(تعزیتی تحریر بر وفات حضرت مفتی عبداللہ صاحب مظاہری نور اللہ مرقدہ بانی و سابق شیخ الحدیث جامعہ مظہرِ سعادت ہانسوٹ)
از قلم:مفتی احمد عبید اللہ یاسر قاسمی
ہر آنکھ اشکبار ہے ہر دل سوگوار ہے
ابھی حضرت مولانا عبدالرحیم فلاحی صاحب نور اللہ مرقدہ کی وفات کا غم تازہ ہی تھا کہ جامع المعقول و المنقول حضرت الاستاذ مفتی عبداللہ صاحب مظاہری رحمہ اللہ (بانی و سابق شیخ الحدیث جامعہ مظہرِ سعادت ہانسوٹ گجرات) کے حادثہٴ ارتحال نے دل کو غمزدہ اور طبعیت کو نڈھال کردیا۔”کورونا“ کی اس وبا کے دوران بہت سوں کے رخصت ہونے کی خبر ملی۔ دل شدید رنج میں مبتلا بھی ہوا، لیکن ایسے لوگ کم ہوتے ہیں، جن کی وفات دلوں پر بجلی بن کر گرتی ہے ۔جن کا آفتاب ِزندگی اگرمشرق میں غروب ہو تو مشرق والے اندھیرا محسوس کرتے ہیں،جن کی یاد لوگوں کے دلوں میں ہوک پیدا کردیتی ہے، جن کے نام کے ساتھ ہمیشہ مدظلہ العالی کے بجائے آج رحمہ اللہ لکھتے ہوئے دل لرزہ ہے، ہاتھوں میں کپکپاہٹ ہے،قلم توڑ دینے کو جی چاہ رہا ہے،نہ الفاظ میں اتنی طاقت ہے کہ میرے جذبات کی ترجمانی کرسکے، نہ قلم میں اتنی پختگی کہ چشم نم کی عکاسی کرسکے۔آہ! استاد محترم، محدث بے مثال، وسیع المعرفت،غزیر العلم اور کثیر الحلم کے خوب صورت اوصاف سے متصف، تفقہ فی الدین، تعمق اورتبحر علمی کی جیتی جاگتی مثال، استاذ الاساتذہ حضرت مولانا مفتی عبد اللہ مظاہری رویدرویبھی اس عالم فانی سے عالم جاودانی کی طرف کوچ کرگئے ہیں۔ انا للہ وانا الیہ راجعون! اللہم اغفر لہ وارحمہ و سکنہ فسیح جناتہ ۔
جن اہل علم و اخلاص نے بر صغیر میں ایمان و ایقان کی شمع روشن کرنے میں اہم رول ادا کیا، دین کے علم صحیح سے لوگوں کو روشناس کرنے میں ہر ممکن کوششیں کیں، وہ امسال ایک ایک کرکے اپنے مالک حقیقی کی بارگاہ میں پہنچ رہے ہیں۔ وہ اشخاص رخصت ہورہے ہیں، جن کے وجود سے پورا عالم مستفید ہورہا تھا اور اپنے پیچھے ایک ایسا مہیب خلا چھوڑ جارہے ہیں کہ جن کے پر ہونے کی کوئی ظاہری امید نظر نہیں آتی۔ لگ رہا ہے کہ شاید وہاں کوئی علمی محفل لگی ہوئی ہے
کسی نے کیا خوب کہا:
افق کے اس پار کوئی علمی اکٹھہے شاید
بڑی تمکنت سے اہل دل اٹھ کے جا رہے ہیں
جہاں تک علم کے حروف و نقوش، کتابی معلومات اور فنی تحقیقات کا تعلق ہے ان کے ماہرین کی آج بھی کمی نہیں لیکن تعلیمات اسلاف کے امین، دین کا ٹھیٹھ مزاج رکھنے والے،تواضع اور للہیت کے پیکر ؛اب مسلسل سمٹ رہے ہیں۔ دیکھتے ہی دیکھتے کئی ایک کبار علمائے کرام اپنے مالک ِحقیقی سے جاملے ہیں ۔
