مولانا عبد الرحمن ملی ندوی/استاذ جامعہ اکل کوا
ایک مخلص وفا شعار کامیاب ناظم جناب مولانا محمد رمضان اشاعتی# کا ۲۰/ نومبر ۲۰۲۲ء کو مہاراشٹر کے شہر لاتور میں اٹیک کے ظاہری سبب کے تحت ۴۸/ سال کی عمر میں انتقال ہوگیا۔ انا للہ وانا الیہ راجعون!
موت ایک ایسی حقیقت ہے، جس کا انکار کسی بھی ذی شعور کے لیے ممکن نہیں ہے۔ اور یہ بھی کوئی نہیں جانتا کہ کب اورکس جگہ موت اپنے چنگل میں لے لے، لیکن ہاں حسن ِخاتمہ اپنی جگہ مسلّم حقیقت ہے۔ ہمارے ہر دل عزیز اور حضرت رئیس جامعہ کے معتمد اورتربیت یافتہ جناب مولانا محمد رمضان صاحب اشاعتی# جن کو ہم چند دن پہلے (دامت برکاتہ )کہتے تھے،آج انہیں کے لیے(رحمة اللہ علیہ)کا دعائیہ جملہ لکھنا پڑ رہا ہے۔مرحوم کو اچانک دل کا دورہ پڑا اور جان، جان آفریں کے سپرد کردی، اللہ تعالیٰ علم و عمل کے اس پیکر کی خوب مغفرت فرمائے کہ وہ ہزاروں کامیاب خوبیوں کے مالک تھے۔
مرحوم کے ساتھ ہماری شناسائی ان کے جامعہ میں زمانہٴ طالب علم ہی سے تھی، گر چہ وہ ہمارے پاس کسی کتاب کا درس نہ پڑھ سکے تھے، لیکن وہ ہماری نگاہوں کے سامنے ۱۹۹۲ء میں سند فضیلت حاصل کرچکے تھے، پھر مختلف مقامات پر تدریسی خدمات انجام دیتے رہے، بالآخر رئیس جامعہ حضرت مولانا غلام محمد صاحب وستانوی# کے ایما واشارہ پر ۱۹۹۶ء سے مرٹہوارہ کی ایک علمی تربیت گاہ مدرسة الفلاح پپلا کے ناظم اعلیٰ بنائے گئے۔ علاقہ گرچہ علم دین اور اخلاقیات سے دوری اور انسانیت کی پسماندگی کا تھا، لیکن مرحوم کی حسن ِنیت اور خلوصِ علم اور پیکرِ وفا کے سبب اللہ تعالیٰ نے انہیں اپنے مشن میں بھر پور کامیابی عطا فرمائی تھی کہ وہ اپنے ہر کام میں بامراد اور کامران ہی رہتے تھے۔ اور اس پر مستزاد یہ کہ قبلہ حضرت رئیس جامعہ کے پدرانہ شفقت وحسن تربیت نے ان کو مزید نکھارا تھا۔
مولانا رمضان صاحب اشاعتی# نہایت فراخ دلی کے ساتھ ہر اس شخص کی مدد کرتے تھے، جو واقعی مستحق ہو، خود بھی اپنی حیثیت کے اعتبار سے دست ِتعاون کرتے تھے اور کسی با اثر صاحب ثروت سے بھی کام کروا دیتے تھے؛لیکن مرحوم کا ایک خاص وصف یہ تھا کہ ان کے ہاتھوں ذاتی طور پر جو کام ہوتے تھے وہ صیغہٴ راز میں ہی رہے۔ تدریسی میدان میں وہ زیادہ وقت نہیں دے پاتے تھے ،لیکن تنظیمی اور ادارتی کاموں میں اللہ تعالیٰ نے ان کو مہارت اور سلیقہ بہت اچھا عطا فرمایا تھا۔
علاقہ کے سیاسی بااثر افراد سے بھی ان کے مراسم بہت مضبوط تھے اور دینی حلقہ کے تو وہ مزاجی طور پر محبوب تھے، وہ کسی کام میں فریق نہ بنتے ، بل کہ رفیق بنتے ، ادارہ کے اساتذہ ان سے بڑے محبتانہ ربط و تعلق رکھتے تھے، لیکن ادارتی کاموں میں ضابطہ کو کبھی فراموش نہ کرتے تھے۔ ادارہ کے ہر کام میں مرکز جامعہ اسلامیہ اشاعت العلوم کے حکم کو پیش نظر رکھتے۔ مدرسة الفلاح پپلا میں تقریباً ۲۶/ سال مخلصانہ خدمات انجام دیں، حضرت رئیس جامعہ حفظہ اللہ کا ان پر بڑا اعتماد رہا اور وہ خود بھی حضرت کی منشا کے امین تھے۔ خدا مغفرت کرے کہ مرحوم ہزاروں خوبیوں کے مالک تھے۔
جامعہ میں جیسے ہی حضرت رئیس جامعہ کو مرحوم کے انتقال کی خبر موصول ہوئی حضرت کا دل پارہ پارہ ہوگیا اور حضرت نے ناظم ِمکاتب جناب مولانا محمد جاوید صاحب کو مکلف کیا کہ چند اساتذہ کو لے کر آپ نماز جنازہ اور تدفین میں شرکت کریں، اسی دن رات میں مدیر جامعہ حضرت مولانا حذیفہ غلام محمد صاحب وستانوی# اپنے چند ساتھیوں کے ساتھ پپلہ کے لیے روانہ ہوئے اور وہاں موجود عوام وعلما کے سامنے چند تعزیتی کلمات پیش کیے اور ساتھ ہی مرحوم کے بچوں اور اہل خانہ کو پرسان اور تسلی دیتے ہوئے اپنی اور حضرت رئیس جامعہ کی جانب سے تعزیت پیش کی ۔ اور جامعہ سے جناب قاری محمد علی صاحب صدر شعبہٴ دینیات کی رفاقت میں چار نفری قافلہ روانہ کیا، جس میں ناظم مکاتب جناب مولانا محمد جاوید صاحب بوڑکھا، جناب قاری محمد ساجد صاحب سیندھوا اور یہ کاتب سطور (عبد الرحمن ملی ندوی) شامل تھے۔ ساتھ جامعہ کی تقریباً تمام شاخوں کے نظما اور ذمہ داران حاضر تھے، جن میں سر فہرست جناب مولانا نعیم صاحب قاسمی رنجنی ، جناب مولانا فاروق صاحب وستانوی کنج کھیڑہ ، جناب مولانا بنیامین صاحب وستانوی انوا، جناب مولانا مفتی انیس صاحب بدناپور،جناب قاری عبد القدیر صاحب احمد نگر موجود تھے۔ مرحوم کی نماز جنازہ ان کے فرزند برادرم میاں اشرف نے پڑھائی، نماز وتدفین میں موجود لوگوں کی تعداد تقریباً بارہ ہزار ہوسکتی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے مرحوم کو بڑی مقبولیت عطا فرمائی تھی۔
اللہ تعالیٰ بشری لغزشوں کو در گزر فرماتے ہوئے اعلیٰ علیین میں جگہ عطا فرمائے ۔