خدا مہرباں ہوگا عرشِ بریں پر

مولانا افتخاراحمد قاسمی# بستوی#

            اللہ کے بندوں کو آپ جتنا آرام پہنچائیں گے، اللہ رب العزت اتناہی، بل کہ اس سے کہیں زیادہ آپ کو آرام پہنچائیں گے۔

            حالی مرحوم مسدس حالی# میں لکھتے ہیں:

خدا رحم کرتا نہیں اس بشر پر

نہ ہو درد کی چوٹ جس کے جگر پر

کرو مہربانی تم اہل زمیں پر

خدا مہرباں ہوگا عرشِ بریں پر

            لیکن یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ جو خدا کے بندوں کو تنگ کرتا ہے،اس پر ظلم وستم ڈھاتا ہے، اس پر بھی خدا مہربان ہے۔بل کہ ظاہرِ نظر میں ایسے بندوں پر عنایتِ خداوندی اور خدا کی مہربانی کچھ زیادہ ہی دکھائی دیتی ہے۔

             تو اس سوال کا جواب یہ ہے کہ جس کو عنایتِ خداوندی سمجھا جارہاہے وہ درحقیقت اللہ رب العزت کی طرف سے ڈھیل ہوتی ہے۔ایسے بندوں کو سمجھنے اور سدھرنے کا موقع دیا جاتا ہے،پھر جب وہ موقع گزر جاتا ہے اور ڈھیل کا وقت ختم ہو جاتا ہے تو ان کی گرفت ہوتی ہے اور ایسی شدید گرفت ہوتی ہے کہ پھر دوبارہ چھوٹ نہیں دی جاتی۔

            اللہ رب العزت کا یہ ضابطہ عام ہے۔ اس میں کسی علاقے کی،کسی وقت و حالت کی،اسی طرح کسی بڑی و چھوٹی شخصیت کی قید نہیں۔

            اللہ رب العزت ظالموں کی پکڑ فرماتے ہیں،چاہے اس میں دیر ہی کیوں نہ لگے۔کیوں کہ دیر بھی اصلاح ودرستگی کے مقصد سے ہوتی ہے۔

            آج حالات بہت زیادہ ناگفتہ بہ ہوتے جارہے ہیں، اللہ کی بنائی زمین میں اللہ کے بندوں پر ظلم کے پہاڑ توڑے جارہے ہیں۔

معیشت کا حال ابتر ہے:

            سنٹر فار مانیٹرنگ انڈین اکانومی (سی ایم آئی ای) کے حالیہ اعداد و شمار کے مطابق دسمبر میں بھارت میں روزگار کا ڈیٹا (data)جس میں لاک ڈاؤن کے ختم کرنے کے بعد قدرے بہتری آئی تھی، ابتر ہوگئی ہے۔

            اعداد و شمار کے مطابق ملک میں بے روزگاری کی شرح نومبر میں 6.5 فیصد تھی،جب کہ یہ بڑھ کر گزشتہ دسمبر میں 9.1 فیصد ہوگئی۔ اعدادوشمار سے پتا چلتا ہے کہ معیشت پر دباؤ ہے اور معمول کی راہ طویل تر ہوتی جارہی ہے۔

            اس عالم میں غریبوں اور بے دست و پا لوگوں کی معاشی خوش حالی کی اسکیمیں بنانے کے بجائے ان کے درمیان نفرت کی دیواریں کھڑی کرنا کس قدر مقصد سے بے پرواہی اوربے حسی و سنگ دلی کی بات ہے۔

             سی ایم آئی ای کے ایم ڈی اور سی ای او مہیش ویاس کے مطابق،جون میں لاک ڈاؤن کے بعد بھارت کی بازیابی کے آغاز کے بعد دسمبر میں بے روزگاری کی سب سے زیادہ شرح درج ہوئی ہے۔انہوں نے بتایا کہ بے روزگاری میں اضافہ اعلی افراط ِزر کے ساتھ ہوتا ہے، جو حالیہ مہینوں میں 7 فیصد کے آس پاس ہے اور اس نے صورت حال کو مزید خراب کردیا ہے۔

