اداریہ:
مولانا حذیفہ مولانا غلام محمد صاحب وستانوی
ہندستان کے مسلمانوں کے لیے اس وقت ایک بڑا چیلنج حکومتِ ہند کی نئی تعلیمی پالیسی ہے؛جسے یوں سمجھیں کہ ”لارڈ میکالے کے بعد نئی تعلیمی پالیسی ہم ہندستانی مسلمانوں کے لیے ایک نئی آزمائش“ ہے۔
تو آییے ہم جانتے ہیں کہ لارڈ میکالے کی تعلیمی پالیسی کیا تھی؟ اور علما نے اس کا مقابلہ کیسے کیا اور معاشرے پر اس کے اثرات کیا مرتب ہوئے؟اور اس کے بعد ۲۰۱۹ء میں جو تعلیمی پالیسی آئی وہ کیا خطرات لے کر آئی ہے اور ہم اس کو کس طرح فیس کریں؟
تعلیم اور انسانی زندگی پر اس کے اثرات:
انسانی زندگی میں سب سے اہم چیز اس کا عقیدہ اور فکر ہے۔ اور عقیدہ اور فکر کی تعمیر وتخریب تعلیم اور تعلم سے ہوتی ہے، اس لیے انسانی معاشرے میں تعلیم کی سب سے زیادہ اہمیت ہے۔صالح یا فاسد انقلاب تعلیمی ہی کے ذریعے ممکن ہوتا ہے۔
حضرت آدم علیہ السلام اور علومِ دین ودنیا کا جامع پہلا تعلیمی نظام :
سب سے پہلے انسان‘ حضرت آدم علیہ السلام کو بھی اللہ نے تخلیق ِخصوصی سے وجود دینے کے بعد سب سے پہلے تعلیم سے آراستہ کیا۔ قرآن کا اعلان ہے : ﴿وَعَلَّمَ آدَمَ اْلاَسْمَاءَ کُلَّہَا ﴾ کہ اللہ نے آدم علیہ السلام کو اسما کا علم سکھایا ،اس وقت جس کی ضرورت تھی۔ آدم علیہ السلام کے لیے غیب مشہود تھا ،یعنی جب اللہ نے اپنی ہی نگرانی میں انھیں وجود بخشا تھا اور وہ بھی جنت میں اور ملائکہ کی موجودگی میں ، گویا علم العقیدہ یعنی غیب سے متعلق عقائد کے علم کو سیکھنے کی تو ان کو ضرورت ہی نہیں تھی، اس لیے کہ ساری چیزیں ان کی نظروں کے سامنے تھی۔ اللہ ، ملائکہ اور جنت ؛صحائف ان پر نازل ہوئے۔ یہ سب بنیادی عقائد تو انھیں جاننے کی ضرورت ہی نہیں تھی۔” عیاں را چہ بیاں “۔ اور دنیا میں آنے کے بعد ذکر اللہ ،عبادت کی کثرت تو آدم علیہ السلام کی مشہور ہے ۔ قابیل اور ہابیل کے حالات میں تدبر کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ شریعت کے بھی مکلف تھے؛ لہٰذا انھیں دنیا کی ضروریات کا علم سکھایا گیا اور وحی کے ذریعے احکام کی بھی تعلیم دی گئی ، اس طرح اول البشر حضرت آدم علیہ السلام کو دین و دنیا دونوں کے احکام اور مسائل کی تعلیم دی گئی ۔ یہ انسانی تاریخ کا پہلا ایجوکیش سسٹم تھا۔جو اللہ کا مرتب کردہ ، بل کہ براہِ راست اول البشر حضرت آدم علیہ السلام کے لیے تجویز بھی اللہ نے کیا اور سکھایا بھی خوداللہ تعالیٰ ہی نے۔
تعلیم اصلاح ِبشر کاواحد ذریعہ:
