معابد الکفار وأحکامہا فی بلاد المسلمین

مسلم ملکوں اورریاستوں میں کافروں کے عبادت خانے

تألیف: ابراہیم بن سلیمان بن ابراہیم الفہید، ط- دار السنة – الریاض

ترجمانی: مفتی عبد المتین اشاعتی# کانڑ گانوی

            ۱- دار کی دو قسمیں ہیں: (۱) دار الاسلام، جس کا حاکم مسلمان ہواور جہاں اسلامی احکام کا اجرا ہوتا ہو۔

            (۲)- دار الکفر، جس کا حاکم کافر ہو اورجہاں کفریہ احکام کا نفاذ ہو۔

            ۲- اگر کسی مسلک پر مسلمانوں کو فتح وغلبہ حاصل ہوگیایا اہل شہر مشرف باسلام ہوگئے یا ان سے صلح ہو گئی اوروہ اسلامی احکام کے نفاذ پر راضی ہوگئے اور جزیہ دنیا منظور کرلیا تو وہ ملک یا شہر دارالاسلام ہوگئی۔

            اسی طرح اگر کسی ملک پر کافروں کا غلبہ ہوگیا یا اہل شہر مرتد ہوگئے(العیاذ باللہ!) تو وہ ملک یا شہر دار الکفر ہوگا۔ موجودہ دور میں بلادِ اُندلس؛ جنہیں ہسپانیہ یا اسپین بھی کہا جاتا ہے، اس کی واضح مثال ہے۔

            ۳- کفار کے معابد (عبادت گاہیں) یعنی وہ جگہیں،جنہیں اہل کفر اپنی عبادتوں کی انجام دہی کے لیے تعمیر کرتے ہیں۔ ہر دین ومذہب کے معبد کے نام مختلف ہیں، دین کے مختلف ہونے کی وجہ سے۔ فقہائے کرام کے نزدیک باعتبار احکام تمام معابد کفار حکم واحد میں ہوں گے۔

            ۴- جن شہروں اور ملکوں کے باشندے مسلمانوں کی فتح سے قبل ہی مشرف بہ اسلام ہوگئے، جیسے مدینہ منورہ اوریمن یا جن شہروں کو خود مسلمانوں نے بسایا ہو، جیسے بصرہ اور بغدادیا جزیرة العرب یا شبہ جزیرة العرب کے بلاد میں بالاجماع معابد کفار بنانا یا ان کی اجازت دینا حرام وناجائز ہے۔بل کہ ان ملکوں اور شہروں میں اہل ذمہ کے ساتھ ان کی عبادت گاہوں کی تعمیر کے لیے مصالحت بھی جائز نہیں ہے۔ اگر کوئی معبد (عبادت خانہ) تعمیر کر بھی دیا گیا تو اس کا انہدام ضروری ہے۔

            ۵- جس ملک وشہر کو مسلمانوں نے بزور بازو فتح کیا ہویا مطلق صلح ہوئی ہو یا اس شرط پر کہ شہر یا ملک مسلمانوں کا ہوگا۔ تو راجح قول کے مطابق ان ملکوں اور شہروں میں کافروں کے عبادت خانے بنوانے کی اجازت نہیں ہوگی۔

            ۶- اگر کوئی ملک یا شہر مسلمانوں نے اس صلح وشرط پرفتح کیا کہ اہل ذمہ اپنے دفینوں کے مالک رہیں گے اور مسلمانوں کو خراج وٹیکس (Tax) ادا کریں گے تو قولِ اصح کے مطابق ان ملکوں اور شہروں میں اہل ذمہ کو اپنی عبادت گاہوں کی تعمیر کی اجازت ہوگی۔

            ۷- بلادِ اسلامیہ(سوائے جزیرة العرب کے) میں اہل ذمہ کو اقامت موٴبدہ دی جاسکتی ہے۔ علاقہ حجاز میں اہل ذمہ کو اقامت موٴبدہ کی اجازت دینا بالاتفاق ناجائز و حرام ہے اور شبہ جزیرة العرب میں فقہا مختلف ہیں مگر راجح عدم جواز ہے۔

            ۸- اہلِ کفر اپنی ضروریات وتجارت وغیرہ کے لیے حرم مکہ کے علاوہ تمام اسلامی شہروں میں جاسکتے ہیں۔ حرم مکہ میں داخلے کے سلسلے میں فقہا کا اختلاف ہے، لیکن عدم جوازِ دخول والا قول ہی راجح ہے۔