            آپ جائزہ لیں تو پتا چلے گا کہ آئے دن ڈیزل اور پٹرول کے داموں میں اضافے 108 روپیے سے لے کے 120 فی لیٹر کے حساب سے پورے بھارت میں مختلف جگہوں پر،اس کی فروخت نے عوام کی کمر توڑ کر رکھ دی ہے۔ لوگوں پر رحم وکرم کا معاملہ کرنے کے بجائے ان کو معاشی ظلم کی چکی میں پیستے چلے جارہے ہیں۔

            مہیش ویاس نے یہ خدشات بھی بڑی قوت کے ساتھ اٹھائے کہ بے روزگاری میں تیزی سے اضافے سے بحالی کے عمل سے متعلق دور رس پریشانیوں کو مزید تقویت ملتی رہے گی۔ماہرین کے مطابق دسمبر میں بے روزگاری میں اضافہ مزدوروں کی شرکت کی شرح (ایل پی آر) کی جزوی بحالی کا نتیجہ ہے۔ نومبر میں ایل پی آر کم ہوکر 40 فیصد رہ گیا، جو پچھلے دو ماہ میں 40.7 فیصد تھا۔

            کھانے کے تیل کا بھاؤ آسمان کو چھو رہا ہے۔دال چاول سبزی تمام کھانے پینے کی اشیامہنگی ہوتی چلی جارہی ہیں اور ذرائع نقل و حمل میں روز افزوں گرانی کا گراف بڑھتا جارہا ہے۔

            کسان پورے ایک سال کے طویل عرصے سے سڑکوں پر سراپا احتجاج بناہوا ہے،لیکن پورا سسٹم گونگا، بہر ا اور اندھا بنا ہوا ظلم کو بڑھاوا دے رہا ہے۔

            جان بوجھ کر غریب کسانوں پر دوڑتی گاڑی چڑھادی جارہی ہے اور ظالم کھلے بندوں اس طرح گھومتا پھر رہا ہے جیسے کہ

دامن پہ کہیں چھینٹ، نہ خنجر پہ کہیں داغ

تم قتل کروہو کہ کرامات کروہو

 کلیم عاجز عظیم آبادی

            دن دن بھر غریب کسان لائن میں کھڑا کھاد کی وصول یابی کو یقینی بنانا چاہتا ہے اور حکمراں جماعت کے پاس پوری مقدار میں کھاد ہے ہی نہیں کہ مکمل سپلائی کو یقینی بنایا جاسکے۔

            چار وناچار زہر خورانی اور خودکشی کے حد درجے ناخوش گوار واقعات وحادثات پیش آجاتے ہیں۔ان تمام ناگفتہ بہ پریشانیوں کو اقلیتوں سے زیادہ اکثریتی طبقہ جھیل رہا ہے، لیکن انھیں مذہبی جنون کے پھیلاؤ کا فری ویکسین دے کر، انھیں بالکل سن کردیا گیا ہے، جو غریب عوام اور خانماں برباد خاندان 70 روپیے لیٹر پٹرول فروخت ہونے پر سراپا احتجاج بنے تھے،آج وہی 117اور 120 روپیے فی لیٹر پٹرول مسکراتے ہوئے بھروا رہے ہیں۔

            یہ کون سا ویکسین ہے جو اتنا موٴثر ہے کہ لوگ اپنا دکھ درد سب بھول کر زندگی گزار رہے ہیں؟

            یہ ویکسین وہی ہے جو کبھی اخلاق و جنید سے ان کے جینے کا حق چھین لیتی ہے، تو کبھی بابری مسجد کی ساری دلیلیں مسجد کے حق میں ہوتے ہوئے بھی رام مندر کا فیصلہ کروالیتی ہے۔یہی وہ ویکسین ہے جو تری پورہ میں لگائی گئی ہے تو وہاں بیسیوں مسجدوں کو جلایا یا نقصان پہنچایا جا چکا ہے۔اور ایک ہی اقلیتی فرقے کو سوچے سمجھے منصوبے کے مطابق نشانہ بنایا جارہاہے۔لوگ روزگار مانگنا بھول گئے ہیں، لیکن اپنا جنون یاد ہے۔

            آٹھ ماہ سے 4 لاکھ خواتین کو ان کی تنخواہیں نہیں ملی ہیں۔جب کہ ان کی تنخواہیں بھی صرف 15 سو روپیے ماہانہ ہیں۔