آدم علیہ السلام کے بعد ہر نبی اپنے زمانے میں تعلیم ہی کے ذریعے لوگوں کو ہدایت کی دعوت دیتے رہے، گویا اصلاح بشرمیں تعلیم ہی واحد موٴثر نظام ہے، اگر تعلیم کے علاوہ کوئی اور نظام ہوتا تو انبیا کے ذریعے اسے عام کیا جاتا ، مگر تعلیم کے علاوہ کوئی اور موٴثر ذریعہٴ اصلاح نہیں، لہٰذا تعلیم ہی کو ابتدائے آفرینش سے اللہ نے اصلاحِ بشر کے لیے تجویز کیا۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر جامع تعلیمی نظام نازل کیا گیا:
تمام مخلوق میں انسان جب پیدا ہوتا ہے تو وہ کچھ بھی نہیں جانتا ۔ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: ﴿اَخْرَجَکُمْ مِنْ بُطُوْنِ اُمَّہَاتِکُمْ لَاتَعْلَمُوْنَ شَیْئًا﴾ اللہ نے تمھیں اپنی ماوٴں کے پیٹ سے اس حال میں نکالا ہے کہ تم ذرہ برابر کچھ نہیں جانتے تھے، لہٰذا انسان واحدمخلوق ہے جسے ہر چیز سیکھنی پڑتی ہے؛ صرف رونا سیکھ کر آتا ہے ،باقی کھانا پینا، چلنا سب سیکھنا پڑتا ہے۔والدین اور بھائی بہن اسے سب سکھاتے ہیں، جب کچھ شعور بڑھتا ہے تو اپنے ارد گرد ماحول کو دیکھ کر ، سن کر، چکھ کر، چھوکر، سونگھ کر بہت ساری چیزیں سیکھنے لگتا ہے۔ اسی لیے دیکھنے میں آتا ہے کہ چھوٹے بچے کے سامنے جیسی حرکت کی جائے وہ اس کی نقل اتارتے ہیں ۔اورجب کچھ شعور ہوتا ہے ، عمر بڑھتی ہے تو والدین فکر مند ہوجاتے ہیں اور اسے پڑھنا لکھنا سکھانے کے لیے کسی مدرسہ ،مکتب یا اسکول میں بھیجتے ہیں ، وہاں اگر اچھا ماحول اور اچھے اساتذہ میسر آتے ہیں توبچہ تعلیم وتربیت سے بہت جلد ترقی حاصل کرنے لگتا ہے۔
اس سے معلوم ہوا کہ تعلیم انسان کے لیے ایک ایسا سرمایہ ہے، جو اس کے پیدا ہونے کے بعد سے لے کر مرنے تک مسلسل جاری رہتا ہے، جو جتنا تعلیم سے منسلک رہتا ہے اور جتنی اچھی تعلیم حاصل کرتا ہے، وہ اتنا بہتر انسان بنتا ہے اور نیک نامی حاصل کرتا ہے۔ اسی لیے مقولہ مشہورہے” العلم من المہد الی اللحد“ یعنی انسان کے حصول ِعلم کا زمانہ، ماں کی گود سے قبر میں جانے تک جاری و ساری رہتا ہے۔
خاتم الانبیا صلی اللہ علیہ وسلم اور تعلیم:
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات ِاقدس پر نبوت ورسالت کا سلسلہ ختم ہوا، جو اصلاحِ بشر کا سب سے مبارک سلسلہ تھا، البتہ اس کو اس طور پر ختم کیا کہ وہ ختام مسک کا مصداق ٹھہرا۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر جو پہلی وحی نازل کی گئی اس کا تعلق ہی تعلیم سے ہے، اس لیے کہ روحانی ومادی اعتبار سے انسانیت کو عروج کی انتہا پر پہنچانا تھااور وہ تعلیم ہی سے ممکن تھا اور تعلیم بھی وہ جس کی بنا وحی ِالٰہی پر ہو، جو صحیح معنی میں ہدایت ِدنیوی و اخروی کی حامل ہو؛ اسی لیے ہم دیکھتے ہیں کہ تاریخ ِبشر میں روحانی اعتبار سے اگر انسانیت عروج کے منتہیٰ پر پہنچی تو وہ دورِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں۔ اس کے بعد آج کا یہ مادی عروج بھی تعلیم ہی کی برکت سے ہے،اور وہ بھی مسلمانوں کی جانب سے وحی کی روشنی میں علمی اساس مہیا کرنے کے بعد ہی ممکن ہوسکا۔ اس لیے کہ انسان اپنے محدود ذرائع ِعلم سے نتیجے تک پہنچ ہی نہیں سکتا، چاہے وہ حواس ِخمسہ ہو یا عقل ِصحیح؛ اس لیے کہ کسی بھی انکشاف یا ایجاد یا تحقیق کے لیے اس کے منافع اس کے نقصانات اور انسانیت پر اس کے اثرات کے جائزے کے ساتھ اخروی اعتبار سے اس پر ثواب یا عقاب کا جاننا وحی کے بغیر ممکن ہی نہیں، اس لیے مسلمانوں کے نزدیک سب سے اہم اور مقدس ذریعہ علمِ وحی ہے۔
اللہ رب العزت نے پہلی ہی مبارک وحی میں یہ واضح کردیا کہ اللہ کے نام سے اور اسے رب مان کر اس کی خالقیت کا اقرار کرکے اور اس کی مرضی کو جان کر جو کام کیا جائے گا، وہ دنیا وآخرت کے اعتبار سے مفید ہوگا، ورنہ یا تو دنیا یا آخرت یا دونوں جہانوں میں نقصان کا باعث ہوگا۔ آج کی سسکتی ہوئی انسانیت کی پریشانیوں اور مشکلات کی بنیادی وجہ ہی وحی سے ناطہ توڑنا ہے۔ دن بہ دن تجربات معتراف ہیں کہ اسلامی تعلیمات ہی سعادت اور نفع کی ضامن ہیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر اول وحی کے ذریعے بتایا گیا ہے کہ اللہ کا مل ، اللہ کا علم کامل ، لہٰذا اللہ نے” اقرأ “کے ذریعے سے پیغام دیا کہ انسان بھی کمال تک اگر پہنچنا چاہتا ہے تو اس وحی پر عمل پیرا ہوجائے۔
مغرب نے تعلیم کو تعمیر اور سیکولرزم کے نام پر تخریب اور فساد کے لیے استعمال کیا:
مسلمانوں کا سیاسی زوال سقوطِ اندلس سے شروع ہوا۔ ۸۹۲ھ مطابق ۱۴۹۲ء ۲/ جنوری کی تاریخ تھی، اس کے بعد خلافت ِعثمانیہ کا سقوط یکم نومبر ۱۹۲۲ء کے ساتھ ہی مسلمان مکمل طور پر لاچاری اور بے بسی کے شکار ہوگئے۔
سولہویں صدی عیسوی سے مغرب کی ترقی کا آغاز ہوتا ہے۔ سترہویں صدی عیسوی میں عیسائی اقوام دنیا کے مختلف حصوں میں نئی دنیا کی دریافت کے نام سے ، تجارت کے نام پر پھیل جاتی ہے اور اٹھار ہویں صدی تک یہ استعماری طاقتیں یا تو قابض ہوجاتی ہیں یا وہاں پر اپنی کٹھپتلی حکومتیں قائم کردیتی ہیں۔
انیسویں صدی اور نیو ایجوکیشن پالیسی :
اقوامِ مغرب نے دنیا پر اپنے تسلط کے دوران دنیا کے لوگوں کو ذہنی طور پر اپنا غلام بنانے کے لیے تعلیم کو ہتھیار کے طور پر استعمال کیا، اب چوں کہ جو تعلیم دنیا میں تھی وہ خالص دین کی بنیادوں پر تھی اور دینی بنیاد پر قائم تعلیم کی وجہ سے مغرب کو اپنا طویل تسلط نا ممکن نظر آرہا تھا، لہٰذا انہوں نے سیکولر ایجوکیشن کا سہارا لیا اور اس طرح دنیا اپنی مٹھی میں کرلی، تو آییے !سیکولر تعلیم کی حقیقت، اس کی تاریخ اور اس کے بدترین اثرات پر روشنی ڈالتے ہیں۔
