سیکولرزم کے چار بنیادی ستون

غیب کا انکار اور مقصدِ حیات صرف مشاہداتی دنیا:

            ۱:- دیگرنظاموں اور متعدد ازموں کی طرح وہ بھی عقلِ انسانی کو معیار قرار دے کر محض اس مادی دنیا پر نگاہ رکھتا ہے، اور اجتماعی طور پر ایسا ماحول بنانے پر زور دیتا ہے، جو انسانوں کی توجہ غیبی دنیا سے پھیر کر اس مشاہداتی دنیا پر مرکوز کردے۔

اخلاقیات اور سماجیات کو مذہب سے جدا کرنا:

            ۲:- وہ اخلاقیات وسماجیات کو مذہب سے جدا کر کے لا دینی بنانے کا متمنی ہے۔

سیاسیات اور مذہب کا رشتہ توڑ دیا گیا:

            ۳:- مملکت و سلطنت اور سیاست سے مذہب کو دور رکھنا چاہتا ہے۔

نظامِ تعلیم کو لادینی بنا دیا گیا:

            ۴:- طریقہٴ تعلیم کو مکمل لادینی بنانے کا آرزومند ہے۔

ہندستانی مفکر سیکولرزم کی وضاحت کرتے ہوئے:

            سیکولرزم کی نقل کردہ تعریفوں سے یہ تو ہمارے اخذ کردہ اصول تھے، جب کہ اس نظریے کی مزید وضاحت کرتے ہوئے ایک ہندوستانی مفکر ”راجیو بھارگوا“ انگریزی جریدے (Frontline) میں اس کی مزید پانچ توجیہ نقل کرتا ہے:

ملک میں اکثریت کے مذہب کو غالب کرنا:

            ۱:- حکومت محض نام کے اعتبار سے سیکولر ہو اور اس نظریے کے مطابق تمام ملک میں پھیلے مذاہب کی سرپرستی کر کے، اس مذہب کو غالب کرنے کی کوشش کرے ،جو ملک کی اکثریت کا مذہب ہو، لیکن اس کے ساتھ ہی اقلیت کے مذہب کا استحصال بھی نہ ہو۔عجیب مخمصہ ہے؛ آج سے چالیس سال قبل یہ بات کہی گئی ، مگر آج کا منظر نامہ اس کی مکمل عکاسی کررہا ہے۔

فرقہ پرستوں کی حوصلہ افزائی کی جائے:

            ۲:- ہر مذہب کے فرقہ پرستوں کی حوصلہ افزائی کی جائے او رحکومت ان سب کو ایک پلیٹ فارم پر لاکر مصالحانہ رویے کے ساتھ اپنا سفر جاری رکھے۔ پچھلے بیس برس سے ہندستان سیکولرزم کی تقریباً اس شق پرعمل پیرا رہاہے۔

تمام مذاہب کے یکساں احترام کا کھوکھلا دعویٰ:

            ۳:- سیکولرزم سے مراد وہ نظریہ ہے، جس میں تمام مذاہب کا یکساں احترام ہو اور کسی کو دوسرے پر مذہبی حیثیت سے کوئی فوقیت نہ ہو، تمام لوگوں کو بلا تفریقِ مذہب و ملت کے یکساں مواقع حاصل ہوں۔

            ہندوستان کے سیکولر دانشور سیکولرزم کی اس توجیہ کو مناسب پالیسی اور ہندستانی مزاج سے ہم آہنگ قرار دیتے ہیں، آزاد ہندستان کی معمار شخصیت اور مدراس کے پہلے وزیرِاعلیٰ ”سی راج گوپال اچاریہ“ نے بھی سیکولرزم کی بابت تقریباً ان ہی خیالات کا اظہار کیا ہے۔

حکومت بالکلیہ لادینی ہونی چاہیے:

            ۴:- حکومت کے سیکولر ہونے کا معنی یہ ہے کہ وہ غیر مذہبی تو ہو، مگر مذہب کی مخالف نہ ہو، اس نظریے کے حامی لوگ عقلِ انسانی کے محدود ہونے اور معاشرتی احتیاج کے پیشِ نظر مذہبی اعتقاد و شعائر کے حامل تو ہوتے ہیں، لیکن وہ مذہب کو حکومت پر اثرا نداز نہیں ہونے دیتے، بل کہ اس کو بالکلیہ لا دینی دیکھنا چاہتے ہیں۔