             ظلم وستم کے ان حالات میں مالک کل؛جہاں اللہ رب العزت نے پورے غلبہ وقوت کے باوجود صبر و حلم کا مظاہرہ کیا ہوا ہے،اس کو معلوم ہے کہ غریبوں کی روزی روٹی پر لات مارا جارہا ہے اور طرح طرح کے بہانے تراشے جارہے ہیں۔

            چناں چہ ویاس نے کہا ہے کہ لیبر مارکیٹیں مزدوری میں 60 لاکھ اضافے کے لیے تیار نہیں ہیں، جس کی وجہ سے وہ بڑے پیمانے پر بے روزگار ہوگئے ہیں۔

             مزدور،بے بس،روزانہ کھانے کمانے والے بے روزگاری اور ہوش ربا مہنگائی کے بوجھ تلے ایسے دبے چلے جارہے ہیں کہ سانس لینا اور جینا حرام ہوگیا ہے۔نہ اپنے کھانے کو کچھ ہے نہ بچوں کو کھلانے کے لیے کچھ۔

سوگئے بچے ایک غریب ماں کے جلدی جلدی

ماں بولی تھی،فرشتے آتے ہیں خواب میں روٹی لے کر

            تو آیے! ان سنگین حالات میں ان حکمران با صفااوردریا دلانِ خلوص کیش حضرات کا پاکیزہ کردار ادا کریں جو بھیس بدل بدل کر،شبِ دیجور میں،حالات کا صحیح پتا لگانے خود ہی نکل پڑتے اور اپنی پشت پر آٹے کی بوری لاد کر،منھ سے چولہا پھونک کر،اس بے یارو مددگار ماں کی زبان سے کہلوائے بغیر نہ رہتے کہ خلیفہ اور حکمراں تو تجھے ہونا چاہیے۔

جسے فضول سمجھ کر بجھا دیا تونے

وہی چراغ جلاؤ تو روشنی ہوگی

            آج دنیا فوری نفع نظر آنے والی دولت اورچکا چوندھ کرنے والی روشنی کے پیچھے دڑتی بھاگتی چلی جا رہی ہے اور کچھ دن کے بعد اسی دنیا ہی میں بعض مرتبہ ظاہر ہو جارہا ہے کہ جس روشنی کو ہم نے اپنے لیے ہدایت دہندہ سمجھ رکھا تھا اس نے تو ہمیں ظلمت کی کھائی میں لا گرایا۔

جس کو سمجھا تھا مسیحا وہ ہلاکو نکلا:

            ایسے لوگوں کی مثال قرآن کریم میں اللہ ربّ العزت نے اس طرح بیان فرمائی ہے کہ:

            ”ان کے اعمال واطوار کی مثال ایسی ہے،جیسے چٹیل جنگل میں چمکتی ریت دکھائی دیتی ہے،جسے پیاسا شخص پانی خیال کرکے وہاں پہنچتا ہے۔وہاں آنے پر حقیقت حال واشگاف ہوتی ہے کہ یہاں تو کچھ بھی نہیں (مارے پیاس کے وہیں دم توڑ دیتا ہے) وہاں اللہ کو پاتا ہے کہ اس کے حکم سے موت واقع ہوجاتی ہے تو آخرت میں اللہ رب العزت اس کا حساب پورا پورا چکا دیں گے اللہ رب العزت جلد حساب لینے والے ہیں۔“

            ایسے لوگوں کی ایک دوسری مثال بھی اللہ نے آگے ذکر فرمائی ہے کہ

            یہ لوگ ذرا نیک کام نہیں کرتے بس اللہ اور اللہ والوں کا نام سن کر ان کے کان کھڑے ہو جاتے ہیں اور نفرت کا لاوہ ان کی زبانوں سے پھوٹنے لگتاہے تو ایسے لوگوں کی مثال ایسی ہے جیسے”تہ بتہ تاریکیاں ہوں وہ بھی گہرے دریا میں؛جس میں موج پر موج چھائی ہو اور اس پر بھی اوپر سے بادل ہو۔ایسے حالات میں ایک آدمی اپنا ہاتھ جب نکالتا ہے تو اسے خود اپنا ہی ہاتھ دکھائی نہیں دیتا۔“

