علما معاشرے کا کنٹرول کیسے حاصل کرسکتے ہیں؟

امت کی ترقی کا پندرہ نکاتی فارمولہ اور روڈ میپ

مفتی قیام الدین قاسمی#

            اگر علما؛عوام کو باطل کے چنگل سے آزاد کرکے پھر سے معاشرے کا کنٹرول حاصل کرنا چاہتے ہیں ،تو انہیں مندرجہ ذیل باتوں پر عمل کرنا ہوگا۔

1 – خود کو معاشرے کا دماغ تصور کریں:

            آپ ذرا سوچئے کہ سات براعظموں میں سے ایک بر اعظم کے ایک ملک کے ایک چھوٹے سے صحرائی شہر میں بیٹھا ایک غریب یتیم،غیر حاکم شخص اور وسائل و پاور کی عدم ِفراہمی کے باوجود یہ دعویٰ کرتا ہے کہ میں پوری دنیا کے لیے رحمت ہوں۔ بالفاظِ دیگر وہ پوری دنیا میں خیر پھیلانے اور برائی کو مٹانے کی ذمہ داری اپنے سر لے کر اس کی انجام دہی کے لیے متفکر اور تگ و دو میں مصروف ہے۔ کون ہے وہ؟ محمد صلی اللہ علیہ وسلم! ایک بار درود شریف پڑھ لیں اس عظیم شخصیت پر۔

             اسے کہتے ہیں معاشرے کا دماغ، اسی شخصیت نے”العلماء ورثة الانبیاء“ کہہ کر اپنے بعد ہمیں معاشرے کا دماغ بنایا ہے، تو پھر ہم کیوں نہیں ان کی طرح سوچ سکتے؟ ہمیں ہر حال میں سوچنا ہوگا؛کیوں کہ جتنا غافل یہ دماغ ہوتا جائے گا، اتنا ہی خراب یہ معاشرہ بھی ہوتا چلا جائے گا۔

            غور کرنے کی بات ہے کہ نبی نے اسے اپنا وارث بنایا، ہزاروں لاکھوں لوگوں کی شفاعت کا اختیار اس کو ملا۔”انما یخشی اللہ من عبادہ العلماء“ اور ”یرفع اللہ الذین آمنوا منکم و الذین اوتوا العلم درجات“کہہ کر اس کا مرتبہ عام لوگوں سے بلند کیا گیا۔ اس کے لیے فرشتے پر بچھاتے ہیں، کیا یہ ساری فضیلتیں بس بنا کسی محنت کے مل جائیں گی؟ کیا یہ صرف قرآن و حدیث پڑھ لینے اور سمجھ لینے کی بدولت ہے؟ نہیں!!!انگلش کا ایک مقولہ مشہور ہے With great powers comes great responsibility اور اسلام میں بڑے فضائل کے ساتھ بڑی ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں۔

            یاد رکھیں کہ قرآن و حدیث محض الفاظ یا کتابوں کا نام نہیں یہ ایک سسٹم ہے اور سسٹم صرف پڑھانے اور سمجھانے کے لیے نہیں ہوتے، بل کہ لاگو کرنے اور نافذ نہ ہونے تک چین لیے بنا جد و جہد کرنے کے لیے ہوتے ہیں۔ اگر ہم نے قرآن و حدیث کو خود کے ساتھ ساتھ معاشرے کو بدلنے کے لیے استعمال نہیں کیا تو ہم صرف حاملینِ الفاظِ قرآن و حدیث ہیں حاملینِ قرآن و حدیث نہیں۔ وشتاَّنَ ما بینھما و بین فضائلھما۔

اب آپ ”کرونولوجی “ سمجھئے:

             معاشرہ ایک اجتماعی اکائی ہے جو افراد سے مل کر بنتا ہے۔ اسے چلانے کے لیے دماغ درکار ہے۔ کیوں کہ جب فرد بغیر دماغ کے کام نہیں کرسکتا تو افراد کا مجموعہ بھی بغیر دماغ کے کام نہیں کرسکتا۔

