جہاں دیدہ و عہد ساز شخصیت حضرت اقدس مفتی عبداللہ صاحب مظاہری بانی دارالعلوم مظہرسعادت ہانسوٹ گجرات

 مقصوداحمدضیائی/ پونچھ جموں و کشمیر

 چراغ لاکھ ہیں لیکن کسی کے اٹھتے ہی

 برائے نام بھی محفل میں روشنی نہ رہی

            اس دار فانی سے دارالبقاء کے جانب کوچ ایک ایسی اٹل حقیقت ہے کہ جس سے نہ ہی کسی کو مجال انکار ہے اور نہ ہی مجال فرار، یوں تو ہر حیات کا مقدر موت ہے ،لیکن جو لوگ اس فانی دنیا میں بہ توفیق الٰہی کچھ قابل قدر کام انجام دے جاتے ہیں، اس دنیا سے کوچ کر جانے کے بعد بھی وہ اپنے اچھے کاموں کی بدولت بعد والوں میں زندہ رہتے ہیں، استاذ گرامی حضرت اقدس مفتی عبداللہ صاحب مظاہری بھی بلاشبہ انہیں صفات کے حامل لوگوں میں تھے ،آپ کا چلا جانا عجب اک سانحہ سا ہوگیا ہے، حرف و لفظ برتنے کا ہنر جب سے سیکھا ہے، پڑھنے اور لکھنے کا شغل جاری ہے تیکھے اور تلخ موضوعات بھی کبھی مشکل نہ لگے، مگرکبھی کبھی یوں لگتا ہے کہ جیسے کچھ آتا ہی نہیں ہے ایسے ہی کچھ احوال اس وقت ہیں دنیا رفتہ رفتہ ارباب علم و فضل سے خالی ہوتی جا رہی ہے ، ماضی قریب میں ہمارے ہاتھوں سے رہا سہا ذخیرہ بھی جاتا رہا اور ہم تہی دست ہوگئے جس پر جتنا بھی غم کیا جائے وہ کم ہے۔

             بہ ہرحال وقت مقررہ پر سبھی کو جانا ہی ہے، لیکن کچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں کہ جن کی رحلت بعد والوں کے لیے سخت غم انگیز اور روح فرسا ثابت ہوتی ہے، انہیں بندگان خدا و مردان عزیمت میں سے ایک نمایاں اور اہم ترین نام جامع المنقول والمعقول استاذ گرامی قدر حضرت اقدس مفتی عبداللہ صاحب رویدروی مظاہری علیہ الرحمہ کا بھی تھا ،یوں تو ایک عرصہ سے حضرت والا ابتلا و آزمائش کے مراحل سے گزر رہے تھے، جس وجہ سے صحت بگڑتی بنتی رہتی تھی، گزشتہ چند ماہ میں دو مرتبہ بذریعہ فون حضرت والا سے خوش گوار موڈ میں ملاقات بھی رہی ،دعاوں سے سرفراز فرمایا، نصائح سے نوازا، وفات سے ایک روز پہلے بعد نماز عصر حضرت الاستاذ قاری عبدالرزاق صاحب مدظلہ العالی مقیم موزمبیق {Mozamdiq} افریقہ والوں کی طرف سے میسیج آیا کہ حضرت مفتی صاحب سخت علیل ہیں ، دعاوں کا اہتمام کیجئے ! یہ خیال کر کے کہ حضرت مفتی صاحب کی صحت کا اتار چڑھاو تو مدت سے ہے ، دعاوں اور حسب حیثیت صدقات کا عمل تو پہلے سے تھا ہی، دو روز قبل دعائے صحت کی ایک اپیل بھی اس عاجز کے قلم سے صادر ہوچکی تھی، یہ خیال ذہن میں قائم کرکے مزید کسی سے دریافت کرنے کی ضرورت نہ سمجھی، دوسرے روز بعد نماز فجر اچانک فون میں حرکت ہوئی دیکھا تو حضرت مولانا محمد نذیر صاحب فلاحی خانپوری مدظلہ العالی نائب مہتمم دارالعلوم فلاح دارین ترکیسر کا فون تھا ، اللّٰہم خیر کہتے ہوئے فون اٹھایا، آں موصوف نے مفتی صاحب کی یہ دلخراش خبر دی کہ ابھی علم ہوا ہے کہ مفتی عبداللہ صاحب مظاہری کی وفات ہوگئی ہے ،زبان پر بے ساختہ کلمہ ترجیح آیا اور دماغ پر ایک سناٹا سا چھا گیا ، فوراً مفتی صاحب کے صاحبزادہ محترم مولانا عبیدالرحیم صاحب رویدروی کو فون ملایا، انہوں نے فورا خبر کی تصدیق کر دی جواباً ایک حرف بھی منہ سے نہ نکل پایا، مسنون ایصال ثواب کا اہتمام کیا، دن بھر ذہن پر بے حد اثر رہا، حضرت مفتی صاحب کی شخصیت محتاج تعارف نہیں، تاہم آپ کا تعلق ایک خوش حال اور علمی خانوادہ سے تھا، قدرت نے آپ میں بے شمار خوبیاں ودیعت فرمائیں تھیں، آپ ایک جید الاستعداد صاحب نظر عالم، علوم و معارف کے قلزم ذخار، علوم کو تحقیقات دقیقہ کے ذریعہ فنون کے انداز میں سمجھانے والے نادرہ روزگار عبقری، ایک متحمل اور برد بار، محب و ملنسار، میدان تصنیف و تالیف کے شہسوار، پختہ قلم کار، چھوٹوں پر شفیق اور بڑوں کی عظمت کے پاسدار، علم و فہم کی دولت سے سرشار اور ٹھوس صلاحیت کے مالک اور جماعتی درد رکھنے والے عظیم مفکر و مدبر کے طور پر خاص و عام میں منفرد پہچان رکھتے تھے، بغیر مداہنت اور بلا خوف لومتہ لائم حق گوئی آپ کی امتیازی شان تھی، حضرت مفتی صاحب کی پیدائش 1952ء میں ہوئی اور آپ کی وفات 8 ستمبر 2020 ء کو ہوئی۔

             آپ نے زندگی میں ناقابل فراموش خدمات انجام دیں، کٹھن مراحل سے بھی آپ کو گزرنا پڑا اور یہ شغل تا دم آخریں جاری رہا۔ حضرت والا کا سب سے بڑا کارنامہ دارالعلوم مظہر سعادت ہانسوٹ ضلع بھروچ گجرات کا قیام ہے ،جو حضرت والا کے تخلیقی ذہن و مزاج کا عظیم شاہکار ہے۔ ویرانے میں ایک شہر آباد کیا جو اپنی مثال آپ ہے آپ کا قائم کردہ ادارہ جو نفاست کا آئینہ دار کے عنوان سے بھی معروف ہے کے صدر دروازے پر پہنچ کر کسی بھی نووارد کو ایسے لگتا ہے کہ وہ کسی عظیم یونیورسٹی میں داخل ہو رہا ہے نہایت سلیقے سے تعمیر درسگاہوں کی عمارتیں دیکھ کر دل باغ باغ ہو جاتا ہے ۔لگ بھگ ڈیڑھ دہائی کے بعد اس عاجز کو جب دوبارہ حاضری کی سعادت نصیب ہوئی تو اس دوران ہونے والی ترقیات دیکھ کر حیرت زدہ رہ گیا۔ حضرت مفتی صاحب علیہ الرحمہ نے بذات خود اس بندہ ہیچمداں کو وہ ترقیات دکھلائیں جو بعد میں وجود میں آئیں تھیں خاص طور پر جامعہ کی لائبریری کا نظام دکھایا جو بے حد پسند آیا ہندوستان کے آثار قدیمہ کے طور پر بہت سی لائبریریاں اور میوزیم ملک بھر میں موجود ہیں مگر اس میوزم کی خصوصیت یہ تھی کہ یہاں نادر مخطوطات، نادر قرآنی نسخے اور قرآن پاک میں مذکورہ اشیاء کے حقیقی نمونے موجود تھے نہایت مرتب انداز میں ایک وسیع ہال میں یہ ساری چیزیں قرینے سے رکھی ہوئی نظر آئیں ہم نے نہایت اطمینان سے پورے ادارے کو دیکھا اپنی وہ درسگاہ جوکبھی درسگاہ ہوا کرتی تھی اور اب وہ عمارت دارالاقامہ کے لیے مختص ہوچکی تھی ادارے کو دیکھ کر بار بار اس بات کی طرف دھیان جاتا تھا کہ حضرت مفتی عبداللہ صاحب کا ذہن کس کس میدان میں چلتا ہے ان کی فتوحات کو دیکھ کر مزید ان کی تخلیقی ذہنی جولانیوں کے ہم اسیر ہوگئے ہمارے زمانہ طالب علمی میں تکمیل کے لیے طلبہ کو شاید ایک یا دو سال مظاہر علوم یا دارالعلوم دیوبند میں لگانے ہوتے تھے لیکن اب دارالعلوم ہانسوٹ میں دورہ حدیث تک تعلیم ہو رہی تھی حفظ کے درجات میں بھی جانا ہوا بہت ساری تبدیلیاں دیکھنے کو ملیں بہ ہرحال مظہرسعادت کو پورے گجرات میں بلکہ بعض خصوصیات کی وجہ سے پورے ملک میں امتیازی درجہ حاصل رہا ہے مجھے احاطہ جامعہ میں تحصیل علم کی غرض سے کچھ وقت گزارنے کی سعادت ملی تھی اس لیے میں دو دہائیوں سے جامعہ کی علمی سرگرمیوں سے واقف تھا جامعہ کے پلیٹ فارم سے حضرت مفتی صاحب علیہ الرحمہ کی خدمات ہمہ جہت رہی ہیں حضرت مفتی صاحب رحمہ اللہ کا نستعلیقی ذوق، صاف ستھرا، مذاق و مزاج، دارالعلوم ہانسوٹ کی ہر چیز میں مترشح ہوتا ہوا نظرا آتا ہے حضرت مفتی صاحب کی عقاب نگاہی اور بالغ نظری سے ایک ریگستان چمنستان میں تبدیل ہوا حضرت والا اور ان کے رفقاء کار کی مخلصانہ جدوجہد سے ایک ویرانا گلستاں بنا میں سمجھتا ہوں ادارے کی ترقی میں مرکزی کردار مفتی صاحب کی اس جدوجہد اور مزاج کا رہا کہ جہاں کہیں کوئی قابل شخص نظر آیا اسے لاکر آپ نے نگینہ کی طرح دارالعلوم مظہر سعادت میں جڑ دیا بایں ہمہ ایک قلیل مدت میں اس گلستان و چمنستاں سے کہیں سے رات کی رانی، کہیں سے چنبیلی، کہیں سے گیندا، اور کہیں سے بیل کی خوشبو آنے لگی، پورا چمن نایاب خوشبوؤں سے معطر نظرآنے لگا اس جامعہ کی بدولت سرزمین ہانسوٹ عروج کمال کو پہنچی حضرت مفتی صاحب علیہ الرحمہ جہاں ایک اعلی درجے کے منتظم تھے وہاں فقہ و حدیث میں درک و بصیرت رکھنے والے اور درس و تدریس سے ہٹ کر مختلف علوم و فنون میں ید طولی رکھنے والے بھی تھے سب ایڈیٹر عالمی سہارا دہلی عبدالقادر شمس علیہ الرحمہ کے مطابق ” دارالعلوم ہانسوٹ کے سربراہ حضرت مفتی عبداللہ صاحب مظاہری کے تعلق سے اسلامک فقہ اکیڈمی کے ممبئی سیمینار کے موقع پر ایک ہوٹل میں فقہیہ العصر حضرت اقدس قاضی مجاہدالاسلام قاسمی نوراللہ مرقدہ نے نجی مجلس میں کہا تھا کہ گجرات میں دو عالم دین ایسے ہیں جن کا علم گہرا اور مطالعہ وسیع ہے اور اتفاق سے دونوں کا نام عبداللہ ہے یعنی مفتی عبداللہ صاحب (ہانسوٹ) اور مولانا عبداللہ صاحب (کاپودروی) رحمہم اللہ تعالی جی چاہتا ہے کہ اب کچھ تذکرہ آپ کی ذاتی تعلیمی و تصنیفی فتوحات کا بھی ہو جائے حضرت مفتی عبداللہ صاحب رویدروی کی ابتدائی تعلیم رویدرا گاوں میں ہوئی فارسی سے عربی دوم تک جامعہ تعلیم الدین ڈابھیل میں تعلیم حاصل کی اس کے بعد آپ نے مظاہر علوم سہارنپور داخلہ لیا سنہ ۷۷۹۱ ء میں مظاہر علوم سہارن پور سے فراغت ہوئی آپ نے حدیث کی مندرجہ ذیل کتابوں کی تدریس فرمائی، مشکاة المصابیح، مئوطا امام محمد، شرح معانی الآثار، اور صحیح البخاری، حضرت مفتی صاحب مدظلہ نے دارالعلوم فلاح دارین ترکیسر میں آٹھ سال درس دیا، اس کے بعد جامعہ مظہر سعادت ہانسوٹ میں آگئے، آپ کے طرز تدریس کی خصوصیت یہ رہی فن مبادی اور مقدمات کو بیان کرنا، عبارات لاحقہ و سابقہ میں ربط و ترتیب، تسہیل و تلخیص، نفس کتاب حل کرانے کا اہتمام، شخصیات کا مکمل تعارف، الشیء بالشیء یذکر آپ کے درس کا خاص عنوان ہے، آپ کے شیوخ حدیث، حضرت مولانا اسعد اللہ رام پوری، مفتی عبدالعزیز رائے پوری، حضرت شیخ محمد یونس جون پوری اور مفتی محمد یحی رحمہم اللہ تعالٰی ہیں آپ کے شیوخ حدیث کا تفصیلی ذکر,, اسعاد القاری شرح صحیح البخاری (ج: ۱) میں موجود ہے۔

             حضرت مفتی صاحب کے بے شمار شاگرد آپ کی حصولیابیوں کا حصہ بھی ہیں آپ کی تعلیم و تربیت کے نتیجے میں جو افراد تیار ہوئے وہ اکناف عالم میں پھیلے اور مختلف تعلیمی اداروں اور جماعتوں سے وابستہ ہوئے اور باوقار انداز میں اہم ترین خدمات انجام دیں بہ ہرحال مفتی صاحب نے اپنی زندگی میں جو کارہائے نمایاں انجام دئیے وہ اپنی مثال آپ ہیں جن سے انکار چمکتے سورج کی برستی شعاوں کو خیط اسود کہنے کے ہی مرادف ہوگا مگر حقیقت بہ ہرحال یہی ہے کہ حق کا کارواں چلتا رہے گا دین کا کام کسی بھی شخصیت کا محتاج نہیں ہے جس کا کام ہے وہی افراد پیدا کرتا رہا ہے اور آئندہ بھی نظام یونہی چلتا رہے گا تاہم مفتی صاحب سے حقیقی وابستگی کا تقاضا یہ ضرور ہے کہ ان کے جلائے ہوئے چراغوں کو اخلاف روشن رکھیں ان کی جلالت کا جو سکہ تا دم آخریں ہمارے اذہان پر چلتا رہا وجہ ظاہرتھی کہ وہ اپنے باغ کے گلوں ہی نہیں کانٹوں کے بھی قدر داں تھے جو جب بھی وارد ہوا اس کا والہانہ استقبال،تبسم آمیز استفسار اور مہمانوازی کا والہانہ انداز نمونہ کی ایسی ہستیاں کیا اب ڈھونڈنے سے بھی کہیں ملیں گی؟ حضرت مفتی صاحب نے برسوں جس دماغ کو دینی، علمی، دعوتی، فکری، ملی اور تعمیری کاموں میں کھپایا اس دماغ کو جب آرام اور سکون کی ضرورت تھی تب ایک ایسا محاذ کھل گیا اور درد و الم کا ایسا طو مار تسلسل قائم ہوا کہ الامان والحفیظ جفاوں کی ایسی آندھیاں چلیں کہ جہاں بڑوں بڑوں کے حوصلے ٹوٹ جاتے ہیں لیکن عزم و حوصلہ کے اس کوہ گراں و مرد آہن، مردم شناس اور جوہر قدر اور عاشق رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے پیرانہ سالی کے باوجود زنداں کی وحشتوں کو قبول فرمایا چنانچہ اس مرد درویش کی توجہات سے جیل کے در و دیوار بھی قال اللہ و قال الرسول صلی اللہ علیہ وسلم کی صدائے باز گشت سے گونج اٹھے اور آپ کا فیضان علمی پس دیوار زنداں بھی رواں دواں رہا اس طرح حضرت مفتی صاحب نے بعد والوں کو عملی طور پر یہ سبق دے دیا کہ پھول اور کانٹے کا جنم جنم کا ساتھ ہے لہذا انسان کو چاہیئے کہ وہ ہر حال میں خدا کے فیصلوں پر راضی رہے صبر کا دامن کسی بھی حال میں نہ چھوڑے حوصلوں کے اس عنوان کی زندگی قابل رشک تو تھی ہی لیکن قسام ازل نے موت بھی ایسی نصیب کی جو تاریخ میں مثال بن گئی عینی شاہدین کی گواہی ہے کہ حضرت مفتی صاحب انتقال سے بہت پہلے ذکر جہری میں مشغول ہوگئے تھے چناں چہ کلمہ طیبہ، کلمہ شہادت، کلمہ تمجید اور کلمہ توحید زبان پر جاری تھے جیسے ہی اذان شروع ہوئی اور کلمات پڑھتے گئے کہ اسی حالت میں روح قفس عنصری سے پرواز کرگئی آہ!

 تم تھے جہاں میں گوہر نایاب کی طرح

آخری بات:

            سال گزشتہ راقم الحروف کو بحیثیت مقالہ نگار و اہل قلم مفکر ملت سیمینار میں جانا ہوا تھا حضرت مفتی صاحب کے صاحبزادگان فلاح دارین ترکیسر ملاقات کی غرض سے تشریف لائے اور فرمایا کہ مفتی صاحب سے جیل میں ہی ملاقات ہوسکتی ہے لیکن آہ! سفر کا شیڈول کچھ اس طرح سے مرتب تھا کہ میں اپنے استاذ، اپنے مشفق، اور ایک عظیم محسن کی ملاقات سے محروم رہا جس کا مجھے زندگی بھر قلق رہے گا بہ ہرحال حضرت والا علیہ الرحمہ نے اپنے علمی ادبی تعلیمی و تصنیفی اور ملی و تعمیری کارناموں سے ایک دنیا کو متاثر کیا بطور خاص آپ کے فکر صائب سے حفظ و تجوید کو بے مثال رفعت و بلندی ملی حضرت والا کی قدر شناسی نے حزف ریزوں کو جواہر پاروں میں تبدیل کر دیا اور ایسا تو ہونا ہی تھا چونکہ حضرت مفتی عبداللہ صاحب مظاہری ایک جہاں دیدہ شخصیت تھے حضرت کے مطالعہ حدیث و قرآن، فقہ و تاریخ، تجزیہ و انتاج، سے انکار نہیں کیا جاسکتا ہے حضرت کی خصوصیات میں سے اخلاص، سوزدروں، للہیت، زخم ہائے دل، اور دوسروں کے غم کو اپنا غم سمجھنا یہ وہ اوصاف ہیں کہ ان سے بھی انکار ناممکن ہے اب آپ کی گراں بہا کتب اور آپ کا قائم کردہ گلشن دارالعلوم مظہرسعادت ہانسوٹ قوم کے لیے سرمایہ افتخار ہیں حضرت والا کی حیات و خدمات پرمشتمل کاوش کتابی صورت میں ترجیحات میں رہے گی ان شاء اللہ!

            امید کامل ہے کہ زیر نظر کاوش بھی مفید اور نفع بخش ثابت ہوگا درحقیقت حضرت مفتی صاحب ایک غیر معمولی انسان تھے ایسے لوگ صدیوں میں کہیں پیدا ہوتے ہیں چناں چہ اس مختصر مضمون میں تاثرات بھی ہیں معلومات بھی اور واردات بھی جو کالم نگار کے سینہ سے سفینہ پر آئی ہیں واردات کے اظہار کے موقع پر ضبط سے کام لیتے ہوئے قلم کو تیشہ بننے سے روک لیا گیا ہے

مصلحت نیست کہ از پردہ بروں آید راز

ورنہ درمحفل رنداں خبرے نیست کہ نیست

خاص پیغام!

             حضرت مفتی صاحب کے تلامذہ کی تعداد سینکڑوں نہیں ہزاروں میں شمار ہوتی ہے آپ کے صاحبزادگان بھی علماء برادری سے ہیں ان کا حق بنتا ہے کہ مفتی صاحب نوراللہ مرقدہ و برداللہ مضجعہ کی یاد میں جگہ جگہ سیمینار کا انعقاد کیا جائے ارباب قلم کو مقالات کی دعوت دی جائے اور پھر مقالات کو کتابی صورت میں منظر عام پر لایا جائے کسی کے اس دنیا سے چلے جانے کے بعد اسے یاد رکھنے کا میرے خیال میں یہ ایک بہترین طریقہ ہے دعا ہے حق تعالی حضرت مفتی صاحب کو اپنی شایان شان اعلی مدارج سے نوازے۔آمین یارب العالمین!