ایک صالح نوجوان رفیق کی رحلت

شریک ِغم: احمد مجتبیٰ مولانا مختار ابن حاجی یعقوب صاحب مکرانی#

            آہ! ہمارے رفیق ہم پیالہ، ہم نوالہ دوست دنیا سے رخصت ہوگئے، وہ حادثہ پیش آیا جس کے تصور سے ہی جان جاتی ہے، یوں تو ہمیشہ پڑھا پڑھایا، سنا اور سنایا کہ ”موت اٹل حقیقت ہے اور ہر ایک پر آنی ہے“ لیکن اپنی محبوب ہستی کے جانے پر غم کے پہاڑ ٹوٹنے کو بطور محاورہ تو سنا تھا؛ لیکن محسوس اب کیا۔ سوچ و فکر میں ایک زلزلے کی سی کیفیت طاری ہے کہ اب وہ آواز سننے کو نہیں ملے گی جو کانوں میں رس گھولا کرتی تھی، اب جب ان کے گھر میں جائیں گے، تو ان کے دیدار سے محروم رہیں گے، محفل اور بیان میں جب ان کا نام لیا جائے گا تو ”مولانا اقبال دامت برکاتہم کے بجائے ”رحمة اللہ علیہ“ سنائی دے گا۔ ہائے! یہ کیسے ہوگا! اب روز و شب کیسے بسر ہوں گے، جن کے ساتھ عمر کا ایک طویل عرصہ گزرا، اور رفاقت اور دوستی بھی ایسی کہ ہر وقت کا ساتھ، چاہے سفر ہو یا حضر، دن کا کوئی پہر ہو یا رات کی کوئی گھڑی، یا بعد عشاء اکثر وبیشتر چہل قدمی کا معمول۔ اور ہاں! دوستوں میں بھی ہمارے چچا زاد بھائی مولانا فضل الرحمن صاحب سے تو ان کی ایسی دوستی تھی گویا ایک قلب دو جان۔

            ”چلیں جامعہ کی طرف ذرا چہل قدمی کرکے آتے ہیں“ کی صدا اب نہیں سنائی دے گی۔

            ہائے یہ زخم کیسے بھرے گا اور کیسے اس غم کی کوئی دوا ہوگی! ہاں! اتنی تسلی ضرور ہے کہ وہ ہم سے کئی گنا زیادہ محبت کرنے والے اپنے اللہ کے پاس چلے گئے ہیں۔ کہ وہ روز و شب بیان کرتے تھے: ”اللہ سے ہوتا ہے، اللہ کے سوا کسی سے نہیں ہوتا“ یہ جملہ ان کی پہچان بن گیا تھا، ہمیں یقین ہے کہ وہ اللہ ان کی ضرور لاج رکھے گا۔ اور وہ یقینا اعلیٰ علیین اور جنت الفردوس میں ہوں گے، جن کے نقش قدم پر چلتے ہوئے وہ اس دنیا سے چلے گئے۔

آنکھوں سے آنسوں جاری ہے اور دل غم سے نڈھال ہے، مگر زبان سے ہم وہی کہیں گے جو ہمارے پروردگار کو پسند ہے ۔انا للہ وانا الیہ راجعون

مولانا اقبال صاحب سے ہمارا رشتہ اور مرحوم کی خوبیاں:

            مولانا اقبال صاحب احقر کے پھوپھی زاد بھائی تھے۔اللہ پاک نے مولانا اقبال صاحب کو بہت ساری خوبیوں سے نوازا تھا، ویسے تو مولانا نے اپنی زندگی کی بہت ہی کم بہاریں دیکھیں، صرف 35 یا 36 سال کی عمر پائی، یہ عمر ہی کیا ہوتی ہے۔ آپ جہاں ایک بہترین مدرس تھے، وہیں آپ ایک بہترین قاری بھی تھے؛ آپ باصلاحیت عالم ہونے کے ساتھ ساتھ خوش آوازنعت خواں اور موٴثر و مقبول مقرر بھی تھے۔

            مولانا اقبال صاحب محض ایک شخص نہیں ؛بلکہ گلشن ِاکل کوا کا ایک مہکتا گلاب تھے، جس کی خوشبو نے اکل کوا کے بام ودر کو مہکا رکھا تھا۔ مولانا اقبال صاحب ایک فرد نہیں افق مکرانی کا ایک آفتاب تھے، جس کی عالمِ تاب کرنوں نے پورے اکل کوا و اطراف کو چمکا رکھا تھا۔ مولانا اقبال صاحب جیسے لوگ نہ تو آئے دن پیدا ہوتے ہیں اور نہ ہی قدرت روز روزایسی شخصیت کو منظر عام پر لاتی ہے۔ یہ ہزاروں دعاؤں کا ثمر، ہزاروں آہوں کا اثر اور سینکڑوں ذہنوں کا عطر ہوتے ہیں، ان کی فکر سے دماغ جلا پاتے ہیں، ان کے حسن ِعمل سے معاشرے اپنا اعتبار بڑھاتے اور ان کے وجود سے گاؤں اچھا نام کماتے ہیں۔