2-دماغ یہ سوچ رکھے:

             اس دماغ کو اولاً یہ سوچنا ہوتا ہے کہ اس معاشرے کو مجھے کس مقصدکے لیے کس ڈگر پر لے کر جانا ہے، تو جان لیں شریعت کے بنیادی طور پر دو ہی مقاصد ہیں: دینی اور دنیوی منافع اور مصالح کا حصول دینی اور دنیوی نقصانات اور فسادات کا دفعیہ۔

3- اس کے بعد اپنی محنت کا دائرہٴ کار اور افراد کی تعیین کرنی ہوگی:

            یعنی ہم عالمی سوچ رکھنے کے بعد شروعات تو بہرحال ایک چھوٹے سے گاؤں یا علاقے سے ہی کریں گے، تو ہمارے پاس اس گاؤں کے تمام افراد (بچے، جوان، بوڑھے اور عورتوں) کی لسٹ ہونی چاہئے۔

            اس کی دلیل سیرت سے یہ ہے کہ جب کوئی صحابی نماز میں غائب ہوتا تو حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نماز کے فوراً بعد اس کے بارے میں دریافت فرماتے۔ہم نے اپنے کلاس میں بارہا اس طرح کی حدیثیں پڑھیں ہوں گی، مگر اسی کو جب ہم وائیڈر پکچر اور وسیع تناظر میں دیکھنے کی کوشش کریں گے، تو اس کا مطلب یہ نکلتا ہے کہ دماغ کو اپنے دائرہ ٴ کار کے ہر فرد کی خبر ہونی چاہئے۔

4- ان کے صلاحیتوں کی تشخیص کرنی ہوگی:

             مثلاً کتنے جاہل اور کتنے عالم ہیں؟ کتنے پیشوں سے وابستہ لوگ موجود ہیں؟کتنے لوگوں کو کتنی زبانیں آتی ہیں؟ کتنے لوگ مال دار اور کتنے غریب ہیں؟کتنے مرد اور عورتیں شادی شدہ ہیں اور کتنے غیر شادی شدہ؟ کتنی بیوائیں ہیں اور کتنی مطلقہ؟کتنے لوگ دین سے وابستہ ہیں اور کتنے بے دین؟بہرحال ان کی معاشی، دینی، اخلاقی؛غرض ہر قسم کا بایوڈاٹا اس دماغ کے پاس موجود ہونا چاہئے اور میں سمجھتا ہوں کہ امت میں ترقی نہ ہونے کی ایک بڑی وجہ یہی ہے کہ ہم لوگ منظم انداز کی کوشش نہیں کرتے۔ہم لوگ جگہ جگہ چھوٹے دیے تو جلالیتے ہیں،مگر یہ نہیں سوچتے کہ انہیں چراغوں کی قیمت کو جمع کرکے ایک بڑا ایل ای ڈی بلب خریدکر اس ہال کو ان دسیوں چراغوں سے کہیں زیادہ روشن بنایاجاسکتا ہے۔

5- پھر اس دماغ کو انسانوں کی نفسیات اور ان کو متاثر کرنے کے طریقوں کو جاننا ہوگا:

             آج کل جمعے کے خطاب میں اکثر مساجد میں لوگ بے توجہی سے بیٹھے بس نماز کے وقت کا انتظار کررہے ہوتے ہیں، کیوں؟ اس لیے کہ ہمیں پبلک اسپیکنگ نہیں آتی، لوگوں کی سائیکالوجی نہیں سمجھ آتی، مردم شناسی نہیں آتی کہ کب کس سے کس انداز سے کون سی بات کرنی ہے۔

