جامعہ کے شب و روز:

روداد سفر حضرت رئیس جامعہ ‘برطانیہ وحرمین شریفین

۳ نومبر۲۰۲۲ء بروز جمعرات بعد نماز عصر بمقام مسجد میمنی

کمپوزنگ: مولانا ابوسفیان دربھنگوی۔ایڈیٹنگ: محمد ہلال الدین بن علیم الدین ابراہیمی#

مشقت ِسفر اور سہولت شریعت:        

عزیز طلبہ کرام!

            مسلسل ایک مہینے کی جدائی کے بعد بندہ صحیح سلامت آپ کے درمیان حاضر ہے۔حدیث میں آتاہے :”السفر قطعة من النار“کہ سفر آگ کا ایک ٹکڑا ہے،؛سی لیے حضور پاک علیہ الصلاة والسلام نے اپنی تعلیمات میں سفر کے آداب بیان کیے ہیں، جس کو آپ نور الایضاح،قدوری،شرح وقایہ ااور ہدایہ اسی طرح حدیث کی کتابوں بخاری شریف، ترمذی شریف اور مشکوٰة شریف وغیرہ میں کتاب السفر یا باب السفرکے نام سے پڑھتے ہیں کہ سفر کسے کہتے،مسافر کون ہوتاہے،اس کا حکم کیاہے؟اسی لیے اللہ تعالیٰ نے مسافروں پر رحم فرمایامسافر پر جماعت نہیں ہے اورقصر کا حکم دیا کہ مسافر پر چار رکعات والی نماز دو رکعت ہے،آپ سفر پر نکلے اور شریعت کے احکام کو دیکھیں تو معلوم ہوگا کہ شریعت ِمطہرہ نے قدم قدم پر مسافر کے ساتھ نصرت کا معاملہ کیا ہے۔

نظام سفر:

             میرا یہ سفربرطانیہ کاہوا۔ شاید دس سال پہلے میرا ادھر کا سفر ہواتھا،دس سال سے میرا وہاں جانا نہیں ہو۔ بہت سے دوست ،احباب،اعزہ واقارب بلاتے رہے ؛بالآخر ایک دوست کا فون آیا کہ بھائی آپ کا ویزابن گیا، میںآ پ کے لیے ٹکٹ بھیج رہاہوں،چناں چہ انہوں نے ٹکٹ بھیج دیااور مجھے ویزا بھی مل گیا اور الحمدللہ میں وہاں پہنچ گیا۔

مقصد ِسفر:

            وہاں بہت سے پروگرام: اصلاحی،تعلیمی اور تربیتی ہوئے،میں نے پہلے ہی ان سے یہ صاف کہہ دیا کہ بھائی میں چندہ کے لیے نہیں آیاہوں،وہ رمضان میں ہوتاہے اس کو آپ کرتے رہیے،میں چند امور کے پیش نظر آیا ہوں، میرے کچھ متعلقین اللہ کو پیارے ہوگئے ان کی تعزیت کے لیے آیا ہوں،تعلیم وتعلم اور تربیت سے متعلق جامعہ کے کچھ پیغامات لیکر برطانیہ آیاہوں۔

 اصلاحی ،دعوتی اور ملاقاتی سفر:

            پھر وہاں علما،عوام او ر خواص سب سے ملاقاتیں ہوئی،اصلاحی پروگرام ہوئے،جمعہ کے بیانات ہوئے، اس میں علوم اسلامیہ کی اہمیت وافادیت اور ضرورت پر روشنی ڈالی۔وقت تو پانی کی طرح گزر گیاپتہ ہی نہیں چلا کہ دوہفتے کیسے گزر گئے،ان دوہفتوں میں جہاں بھی جانا ہوا،میں نے جامعہ کے پیغام کو پہنچایا اور ہر جگہ میں نے پہنچتے ہی کہہ دیا کہ میرا اس سفر میں چندہ مقصد نہیں ہے ؛بل کہ میرا یہ سفر اصلاحی ودعوتی اور ملاقاتی سفر ہے۔

مولانا یوسف صاحب رحمةاللہ علیہ کے مدرسے میں تعزیتی حاضری:

            بہر حال حضرت مولانا یوسف صاحب رحمةاللہ علیہ کے مدرسہ میں بھی جاناہواجواس مدرسے کے بانی مبانی ہیں، وہ بھی اللہ کو پیارے ہوگئے، جامعہ میں وہ دومرتبہ آپ آئے ہیں،وہ ہمارے گاوٴں کے قریب کے ہی تھے،تو ان کے یہاں بھی جانا ہوا۔وہاں کے مدرسین وغیرہ سے ملاقات ہوئی، ان لوگوں نے بہت خوشی اور مسرت کا اظہار کیا،اس کے علاوہ بھی دوتین مدرسوں میں جاناہو اوہاں بھی مجلسیں ہوئیں بچوں کو نصیحتیں وغیرہ کی۔

