قوانین فطرت اعتقادی غلطی

 

 

 اور اس کے اثرات

حکیم فخرالاسلام مظاہری

            کتاب ”الانتباہات المفیدة عن الاشتباہات الجدیدة“کے ”انتباہِ دوم متعلق تعمیم قدرتِ حق “ میں حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانوی نے صفتِ خداوندی سے متعلق اُس ایک اہم غلطی(قانونِ فطرت کے خلاف محال ہونے کا اعتقاد ) کی نشاندہی کر دی ہے جس کے سبب اہلِ تجدد کو خارقِ قانونِ عادت اور خلافِ قانونِ فطرت رونما ہونے والے معجزات سے انکار کرنا پڑا۔ ”بعض سے تو صریحاً کہ اُس حکایت ہی کی تکذیب کردی۔“ اور جہاں قرآن و حدیث کی قطعی وضاحت کی وجہ سے انکار کی گنجائش نہ ملی،” وہاں درپردہ انکار کیا کہ تاویل باطل سے کام لیا۔ اور جب معجزات کے ساتھ یہ معاملہ کیا، تو کراماتِ اولیاء تو کسی شمار میں نہیں۔ “اِس کے بڑے دور رس اثرات مرتب ہوئے :

 ۱-وحی کی حقیقت میں غلطی:

            علوم جدیدہ کے اثر سے نبوت کے متعلق یہ سمجھ لیا جا تا ہے کہ بعض ریفارمروں میں: فطرةً اپنی قوم کی بہبودی وہمدردی کا جوش ہوتاہے ، اِسی جوش کے سبب اُس پر اُسی کے تخیلات غالب رہتے ہیں جس سے بعضے مضامین اُس کا متخیلہ مہیا کر لیتا ہے۔ اِسی غلبہ سے کوئی آواز بھی سنائی دینے لگتی ہے اور بعض اوقات کوئی صورت بھی نظر آجاتی ہے اور وہ صورت بات کرتی ہوئی بھی معلوم ہوتی ہے، جب کہ خارج میں نہ آواز،نہ کلام ، نہ وحی،نہ فرشتہ، کچھ بھی نہیں ہوتا۔

            ”لیکن(ظاہر ہے کہ) نبوت کی یہ حقیقت قرآن و حدیث کی صراحت کے خلاف ہے ۔(۱)نصوص میں تصریح ہے کہ وحی ایک فیض غیبی ہے جو بہ واسطہٴ فرشتہ کے ہوتاہے ۔اور وہ فرشتہ کبھی اِلقاکرتا(دل میں ڈالتا)ہے جس کو حدیث میں نفث فی روعی( میرے قلب میں ڈالا)(۱) فرمایا ہے ۔کبھی اُس کی صوت (آواز)سنائی دیتی ہے، کبھی وہ سامنے آکر بات کرتاہے جس کو فرمایا ہے : یَاتِیْنی الْمَلَکُ اَحْیاناً فَیَتَمَثَّلُ لِی“(۲)

            (وحی کی)اِس (حقیقت ) کا علوم جدیدہ میں اِس لیے انکار کیا گیا ہے کہ خود فرشتوں کے وجود کو بلادلیل باطل سمجھاگیاہے ۔کیوں کہ فرشتوں کا وجودممکن ہے، محال ہونے پرکوئی عقلی دلیل قائم نہیں ہے۔اور یہ حقیقت اپنی جگہ واضح ہے کہ ”جس ممکنِ عقلی کے وجودپر دلیل نقلی صحیح قائم ہواُس کے وجود کاقائل ہونا واجب ہے۔“ (دیکھیے اصولِ موضوعہ۲)

 (۱)بیسویں صدی کی ابتدا میں بعض مسلمان مفکروں نے صاف طور پر یہ لکھا کہ :”قوتِ متخیلہ کو جو صورتیں نظر آتی ہیں کبھی وہ اُن میں تصرف کرکے متخیلہ کے حوالے کرتی ہے ۔اِس صورت میں انسان عجیب و غریب خدائی صورتیں اور آوازیں مشاہدہ کرتا اور سنتا ہے۔اور یہ آوازیں بالکل محسوسات کے مثل ہوتی ہیں۔“اُنہوں نے وحی کی بھی یہی حقیقت قرار دی؛ لیکن بات ذرا اِس طرح بنا کر پیش کی کہ: ”انبیاء کی اِس قوت =