6 – لوگوں میں اجتماعیت کا احساس پیدا کرنا ہوگا کیوں کہ

”فرد قائم ربطِ ملت سے ہے تنہا کچھ نہیں“

            انہیں ”انما المومنون اخوة“ کا Concept اور ”مَثل المؤمنین فی توادہم وتراحمہم وتعاطفہم مثل الجسد إذا اشتکی منہ عضو تداعی لہ سائر الجسد بالسہر والحمی“ کا فلسفہ سمجھائیں۔ انہیں یہ ذہن نشین کرائیں کہ اسلام اور اجتماعیت کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔ اسلام کا تصور اجتماعیت کے بغیر ممکن نہیں اور اجتماعیت کا تصور اسلام کے بغیر مفید نہیں۔

7- ان کے مسائل اور ضرورتوں کی تشخیص کرنی ہوگی:

             کہ اس علاقے کے کیا مسائل، کیا ضرورتیں ہیں اورکیا پریشانیاں ہیں؟ اس کے لیے آپ کو اس علاقے میں گھوم گھوم کر لوگوں سے ملنا ہوگا۔ اپنی تجزیاتی قوت کو استعمال کرتے ہوئے مسائل اور ان کی جڑ تک پہنچنا ہوگا۔ اپنے تجزیے کے ساتھ ساتھ لوگوں سے ان کی ہی زبانی ان کے مسائل سمجھنے کی کوشش کرنی ہوگی۔قرآن کے ”سیروا فی الارض“ کا فلسفہ یہی ہے کہ آدمی سیر کرکے ماضی کے حوادث سے عبرت لے اور پھر حال کے مسائل کا تجزیہ کرکے ان کا حل تلاش کرے اور یہ کوشش کرے کہ یہاں وہ حوادث پیش نہ آئیں۔

8 – اپنے دشمنوں کو پہچاننا:

             ویسے تو یہ مسائل کی تشخیص کے ضمن میں ہی آجاتا ہے،مگر اس کی اہمیت کی خاطر الگ سے ذکر کردیا۔ دشمن سے مراد اسلام اور مسلم مخالف نظریات مثلاً

humanism انسان پرستی and scientism سائنس پرستی, syncretism or omnism بین المذاہب ہم آہنگی, atheism الحاد and agnosticism تشکیک, liberalism آزاد خیالی and secularism لادینیت, feminism نظری حقوق نسواں, Marxism and capitalism, rationalism عقلیت پرستی and empiricism تجربہ پرستی۔

            اسی طرح مسلم مخالف ادارے اور شخصیات مثلاً:آر ایس ایس، صہیونیت، اقوام ِمتحدہ اور اس کے انسانی حقوق کے چارٹر اور یہود کی معرفت، ان کے طریقہٴ کار سے واقفیت اور ان سے نظریاتی و فزیکل مقابلے کی پلاننگ کرنا۔

9-مذکورہ مسائل کی درجہ بندی:

             اب جتنے مسائل، فتنوں اور ضرورتوں کی تشخیص کی گئی ہے، ان کی ایک دو تین کرکے درجہ بندی کرنا، کس مسئلے اور کس فتنے اور کس ضرورت کو اپنی اولین ترجیح بنانا ہے؟

             ضرورتوں میں بنیادی ضروریات کو پہلے ترجیح دی جائے۔مثلاً: مکان، روزی روٹی اور کپڑا۔پھر دیگر ضروریاتِ مسائل میں عموم بلویٰ (جس مسئلے سے سب سے زیادہ افراد دوچار ہوں) کو ترجیح کی بنیاد بنائی جائے

اور فتنوں میں سے اس فتنے کے قلع قمع کو اولین ترجیح دی جائے،جس سے پانچ مقاصدِ شریعت حفاظتِ دین و جان ، عقل و نسل اور مال میں سے سب سے زیادہ مقاصد بیک وقت فوت ہورہے ہوں۔

10-ایکشن اور پلاننگ:

             جب آپ نے مسائل کی شناخت کرکے ترجیحات متعین کرلیں، تو اب ایسا ایکشن اورپلان بنائیں،جس سے قوم کی دینی، اخلاقی، معاشرتی، سیاسی، سماجی اور ذہنی غرض ہر قسم کی ترقی ہو۔جس میں مسائل کا حل بھی ہو اور ڈیولپمنٹ کی فیوچر پلاننگ بھی۔ اور ہر ترجیح کے لیے ایک الگ لائحہ عمل بنائیں،پھر اس کے بعد میدانِ عمل میں آئیں اور فیلڈ ورک شروع کردیں۔