سیکولرزم کے بارے میں مفتی عبدالرؤوف غزنوی لکھتے ہیں :
”تاریخِ انسانی پر ہم جب ایک غائرانہ نظر ڈالتے ہیں تو بہت سے فاسد خیالات، لاتعداد نظریے اور زہریلے افکار کے آہن پوش لشکر ہمیں باہم برسرِپیکار نظر آتے ہیں، کہیں فرعونیت کا چرچا ہے تو کہیں قارونیت کے ڈنکے بج رہے ہیں، کسی جگہ قیصریت کا شہرہ ہے تو کہیں سے کسرائیت کی آوازیں آرہی ہیں۔اگر چہ تاریخِ انسانی کے پورے سفر میں اسی اتھل پتھل اور شور شرابے کا ماحول گرم ہے؛ لیکن اُنیسویں صدی اس لحاظ سے کچھ زیادہ ہی اہمیت کی حامل ہے کہ ذہنی پراگندگی، فکری انتشار، سیاسی و مذہبی کشمکش اس صدی میں اپنے شباب کو پہنچ رہی ہے اور باطل جماعتوں نے پوری قوت سے عالمِ اسلام پر شب خون مارا ہے۔
ایک مؤرخ فکر و تدبر، ذہانت و فراست اور دور بینی کے ساتھ تاریخ کا جائزہ لے کر حالات کا صحیح موازنہ کرے، تو یقینا وہ اس نتیجے پر پہنچے گا کہ یہ صدی اپنے باغیانہ افکار، ملحدانہ خیالات اور منافقانہ نظریات کی پرورش میں دیگر تمام صدیوں پر بازی لے گئی ہے۔
سرمایہ داری کا ظہور بھی اسی میں ہوا، تحریکِ الحاد بھی یہیں سے اُٹھی ہے اور دنیا میں عدل و مساوات کا پُرفریب نعرہ لگا کر انسانیت کا خون چوسنے والے اشتراکیت و کمیونزم جیسے ناپاک نظریے بھی اسی صدی کی پیداوار ہیں، لیکن اس صدی کا سب سے اہم نظریہ وہ فکر ہے ،جس کو دنیا آج سیکولرزم کے معروف نام سے جانتی ہے۔ یہ نام اگرچہ نیا نہیں پُرانا ہے اور دنیا کا بچہ بچہ پوری طرح اس سے واقف ہے، لیکن اگر میں یہ کہوں تو بے جا نہ ہوگا کہ اس تحریک کے پسِ منظر، اس کے اغراض و مقاصد اور اسی کے مزاج سے عوام تو کیا بعض دانشورانِ قوم بھی پوری واقفیت نہیں رکھتے”۔
(مقالہ:سیکولرزم اور اسلام۔ماہنامہ بینات رمضان شوال:۱۴۴۰)
یورپ میں سیکولزم کیسے پھیلا:
رومی سلطنت نے اپنے آبائی مذہب بت پرستی کو چھوڑ کر۳۰۵ عیسوی میں جب عیسائیت کو قبول کیا ،تو اس بے یارو مددگار مذہب کو اپنی شان و شوکت، رعب و دبدبہ قائم کرنے اور عالمگیر پیمانے پر مذہبی اشاعت کا وہ موقع مل گیا، جس کا وہ برسوں سے آرزو مند تھا، ورنہ اس سے پہلے وہ محض بوریا نشین زاہدوں اور جنگل میں روپوش راہبوں کا ایسا مذہب تھا، جو صرف فلسطین کی گلیوں تک محدود تھا؛ لیکن جب ایک بڑی طاقت نے اس پر دستِ شفقت رکھا ،تو وہ آندھی اور طوفان کی طرح اُٹھا