۲- فرشتے اور جنات:

            اِسی خلافِ فطرت محال ہونے کے عقیدہ سے وابستہ جنات کا وجود ہے، حکیم الامت فرماتے ہیں:فرشتے اور جنات کا وجودجس طرح کا قرآن ،حدیث ”و اِجماع سے ثابت ہے ،اُس کا اِنکار محض کبھی اِس بنا پر کیاجاتاہے کہ : اگروہ (فرشتے اور جنات وغیرہ) جواہر، موجود ہوتے، تو محسوس ہوتے۔ (جب محسوس نہیں ، تو موجود بھی نہیں۔)اور کبھی اِس بنا پر کہ اِس طرح کا وجود کسی شی کا کہ سامنے سے گذرجاوے اور محسوس نہ ہو، سمجھ میں نہیں آتا ۔“

۳-آیات ِقرآنیہ کے معانی میں تحریف:

            اور چوں کہ آیات قرآنیہ میں بھی جابجا اِن کے وجود کا اِثبات کیاگیاہے اور قرآن کے ثبوت میں کلام نہیں ہوسکتا تھا،اس لیے اِن آیات میں ایسی بعید بعید تاویلیں کی جاتی ہیں کہ بالکل وہ حدِ تحریف میں داخل ہیں۔جن بناوٴں پر ظاہری معنی کا انکار کیاگیاہے اُن کا غلط ہونا تو اصول موضوعہ نمبر۴ میں ثابت ہوچکاہے۔“

            ” پس جب کہ ایسے جواہر“ملائکہ و جن وغیرہ کے محال ہونے پر کوئی دلیل عقلی قائم نہیں ، تو عقلاً ممکن الوجود ہوئے “کیوں کہ امکان کے لیے اتنا کا فی ہے کہ اُس کے محال ہو نے پر عقلی دلیل قا ئم نہ ہو۔پھر جب یہ ممکن ہو ئے اور اصول موضوعہ ۲ کی رو سے یہ بات مسلم ہے کہ” جس ممکنِ عقلی کے وجودپر دلیل نقلی صحیح قائم ہواُس کے وجود کاقائل ہونا واجب ہے۔اور“قرآن وحدیث میں ”اِن جواہر (ملائکہ وجن و ابلیس) کا وجود واردہے، اس لیے ایسے جواہرکا قائل ہونا“ہر حال میں ”واجب ہوگا۔ اور چوں کہ“الفاظ میں اصل یہ ہے کہ اُن کو ظاہر ی معنی پر محمول کیا جائے،” اس لیے اِس کی تاویلات بعیدہ کرنا باطل ہوگا۔“(دیکھیے اصول موضوعہ نمبر۷)۔

            چوں کہ رجحانات و میلانات مخصوص حالات کے پیشِ نظر ہی پنپتے ہیں ،لہذا جب مسلمانوں نے قوانین فطرت کی اہمیت و عظمت کے اعتقاد سے اِستفادہ کرنا چا ہا،تو اُنہوں نے اپنے اسلامی موقف سے اُسے نباہنے کی کوشش کی۔اِس باب میں بعض مفکروں نے ایک غلطی یہ کی کہ ملائکہ ، جن ،ابلیس کے وجود وغیرہ کاوجود تو مانا؛لیکن ابلیس کی عمر کو فطرت کے خلاف محسو س کر کے نص قرآنی میں تاویل کر دی۔اوریہ تاویل اپنی دانست میں اسلام کی خدمت کے طور پر کی گئی ہے ۔