مولانا مرحوم کے اخلاقی واقعات:    

            ان کے انتقال کے بعد ہمارے بڑے ابوّ مولانا سعید صاحب نے ہمیں بتایا۔بڑوں کا ادب کچھ اس طرح بھی کیا جاتا ہے۔

            بڑے ابا ”مولانا سعید صاحب“(استاذ جامعہ اکل کوا) اور مولانا اقبال صاحب مرحوم کو امتحان لینے کے لیے ایک ہی کلاس میں جانا تھا۔ امتحان کا پرچہ مولانا کے پاس آیا، تو مولانا اقبال صاحب آفس تشریف لے گئے اور اپنا نام ممتحن میں سے کٹوا دیا اور عذر پیش کیا، مولانا سعید صاحب ہمارے بڑے ہیں، میں ان کے ساتھ امتحان نہیں لے سکوں گا۔آپ میری جگہ کسی اور ساتھی کو ممتحن بنا دیجیے۔

            اسی طرح کا واقعہ ان کے والد صاحب کے ساتھ بھی پیش آیا۔ابھی انتقال کے بعد مولانا کے والد صاحب حیدر ماموں فرمانے لگے کہ ایک مرتبہ میں نے مولانا اقبال صاحب سے کہا: مولانا آپ سات آٹھ سال سے گاؤں و اطراف میں بیانات کے لیے جاتے ہو، اس مرتبہ آپ کا بیان سننے کے لیے میں بھی آپ کے ساتھ چلوں گا، مولانا کہنے لگے ابو جی نہیں آپ ساتھ ہوں گے تو میں بیان نہیں کر سکوں گا۔

            احقر کے والد صاحب ”مولانا مختار صاحب“ (استاذ جامعہ اکل کوا)نے بھی آپ کا تذکرہ اسی طرح فرمایا۔ والد صاحب فرمانے لگے: مولانا اقبال صاحب اخلاقیات میں اعلی و بلند مقام رکھتے تھے۔ مولانا اقبال صاحب حتی الامکان یہ کوشش کرتے تھے کہ بڑوں کا ادب جہاں تک ممکن ہو کرے۔ جب نماز کے لیے کبھی کبھار ایسا موقع آجاتا تھا کہ صف میں کھڑے ہو، تو اپنے بڑوں اور اساتذہ سے کچھ فاصلہ پر نماز کے لیے کھڑے ہو تے تھے۔ بڑوں کا ادب پوری زندگی رہا جو اس زمانہ میں ندارد۔ تقریر ہو یا پھر تدریس کا میدان ہر جگہ ادب کا اور بڑوں کا خیال رکھا۔ اسی لیے اللہ پاک نے اتنی کم عمری میں آپ کو بہت ساری خوبیوں سے نواز دیا تھا۔۔اللہ پاک ہمیں بھی ان سی صفات ہماری زندگی میں پیدا کرنے کی توفیق عطا فرمائے! آمین یا رب العالمین!

مولانا کی تعلیم:

            ناظرہ قرآن شریف مدرسہ جھرنا میں پڑھا، ابھی ناظرہ قرآن شریف 4.یا 5 پارے ہی پڑھے تھے کے اسی درمیان درجہٴ حفظ کی ایک جماعت بنائی گئی اور اس میں ذہین طلبہ کا انتخاب کیا گیا، مولانا اس میں کامیاب ہوئے، ابھی ناظرہ بھی مکمل نہیں ہوا تھا اور ادھر دوسری طرف ۲/ سال سے بھی کم وقت میں حفظ قرآن شریف کی سعادت آپ نے حاصل کرلی۔ وما ذلک علی اللہ بعزیز۔

             حفظ قرآن شریف کی سعادت حاصل کرنے کے بعد آپ درجہٴ کتب کے لیے جامعہ اسلامیہ اشاعت العلوم اکل کوا میں داخل ہوئے۔ فارسی کی کتابیں پڑھیں، اس کے بعد آپ جامعہ زکریا جوگواڑ اپنی علمی پیاس بجھانے کے لیے تشریف لے گئے اور عربی اول تا دورہٴ حدیث شریف مکمل کیا۔ درجے میں اول نمبر سے کامیاب ہوتے رہے۔ دورہٴ حدیث شریف کی جماعت میں بھی آپ نے اول نمبر سے کامیابی حاصل کی۔