            ۹- ۱۳/ ویں صدی ہجری کے آغاز میں شبہ جزیرة العرب میں پرویٹسٹنٹ عیسائیوں کی تحریک تنصیہ وجود پذیر ہوئی۔ اہلِ تنصیر نے علاجی وتعلیمی مراکز کھولے اورپھر علاقہٴ خلیج میں بہت سے چرچوں کا وجود ہوگیا۔ سب سے پہلا کنیسہ منامہ (۱۳۲۲ھ -۱۹۰۴ء) میں رکھی گئی، اس کو ”الکنیسة الانجیابیة“ کہتے ہیں۔

            پھر اللہ حفاظت کرے اس کے بعد خلیجی علاقوں میں کنیسوں اور چرچوں کی تعمیرات کا سلسلہ ہی چل نکلا، مختلف مسیحی فرقوں کے گرجا گھر اور کنیسے آباد ہوگئے۔

مسیحی ادارے اورتنظیمیں جو خلیج میں کام کررہے ہیں(استعمار کے بعد سے):

            بحرین ۱۳۱۱ھ- ۱۸۹۳ء

            مسقط ۱۳۲۶ھ-۱۹۰۸ء

            کویت ۱۳۲۸ھ-۱۹۶۰ء

            قطر ۱۳۶۵ھ- ۱۹۴۵ء

            متحدہ عرب امارات ۱۳۸۰ھ- ۱۹۶۰ء

            ۱۰- مملکت سعودیہ عربیہ کا موقف اس سلسلے میں بالکل واضح وجلی ہے کہ اس نے اپنی سرزمین پرکفار کی عبادت گاہوں کو آباد کرنے سے منع کیا ہوا ہے۔ یہ شریعت کے عین موافق ہے، اللہ اور اس کے رسول کا یہی حکم ہے۔ اور مملکت چوں کہ احکامِ شرعیہ کا نفاذ کرتی ہے اور ایک مملکت ہونے کے ناطے اُسے یہ حق بھی ہے کہ وہ نظام عام اور قضائے شرعی سے ہٹ کر کسی اجنبی قانون کو جو اس کا معارض ہے خارج کرسکتی ہے۔ لیکن فی الوقت مملکت اپنے غیر ملکی غیر مسلم شہریوں کو اپنے گھر اوراداروں میں اپنے مذہب کے مطابق عمل کرنے کی اجازت دے رہی ہے، مگر اعلان عام اور جتماعی طور پر ابھی بھی منع ہے۔

            ۱۱- ایک بار جس جگہ سرکار نے عبادت گاہ کی اجازت دے دی، اس کو دوسری ممنوع جگہ پر منتقل کرنا جائز نہیں ہے۔

            ۱۲- اگر کسی ملت (اہل ذمہ) والوں کو اسلامی مملکت نے اپنے مذہب کے مطابق عبادت خانے کھولنے کی اجازت دے دی، تو اب وہ کسی دوسری ملت والوں کو اپنا معبد دے دے تاکہ وہ اپنے مذہب کے مطابق اس میں عمل کریں، تو یہ بھی جائز نہیں ہے۔ ہاں! اگر کسی جگہ اہل ذمہ نے اس زمین کے اپنی ملکیت کاملہ میں ہونے پر صلح کررکھی ہو تو پھر الگ بات ہے۔ اجازت ہوسکتی ہے۔

            ۱۳- اگر کسی عبادت خانے کا انہدام عذرمعقول وشرعی کی وجہ سے ضروری ہوتو اس جگہ کومسجد میں تبدیل کیا جاسکتا ہے، تاکہ اس میں عبادت باری تعالیٰ ہو۔ البتہ ایسی شرکیہ وکفریہ نشانی کو ختم کرنا ضروری ہے۔

            ۱۴- اگر مسلمانوں نے کسی جگہ کو صلح کے ذریعہ فتح کیا اوروہاں پہلے سے قدیم عبادت گاہ موجود تھی اور جس ملک کا رقبہ کافروں کا ہے وہ اس کا ٹیکس مسلمانوں کو دیتے ہیں، تو جب تک تک وہ صلح نہ توڑدیں ان کی قدیم عبادت خانہ کو قائم رکھا جائے گا۔