            دنیا میں اللہ کے بندوں پر بے محابا ظلم وستم ڈھانے والے ایسے ہی ہیں۔ ان کو اپنے مقاصد،اپنی حرص و آز کے سوا کچھ نہیں دکھائی دیتا۔

            بھارت ہی کو لے لیں۔ یہاں اقتدار کی کرسی پر براجمان لیڈران،آئینِ ہند پر عمل کرنے کی حلف برداری کے بعد ہی اپنے اپنے قلم دان سنبھالنے کے مجاز ہوتے ہیں،لیکن ایشور،اللہ کی قسمیں کھالینے کے بعد، اپنی قسم یکسر بھول جاتے ہیں اور عوام کی خدمت کے بجائے خود اپنی اور اپنے احباب واعزا کی خدمت کرنے لگتے ہیں، جو عوام کا حق مار کرخدمت انجام دینا بد ترین خیانت ہے۔

            آئینِ ہند کی دفعہ 16 میں یہ بات درج ہے کہ

            ”بھارت کے تمام شہریوں کو روزگار کے حوالے سے مساویانہ حقوق کی تحصیل کے مواقع فراہم کیے جائیں گے۔“

            آئین کی اس دفعہ پر عمل کجا،اس کے بر خلاف بے روزگاری کی شرح روز بروز بڑھتی جارہی ہے۔ ہندوستان کے ایک اخبار نے حکومت کی ایک خفیہ رپورٹ کے حوالے سے لکھا:کہ ملک میں بے روزگاری کی شرح سن 1970 کے بعد اپنی بلند ترین سطح پر ہے۔بھارت کو جدید خطوط پر مستحکم کرنے اور معیشت کو نئی راہ پر استوار کرنے اور یقینی روزگار فراہم کرنے کے وعدے کے ساتھ موجودہ حکومت نے سن 2014 میں بڑے کروفر کے ساتھ عہدہ سنبھالا تھا۔ اپنی انتخابی مہم کے دوران وزیراعظم ہند نے وعدہ کیا تھا کہ ہمارے ملک بھارت میں ہر ماہ ایک ملین نئی ملازمتیں سامنے آئیں گی۔ مگر…وہ وعدہ ہی کیا جو وفا نہ ہو۔

            پچھلے سال بھی بھارت میں ریلوے کی 63 ہزار ملازمتوں کے لیے 19 ملین درخواستیں جمع کرائی گئی تھیں، لیکن ان تعلیم یافتہ نوجوانوں کو روزگار فراہم کرنے میں نئی دہلی کی حکومت بہت زیادہ کام یاب دکھائی نہیں دیتی۔

            بھارتی ریلوے مرکزی حکومت کے ماتحت چلنے والا ایک عظیم الشان معاشی ادارہ ہے۔بھارتی ریلوے کا شمار دُنیا کے مصروف ترین اور عظیم ریل نیٹ ورک میں ہوتا ہے۔ سال میں تقریباً 5000 کروڑ مسافر بھارتی ریلوے سے سفر کرتے ہیں 650 ارب ٹن سامان ایک کونے سے دوسرے کونے نہایت آسانی سے منتقل کیے جاتے ہیں۔ اس کے علاوہ کم وبیش16 لاکھ ملازمین اس محکمے میں زیرِ ملازمت ہیں۔

            اس ادارے کے ذریعے بھارت کی معیشت کو خوب مضبوط کیا جاسکتا ہے، لیکن اسے نجی ہاتھوں میں دینے کی بھارتی پالیسی نے معیشت کی ترقی کی گاڑی کو بالکل روک دیا ہے۔ہاں! نجی ہاتھ میں حکمرانی دینا ہے تو اس کی خوبیاں، اس کے خیر خواہانہ اوصاف اور امانت ودیانت بھی دیکھ لینا چاہیے۔

            دنیا کے تمام ادیان ومذاہب میں مذہب اسلام نے حکمراں کے اوصاف کو اچھی طرح بیان کیا ہے۔ جس سے ظالم وعادل حکمرانوں کے درمیان خط امتیاز کھینچنا نہایت آ سان ہوجاتاہے۔