            ہماری پریشانی یہ ہے کہ ہمارے دلوں میں محض جذبات ہوتے ہیں کہ قوم کا خادم بننا ہے۔ قوم کا دینی و دنیوی معیار اونچا کرنا ہے؛لیکن کیسے کرنا ہے،اس کی کوئی پلاننگ نہیں ہوتی۔ بس روایتی انداز میں کام کا جو انداز چلا آرہا ہوتا ہے،ہم بس انہیں میں سے کسی ایک کا انتخاب کر لیتے ہیں اور پھر ”کل حزب بما لدیھم فرحون“ والا منظر ہمیں دیکھنے کو ملتا ہے۔

             لیکن جب تک میدانِ عمل میں آنے سے پہلے ہمارا ایک ہولیسٹک ویو پوائنٹ نہیں ہوگا اور ہولیسٹک ڈیولپمنٹ (کلی اور مجموعی ترقی) کا خاکہ ہمارے ذہنوں میں نہیں ہوگا اور ٹارگٹ بناکر میدان ِعمل میں اترنے کا عزم نہیں ہوگا؛ہم میں کبھی وہ تڑپ پیدا نہیں ہوپائے گی،جو ہر وقت امت کے لیے سوچنے پر ہمیں مجبور کردے،جیسے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سوچا کرتے تھے اور جس کی بنا پر راتوں کو اٹھ اٹھ کر اپنی امت کی خاطر رویا کرتے تھے۔

            80/20 کا فارمولا یاد رکھیں کہ پلاننگ پر بیس فیصد کام میدانِ عمل کی اَسیّ فیصد محنت کو کم کردیتا ہے۔

            ایکشن پلان کس بنیاد پر بنایا جائے؟ طاقت اور نفع کے حصول کے جتنے ذرائع ہیں ایک گاؤں کے اندر وہ تمام طاقتیں مہیا ہونی چاہئے۔ہر پروفیشن کا آدمی ہونا چاہیے، کیوں کہ ہمیں صرف لوگوں کے مال کو استعمال نہیں کرنا ہے قوم کے لیے،بل کہ ان کی صلاحیتوں کو بھی استعمال کیا جاسکتا ہے۔ مثلاً: ایک مستری ایک مزدور ایک الیکٹریشین بھی قوم کی خدمت کرسکتا ہے،مہینے میں ایک دن قوم کے لیے وقف کریں۔

            یاد رکھیں کہ صرف طلب گاروں کو دین کا نفع بتاکر دین پر لایا جاسکتا ہے، مگر بے طلبوں میں یا تو طلب پیدا کرنی ہوتی ہے ،جو کہ خاصا وقت طلب کام ہے یا پھر دین پر لانے کا پریکٹیکل طریقہ یہ ہے کہ دین کی محنت پر آپ مادی فوائد کا خول چڑھا دیں۔ یعنی ان کے دنیوی مسائل حل کرکے ہم انہیں دین کی طرف راغب کریں۔

11-انفرادی اور اجتماعی ذرائع اور ریسورسز:

             اب اس تشخیص اور پلاننگ کے بعد معاشرے پر کنٹرول حاصل کرنے کے لیے انفرادی اور اجتماعی ذرائع، ریسورسز، عوامل اور پاورز چاہئے ہوتے ہیں۔وہ پاورز یہ ہیں: علم اور نالج، مال، ٹکنالوجی، میڈیا، مذہب، سیاست، مختلف پیشے، امدادی آرگنائزیشن۔یعنی اجتماعیت والی افرادی قوت اور حکومت (عدلیہ، منتظمہ، فوج) ۔

دیکھئے پاورز کے حصول میں ہم علما سے دو غلطیاں ہوتی ہیں:

            اول یہ کہ ہم یہ ساری پلاننگ کرنے سے پہلے ہی وسائل کی کمی کا رونا رونے لگتے ہیں اور مایوسی کا شکار ہوجاتے ہیں اور یہ سوچتے ہیں کہ جب وسائل ہیں ہی نہیں، تو اتنی دور کی کیوں سوچیں اور اتنی لمبی کیوں ہانکیں؟ لیکن یاد رکھیں کہ اللہ کے یہاں فیصلے آپ کے زمینی اعمال کی بنا پر نہیں، بل کہ نیتوں کے مطابق ہوتے ہیں۔ آپ نیت تو کریں اور پلاننگ تو کریں، جس طرح ایک سرمایہ دار کسی شخص کی کمپنی میں محض خواہش اور جذبے کی بناپر سرمایہ کاری نہیں کرتا،جب تک وہ باضابطہ ایک پورا بزنس پرپوزل بنا کر اس کے منافع کی یقین دہانی نہ کرادے؛ اسی طرح ہم قوم کی ترقی کا پورا پلان بناکر اللہ کے سامنے پیش تو کریں پھر دیکھیں کیسے وہ وسائل کو ہمارے تابع کردیتا ہے۔

            دوسری غلطی یہ ہوتی ہے کہ اکثر علما انہیں طاقتوں کے حصول میں لگ جاتے ہیں؛ حالاں کہ دماغ کا کام طاقت کا حصول نہیں ہوتا،بل کہ لوگوں کے پاس موجود طاقت میں اضافہ اور ان کو صحیح استعمال کروانا ہوتا ہے۔ دماغ اور اس کا آئیڈیا یہ خود ایسی طاقت ہے جو تمام مذکورہ طاقتوں کا مرکز اور سینٹر ہے۔ تو جونہی وہ دماغ کسی اور طاقت کے حصول کی جانب لپکتا ہے،فوراً وہ اپنے مرکزی طاقت یعنی آئیڈیا سے کسی نہ کسی حد تک جدا ہو جاتاہے، جس کی بناپر اس کی سوچ کی رفتار دھیمی پڑجاتی ہے۔ اس لیے یا تو قوم اس دماغ کا خرچ اٹھائے یا پھر اس کے فیملی ممبرز اور خاندان میں سے کوئی اس کی کفالت کرلے یا پھر وہ کوئی بزنس کرے یا پھر وہ غربت اور بقدر کفایت روزی کو اختیار کرلے ان کے علاوہ اور کوئی راستہ نہیں۔ہاں! جس جگہ علما کی کثرت ہو وہاں پھر علما کی ایک چھوٹی سی نفری دماغ کا رول ادا کرے۔ بقیہ علما اپنی دل چسپی، صلاحیت اور اپنے بیک گراؤنڈ کے مناسب طاقتوں کے حصول میں لگ جائیں۔

12- اپنے کام کو پروموٹ کرنا:

            ہمارا دینی طبقہ اخلاص کے نام پر اور ریاکاری کے ڈر سے اپنے کاموں کی مارکیٹنگ اور پروموشن میں سب سے پیچھے ہے۔ کسی بھی چیز کے لیے ہائپ کیسے پیدا کیا جاتا ہے یہ سیکھنے کی ہمیں بہت زیادہ ضرورت ہے۔ ورنہ پھر ہوتا کیا ہے کہ ہم گرچہ باطل سے زیادہ کام مثلاً خدمتِ خلق کررہے ہوتے ہیں، مگر باطل تھوڑی سی ہیلپ کرکے اپنے پروپیگنڈے اور مارکیٹنگ کے ذریعے لوگوں کے دلوں میں اپنی اہمیت ،عزت و محبت پیدا کردیتا ہے اور پھر ہم یہ شکوہ کرنے لگتے ہیں لوگ ہمارے کام کے باوجود ہم سے جڑتے کیوں نہیں ہیں؟