            اسی طرح مسلمانوں نے بذریعہٴ صلح کوئی زمین اپنے قبضہ میں لے لی اورکفار نے اپنی قدیم عبادت گاہ کے بقا کی شرط لگارکھی ہے تو بھی ان کی عبادت گاہ کو منہدم نہیں کیا جائے گا۔

            ۱۵- جو زمین مسلمانوں نے بزور بازو فتح کی یا صلح مطلق (بلا کسی شرط کے صلح) سے فتح ہوئی، تو امام المسلمین کو وہاں کے کفار کے معابد کو منہدم نہ کرنے کا اختیار ہے، بل کہ امام المسلمین مسلم رعایا کے حق میں جو بہتر ہو، اس پر عمل کرے گا۔

            ۱۶- اگر مسلمان مفتوحہ علاقوں میں موجود اصنام مشرکین اور بتوں (مورتیوں) کو منہدم کردیتے ہیں تو یہ جائز ہے۔ کیوں کہ شریعت مطہرہ کا حکم صاف واضح ہے۔ متعدد وجوہ کے اس کی ترغیب بھی وارد ہے۔ صحابہٴ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین منہج رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر چلے اورتابعین نے بھی اس نہج پرعمل کیا۔ اوربعد کے خلفائے مسلمین نے اپنی مفتوحات میں اس پرعمل بھی کیا۔

            ۱۷- بعض حضرات جو یہ قول بیان کرتے ہیں کہ ”جن اصنام کی پوجا کی جاتی تھی انھی کو منہدم کرنا چاہیے، ان کے علاوہ کو باقی رہنے دینا چاہیے، تو یہ قول صحت سے بہت دور اورشاذ ہے۔ اجماعِ فقہائے کرام کے مخالف ومعارض ہے، لہٰذا غیر معتبر ہے۔

            ۱۸- مسلمان سردی، گرمی اور بارش وغیرہ سے بچنے کے لیے اپنی حفاظت کی خاطر کفار کی عبادت گاہ میں ٹھہر سکتے ہیں(پناہ لے سکتے ہیں)یہ فقہائے کرام کا راجح قول ہے۔

            ۱۹- اگر کوئی مسلمان کسی عبادت گاہ میں صلیب کو چھولے یا کسی بت (مورتی) کو ہاتھ لگائے تو اس کا وضو نہیں ٹوٹتا۔ لہٰذا اسے وضو کی کوئی ضرورت نہیں، نہ ہی وضو مستحب ہے۔(جیساکہ بعض لوگ ایسا گمان کرتے ہیں)

            ۲۰- اگر عبادت گاہ میں ذی روح (جان دار) کی تصاویر ہوں تو وہاں مسلمان کے لیے نماز پڑھنا مکروہ ہے۔ خاص کر اگریہ تصاویر سمت قبلہ والی دیوار میں ہو تو پھر کراہت مزید بڑھ جائے گی۔ اوراگر ذی روح کی تصاویر سے خالی عبادت گاہ ہو تو بغیر کراہت کے نماز درست ہوگی، فقہائے کرام کے قول صحیح کے مطابق۔

            ۲۱- اگر کوئی مسلمان مشرکوں اورکفار کے عیدوں اورتہواروں کے علاوہ اوقات میں اس کے معابد میں جاتا ہے تو جائز ہے، لیکن بلا ضرورت بار بار جانا مداومت کے ساتھ جائز نہیں ہے۔ اور جب داخل ہو تو ان کے معابد کی تزئین وترتیب سے متاثر نہ ہو، نہ ان کو داد دے، بل کہ اپنے ہی دین (اسلام) کو باعزت وبہتر سمجھے، ورنہ اس کے دین و ایمان کے بارے میں خطرہ ہے۔

            ۲۲- اگرکسی شخص نے کتابیہ سے نکاح کیا ہوا ہے تو وہ اپنی زوجہ کتابیہ کو ان کے تعبد (عبادت گاہ) جانے سے روک سکتا ہے۔ ایسا ہی آقا اپنے غلام کو (مالک اپنے نوکر کو) روک سکتا ہے۔ فقہائے کرام کا راجح قول یہی ہے۔