 =کوقوتِ متخیلہ کے بجائے قوتِ قدسیہ کہنا زیادہ صحیح ہے۔“ (الکلام مع حاشیہ۔ از شبلی ص۲۹۳،دارالمصنفین پہلا ایڈیشن)یہ بات ذہن نشیں رہنا چا ہیے کہ خواہ اُس کا نام ” قوتِ قدسیہ “رکھا جائے یا کچھ اور۔لیکن”وحی“کی حقیقت نہ نبی کی” قوتِ قدسیہ ‘ ‘ہے اور نہ ہی متخیلہ کا کرشمہ؛ بل کہ وہ ایک فیض غیبی ہے جو فرشتہ کے واسطہ سے ہوتا ہے،جیسا کہ مذکور ہوا ۔

وہ اِس طرح کہ دو خدا-خالق خیر یزداں اور خالق شر اہر من- کے عقیدہ کی تردید کے ضمن میں ایک مفکر کویہ محسوس ہوا کہ ابلیس کے لیے قیامت تک کی مستمر زندگی کے اعتقاد سے عقیدہ ثنویت کو تقویت پہنچنے کی راہ ملتی ہے ،اِدھرعیسائی متکلم کا حشر اُن کے سامنے تھا کہ کس طرح ”آگسٹائن (۳۵۴تا۴۳۰ء)جو بہت ذہین عیسائی متکلم ہے،معاملہ کو سمجھ نہ سکا اورشیطان سے ہار گیا،اس لیے کہ وہ شر کے علم بردار شیطان کو ایک مستقل وجود مانتا ہے،جس سے اِس عقیدہ کوتقویت ملی ہے کہ دنیا میں یزداں و اہرمن کی الگ الگ حکومت ہے اور یہ دونوں بر سرِ پیکار رہتے ہیں۔“(مفکر امین احسن اصلاحی:”فلسفے کے بنیادی مسائل قرآن کی روشنی میں“ البلاغ پبلیکیشن نئی دہلی ص۱۳۹)

            یہ دیکھ کرمفکر کی غیرت جوش میں آئی اورآیت قرآنی ﴿الی یوم یبعثون﴾ کی تاویل کرتے ہوئے اُنہوں نے لکھ دیاکہ:

            ”یہ خیال کہ وہی شیطان جس نے حضرت آدم کو دھوکہ دیا تھا، ابھی تک زندہ ہے اور وہی انسانوں کو دھوکا دیتا ہے، بالکل بچکانہ ہے۔(ایضاً حوالہ بالا)

             یہ بھی وہی قانونِ فطرت کے اعتقاد کا نتیجہ ہے کہ فطرت کے خلاف کوئی بات ماننا نہ پڑے۔سب کی موت اِسی جاری ساری دنیوی ماحول میں اپنی ایک حد کو پہنچنے کے بعد واقع ہو جاتی ہے،تو شیطان کے لیے قیامت تک کی مہلت تسلیم کرنا گو یا،فطرت کے قانون کو ٹھکرانا ہے،لہذا عقیدہ اہرمن کو رد کرنے کے ضمن میں قانونِ فطرت کی حفاظت کی خاطر مصنف نے ایک منصوص عقیدہ میں معنوی تحریف کر دی۔       

            افسوس ہے کہ علوم جدیدہ سے متاثر تجدد پسندوں نے معجزات کے متعلق صاف کہہ دیاکہ:اگر معجزہ سے”کوئی امر خارقِ عادت- جو قوانینِ فطرت کے بر خلاف ظہور میں آئے-مراد ہے،تو ہم اُس کے اِنکار پر مجبور ہیں۔“(حیات جاویدص۶۳۰)

            مگرمعجزات تو نصوص میں مذکورہیں اُن کا کیا کیا جائے؟اس سوال کے جواب کے لیے جنہیں فاسد و باطل توجیہات سے کام لینا تھا،اُنہوں نے تو لیا،یعنی تاویلات بعیدہ کا اِرتکاب کیااور نصوص ”میں تاویل بعید -جس کو تحریف کہنا بجاہے-کرکراکر اُن کو امور عادیہ بنایا جاتاہے۔ اکثر کو تو بالکل غیر عجیب واقعہ جیسے إِضْرِبْ بِعَصَاکَ الْحَجَر“ہم نے (موسیٰ علیہ السلام کو )حکم دیا: ”اپنے اِس عصا کو فلاں پتھر پر مارو۔“

(البقرة،آیت۶۰بیان القرآن ص۳۵)