سفرِ بیت اللہ:       

            اس کے بعد میرا رخ سیدھے بیت اللہ کی طرف ہوا یعنی وہاں سے میں بیت اللہ کے لیے نکلا؛کیوں کہ میرے اس سفر کا مقصد حرمین شریفین کی زیارت تھی اور اسباب بھی مہیا ہوگئے، ٹکٹ کا انتظام ہوگیا یہ سب من جانب اللہ ہوا پھرمیں وہاں پہنچ گیا۔وہاں جامعہ کے محسن ہیں ،جب کبھی میرا سعودیہ کا سفر ہوتاہے، تو ان کے مکان میں ہی رہنا ہوتاہے، کھانے پینے کا مکمل انتظام وہیں ہوجاتاہے ،مجھے کہیں بھی یا کسی بھی ہوٹل میں جانے کی ضرورت نہیں ہوتی ہے اور میں جاتابھی نہیں ہوں سارا انتظام وہیں ہوجاتاہے۔

جامعہ اور فروعات جامعہ کے لیے بیت اللہ میں دعا:

            وہیں سے بیت اللہ میں جاناہوتاتھا؛ وہاں جاکر اللہ کی عبادت کرنا،جامعہ کی تعلیمی،تربیتی اور روحانی ترقی کے لیے دعاکرناکہ جامعہ او ر جامعہ کی جتنے بھی فروعات ہیں اس کو اور اس کے پڑھانے والوں کو اللہ تعالیٰ قبول فرمائے۔

طواف کا نیا نظام:

            وہاں نیچے طواف کرنابہت مشکل ہوگیاہے اوراوپر طواف بہت لمبا ہوجاتاہے؛ لیکن عزیزم اویس سلمہ میرے ساتھ تھے انہوں نے گاڑی کردی، جس سے طواف کرنا آسان ہوگیااور میں نے وہاں آپ سب کے لیے دعا کی ہے کہ اللہ تعالیٰ آپ سب کو علمِ نافع عطافرمائے،آپ سب کو آپ کے والدین کے آنکھوں کی ٹھنڈک بنائے اور آپ سب کو بھی اللہ اپنے گھر کی حاضری صفات ِقبولیت کے ساتھ مقدر فرمائے۔

دین کی خدمت کرنے والوں کے لیے اللہ راہیں ہموار کردیتے ہیں:

            بیت اللہ کی حاضری ہر موٴمن کے دل کی تمناہوتی ہے کہ اللہ ہم کب جائیں گے؟ان شاء اللہ آپ سب جائیں گے”وما ذلک علی اللہ بعزیز“ اللہ کے لیے کوئی مشکل نہیں ہے،جوبھی اللہ کے لیے اللہ کے دین کے لیے محنت کرے گا تو اللہ کا وعدہ ہے”والذین جاھدوا فینا لنھدنھم سبلنا“ کہ جو بھی ہمارے راستے میں محنت کرے گاہم اس کے لیے راستہ کھول دیں گے۔

 میرا ہر بچہ بیت اللہ پہنچے:

            یہ اللہ کی جانب سے بہت بڑا احسان ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کے والدین کے دل میںآ پ کو حافظِ قرآن اور عالم ِربانی بنانے کا داعیہ پیدا کیااور مزید یہ کہ اللہ نے جامعہ جیسی نعمت دیاہے،آپ اس نعمت کی قدرکریں اللہ مزید دے گا۔بہت سے جامعہ کے فضلاء مجھے باہر ملتے ہیں،اور ایسے بچے جن کے پاس وہاں پہنچنے کے کوئی اسباب نہیں،لیکن الحمداللہ بہت اچھا کام کررہے ہیں،بیت اللہ سے قریب بھی بچے ہیں اور میری ہمیشہ یہ دعا رہتی ہے کہ میرا ہر بچہ بیت اللہ پہنچے۔

            بہرحال میرا یہ سفر الحمدللہ بخیر وعافیت تمام ہوا،اب آپ سے یہی گزارش ہے کہ آپ محنت کریں،اساتذہ کے اسباق کو غور سے سنیں،اسباق کا اہتمام کریں،نماز کی پابندی کریں اور تلاوت کی طرف توجہ دیں،اللہ سے دعاکریں،جس کو دعاکی توفیق مل گئی وہ کامیاب ہوگیا۔اللہ عمل کی توفیق عطا فرمائیں،آمین!