            عالم کی تاریخ میں بے شمار حاکم ظالم،بہت سے امیر بے ضمیر، بہت سے اولو الامر صاحبان جور و جبر گذرے ہیں، جنہوں نے اپنے دور اقتدار کو پورا کرکے اپنی اپنی راہ لی، لیکن اسلام نے حاکم اور امیر کی صفات متعین کردی ہیں، جن سے عدل وانصاف کو فروغ ملتا ہے اور عوام خوش حال زندگی گزارنے کے مواقع پاتے ہیں۔

            دین اسلام اجتماعی و انفرادی دونوں طرح کی زندگی کا دین ہے۔یہ بھکشووں، جوگیوں،راہبوں اور سنیاسیوں کو بھی انفرادی زندگی گزارنے کا طریقہ خداوندی بتاتا ہے۔ ان کو بھی توحید ورسالت اور آخرت کے پیغام کا مکلف بناتا ہے، صحرا، جنگل، بیابان اور پہاڑوں کے غار میں انفرادی زندگی گذارنے کے حدود وخطوط متعین کرتا ہے، حکمراں طبقے کو ان کا بھی خیال رکھنے کی تلقین کرتا ہے اور آبادی کے اندر منظم زندگی گذارنے کی بھی تلقین کرتا ہے۔ اس دین میں اجتماعی و انفرادی دونوں طرح کی زندگی کے احکام قدم قدم پر ملیں گے، یہاں تک کہ عبادات میں بھی اجتماعی و انفرادی زندگی کی شان پائی جاتی ہے۔ امامت صغری(نماز باجماعت) سے لے کر امامت کبری(حکومت وخلافت) تک ڈسپلن کے ساتھ زندگی گذارنے کے آداب اور گھروں میں نوافل وتسبیحات سے گھروں کو آباد رکھنے کا حکم اور گھروں کو شہر خموشاں نہ بنانے کی ہدایت وتلقین کے احکام اس دین میں نظر آتے ہیں۔

            نجی ہاتھوں میں حکومت اس وقت بارآور ہوتی ہے،جب ان کو خوف خدا اور خشیت الٰہی کی دولت نصیب ہو۔ایسا نہ ہو کہ عوام کی دولت اور حکومت کا خزانہ نجی ہاتھوں سے نجی ہاتھوں کو مضبوط کرنے لگے۔ اس لیے حکمرانوں میں یہ صفت ہونا چاہیے کہ وہ منصب کا حریص نہ ہو۔ اگر کوئی شخص اس منصب کا حریص ہو اور اس نے خود یا اپنے ماننے والوں کے ذریعہ اور”روڈ شو“ کے مظاہرہ سے اسے حاصل کرنے اور اس منصب پر قبضہ کرنے کی کوشش کی ہو تو وہ امیر کے منصب کا اہل نہیں ہے۔

             بخاری اور مسلم کی حدیث ہے:”انا واللہ لا نولي علی عملنا ہذا احدا سألہ او حرص علیہ

             رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بخدا ہم کسی ایسے شخص کو اپنی حکومت کے منصب پر مقرر نہیں کرتے ہیں، جس نے اس کی درخواست کی ہو یا جو اس کا حریص ہو۔

            دوسری حدیث ابوداؤد کی ہے:”أن أخوَنَکُمْ عندنا من طلبہ“ یعنی ہمارے نزدیک تم میں سے بڑا خائن وہ ہے جو خود اس کا طالب ہو۔

            آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابو ذر کو منصب طلب کرنے پر یہ نصیحت کی تھی:

            ”یا اباذر! إنک ضعیف وإنہا أمانة وانہا یوم القیامة خزي وندامة۔“

             اے ابو ذر! تم کم زور ہو اور یہ منصب امانت ہے اور قیامت کے روز وہ رسوائی اور ندامت کا موجب ہوگا۔ ایک دوسری حدیث میں ہے کہ ”جو شخص حکمرانی کے منصب پرفائز ہوا،اس کو سب سے بھاری حساب دینا ہوگا اور وہ سب سے زیادہ عذاب کے خطرہ میں مبتلا ہوگا۔“

            ان حدیثوں کو سامنے رکھیے تو محسوس ہوگا کہ مبارکباد کا مستحق وہ نہیں ہے، جو حکمرا ں ہوگیا ہے، بل کہ وہ شخص ہے جو حکمراں نہیں ہوا ہے۔کبھی حالات کے لحاظ سے اس میں استثناء بھی ہوسکتا ہے، کبھی قوم اور ملک کے حالات بہت دگرگوں ہوں اور ایک شخص مخلصانہ طور پر یہ محسوس کرے کہ اس کے پاس ایسی صلاحیتیں ہیں، جن سے وہ بگاڑ کو درست کرسکتا ہے تو وہ اپنے آپ کو عہدہ کے لیے پیش کرسکتا ہے، جس کا وجود عصرِ حاضرمیں عنقا ہے۔

            انتخابات میں اپنی کرسی اقتدار کی تحصیل میں کیسی کیسی جھوٹ باتیں،بے جا تعریف اور غلط قسم کے پروپیگیشن کی ریل پیل ہوتی ہے کہ الامان و الحفیظ!

            سورہ یوسف میں ہے کہ مصر میں جب قحط اور خشک سالی پھیل گئی تھی او اقتصادی نظام درہم برہم ہوگیا تھا،اس وقت کے پیغمبرحضرت یوسف علیہ السلام نے؛ جنہیں اللہ نے انتظام کی غیر معمولی صلاحیت عطا کی تھی یہ مطالبہ کیا تھا: ”اجعلنی علی خزائن الارض“ یعنی سرزمین کا مالیاتی نظام میرے حوالہ کردو۔

            ہر حال میں لوگوں کو یہ جائزہ لینے کا حق ہے کہ وہ شخص امارت کا مستحق ہے یا نہیں؟ اور وہ حاکم کے مطلوبہ معیار پر پورا اترتا ہے یا نہیں۔

            #… حاکم کے لیے ضروری ہے کہ خود اس کا انتخاب بھی اہل الرائے سے مشاورت کے بغیر نہ ہوا ہو اور وہ خود تمام اجتماعی معاملات میں اہل الرائے سے مشاورت کا عادی ہو اور اجتماعی کام حتی کہ انفرادی اہم کام کو بھی کو مشورے کے بغیر انجام نہ دے۔

            ﴿وَاَمْرُہُمْ شُورَی بَیْْنَہُمْ﴾ (الشوری: ۸۳) وہ مجلس مشاورت کو پوری اہمیت دیتا ہو۔ہاں عمدہ سیرت وکردار حاکم کی اہم صفت ہے،مسلمانوں کی جماعت میں ایسا شخص ہو جو بہت متقی اور پرہیزگار ہو۔

            ﴿ان اکرمکم عند اللہ اتقاکم﴾ اللہ کے نزدیک تم میں سب سے برگزیدہ وہ شخص ہے جو اللہ سے سب سے زیادہ ڈرنے والا ہو۔

             تقوی اختیار کرنے کاایک مطلب حسن اخلاق اختیار کرنا بھی ہے، جو اچھی تربیت سے حاصل ہوتا ہے۔جس امیر میں مذکورہ بالا صفات نہ پائی جائیں،اس کا مطلب یہ ہے کہ اسے اچھے لوگوں کی صحبت اور تربیت حاصل نہیں ہوئی ہے۔حاکم کو صاحب کردار اور متقی ہونا چاہیے۔

            اسلام میں صرف حکمرانی اور امارت ہی نہیں۔ زندگی کے تمام شعبوں میں اعتدال پسند رویے کی ہی ترجمانی کی گئی ہے۔ یہی بات آج بھی لوگوں کی سمجھ میں جب آجاتی ہے، تو لوگ دنیا و آخرت کی عافیت اسی میں سمجھتے ہیں کہ اسلام کے سایہ عاطفت میں ہی جگہ لینا ضروری ہے۔

             ابھی سعودی عرب میں برطانوی سفیر نے قبول اسلام کا اعلان کیا اور مسجد نبوی سے یہ خبر پوری دنیا میں عام کی اور ایک برطانوی خاتون نے بھی کسی حلیمہ کی باتیں سن کر اسلام میں داخل ہونے کا اعلان کردیا۔ اسلام کی مخالفتوں کا پورا زور ہے اس کا چراغ ہدایت بجھانے کی سرتوڑ کوششیں جاری ہیں،لیکن نور خدا کہیں پھونکوں سے بجھا یا جاسکتا ہے؟!

نور خدا ہے کفر کی حرکت پہ خندہ زن

پھونکوں سے یہ چراغ بجھا یا نہ جائے گا