            اپنے اندر اخلاص پیدا کرنے اور ریاکاری سے بچنے کے لیے انفرادی طور پر کسی کو بتائے بغیر نیکی کے کام ضرور کیا کریں، مگر اجتماعی کاموں میں اخلاص اور ریاکاری سے زیادہ ہماری نظر خیر کے کام کی اشاعت، قوم کے ضروریات کی فراہمی اور ان سے ملنے والی دعاؤں پر ہونی چاہئے۔ لہٰذا جتنا کام کریں اسے لوگوں میں ضرور پھیلائیں،تاکہ دوسروں میں بھی اس کے کرنے کا داعیہ پیدا ہو، جس کے لیے آج کل آئی ٹی سیل کو سب سے زیادہ استعمال کیا جاتا ہے، جس کا قیام وقت کی اہم ضرورت ہے۔ ہاں! رائی کے برابر کام کرکے اونٹ جتنی مارکیٹنگ بہرحال ایک مذموم عمل ہے۔

13- احتساب یا تجزیہ:

            اور پھر ہر سال پانچ سال دس سال پہ یہ احتساب یا تجزیہ کریں کہ جو پلاننگ کی تھی کہ پانچ سال کے بعد معاشرہ اتنی بلند سطح پر اٹھ چکا ہوگا؛ اس پلاننگ کے حساب سے تبدیلی آئی کہ نہیں۔ اگر نہیں آئی تو کیوں نہیں؟ پھر دوبارہ اپنی اسٹریٹجی بنائیں اور دوبارہ ٹارگٹ کو پورا کرنے کی جد وجہد کریں۔

14- تہجد اور دعاؤں کا اہتمام کریں:

            ہم نے یہ ساری پلاننگ کرلی، مگر جب تک اوپر سے اپروول نہیں ملتا ہم ذرہ برابر بھی قوم کو نفع نہیں پہنچا سکتے۔ تو اس قابلیت اور مقبولیت کے لیے ہمارا دعا کرنا اور اللہ سے لو لگانا ضروری ہے۔ خصوصاً تہجد کے وقت کیوں کہ یہ وقت اس رب سے قرب کا وقت ہے اور جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم پر تہجد فرض تھی تو ان کے وارث کو بھی اپنے اوپر اسے لازم پکڑنا ہوگا۔کیوں کہ

”کچھ ہاتھ نہیں آتا بے آہِ سحر گاہی“

15-ہم خیالوں کی جماعت:

             پھر اپنے ہم خیالوں کی ایک جماعت بنانا ہوگا، تاکہ اپنے تجربات کا ایک دوسرے سے لین دین کرسکیں۔اپنی غلطیوں اور کوتاہیوں کی نشان دہی کرواسکیں۔ جب کبھی محنت کرکے حوصلہ پست ہو جائے تو دوسرے ہم خیالوں کی محنت دیکھ کر دوبارہ نئے جوش و جذبے سے معمور ہوں اور اپنی محنت اور کام یابی کا دوسرے کی کام یابی و احتساب سے تقابل کرتے ہوئے اپنا احتساب کرسکیں۔

پیوستہ رہ شجر سے امیدِ بہار رکھ:

            (یہ صرف ایک تحریر نہیں ایک علاقے کے ذمہ دار دوست کی طلب پر انقلاب لانے کی غرض سے لکھا گیا ایک اجمالی مگر جامع فارمولا ہے۔یہ ایک تحریک ہے،جسے لے کر ان شاء اللہ ہم ہندستان کے ہر مدرسے، ہر عالم، ہر گاؤں اور ہر شہر میں جائیں گے۔ آپ حضرات دعا فرمائیں اور ہم ہی میں سے کچھ علما کولابوریشن کرکے اپنی وسعت و صلاحیت کے اعتبار سے ایک ایک بستی ایک ایک علاقے کو گود لے لیں اور دماغ کا رول ادا کریں۔ یقین مانیں پانچ یا دس سال کے بعد ان شا ء اللہ قوم کو ترقی کی ایک نئی ڈگر پر لانے میں ہم ضرور کام یاب ہوجائیں گے)