ڈاکٹر یوسف قرضاوی عزم و ہمت کا ہمالیہ

عبدالرحمن ملی# ندوی#

( ایڈیٹر مجلہ النو وخادم تدریس جامعہ اسلامیہ اشاعت العلوم اکل کوا)

            اس عالم ناپائیدار میں جن صلحا، علما اور دانشوروں نے اسلام و مسلمانوں کی سربلندی اور اعزاز کے خاطر نمایاں اور گراں قدر خدمات انجام دی ہیں، ان میں ڈاکٹر یوسف قرضاوی کا نام بڑا نمایاں اور ممتاز ہے۔ موصوف نے اپنی پوری زندگی علمِ دین اور اسلام کی سربلندی کے لیے نذر کر دی تھی۔ زمانے کے جدید تقاضوں کے پیش ِنظر اسلاف کے نقش قدم پر چلتے ہوئے اسلام کی بہترین تشریح و ترویج بھی کی۔

انتقال پر ملال:

            شیخ قرضاوی باکمال ادیب، فصیح اللسان خطیب، بہترین مدرس، زیرک عظیم مفکر، دور اندیش ،سیاسی رہ نما اور درجنوں کتابوں کے مصنف تھے۔ مرحوم نے اپنی زبان و قلم سے ہزاروہزار نہیں بل کہ لاکھوں کروڑوں لوگوں کو متأثر کیا، ان کی شہرت ایک کھلے ذہن اور روشن فکر عالم دین کے طور پر تھی۔زندہ معاصر مسائل کو محقق و مدلل انداز و اسلوب میں پیش کرنے کی کوشش کی۔ انہوں نے ایک متحرک اور داعیانہ زندگی گزاری؛ لیکن افسوس کہ یہ درخشاں ستارہ، عالم ِاسلام کا روشن ضمیر مفکر ۲۶/ستمبر ۲۰۲۲ء کو دوحہ، قطر میں ہمیشہ کے لیے آغوشِ رحمتِ الٰہی میں چلا گیا۔ انا للہ و انا الیہ راجعون!

            مرحوم کی حالاتِ زندگی پر قلم کاری کرنے والے یقینا حقائق اور سوانح زندگی سے متعارف کرائیں گے، ہم بس اتنی جرأت کرسکتے ہیں کہ شیخ قرضاوی ایک بے باک اور نڈر انسان تھے، ان کی نگاہوں میں اہلِ علم کی بڑی قدر و منزلت تھی، اپنے سینہ کو دوسروں کے لیے پاک و صاف رکھا کرتے تھے، وہ ہمیشہ پُرامید رہا کرتے تھے، اور زندگی کی شاہ راہ پر ہر ایک کو خوش بھی نہیں رکھا جاسکتا، لیکن محبت ہر ایک سے رکھی جاسکتی ہے۔ کتاب و سنت، علوم ِشرعیہ، لغت و ادب اور فلسفہ و اصول پر ان کی گہری نظر تھی۔ جدید و قدیم مراجع و مآخذ کا گہرا مطالعہ رکھتے تھے۔ شیخ بڑے زندہ دل اور ظریف مزاج انسان تھے، طبیعت میں بذلہ سنجی کے ساتھ نکتہ رسی بھی تھی۔

شیخ سے متعلق ممتاز علماء کی آراء:

             شیخ حسن البناء اُنہیں ایک ممتاز شاعر گردانتے تھے۔ محمد الغزالی نے اُنہیں امام العصر کا خطاب دیا تھا۔ شیخ علامہ عبدالفتاح ابوغدہ نے فرمایا کہ قرضاوی ہمارے فقیہ، مرشد اور علامہ ہیں۔ ڈاکٹر قرضاوی کی تصانیف علمی اعتبار سے بلند پایا ہیں،ان میں علم کی گہرائی کے ساتھ ساتھ تفقہ فی الدین کی امتیازی شان نمایاں نظر آتی ہے، عصر حاضر کے مسائل میں ان کی ترجمانی کو وقعت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے، ان کی تحریروں میں توسط و اعتدال اور وسعتِ فکر و نظر کی غمازی ہے۔

مختصر سوانح:

            عالمِ اسلام کے ممتازترین عالمِ دین، مایہٴ نازاسکالر، عالمی اتحاد برائے علماء،تنظیم کے صدر ڈاکٹر شیخ یوسف قرضاوی ۹/ ستمبر ۱۹۲۶ء کو جمہوریہ عربیہ مصر کے ”صفت تراب“ نامی گاوٴں میں پیدا ہوئے، وہ دو برس کے تھے کہ ان کے والد کا انتقال ہوگیا، ان کے چچا نے ان کی پرورش کی، ان کے خاندان والے انہیں دنیاوی مشاغل میں مصروف رکھنا چاہتے تھے، انھوں نے ۹/ برس کی عمر میں حفظ مکمل کیا۔ شیخ یوسف قرضاوی اخوان المسلمین تنظیم کے بانی جناب شیخ حسن البناء کے عقیدت مند تھے۔ ایک طویل عرصہ تک اخوان سے منسلک رہے۔

            شیخ قرضاوی کو عرب دنیا میں بڑی مقبولیت اور شہرت حاصل ہوئی، وہ آن لائن فتاوی کے جوابات بھی دیتے تھے، مسلمانوں کی اکثریت ان کو معتدل فکر کے حامل قرار دیتے ہیں، شیخ قرضاوی عصر حاضر کے تقاضوں کو سامنے رکھتے ہوئے لوگوں کی رہنمائی کرتے تھے۔

علمی خدمات:

            شیخ کی اب تک تقریباً ۵۰/ کتابیں شائع ہوچکی ہیں، اور ہر کتاب کو مقبولیت و شہرت حاصل ہے۔ ۱۹۹۴ء میں عالمی شاہ فیصل اعزاز دبئی بین الاقوامی قرآن مقدس اعزاز حاصل کیا۔ یہ بہت بڑے قلم کار ہیں، ان کی درجنوں کتابیں شائع ہوئیں، جیسے کتاب ”فتاوی معاصرہ “ ، ” تیسیر الفقہ للمسلم المعاصر“، ”من فقہ الدولة في الإسلام“ ، ”فقہ الزکاة“، ”دراسة في فقہ المقاصد“، ” في فقہ الأقلیات الإسلامیة“ وغیرہ کتابیں قابل ذ کرہیں۔

            اللہ تعالیٰ شیخ قرضاوی کی خدمات کو قبول فرمائے، جنت الفردوس میں اُنہیں اعلیٰ مقام عطا فرمائے اور ان کے مفید علمی آثار کو پھلتا پھولتا رکھے۔ آمین!