سیکولرزم کے نام پر دھوکے کا اعتراف:

            ۵:- پانچویں توجیہ نقل کرتے ہوئے مصنف ”سیکولرزم“ کے چہرے سے نقاب ہٹا کر اس کے اصول و مبادی، مزاج و مقاصد اور اس کے دعویداروں کی پوری تصویر اس شق میں سمیٹ لیتا ہے اور کھل کر یہ کہتا ہے کہ سیکولرزم کے معنی ”لادینیت“ ہے اور اس کے حامی صرف وہی لوگ ہوتے ہیں ،جو خود کو روشن خیال تصور کر کے، جہاں حکومت کو مذہب کے تیئں معاندانہ رویے پر اُکساتے ہیں، وہیں اس کو تمام جھگڑوں کی بنیاد بتا کر ایک طرح کا ڈھکوسلا قرار دیتے ہیں۔

            یہ تو ”راجیو بھارگوا“ کے اپنے خیالات تھے، جب کہ جامعہ ملیہ کے مشہور مؤرخ اور عظیم دانشور پروفیسر ”مجیب“ اپنی کتاب ”ہندستانی سماج پر اسلامی نقوش“ میں سیکولرزم کی تعریف کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ: سیکولرزم اس اعتقاد اور ایقان کو کہتے ہیں کہ ہم ساری توجہات اس مادی دنیا پر مرکوز کردیں۔

 یہاں پہنچ کر ہم ان چار اُمور کی قدرے وضاحت کرنا چاہتے ہیں، جو سیکولرزم کے بنیادی اصول کہے جاسکتے ہیں۔

دنیا پرستی و عقل پرستی:

            عیسائیت اپنے مزعومہ خیالات اور فرسودہ عقائد کی بنا پر عقل اور جدید علوم کی شدید دشمن ہے، کیوں کہ عقل کو معیار تسلیم کرلینے کے بعد، کلیسائی نظام کی پوری عمارت اپنے لاؤ لشکر کے ساتھ زمین پر آگرتی ہے، اس لیے مسیحیت نے عقل کو مطعون و ملعون ٹھہرا کر،ہر دور میں اسے محبوس کرنے کی انتھک کوشش کی ہے، جب کہ تحریکِ الحاد اس کی مخالف سمت کی پیروی کرتے ہوئے ،عقل کو اپنا امام قرار دیتی ہے۔ سیکولرزم جو مکمل غیر جانبداری کا دعویٰ کرتا ہے، یہاں مذہب کی راہ چھوڑ کر الحاد کی پیروی کرتے ہوئے نہ صرف عقل کو اپنے سر کاتاج بنا رہا ہے، بل کہ انسانی عقل کو عیوب و نقائص سے مبرّا قرار دے کر حسن و قبح کا معیار بتاتا ہے، اس کے نزدیک انسانی عقل اتنی صلاحیت و لیاقت رکھتی ہے کہ وہ حقیقت کے ساتھ ساتھ کائنات کے تمام اسرار و رموز کا مکمل طور سے ادراک کرسکتی ہے۔ اس کا بنیادی اصول یہ ہے کہ انسانی توجہات کا مرکز اور اس کی محنت و لیاقت کی تماشاگاہ صرف یہ دنیا ہونی چاہیے اور اس کی دنیاوی ترقی کے لیے، تمام مادی وسائل کی افادیت و مضرت صرف عقل ہی سے جانی جاسکتی ہے، نیز وہ دلی طور سے اس بات کا بھی متمنی ہے کہ انسان اپنی صلاحیتیں اُس دنیا پر نہ لگائے، جس کے وجود کو سیکولرزم تسلیم نہیں کرتا، اگر کبھی بادلِ ناخواستہ اس کے وجود کو ماننے پر آمادہ ہوتا ہے، تو وہاں بھی یہ تصریح کرنے سے باز نہیں رہتا کہ اُس دنیا کا انسانی فلاح وبہبود اور اس کی خوشحالی سے کوئی تعلق نہیں، تو اس طرح وہ انسانیت کو ظواہر کی پرستش کرنے اور لاشعوری طور پر اُمورِ غیبیہ کا انکار کرنے کی ترغیب دے رہا ہے، کیوں کہ وہ صرف اِس مشاہداتی دنیا پر نظر رکھتا ہے۔

اجتماعی معاملات و معاشرے کو لادینی بنانے کی کوشش:

            سیکولرزم دینی طبقے کو مذہبی آزادی تو دیتا ہے، لیکن وہ اس آزادی کو دل کے نہاں خانوں اور عبادت گھروں کی چہار دیواری کے اندر اندر ہی دیکھنا چاہتا ہے اورجہاں اس آزادی نے انفرادیت سے نکل کر اجتماعی معاشرے میں قدم رکھا، وہیں سیکولرزم کامزاج برہم ہوجاتا ہے، کیوں کہ وہ انسانوں کو اخلاقی، سماجی اور معاشرتی طورپر لا دینی بنانے کاآرزو مند ہے، اس لیے ہر دور میں اس کی یہ کوشش رہی ہے کہ مختلف مذاہب کے درمیان عقائد و اعمال کی ان تمام دیواروں کو توڑدے، جو ان کے حاملین کے درمیان امتیازات و تشخُّصات کے خطوط کھینچتی ہیں، نیز وہ ایسی طرزِ معاشرت، مخصوص لباس اور ان تمام علامتوں کا استحصال کرتا ہے ،جن کے ذریعے ایک مذہبی فرقہ دوسرے فرقوں سے الگ اور ممتاز ہونا چاہتا ہے، سیکولرزم جہاں قوموں کی تشکیل عقائد سے ہٹ کر وطن کی بنیاد پر کرتا ہے، وہیں ایک ملک میں رہنے والے تمام حاملینِ مذہب کو، ایک دوسرے کے قومی تہواروں، تاریخی میلوں اور عبادتی رسوم میں شریک ہونے کی دعوت دے کر، ملی جلی تہذیب اور مشترکہ ثقافت بنانے پر زور دیتا ہے۔

مذہب کو اقتدار و سیاست سے دور رکھنے کا عزم:

            سیکولرزم کا تیسرا بنیادی اصول یہ ہے کہ حکومت کو لادینی بنانے کے ساتھ ساتھ مذہب و سیاست کے درمیان ایک آہنی دیوار کھڑی کردی جائے اور دین کو پرائیویٹ زندگی میں محدود کر کے جہاں وہ حکومت کا بلاشرکتِ غیر مالک ہو، وہیں اسٹیٹ میں عوام کو ایسا معاشرہ بنانے پر بھی مجبور کردے، جس کا فرد ذاتی و نجی طور پر تو بھلے ہی مذہبی ہو، لیکن اجتماعی اور معاشرتی طورپر اس قید و بند سے آزاد ہو؛ کیوں کہ وہ افراد کو حکومت میں محض وطن اور قوم کی بنیاد پر شریک کرتا ہے، مذہبی حیثیت سے اُنھیں کوئی حصہ نہیں دیتا، اس لیے وہ سرکاری اور حکومتی سطح پر مذہب پسندوں کی کوئی حوصلہ افزائی نہیں کرتا، وہ مذہب کو سیاست سے جدا کرنے کے ساتھ ساتھ اُسے چند خوش عقیدہ لوگوں کا نجی معاملہ قرار دے کر،مواعظِ حسنہ یا اخلاقی ضابطے کے طورپر برداشت تو کرتا ہے؛ لیکن اس کی دلی خواہش یہ ہے کہ ملک کے تمام مذہبی اشخاص چھپ چھپا کر خاموشی کے ساتھ پوجا پاٹ تو کرلیں، لیکن جب وہ عبادت خانوں سے باہر نکلیں تو مذہب کا چُولا اور دینی رنگ وہیں اُتاردیں اور معاشرے میں صرف ایک مذہب سے بے نیاز انسان کی طرح داخل ہوں۔

            سیکولرزم مذہب کو ذاتی و انفرادی زندگی میں محدود کرنے کے ساتھ ساتھ اس امر کی بھی تصریح کرتا ہے کہ عبادت کو چھوڑ کر بقیہ دنیاوی و سیاسی اُمور کا نہ صرف یہ کہ مذہب سے کوئی تعلق نہیں؛ بل کہ انسان ان اُمور میں فطری طور پر بالکل آزاد ہے، وہ تجربات و عقل کی روشنی میں جیسا چاہے قانون بنائے، نیز طرزِ معاشرت، رہن سہن، عادات و اخلاق، اقتصادیات و معاش اور دیگرتمام اُمور میں مذہب سے الگ راستہ اختیار کرنا چاہیے۔

لا دینی طریقہٴ تعلیم:

            سیکولرزم کی تعریف کرتے ہوئے ہم ”انسائیکلو پیڈیا“ کے حوالے سے پیچھے نقل کر آئے ہیں کہ سیکولر تعلیم وہ طریقہٴ تربیت ہے، جس سے تمام مذہبی عناصر اور روحانی اثرات کو علیحدہ کردیا گیا ہو، مظاہرِفطرت، آثارِ کائنات اور واقعات و کوائف کا مطالعہ بے لاگ ہوکر کیا جائے اور محقّقانہ طور پر حقیقت کا متلاشی بن کر کائنات میں چھپے ان تمام اسرار و رموز کا پتہ لگایا جائے، جو اس مادی زندگی میں مفید ہوسکتے ہیں، تو دوسرے الفاظ میں ہم یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ انکشافِ حقائق میں مذہبی رجحانات کو خارج کردینے کا نام ہی سیکولر تعلیم ہے، ا گرچہ معروضی طریقہٴ تعلیم بھی یہی ہے کہ تمام داخلی و خارجی اثرات سے آزاد ہوکر کائنات کا مطالعہ کیاجائے، لیکن یہ طریقہ ہرقسم کے اثرات کو علیحدہ کرنے کی بات کرتا ہے، جب کہ سیکولرزم دیگر تمام اثرات کو تو ،بہ خوشی گلے لگاتا ہے، لیکن مذہبی میلانات‘ طریقہٴ تعلیم میں اُسے ایک آنکھ نہیں بھاتے۔

 سیکولرزم کو کیسے بتدریج عام کیا گیا:

            الحاد اوربے دینی کو عام کرنے کے لیے یورپ نے سولہویں صدی سے اس ناپاک سفر کا آغاز کیا۔ پہلے پاپائیت کے ظلم سے تنگ آکر مذہب اور حکومت وسیاست کو جدا اورالگ کیا گیا، اس کے بعد سیاست اورپالیٹکس کے ذریعے دیگر اجتماعی زندگی کے مسائل کو دین سے الگ کردیا گیا۔

             پہلے معیشت کے باب میں سرمایہ داریت آئی، اس کے بعد تعلیمی میدان میں منظم انداز میں سیکولرزم کے نام پر ایک عالمگیر فتنہ کو برپا کیا گیا؛ اسی لیے ہم دیکھتے ہیں کہ اکیسویں صدی کے اوائل میں برطانیہ اور یورپ کے دیگر ممالک میں پہلی مرتبہ سیکولر ایجوکیشن کے طرز پر یونیورسیٹیاں قائم کی گئیں اور پھر اس کے فوراً بعد برطانیہ اور فرانس وغیرہ نے اپنے استعماری خطوں میں اپنی تہذیب تھونپنے کے لیے دو کام کیے؛اپنے استعماری خطوں سے ایسے افراد کو منتخب کیا ،جو بہت جلد متأثر ہوجاتے اور ترقی یافتہ یورپ کے پَوش علاقوں کی سیر کروائی اور اس کے بعد اپنی ان سیکولر یونیورسیٹیوں میں ان بااثر افراد کے بچوں کو اسکالر شپ دے کر پڑھوایا اور ان کی ذہن سازی کی ۔اور اس طویل الاثر طریقہٴ کار کو اختیار کرکے سیکولرزم کو مضبوط کیا۔

            اور پھر دوکام کیے: ایک تو جس ملک میں ان کا تسلط تھا وہاں پر وہیں کے کچھ افراد کو مغرب کی اندھی تقلید میں دنیوی نظام ِتعلیم کے ادارے قائم کرنے کے لیے کھڑا کیا ۔ جیسے ہندستان میں راجا رام ، موہن رائے اور سر سید کو کھڑا کرکے لادینیت اور عیسائیت کو عام کرنے کے لیے ؛یہاں کے نظام ِتعلیم کو اپنے منشا اور فکر کے مطابق کیا ، یہاں کے لوگوں کو ایسی تعلیم دی، جس سے وہ ذہنی غلامی میں مبتلا ہوں، اور صرف کلرک لیول کے افراد بن پائیں اوریہ انگریز فرسٹ لیول کے افراد ہوں۔ اور دوسرا وہاں کا نظامِ تعلیم بدل کر رکھ دیا؛ جیسا کہ محمد علی پاشا نے مصر میں کیا اور لارڈ میکالے نے بر صغیر میں کیا۔