ظاہری اوصاف و کمالات :
حضرت مفتی صاحب اپنے علم و فضل، زہد و ورع، جہد و عمل اورخشیت و انابت سے قرونِ اولیٰ کی یاد تازہ کرنے والے تھے۔اخلاص و للہیت،مجاہدانہ عزم و عمل، پرخلوص خدمات کی وجہ سے علمی اور دینی حلقوں میں ہر دل عزیز شخصیت کے مالک تھے۔ علمی دنیا میں آپ کا لوہا مانا جاتا تھا۔ بلا مذہب و ملت رفاہی خدمات اور اجتماعیت کو فروغ دینے کی وجہ سے اغیار آپ کے عاشق تھے۔حسن انتظام اور نفیس ذوقِ طبع سے ہر نو وارد آپ کا عاشق ہوجاتا تھا،علوم دینیہ سے بے انتہا محبت کا اثر اسباق سے رستا تھا تو طلبہ عش عش کرتے تھے۔ کتابوں سے حد درجہ عشق کہ جامعہ کا کتب خانہ آپ کے زیر انتظام ایک حسین شاہ کار بن گیا تھا۔دور حاضر میں اس قدر علم دوست شخصیت کا وجود نایاب نہ سہی کمیاب تو ضرور ہے۔یقیناً آپ کی وفات ہر اس شخص کے لیے ایک بڑا سانحہ ہے، جو علم و دین کی کچھ رمق اپنے سینہ میں پنہاں رکھتا ہے۔
جامعہ مظہرِ سعادت ہانسوٹ گجرات؛ایک زندہ جاوید یادگار :
”جامعہ مظہرِ سعادت ہانسوٹ“ حضرت مفتی صاحب کا ایک ایساعظیم کارنامہ ہے، جو آپ کے خوابوں کی تعبیر کی ایک زندہ تصویر ہے ۔جس کے در و دیوار سے مفتی صاحب کی جانفشانی، انتھک محنت اور مسلسل جد و جہد کے آثار نمایاں ہوتے ہیں۔آپ کے زیر اہتمام جامعہ نے برق رفتاری سے ہمہ جہت ترقی کی ہے۔ تعلیمات ہو یا تعمیرات، مالیات کی فراہمی ہو یا طالبانِ علوم دینیہ کی کثرت، پورے ہندستان میں مکاتب قرآنیہ کا جال پھیلانا ہو یا قرأت قرآن کو ایک نئی جدت عطا کرنا ہو یا پھر تعلیمی بیداری ہو یا طلبہ کی استعداد سازی ؛حضرت مفتی صاحب ہر ہر چیز پر خصوصی توجہ فرماتے تھے۔ اسی کا اثر تھا کہ مختصر سے وقت میں جامعہ ہانسوٹ ایک عظیم یونی ورسٹی کی شکل اختیار کرگیا تھا ۔
منصبِ اہتمام اور حسنِ انتظام:
حضرت مفتی صاحبنے 1985 میں ایک غیر آباد علم ناآشنااورجہالت و ضلالت کی اندھیر نگری (ہانسوٹ) میں ایک چھوٹے سے مکتب کی بنیاد رکھی،جس نے مختصر سی مدت میں ترقی کی منزلیں طے کرکے عروج حاصل کیا اور ہندستان کے عظیم مدارس میں اپنا ایک مقام بنایا۔ اس لیے کہ آپ نے اپنی مکمل حیات جامعہ کی فلاح اور ترقی میں وقف کردی۔ تقریباً دورِ ابتلاسے پہلے پہلے تک آپ نے اس ادارہ کی باگ ڈور اپنے ذمہ لے رکھی تھی، جس کی مکمل پاسداری کی۔طلبہ کے ساتھ حسن سلوک، تعلیم و تعلم، عمدہ سے عمدہ طعام کا التزام۔ہر طرح کا وہ ماحول عطا کیا، جو خال خال دیکھنے کو ملے گا۔ مہمانوں کی ضیافت، اساتذہٴ کرام کا احترام، صفائی ستھرائی کا اہتمام، مطالعہ کے لیے ایک وسیع و عریض کتب خانہ کا قیام ؛غرض ہر طرح کی سہولتیں آپ نے طالبان علوم نبوت کے لیے فراہم کر رکھی تھی ۔اگر مفتی صاحب کے اس زندہ جاوید شاہ کار اور کارنامہ کو دیکھنا چاہتے ہیں تو جامعہ کی پرشکوہ مسجد عائشہ کو دیکھیے!! جو تاج محل اور لال قلعہ کی نظیر پیش کرتی ہے۔ جس کے منبر و محراب اور اس میں شاندار خط سے مکتوب قرآن مجید کی مقدس آیات شاہان مغل کی طرح مفتی صاحب کا پاکیزہ ذوق کی ترجمانی کرتی ہیں، بل کہ دارالسنہ کی وہ عمارت، دار الحدیث کا وہ خوش نما ہال،دار القرآن،دار النظافہ، دار الاقامہ،دار الاساتذہ،دار الضیوف و دار الطعام اور پانی کی سبیلیں مفتی صاحب کے پاکیزہ اور نفیس ذوقِ طبع سے متعارف کرواتی ہیں۔الغرض منصب ِاہتمام کو آپ نے ایک جدت عطا کی اور بعد کے لوگوں کے لیے ایک قابل تقلید راہ ہموار کرگئے۔ بلاشبہ جامعہ کے درو دیوار اپنے اس عظیم معمار کے انتقال پر ماتم کناں اور سوگوار ہوں گے ۔
ویراں ہے میکدہ، خم و ساغر اداس ہیں
تم کیا گئے کہ روٹھ گئے دن بہار کے
ذوق مطالعہ اور کتابوں سے بے پناہ محبت :
آپ کو کتابوں سے بے پناہ عشق تھا ۔بچپن ہی سے مطالعہ کا ذوق اور اس کی حرص تھی ۔ دور طالب علمی میں مطالعہ کا انہماک بہت زیادہ تھا،حد درجہ مطالعہ کے باوجود بھی آسودگی نہیں ہوتی تھی۔ اسی کا اثر تھا کہ جامعہ کی لائبریری کتابی ذخیروں سے مالا مال اور آپ کی علم دوستی کا مظہرِ اتم ہے ۔
تصنیفات و تالیفات اور تبحر علمی :
اللہ تعالیٰ نے حضرت مفتی صاحب نور اللہ مرقدہ کو علمی کمالات کا وافر حصہ عطا فرمایا تھا۔ آپ کا علم مضبوط، مطالعہ وسیع، درس مقبول اور انداز نرالا تھا۔ آپ درس کیا دیتے علوم کے خزانے لٹاتے۔ رجال سازی اور مردم گری میں آپ منفرد شان رکھتے تھے؛جہاں آپ کام یاب مدرس، وسیع النظر فقیہ اور متبحر مفتی تھے وہیں ایک کہنہ مشق مصنف اور مؤلف بھی تھے۔آپ کی تصنیفات میں اسعاد القاری شرح البخاری (5جلد) خاص وقعت رکھتی ہے ،بخاری شریف ایک الگ انداز اور تحقیق و تدقیق سے پر ہے ا س کے علاوہ :
مباحث فی الحدیث وعلومہ
غایة الوصول الیٰ علم الاصول
فتاویٰ سعادت
اسعد الغایات بالتقدیم علی المشکوة
مختلف موضوعات پر علمی رسائل وجرائد آپ کے قلم گوہر بار سے منصہ شہود پر جلوہ گر ہوکر آپ کے لیے سرمایہ آخرت بنے ہوئے ہیں ۔
اس کے علاوہ رفاہی، سیاسی و سماجی خدمات اورمکاتب قرآنیہ کا جال پھیلانے میں آپ نے ایک عظیم کردار ادا کیا اور انمٹ نقوش چھوڑے ہیں ۔
ولیس علی اللہ بمستنکر
ملی اور رفاہی خدمات :