            ۲۳- اگر کسی مسلمان کے والدین یا دونوں میں سے کوئی ایک اسے حکم دیں کہ وہ انہیں معبد (عبادت گاہ) لے کر جائے تو مسلمان کے لیے والدین کے اس حکم کو پورا کرنا ضروری نہیں ہے، بل کہ نرمی وسنجیدگی کے ساتھ ان کو منع کردے اور حتی الامکان ان کو راضی کرنے کی کوشش کرے۔

            ۲۴- اگرکوئی حربی کافر اہل ذمہ (جو دار الاسلام میں ٹیکس دے کر رہتے ہیں) اپنے معبد)عبادت گاہ) کو مسلمانوں کے خلاف جاسوسی کرتے ہوئے استعمال کرتے ہوئے پکڑے جائیں تو گویا انھوں نے مسلم سلطنت سے کیا ہواامنِ معاہدہ یا ذمہ توڑ دیا۔ لہٰذا او لو الامر (امام المسلمین) ان کی سزا کے سلسلے میں مختار ہوں گے، خواہ اس کو قتل کردے یا غلام بنالے۔ مسلمانوں کی مصلحت جس سزا میں ہو، اس میں عمل کیا جائے گا۔

            ۲۶- اہلِ ذمہ سے اگر معاہدہ واقرار ہوا کہ ان کے معابد باقی رکھے جائیں گے تو وہ اندرون معبد ناقوس (گھنٹے) وغیرہ بجاسکتے ہیں، البتہ باہر بجانے سے انھیں روکا جائے گا۔

            ہاں اگر کسی ایسی جگہ پر صلح ہوئی ہو،جہاں صرف اہلِ ذمہ انفراداً رہتے ہوں تو پھر اندر باہر جہاں چاہے بجاسکتے ہیں۔

            ۲۷- اگر دار الکفر کی کسی بستی کے معبد میں کسی کافر شخص کو کوئی لقیط (لا وارث بچہ) ملا یا دار الاسلام کی کسی اہل ذمہ کی بستی میں ملا تو اس لقیط پر کفر کا حکم لگے گا۔

            ۲۸- اگر دار الکفر کی کسی بستی کے معبد میں کسی مسلم شخص کو کوئی لقیط (لاوارث بچہ) ملا، یا دار الاسلام کی کسی اہلِ ذمہ کسی بستی میں ملاتو اس لقیط پر اسلام کا حکم لگے گا۔

            ۲۹- اگر خصومت کا کوئی معاملہ ہو اور عدالتی کار روائی حاکم مسلم کے پاس جاری ہو اور کسی کافر شخص کو قسم کھلانے کی ضرورت ہوتو مجلس، حاکم میں اس سے قسم لی جائے گی۔ اگر وہ بت پرست ہو یا کسی دین کو بالکل نہ مانتے ہوں، لیکن اگر کوئی شخص یہود و نصاریٰ میں سے ہو، اُن سے تاکیدی قسم لی جاسکتی ہے۔ ان کی عبادت گاہوں کے اندر آکرحاکم شرعی کو مناسب معلوم ہو،تب (البتہ قاضی یا حاکم کو ان کی عبادت گاہوں میں جانے سے احتراز بہتر ہے۔) عم

            ۳۰- کفار کی عبادت گاہوں میں حدود کا نفاذ (اجرا) نہیں کیا جائے گا۔

            ۳۱- وہ راہب جو لوگوں میں مخلوط ہوکررہتے ہیں اورلوگوں ان کی رائے کے مطابق فیصلے کرتے ہیں، تو باتفاق فقہائے کرام ان سے جزیہ (Tax) وصول کیا جائے گااورجو راہب وپادری عباد ت کے لیے وقف میں، لوگوں میں میل جول نہیں رکھتے، ان سے یہ جزیہ نہیں لیا جائے۔ ہاں! البتہ اگر وہ کام کرنے پرقادر ہوں یا خوش حال ہوں تو پھر ان سے جزیہ لیا جائے گا۔

            ۳۲- جنگ کے زمانے میں جو راہب وپادری لوگوں کے ساتھ ملے ہوئے ہیں اور جنگی چالبازیوں اوردھوکہ دہی میں ملوث تھے مسلمانوں کے خلاف۔ باتفاق فقہائے کرام ایسے راہبوں کو قتل کیا جاسکتا ہے۔ اور اگر جنگ کے موقعہ پر یہ لوگ عبادت خانوں میں محصور رہے، اپنے لشکروں کا تعاون نہ کیا، نہ کوئی ضرر مسلمانوں کو پہنچایا، خواہ قولاً یافعلاً۔ تو ان کو قتل نہیں کیا جاسکتا، صحیح قول کے مطابق۔

            ۳۳- کوئی شخص کافروں کے عبادت خانوں کو نجاست سے ملوث نہیں کرسکتا۔ خواہ قضائے حاجت کے ذریعہ ہو یا کسی اور طریقے سے، اگر کسی نے ایسا کیا تو حاکم وقت یا ولی امر اسے سزا دے سکتا ہے۔

            ۳۴- اہلِ ذمہ کے معبدوں میں موجود پراپرٹی اور ملکیتوں پر قبضہ وزیادتی نہیں کی جاسکتی۔اسی طرح جن کا فروں نے مسلمانوں سے صلح کی ہے، ان کی ملکیتوں کو بھی چھیڑا نہیں جائے گا۔لیکن اگر وہ مسلمانوں کے خلاف جاسوسی اور سازش میں ملوث ہیں یا اپنے عہد ذمہ کی خلاف ورزی کررہے ہیں، ایسی صورت میں امام المسلمین ان کے معابد کو برباد کرسکتا ہے۔

            ۳۵- اگر کسی شخص نے اہل ذمہ کے معبدوں میں موجود ملکیتوں کو تلف وہلاک کیا تو مسلمان شخص پر اس اتلاف کے بدلے ضمان لازم ہو، لیکن اگر تلف وہلاک کردہ چیز شراب یا خنزیر ہے تو اب اس کا ضمان نہیں آئے گا۔

            ۳۶- کافروں کی عبادت گاہوں میں موجود ملکیتوں کا غصب وسرقہ جائز نہیں ہے۔ جیسے مورتیاں، صلیبیں(پوجا، ارچنا وغیرہ کا سازو سامان) اگر کسی شخص نے غصب کیا یا سرقہ کیا تو بعینہ وہ سامان واپس لوٹا نا ضروری ہوگا، تاکہ آئندہ وہ اس طرح کے فعل سے باز رہے۔

            تنبیہ: مذکورہ صورت میں صرف تادیبی وتعزیری کارروائی کا ذکر ہے، اس لیے کہ ان چیزوں کے سارق پر قطع ید والی سزا لاگو نہیں کی جاسکتی ہے۔

            ۳۷- کافروں کے معابد میں ترمیم وتبدیلی کرنا معصیت خداوندی میں شامل ہے، خواہ مسلمان ترمیم کرے یا کافر! جیسا کہ فقہائے کرام کا اتفاق ہے کہ جن شہروں کو مسلمانوں نے بسایا سب کے سب مسلمان ہو گئے، تو ایسے شہروں میں کافروں کوترمیم اور تعمیر سے منع کیا گیا ہو تب وہ ترمیم نہیں کرسکتے۔ البتہ ایسے شہروں؛جن کے بارے میں کافروں نے مسلمانوں سے صلح کرلی ہو کہ انھیں تعمیر وترمیم کا حق ہوگا یا اہل ذمہ نے صلح کے بعد یہ شرط رکھی ہو کہ انہیں ترمیم کا حق دیا جائے تو ایسی صورت میں انھیں بالاتفاق ترمیم کا حق حاصل ہوگا۔

            ۳۸- جن ملکوں یا شہروں کو مسلمانوں نے بزور غلبہ فتح کیا یا اس شرپر صلح ہوئی کہ شہر یا ملک کافروں ہی کے قبضے میں رہے گا، لیکن کفار نے صلح کے وقت ترمیم معابد کی شرط نہیں لگائی تو فقہائے کرام کے صحیح قول کے مطابق کافر معابد کی تریم کرسکتے ہیں۔(اندر ہی کے حصوں میں) بشرطے کہ عمارت میں تبدیلی نہ کریں یا تو توسیع وتزئین خارجی نہ کریں۔

            ۳۹- کفار کے معابد میں کسی بھی طرح کی تزئین کاری درست نہیں ہے۔جیسا کہ باہری دیواروں پر کسی بھی نوعیت کی مذہبی علامات (ریڈ کراس/ صلیب، اوم، سواستک، وغیرہ) وشعائر نہیں بنائی جاسکتی۔نہ ہی دروازوں پر، خاص کر اس وقت جب کہ عبادت خانہ مسلمانوں کے شہر یا مسلمانوں کے گاوٴں وبستی میں ہو۔ ہاں جن بستیوں میں کفار ہی رہتے ہوں اور اس پر صلح ہوچکی ہو، تو پھر ان سے تعرض نہیں کیا جائے گا۔وہ ترمیم و غیرہ کر سکتے ہیں۔

            ۴۰- کافر لوگوں کے لیے جائز نہیں ہے کہ وہ سیاحین اور ٹرسٹوں کو اپنے معابد کی زیارت کی ترغیب دیں، تقریری یا تحریری طور پر اگر کوئی شخص اس طرح کی تقریری وتحریری کارروائی میں ملوث ہے، جس میں معابد کی زیارت کی ترغیب وترویج واشاعت ہوں تو امام المسلمین اسے روک سکتا ہے۔

            ۴۱- ذی روح کے مجسمے کی صنعت سازی اورخرید وفروخت جائز نہیں ہے، خواہ وہ کسی غرض سے ہو۔ البتہ بچوں کے کھلونے اور گڑیے باجماع فقہا جائز ہیں۔ (علمائے دیوبند اسے منع کرتے ہیں۔ عم)

            ۴۲- کفار کے معبودوں کے مجسموں کی تعمیر سازی، ڈھانچے اور مورتیاں بنانا اور ان کی خرید و فروخت کرنا حرام ہے۔ (مسلم معماروں کو ان سے بچنا لازم ہے۔ عم)

            ۴۴- مسلمان (صراف یا کاریگر) کے لیے جائز نہیں ہے کہ وہ کسی ذی روح و جان دار کا نقش نگاری کرے، کسی خاتم (انگوٹھی/ یا مہر) وغیرہ پر جیسا کہ مسلمان کے لیے ذی روح نقوش و صورت والی انگوٹھی پہننا حرام ہے۔ایسے ہی اس کی بیع و شرا(خرید و فروخت) بھی جائز نہیں ہے۔ اگر کسی شخص نے اس طرح کی انگوٹھی وغیرہ خریدا،جس میں جان دار کی صورت ومجسمہ ہو، تو اس پر ضروری ہے کہ اس تصویر ونقش کو ختم کردے، خرچ دے یا تصویر کی آنکھیں، چہرہ وغیرہ اشرف اعضا مٹادیں۔

            ۴۵- مسلمان پر حرام ہے کہ وہ کسی بھی مادّے ودھات کے صلیب (ریڈکراس) بنائے۔ اس طرح انگوٹھی وغیرہ پر صلیب کی تصویر ونقش نگاری کرنا بھی حرام ہے۔ نہ ہی ایسی انگوٹھی پہننا جائز، نہ لینا جائز ہے۔ اگر لے لیا یا کسی نے دے دیا توپھر صلیب کی تصویر کو ختم کردے، مٹادے۔ نیز جس انگوٹھی پر صلیب کی نقش ونگاری کی گئی ہو، اسے بیچنا بھی جائز نہیں ہے۔

            اسی طرح ہر وہ لباس جس پر صلیب کی تصویر ہو، اس کا پہننا اور بیچنا جائز نہیں ہے۔

            ۴۶- مسلمان کے لیے جائز ہے کہ وہ ہوٹل،شاپنگ سینٹر تعمیر کرے، ان علاقوں میں جہاں کافروں کا معبد (عبادت گاہ) ہے، بشر ط یہ کہ وہ معابد ان علاقوں میں ہوں، جہاں لوگوں کی مصلحتیں مقصود ہوں۔جیسے حکومتی وسرکاری دفاتروغیرہ وہاں موجود ہوں(لوگوں کے کام کاج ان سے متعلق ہوں اور وہاں لوگوں کی آمد و رفت رہتی ہو) البتہ ایسے علاقوں میں جو آبادی سے دور ہوں اور وہاں لوگوں کی آمد ورفت رہتی ہو) البتہ ایسے علاقوں میں جو آبادی سے دور ہوں یا صرف وہاں عبادت گاہیں ہی موجود ہوں تو پھر ایسے معابد کے ادر گرد ہوٹلس اور شاپنگ سینٹر بنانا جائز اور درست نہیں ہے۔ (یا جہاں پر لوگوں کا کوئی کام کاج سوائے پوجا پاٹ کے نہ ہو)

