقات کے خالق پر ایمان لائیں، ایک طرف یہ ذہانت اور حیرت انگیز ذہانت اور دوسری طرف اس قدر غباوت اور غیر معمولی غباوت بجائے خود کس قدرعجیب اور حیرت ناک ہے اور حق تعالیٰ کے اس ارشاد کی صداقت کی کتنی سچی گواہی ہے:
”وَمَنْ لَّمْ یَجْعَلِ اللَّہُ لَہُ نُورًا فَمَالَہُ مِنْ نُوْرٍ“۔
(نور:۴۰)
اللہ تعالیٰ جس کو روشنی نہ دے تو اس کے لئے کہیں روشنی نہیں ہے۔
(ماخوذ از:بصائر وعبر۔ص۳۸ تا ۴۱)