حضرت مفتی صاحب نور اللہ مرقدہ نے گجرات فسادات اور قدرتی آفات کے متاثرین کی باز آباد کاری میں تاریخی و مثالی رول ادا کیا ہے۔متاثرین کی تعمیری اور ٹھوس مدد اوراس کے لیے قریہ بہ قریہ اور کوبہ کو مسلسل چکر اور دوڑ دھوپ کرنا آپ اپنا فرض منصبی سمجھتے تھے۔ نیز قدرتی آفات کے موقع سے مصیبت زدگان کی ہمہ جہت مدد میں آپ نے کوئی کسر نہیں اٹھا رکھی تھی ۔
حضرت مفتی صاحب رحمہ اللہ؛اکابر امت کی نظر میں :
۱-مولانا اسعد اللہ رامپوری نور اللہ مرقدہ نے فرمایا:
اللہ تعالیٰ تم سے وہ کام لے گاکہ تم پوری زندگی محسود رہوگے، لہٰذا تم ہمیشہ ایک دعا کا ورد رکھنا۔
بسم اللہ الذی لا یضر مع اسمہ شیء فی الارض ولا فی السماء وھو السمیع العلیم۔
حضرت مفتی عبد اللہ مظاہری رحمہ اللہ کا عملی مقام علماکی نظر میں:
(2)حضرت مولانا قاضی مجاہدالاسلام قاسمی علیہ الرحمہ:
آپ نے فرمایا تھااور بجا فرمایا تھا کہ گجرات میں دو عالم ہیں ،جن کا مطالعہ گہرا ہے اور دونوں کا نام عبد اللہ ہے۔ ایک مفکر ملت حضرت مولانا عبداللہ کاپودروی نوراللہ مرقدہ اور دوسرے حضرت مفتی عبداللہ صاحب مظاہری نور اللہ مرقدہ۔افسوس کہ آج دونوں ہی شخصیات سے عالم محروم ہوچکا ہے۔
(3)رئیس المحدثین حضرت مولانا یونس جون پوری نور اللہ مرقدہ :
عبد اللہ مظاہر علوم کا میرا آدھا علم لے گیا۔ ایک اور موقع پر فرمایا تھا:گجرات کے دو طالب علم مجھ سے کماحقہ پڑھ کر گئے ہیں۔ ایک عبد اللہ گجراتی (مفتی عبد اللہ مظاہری رحمہ اللہ) دوسرا (مولانا) اسماعیل چاسوی۔
راقم آثم پر حضرت والا کے احسانات :
اس الم ناک سانحہ پر راقم الحروف کیا تعزیت پیش کرے؟ خود راقم مستحق تعزیت ہے۔رہ رہ کر حضرت والاکے راقم آثم پر نوازشات و عنایات یاد آرہے ہیں۔ دو سالہ دورِ طالب علمی میں جو محبتیں اور شفقتیں میں نے دیکھی ہیں وہ اپنی نظیر آپ ہے۔ مجھے حضرت والا سے باقاعدہ کسب فیض کا موقع نہیں ملا، البتہ امتحانات اور خدمت کے دوران بہت کچھ سیکھنے اور سمجھنے کو ملا ہے۔ مہمانوں کی ضیافت، طلبہ کی حوصلہ افزائی، جمعہ میں طلبہ کو مسجد میں جمع کرنا، بعد نماز عصر مسجد عائشہ میں جلوہ افروز ہونا، بعد نماز مغرب طلبہ کے مذاکرات کی نگرانی کرنا، بعد نماز عشا حضرت مولانا قاری سید صدیق احمد صاحب باندوی کی” آداب المتعلین“ پڑھنا، اپنے اکابر کی تعظیم، معانی اور نکات سے بھر پور درس بخاری ،جس سے بالیقین بخاری کی روایت ابن الہمام کی فقاہت اور علامہ ذہبی کی درایت جھلکتی تھی۔وہ فقہی گہرائیوں سے پُر رسم المفتی کا سبق ،جس سے علامہ شامی اور ابن نجیم کی یاد تازہ ہوتی تھی۔