             آیت میں محمد علی لاہوری نے- سر سید احمد خاں کی اتباع میں- یہ تاویل کی کہ:” اپنی جماعت کو لے کر پہاڑ کی طرف سفر کرو۔“ تاویلات مثل تحریفات کی بعض دیگر مثالیں : نتَقْنَا ا لْجَبَلَ فَوْقَھُمکے معنی وہ لوگ دامنِ کوہ میں آباد تھے۔آتشِ نمرود میں پڑنے کے معنی گزندِ نمرود سے محفوظ رہنے کے۔“

(محمد علی لاہوری: بہ حوالہ نقوش و تاثرات ص ۳۴۰ ، از محقق عبد الماجد دریا بادی )

             معجزہ کی حقیقت کے باب میں ایک صاحبِ علم کے اِستفسار کے جواب میں حکیم الامت کے علوم کی روشنی میں عرض کیا گیا تھا کہ:

            ”جس واقعہ کا سبب طبعی پایا جاتا ہو-خواہ نبی کی قوت جسے بعضوں نے ’قوت قدسیہ ‘کا نام دیا ہے ، خواہ تصرف-وہ معجزہ نہیں کہلاتا۔کیوں کہ:

معجزہ،اگر نبی کی قوت ، قصداور اختیار سے صادر ہواکرتا،تو” تو موسی علیہ السلام اپنے معجزہ سے خود نہ ڈرجاتے اور حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کو بعض فرمائشی معجزات کے“ تمننا کرنے” پر یہ نہ فرمایا جاتا: فَاِنْ اسْتَطَعْتَ اَنْ تَبْتَغِیَ نَفَقًا فِیْ الاَرْضِ اَوْسُلَّمًا فِیْ السَّمآءِ فَتَاْتِیَہُمْ بِاٰ یَةِِِ۔الخ۔(”تو اگر آپ کو یہ قدرت ہے کہ زمین میں (جانے کو)سرنگ یا آسمان میں (جانے کو)کوئی سیڑھی ڈھونڈ لو،پھر( ان کے ذریعہ سے زمین یا آسمان میں جا کروہاں سے) کوئی معجزہ(فرمائشی معجزوں میں سے)لے آوٴ،تو(بہتر ہے) کرو۔“

            قدرت اور ختیار ماننے میں ایک خرابی یہ ہے کہ معجزہ اور دیگر عجائب طبعیہ میں کوء "فرق واقعی” نہیں رہتا۔(الانعام: ۳۵، بیان القرآن جلد ۳ ص۹۰) :ف) اورخفی سبب کے” احتمال پر معجزہ ودیگر عجائب طبعیہ میں کوئی فرق واقعی نہیں رہتا ۔اور جو فرق اِس تحریر میں نکالا گیا ہے اُس پر معجزہ خود مستقل دلیل نہیں ٹھہرتا۔حالاں کہ وہ خود بھی مستقل دلیل ہے۔ خواہ کسی خاص ہی طبقہ کے لیے ہو۔“ (بوادر النوادر جلد ۲ ص۳۸۱،۳۸۲)

            کرامات کا معاملہ معجزہ سے الگ ہے ۔ عموما یہ معجزہ کی طرح ولی کے اعزاز کے لیے بلا قدرت ظاہر ہوتی ہیں اور بعض مرتبہ قدرت کو دخل ہوتا ہے ۔ رہے تصرفات، تو وہ ہر حال میں اسباب طبعیہ کے تحت رونما ہوتے ہیں ، وہ سبب اگرچہ خفی ہوتے ہیں اورصرف فن کے ماہر کو اُن کا اِدراک ہو پا تا ہے ۔ تصرف کے لیے متقی، پرہیز گار اور ولی ہونا بھی ضروری نہیں۔ فاسق، فاجر؛ بلکہ کافر کے ہاتھ پر بھی سرزد ہو سکتے ہیں۔ شاید یہی وجہ ہے کہ حضور ﷺ نے تصرف سے کام نہیں لیا، ورنہ محدثین نے جہاں بہت سے باب قائم کئے ، ایک باب تصرف کا بھی قائم فر ما سکتے تھے ۔“