”الانتباہات المفید ة عن الاشتباہات الجدیدہ“

متن اور شرح کا تعارف

            (یہ تحریر کسی سائل کی تشفی اور اِزالہٴ تشنگی کے لیے لکھی گئی تھی، جس سے ”الانتباہات“اور شرح الا نتباہات کا تعارف مطلوب تھا،افادہٴ عام کی غرض سے نظر ثانی کے بعدوہ تحریر یہاں پیش کی جا رہی ہے)

            ”الانتباہات المفیدة عن الاشتباہات الجدیدہ“علمِ کلام جدید کے موضوع پر حکیم الامت حضرت مولانا محمد اشرف علی تھانوی کی شہرہٴ آفاق تصنیف ہے۔ ایک مدت ہوئی-تقریباً پندرہ سال پہلے- مولانا محمد حذیفہ وستانوی زید فضلہ کو اِس کتاب کی اہمیت اور قدر کا احساس ہوااور انہوں نے اپنے ادارہ جامعہ اسلامیہ اشاعت العلوم اکل کوا میں مشکوٰة شریف کی جماعت میں کتاب”الانتباہات المفید ة عن الاشتباہات الجدید ة“ کے سبقاً سبقاً درس کا بندوبست کیا۔ یہ سلسلہ جامعہ اسلامیہ اشاعت العلوم اکل کوا میں ۲۰۰۷ تا ۲۰۱۴ جاری رہا۔ پھرجگہ بدل گئی؛لیکن درس کا سلسلہ اس وقت سے تادمِ تحریر (جماعت مشکوٰة شریف ،تخصص،فقہ و افتا اور بعض مرتبہ اسلامک اسٹڈیز وغیرہ کے عصری گریجویٹس و پوسٹ گریجویٹس کے لیے حسبِ موقع و حسبِ طلب و مناسبت) جاری ہے۔اور کتاب کو ابتدا”وجہِ تالیفِ رسالہ“ سے” اختتامی التماس“ تک حسبِ منشائے مصنف – بالالتزام بلا تخلف سبقاً سبقاً پڑھانے کا سلسلہ قائم ہے۔

#          پڑھانے والے کو اِس دوران جو تجربہ ہوا اور موضوع (یعنی عصری تحدیات کے تناظر میں علمِ کلام جدید)کے مطالعہ کی جو توفیق میسر آئی، اُس نے کتاب کی شرح لکھنے میں مدد دی۔”الانتباہات المفیدة“ پر کی گئی اِسی شرح و تحقیق کا نام”علم ِکلام جدید“ پہلاحصہ ہے۔

            اصل میں ”الانتباہات “کے مصنف حکیم الامت حضرت مولانا محمد اشرف علی تھانوی کے پیش ِنظر علمِ کلام جدیدکی تدوین کا جو منشور اورخاکہ تھا وہ تین حصوں پر مشتمل تھا، جسے مصنف نے”وجہ تالیف رسالہ“ اور”اختتامی التماس“کے عنوانات کے تحت کتاب میں درج فرمایا ہے،چناں چہ لکھا ہے: ”الانتباہات المفیدة“ اُس جامع منشور کا پہلا حصہ ہے: ”اِس کے بعد خدا تعالیٰ مجھ کو یا کسی اور کو تو فیق بخشیں تو اور “حصوں کے” اضافہ کی گنجائش ہے۔ گویا یہ (الانتباہات المفیدة عن الاشتباہات الجدیدہ)حصہ اول ہے اور آئندہ اضافات دوسرے حصص۔“

            حضرت مصنف کے اس منشور میں پیش کردہ تجویز کے تتبع میں ” الانتباہات“کو علم کلام جدید کا پہلا حصہ تسلیم کرکے، جب تشریح کی توفیق میسر آئی تو شرح کو بھی علم کلام جدید پہلا حصہ نام دے دیا گیا، تاکہ یہ نام یاد دلاتا رہے کہ جس طرح ”الانتباہات“ کے متعلق مصنف کا یہ اشارہ بل کہ سفارش اور تجویز تھی کہ” اگر اِس کو سبقا پڑھانے والا کوئی مل جاوے تو نفع اور بھی اتم مرتب ہو۔ “اُسی طرح یہ خواہش بھی تھی کہ:

             #اگر کوئی صاحب ِتوفیق تمام شبہات بالتفصیل جمع کر کے ہر ایک کا جزئی جزئی جواب لکھ دے اور اُن جزئیات کی تقریر کے ضمن میں حاصل ہونے والے اصول و کلیات کو مدون کر دے، تو یہ علمِ کلام جدید کادوسرا حصہ ہو جائے گا۔پھرآگے کی خواہش یہ تھی کہ:

             #اگر ملحدین و معترضین کی جانب سے اسلام پرشبہات ،نیز دور ِحاضر کے قواعد ِتمدن کے تعارض کی بنیاد پر کیے جانے والے اعتراضات کے جوابات لکھ کر کتا ب مرتب کر دی جائے، تو یہ تیسرا حصہ ہوگا۔

             نام”علم کلام جدید پہلا حصہ“ یاد دلاتا رہے گا کہ پہلے حصے کے بعددوسرا ،تیسرا حصہ بھی ہونا چا ہیے۔

            ”علم کلام جدید“کے قواعد و مسائل سے مناسبت پیدا کرنے اور ضروری مباحث پر دسترس حا صل ہونے کے لیے تو پہلے حصے”الانتباہات المفیدة“ کے ہی کافی ہو جا نے کی امید ہے؛لیکن ما بعد کے دوسرے،تیسرے حصوں کی تکمیل کے بعددر حقیقت مکمل علم کلام جدید ہوگا اور علم کلام جدید کہلانے کا سب سے صحیح مصداق بن جائے گا۔

            جب یہ بات معلوم ہو گئی تو یہ جاننا آسان ہو گیا کہ ”الانتباہات المفیدة عن الاشتباہات الجدیدہ“کی شرح کے ساتھ علم ِکلام جدید کا پہلا حصہ لکھ دینے میں یہ مصلحت ہے کہ یہ عنوان یاد دلاتارہے کہ علم کلام جدید کے دیگر دو حصے مرتب ہونے باقی ہیں، خدا تعالٰی جس کسی کوتوفیق دے، وہ کوئی ایک شخص یا ایک سے زائد افراد جو بھی حکیم الامت”علماً عملاً تدیناًاہل ہوں“اِن دو حصوں کو مرتب کردیں ،جو خود اُن کے لئے باعث سعادت ہو اور مجوز و محرک مصنف علم کلام جدید کے اصولوں کے مکتشفِ اعظم حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانوی کے لیے درجات میں اضافہ کا باعث ہو۔