            ۴۷- جو شخص سیاحتی کمپنیوں (اداروں) کا منتظم وذمہ دار ہو، تو اس پر حرام ہے کہ وہ کفار کے معابد کی زیارت کے لیے آنے والے ٹورسٹوں (زائرین) کی رہنمائی وگائڈنگ کرنے والوں کے لیے اجرت و وظیفہ جاری کرے۔ کسی مسلمان کے لیے اس طرح کے کام (کائڈنگ ورہنمائی) اجرت لے کر یا بغیر اجرت کے حرام ہے۔

            اگرکوئی مسلمان کسی معبد کفارمیں جاتا ہے، تو اس پر اجرت دینا بھی جائز نہیں ہے۔ اس طرح کے ادارے کا ذمہ دار ومنتظم بننا اور اس پر اجرت وچارج وصول کرنا زائرین وسیاحین سے مسلمان کے لیے جائز نہیں ہے۔

            ۴۸- اگر کافروں کو اپنی عبادت گاہ کے لیے اجرتاً یا بیعاً زمین یا مکان کی ضرورت ہو تو مسلمان کے لیے یہ دونوں چیزیں حرام ہیں(یعنی و ہ اپنا مکان یا زمین نہ کرایہ پر دے سکتا ہے، نہ فروخت کرسکتا ہے۔ تاکہ وہاں معبد کفار بنایا جائے۔)

            ۴۹- ہر ایسی چیز وسامان جیسے معاصی میں استعمال کیا جاتا ہو، ان کی تجارت (بیع وشراء اوراجرت پر دینا جائز نہیں ہے۔ اگر چہ کہ وہ چیزیں فی نفسہ مباح ہیں۔ مثلاً قالین چٹائی بنانا جس پر کفار معابد کے اندر کھڑے ہوکر عبادت کریں۔ یاچراغ ودیا جس سے مندر وگرجا میں چراغاں کیا جائے۔

            ایسے ہی شمعیں اور قتدیلیں جن کو اندرون مندر و معابد لگایا جائے۔

            مسلم شہروں اورملکوں میں معابد کی بیع جائز نہیں ہے۔ وہ یا تو کفار ہی کے لیے باقی رکھے جائیں گے یا خالی کرکے مسلمانوں کے حوالے کیے جائیں گے۔ لیکن ایسے ملک وشہرمیں ہوں جہاں انہوں نے صلح کی ہو کہ ہمیں معابد واپس بسانے کی اجازت ہوگی۔ بیع کی بھی اجازت ہوگی۔ تو اگر وہ آپس میں بیچتے ہیں اور کسی مسلمان حاکم کے پاس اپنا مسئلہ لاتے ہوں۔ (از خود مقدم پیش نہ کرتے ہوں) تو پھر ہمیں ان سے تعرض کا کوئی حق نہیں ہوگا۔

            ۵۱- معابد کو خریدنا مسلمانوں کے لیے جائز ہے، بشرط یہ کہ کافروں کے قبضے وتسلط سے بچانے کی کوئی اور شکل نہ ہو۔

            ۵۲- کسی مسلمان انجینئر کے لیے حلال نہیں کہ وہ کافروں کے مندروں (گرجا گھروں، چرچوں، گردواروں) کے لیے ڈیزائن ونقشہ (پلان مجوزہ) تیار کرے۔ جیسا کہ اس کے لیے مندر وغیرہ کی تعمیر میں بہ طور مزدور ومستری بڑھئی، بیگاری یا چوکیداری کرنا جائز نہیں ہے۔

            ۵۳- کسی مسلمان کے لیے جائز نہیں ہے کہ وہ کافروں کی عبادت گاہوں کے لیے وقف کرے یا وصیت کرے یا تصدق کرے۔ اس مندر کی تعمیر، ترمیم یافر مش لگانے کی یا نقش و نگار بیل بوٹے بنانے کی یا پھر مندر میں موجودپنڈتوں اور پجاریوں (پادریوں) وغیرہ کے لیے وصیت وغیرہ جائز نہیں ہے۔ ایسے ہی جائز نہیں ہوں گے اور یہ عقود صحیح نہیں ہوں گے، کسی کافر شخص کی طرف سے بھی، جب کہ مسلمانوں حاکم کی طرف انہوں نے اپنا معاملہ پیش کیا ہو۔ (اورہماری عدالتوں میں اپنے لیے فیصلہ طلب کیا ہو۔)