بلاشبہ حضرت مفتی صاحب نور اللہ مرقدہ کی زندگی ہمارے لیے سراپا جدوجہد اور قوم وملت کے لیے بے مثال قربانی پیش کرنے کی ترغیب اور تحریک و عمل کا پیغام ہے۔ آپ نے تعلیم و تعلم ،اصلاح و تربیت اور ملی جدوجہد کی جو مثالیں قائم کی ہیں وہ غیر معمولی اور ناقابل ِفراموش ہیں۔
ہوا تھی گو تند و تیز لیکن چراغ اپنا جلا رہا تھا
وہ مرد درویش جس کو حق نے دیے تھے انداز خسروانہ
سنت یوسفی اور دور ابتلاء:
وفات سے دو تین سال قبل جامعہ مظہرِ سعادت ہانسوٹ گجرات ایک الم ناک حادثہ کا شکار ہوا۔مشیت ایزدی اور قضا و قدر کے فیصلوں سے انسانی ذہن ناواقف رہتا ہے، اس لیے میں اس زخم کو کریدنا ہی نہیں چاہتا کیوں کہ
پنبہ کجا کجا بنہم
ہمہ تن داغ داغ شد
حضرت مفتی صاحب نور اللہ مرقدہ کو اپنی پیرانہ سالی کے باجود زنداں کے پیچھے ڈھکیل دیا گیا۔ مختلف الزامات و اتہامات، دجل و فریب اور دروغ گوئی و دھوکہ دہی کا سہارا لے کر پس دیوار زنداں محبوس کردیا گیا۔ بیماری کے باوجود پابند سلاسل کردیا گیا، پھر بھی آپ صبر و عزیمت کا بلند استعارہ ثابت ہوئے، حق پرہوتے ہوئے بھی قدم پیچھے ہٹالیا اور عزم و استقامت کا پیکر بن کر سنت یوسفی اور سنت شعب ابی طالب کو ادا کرنے پر رضامند ہو گئے،بڑوں کی بڑائی اور ان کا بڑاپن یہی ہوتا ہے کہ اپنے درد وکرب کو چھپاکر چھوٹوں کو صبر کی تلقین کرتے ہیں، واقعی میرے مشفق و مربی استاد کچھ ایسے ہی تھے ۔
فالی اللہ المشتکی والیہ المستعان
کڑے سفر کا تھکا مسافر، تھکا ہے ایسا کہ سوگیا ہے
خود اپنی آنکھیں تو بند کرلیں، ہر آنکھ لیکن بھگوگیا ہے
انشاء اللہ تعالیٰ یہ آزمائشیں آپ کو حیات جاودانی عطا کریں گی اور آپ کا حشر سید الانبیا و المرسلین صلی اللہ علیہ و سلم اور ان کے اہل بیت کے ساتھ ہوگا۔رب ذوالجلال آپ کا حشر خادمین حدیث کاندھلوی، باندوی جون پوری اور کاپودروی کے ساتھ فرمائے گا ۔
راقم تمام متعلقین و متوسلین اولاد و احفاد سے بالخصوص اور تمام محبین اور شاگردوں سے بالعموم فرداً فرداً تعزیت پیش کرتا ہے۔ مفتی صاحبکی جدائی کا غم تازہ ہے۔ مفارقت دنیوی طور پر ہوئی ہے، لیکن مفتی صاحب نور اللہ مرقدہ کی ذات گرامی ”رفتید ولیکن نہ از دل ما“ کی مصداق ہے ۔
آپ کی زندگی ایک مشعل ِراہ ہے۔ اپنے اولاد و احفاد اور ہزاروں وابستگان کے لیے ایک مشن ہے۔ دین اسلام کے بے لوث خدام کے لیے ایک استعارہ ہے۔ عزم و عمل کے خوشہ چینوں کے لیے نمونہ ہے۔ اللہ پاک ہم تمام شاگردوں کو آپ کے مشن کو جاری رکھنے کی توفیق عطا فرمائے۔آمین!