تدریس:

             فضیلت کے بعد آپ درس و تدریس سے وابستہ ہوئے۔ جامعہ اکل کوا کی مشہور شاخ ”مدرسہ عمر بن خطاب کنج کھیڑہ“ میں آپ نے تقریبا دو سال تک درس و تدریس کی خدمت انجام دی، اس کے بعد ”شعبہٴ تحفیظ القرآن جامعہ اسلامیہ اشاعت العلوم اکل کوا“ میں تا حیات آپ بطور مدرس بحسن و خوبی خدمت انجام دیتے رہے۔

صالحیت:

             آپ کے پاس قرآن شریف حفظ کرنے والے طلبہ کی تعداد تقریبا ساٹھ ہے۔ درس و تدریس کے ساتھ ساتھ آپ ہر سال پابندی سے رمضان المبارک میں گاؤں والوں کی فرمائش پر ”مسجد احسان مکرانی پھلی“ میں تراویح سناتے۔ اور پھر آخری عشرہ میں مسجد احسان میں معتکف بھی رہتے۔ اور اپنے شیخ شیخ الحدیث”مولانا شیر محمد صاحب مکرانی“ کے بیانات سے مستفید ہوتے۔ ان کا معمول آخری عشرہ میں اکثر روزانہ ایک قرآن شریف مکمل کرنے کا رہا۔ان کی پوری زندگی پرہیز گاری، تقویٰ طہارت اور امت کی اصلاح میں گزری۔ اللہ پاک ان کے کار خیر کو قبول فرمائیں۔ اللہ پاک ان کی خدماتِ حسنہ کو قبول فرمائیں۔

حرمین شریفن کی سعادت:

            آپ کو دو مر تبہ حرمین شریفین کی زیارت نصیب ہوئی، پہلی مرتبہ اپنے والدین کے ہمراہ بغرض عمرہ اور دوسری مرتبہ رمضان المبارک میں اپنے ساتھیوں کے ہمراہ۔

 اولاد:

            آپ نے اپنے پس ماندگان میں تین اولاد چھوڑی۔دو لڑکے اور ایک چھوٹی لڑکی۔بڑا لڑکا جس کی عمر تقریبا 12 یا 13 سال ہے الحمد للہ 17 پارے قرآن مجید حفظ کرچکا ہے۔مولانا نے اپنے بڑے بیٹے پر خوب توجہ دی کے وہ حافظ قرآن بن جائے، یقینا یہ ان کے لیے صدقہٴ جاریہ ہوگا۔ ان شاء اللہ العزیز!

عجیب وصیت:

            استاذ محترم اور ناظم تعلیمات مولانا حذیفہ صاحب وستانوی نے تو عجیب بات بتائی مولانا اقبال صاحب کے تعلق سے کہ مجمع پر کچھ وقت کے لیے سکتہ طاری ہوگیا۔ مولانا اقبال صاحب کے والد صاحب نے مولانا حذیفہ صاحب کو بتایا کہ اکثر اس عمر میں باپ اپنے بیٹے کو وصیت کرتا ہے، لیکن میرا بیٹا مجھے وصیت کر گیا کہ ”ابا جان میرے بچوں کو حافظ ،عالم بنانا“ مولانا حذیفہ صاحب آگے فرماتے ہیں: انہوں نے کس طرح اسے سنا ہوگا وہی جانتے ہیں۔

            آپ کی نماز جنازہ دو مرتبہ پڑھی گئی، ایک بار احاطہٴ جامعہ میں دار القرآن کے سامنے ادا کی گئی، جس میں تقریبا ًدس ہزار سے زائد علماء و طلبہ نے شرکت کی۔ جامعہ میں خادم القرآن والمساجد حضرت مولانا غلام محمد صاحب وستانوی نے نماز جنازہ پڑھائی۔

            دوسری بار مکرانی پھلی قبرستان میں بڑے ابا ”مولانا سعید صاحب“نے پڑھائی، جس میں اکل کوا و اطراف کے لوگوں نے کثیر تعداد میں شرکت کی، اور اس کے بعد تدفین عمل میں آئی، اور ہم لوگوں نے اپنے پیارے ساتھی اور رفیق کو نم آنکھوں سے الوداع کہا۔

            اللہ پاک لواحقین کو صبر جمیل عطا فرمائے!

            مرحوم کو جنت الفردوس میں اعلی مقام نصیب فرمائے! آمین یا رب العالمین!

#…#…#