اور بحر الکاہل کے تمام ساحلی ملکوں کو اپنی لپیٹ میں لیتا ہوا، پورے یورپ پر چھا گیا اور اس کی اشاعت کے لیے سرکاری ذرائعِ ابلاغ اور مملکت کی پوری مشینری حرکت میں آگئی ،تو اس طرح چھٹی صدی عیسوی تک مسیحیت نے نہ صرف یہ کہ یورپ میں اپنے قدم جما لیے؛ بل کہ کلیسائی نظام اور محکمہٴ احتساب کا گھنا جال بچھا کر یورپی عوام کو پورے طور پر اپنی گرفت میں لے لیا۔ یہ وہ وقت تھا کہ جب یورپ اپنے خود ساختہ فلسفوں، تاریک نظریوں اور کلیسائی نظام کی بنا پر اندھیرے میں ٹامک ٹوئیاں مار رہا تھا۔ علم و حکمت، صنعت و حرفت کی اس کو ہوا تک نہ لگی تھی! لیکن جب ساتویں صدی کے اوائل میں اسلام کا روشن آفتاب طلوع ہوا اور اس کی نورانی کرنیں عرب کے ریگزاروں سے نکل کر افریقہ اور یورپ تک پہنچیں، تو وہاں کی فضاؤں سے وہ کُہرا چَھٹنے لگا جو مسیحیت کی تاریک دنیا میں زمانہٴ دراز سے چھایا ہوا تھا۔
آٹھویں صدی عیسوی میں مسلمانوں اور اقوامِ مغرب کے حالات کا مقارنہ:
آٹھویں صدی عیسویں میں جب عرب کے ان جیالے سپوتوں نے عیسائیت کو بیت المقدس سے بے دخل کردیا اور بے خوف و خطر ایشیا و افریقہ کو روندتے ہوئے فرانس کی وادی” پیرینز “تک جا پہنچے، تو ان کی سانسوں کی آواز سن کر عیسائیت کا وہ قصر لرزنے لگا ،جو یور پ کو اپنی آبائی جاگیر سمجھ رہا تھا، نیز مسلمانوں کے پے در پے حملوں اور ان کی جرأت مندانہ پیش قدمی کو دیکھتے ہوئے ،عیسائی دنیا یہ سوچنے پر مجبور ہوگئی کہ اگر عربوں کی فتوحات کا یہی حال رہا تو مسیحیت کی تاریخ میں وہ دن ضرور آئے گا، جب وہ کلیساؤں اور شہروں کوچھوڑ کر پہاڑوں اور ویرانوں میں پناہ لینے پر مجبور ہوگی۔ اس بھیانک انجام کو سوچ کر پادریوں کے بدن تھرّا گئے، دل و دماغ لرز اُٹھے، ا ن کی عقلیں جواب دینے لگیں، اور جب کچھ نہ بن پڑا تو جورو تشدّد کا راستہ اختیار کرتے ہوئے، دبے اور کچلے عوام کی عقل و فراست پر پہرے بٹھادیے اور ان تمام لوگوں کو مجرم قرار دیا جو علمی ضیا پاشیوں سے مستفید ہوکر کلیسائی نقطہٴ نظر سے اختلاف کرنے لگے تھے۔
سولہویں صدی اور دم توڑتی مسیحیت:
یہ طریقہ اگرچہ ایک حد تک کامیاب رہا اور مسیحیت جزئی طور سے اپنا تخت و تاج بچانے میں کامیاب ہوگئی، لیکن سولہویں صدی تک پہنچتے پہنچتے جب پاپاؤں کے ظلم وستم حدود سے تجاوز کرنے لگے، تو سالہا سال سے پسے عوام کے صبر کا پیمانہ بالآخر لبریز ہوگیا اور ان ہی کے درمیان سے ملحدوں کی ایک بڑی اکثریت مذہب سے بغاوت کرتے ہوئے عیسائیت کے خلاف اُٹھ کھڑی ہوئی۔ یہ عمل چوں کہ برسہا برس کی زیادتیوں کا نتیجہ تھا، اس لیے اس کے اندر اتنا غلو اور اتنی تیزی آتی گئی کہ مذہبی طبقہ گھبرا گیا، اُسے زمین تنگ اور آسمان گرتا ہوا محسوس ہوا، کیوں کہ ملحدین ان خونخوار بھیڑیوں کو زندہ رہنے کا حق دینے کے لیے بھی تیار نہ تھے، جنھوں نے مذہب کا سہارا لے کر صدیوں ان کے آبا واجداد کی رگوں سے لَہُو نچوڑا تھا؛ اسی کو مدِ نظر رکھتے ہوئے ملحدوں نے باقاعدہ تحریک کی شکل اختیار کر کے، نہ صرف یہ کہ عیسائیت کے خلاف مورچہ بندی شروع کردی؛ بل کہ زندگی کے ہر میدان میں مذہب کو للکارتے ہوئے اس کے خلاف زبردست جنگ چھیڑ دی۔ میدان میں کیوں کہ دونوں حریف ٹکر کے تھے اور کلیسا اتنا کمزور بھی نہ تھا کہ آسانی سے ہتھیار ڈال دیتا، چناں چہ اس نے اپنی قیادت کو بچانے کے لیے ہر طریقہ اختیار کرتے ہوئے ایڑی چوٹی کا زورلگا دیا، لیکن ا س کے باوجود ظالموں کا یہ تھکا ہوا ٹولہ اس تازہ دم طاقت کا مقابلہ نہ کرسکا، جو مظلوموں کی آواز بن کر پورے یورپ میں گونج رہی تھی۔
مذہب کو پرائیویٹ معاملہ قرار دینے سے ،مغرب کا اس سے رشتہ کمزور پڑگیا:
عیسائیت آخر تک معاشرے پر اپنی بالا دستی چاہتی تھی، جب کہ فریق ِمخالف اُسے زندہ رہنے کا حق دینے کا بھی روادار نہ تھا، اسی نقطے پر یہ دونوں تحریکیں اپنے مقاصد کے حصول کے لیے، زمانہٴ دراز تک گھمسان کی جنگ لڑتی رہیں، اور طویل قربانیوں کے بعد جنگ کو اس منزل پر لے ہی آئیں ،جس میں ایک کی فتح اور دوسرے کی ہار یقینی تھی، لیکن عین وقت جب کہ فیصلہ کن معرکہ گرم تھا، مسیحیت ملحدوں کے سامنے سپر ڈالنے کی تیاری کر رہی تھی، اچانک ”جارج جیک ہولی اوک“ کی قیادت میں ایک منافق گروپ بیچ میں کود پڑا اور اس نے مذہب کو پرائیویٹ معاملہ قرار دینے کی آواز اُٹھاکر، سالہا سال تک چلنے والی جنگ کی بساط ہی اُلٹ دی، یہی وہ نظریہ تھا جس کو آج ہم ”سیکولرزم“ کے معروف نا م سے جانتے ہیں۔
تحریکِ الحاد اور عیسائیت دونوں کا سیکولرزم سے سمجھوتہ:
تحریکِ الحاد چوں کہ مذہب سے نفرت کے ساتھ ساتھ اسے ایسا شکنجہ بھی قرار دیتی تھی، جس سے انسان کو نجات دلانا اس کے نزدیک اولین فرض تھا، اسی لیے اُسے ان لوگوں کی حمایت حاصل نہ ہوسکی، جو مذہب کے لیے ذرا بھی نرم گوشہ رکھتے تھے؛ جب کہ عیسائیت اپنے ظلم و ستم، جور وتشدد اور زیادتیوں کی وجہ سے اس مذہبی طبقے کی حمایت سے محروم رہی، اور سیکولرزم نے اپنی منافقانہ روش کی بنا پر نہ صرف یہ کہ اکثریت کی تائید حاصل کرلی، بل کہ عیسائیت کو بھی مجبور ہوکر سیکولرزم سے سمجھوتہ کرنا پڑا۔ ملحد تو یوں سیکولرزم کی پشت پناہی کرنے لگے کہ وہ حکومت و سلطنت اور اجتماعی طور سے مذہب کو معاشرے سے نکالنے میں ان سے کامل طور پر اتفاق کر تے تھے، جب کہ عیسائیت اپنے خطرناک اور بھیانک انجام کو دیکھ رہی تھی کہ ملحدین کی جماعت عنقریب اُسے دم دبا کر بھاگنے پر مجبور کردے گی، اس لیے الحاد کے بالمقابل سکیولرزم جیسی تحریک اُسے بروقت نصرتِ خداوندی محسوس ہوئی، جو انسانوں کواجتماعی طور پر نہ سہی، انفرادی طور پر تو کم از کم مذہبی رواداری کا حق دیتی ہے، اسی کو سوچ کر عیسائیت نے ملحدوں کو شکست دینے کے لیے اپنی بچی کھچی طاقت کا وزن سیکولرزم کے پلڑے میں رکھ دیا اور ہمیشہ ہمیش کے لیے اُسے قیادت کے منصب کو سونپ کر عیسائیت کو کلیسا تک محدود کردیا۔
عیسائیت اور سیکولرزم کی جنگ میں سیکولرزم کا پلہ بھاری ہوگیا:
اس پسِ منظر کو سامنے رکھ کر ایک مؤرخ یہ نتیجہ نکالنے پر مجبور ہے کہ میدانِ مبارزہ میں اگرچہ الحاد و کلیسا ہی برسرِپیکار ہیں، لیکن میدان سیکولرزم کے ہاتھ رہا ہے۔
سیکولرزم پر ایک اجمالی نظر اور اس کا مفہوم:
سیکولرزم دراصل یورپ کے ایک باشندے ”جارج جیکب ہولی اوک“ کے فاسد خیالات کا پلندہ اور اس کے گمراہ قیاس کا نتیجہ ہے، یہ شخص۱۸۱۷/ عیسوی میں برطانیہ کے ایک مذہبی گھرانے میں پیدا ہوا، اس کے آبا و اجداد مذہبی ہونے کی بنا پر کلیسا سے قریبی مراسم رکھتے تھے، اس لیے اس نے زمانہٴ طفولیت سے ہی مذہبی لباس میں پوشیدہ کلیسائی درندوں کو غریب عوام کا خون چوستے اور مردوں کی ہڈیاں بھنبھوڑتے دیکھا تھا، پادریوں کے ان ہولناک مظالم کی بنا پر، اس کا دل مذہب سے اتنا بیزار ہوگیا کہ۱۸۴۱ ء میں اس نے خدا کا انکار کرتے ہوئے عیسائیت سے کھلے عام بغاوت کردی۔
معاشرے پر چوں کہ کلیسائی گرفت مضبوط تھی، اس لیے اس کی تحریک کو نہ صرف ناکامی کاسامنا ہوا، بل کہ اس جرم کی پاداش میں اس کو مختلف ایذائیں، طرح طرح کی سزائیں اور قید وبند کی صعوبتیں بھی برداشت کرنی پڑیں، مگر وہ شخص طویل مشقتوں کے باوجود عیسائیت کی جانب لوٹ کر نہ آیا، جس کا دل بچپن ہی میں مسیحیت سے کھٹّا ہوگیا تھا؛ لیکن ان تلخ تجربات کی بنا پر، وہ یہ سوچنے پر ضرور مجبور ہوگیا کہ ملحدوں کی طرح وہ بھی اگر خدا و مذہب کا بالکلیہ انکار کرتا رہا ،تو جہاں وہ مذہبی لوگوں کی حمایت سے محروم رہے گا، وہیں پاپاؤں کا طبقہ اس کی راہ کاروڑا بن جائے گا اور اسے منزل ِمقصود تک پہنچنے کے لیے ایک طویل عرصہ درکار ہوگا، اس منزل پر آکر اس نے نفاق کا چولا پہنا اور۱۸۵۱ء میں سیکولرزم کی اصطلاح گھڑ کر، مذہب و الحاد کے درمیان ایسی راہ نکالی جو بظاہرتو مذہب سے بیزار نہ تھی، لیکن حقیقتاًمذہب کو مٹانے کے لیے الحاد کی تمہید تھی اور اس کا فائدہ بالآخر تحریکِ الحاد کو پہنچنا تھا، کیوں کہ مذہب کو جب پرائیویٹ زندگی میں محدود کردیا جائے، تو تاریخ میں وہ دن ضرور آئے گا جب مذہب پرائیویٹ زندگی سے بھی رختِ سفر باندھنے پر مجبور ہوگا:
جلالِ پادشاہی ہو کہ جمہوری تماشا ہو
جدا ہو دیں سیاست سے، تو رہ جاتی ہے چنگیزی
اس طرح جہاں وہ تحریکِ الحاد کو ہمنوا بنانے میں کامیاب ہوا، وہیں مذہب کو پرائیویٹ زندگی میں جگہ دے کر ان پاپاؤں کے نزدیک بھی ہیرو بن گیا ،جو ملحدین کے حملوں کی تاب نہ لاکر شہرِ قیادت سے کوچ کرنے کی تیاری کرچکے تھے:
باغباں بھی خوش رہا ، راضی رہا صیّاد بھی
اس سے پہلے کہ ہم مزید آگے بڑھتے ہوئے سیکولرزم کے ہر ہر پہلو کا مختلف زاویوں سے جائزہ لیں، ضروری سمجھتے ہیں کہ ایک نظر ان کلمات پر بھی ڈالتے چلیں ،جو سیکولرزم پر ایمان رکھنے والوں نے اس کی تعریف میں نقل کیے ہیں:
آکسفورڈ انگلش ڈکشنری کے مصنف سیکولرزم کی تعریف کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
”Doctrine that the morality be non religious policy of excluding religious teaching from schools understate control.”
(سیکولر تعلیم اور علاّمہ اقبال، ص:۵۱۱)
یعنی یہ اُصول کے اخلاق کی بنیاد غیر مذہبی ہو اور مملکت کی زیرِ نگرانی چلنے والے مدارس و یونیورسٹیوں سے مذہبی تعلیم کو خارج کردینے کی پالیسی پر سیکولرزم کا اطلاق ہوتا ہے۔
پھر لفظِ ”سیکولر“ کے معنی بیان کرتے ہوئے مصنف رقم طراز ہے:
”Concerned with affairs of this world.”
(سیکولر تعلیم اور علاّمہ اقبال، ص:۵۱۱)
”یعنی وہ نظریہٴ حیات جس کا تعلق صرف اس دنیا کے معاملات سے ہو۔“
مزید آگے بڑھ کر وہ سیکولرزم کی اصطلاحی تعریف کرتے ہوئے لکھتا ہے:
”Secularism is the term appliedingene ralto separation of state politios or administration from religious or church matter.”
(سیکولر تعلیم اور علاّمہ اقبال، ص:۶۱۱)
یعنی مملکت کے نظم و نسق کو اگر بالکلیہ مذہب سے جدا کردیا جائے، تواس نظام کو سیکولرزم کہا جاتا ہے، جب کہ ”انسائیکلو پیڈیا“ میں سیکولر تعلیم کے متعلق یہ الفاظ درج ہیں:
”Secular education is a system of training from which definite religious education is excluded.”
(انسائیکلوپیڈیا برٹانیکا، ج:۰۲، ص۴۶۲)
یعنی سیکولر تعلیم وہ طریقہٴ تربیت ہے جس سے مذہبی تعلیم خارج کردی گئی ہو۔
سیکولرزم کے پسِ منظر، اس کے بانی کا فکر و شعور اور اس کی لغوی اور اصطلاحی تعریفوں کے پیشِ نظر ہم یہ فیصلہ کرنے پر مجبور ہیں کہ سیکولرزم کی عمارت مندرجہ ذیل چار ستونوں پر ٹکی ہوئی ہے: