مرثیہ

حضرت اقدس مولانا عبد الرحیم صاحب فلاحی علیہ الرحمہ

استاذ حدیث وناظم مسابقة القرآن الکریم جامعہ اشاعت العلوم اکل کوا (مہاراشٹر)

از: مفتی منیر الدین احمد عثمانی نقشبندی

ناظم اعلی دارالاقامہ واستاذ دار العلوم دیوبند

یہ کیا قیامت ہوئی ہے برپا؟ نہیں ہے گردوں زمیں نہیں ہے

ستارہ کیسا فلک سے ٹوٹا؟ جگہ پہ عرش بریں نہیں ہے

جدھر بھی دیکھو ہے نوحہ ماتم ، عجب مچی ہے یہاں پہ ہنگم

ٹھہر گیا ہے یہ سارا عالم ، فلک پہ چرخ بریں نہیں ہے

ہاں قدسیوں میں یہی ہے چرچا، جہاں میں ہنگامہ کیوں ہے برپا؟

خدا خدا کی فغاں ہے کیوں کر کیوں زندگی سی کہیں نہیں ہے

سکوت سا چھایا زیر ساحل ، یوں دھک سے بیٹھا ہے قیسِ محمل

ہوا ہے اوجھل نشانِ منزل ، وہ ہمسفر ہمنشیں نہیں ہے

کیوں سٹپٹائی ہے شمعِ محفل؟ کیوں چھپٹائے ہر ایک بسمل؟

کسی کے پہلو میں کیوں نہیں دل؟ کیوں بکھری زلفِ حسیں نہیں ہے

چمن کے غنچوں میں کیا ہے نغمہ؟ گلوں میں کیا بات ہورہی ہے؟

کیوں زلزلے میں سحر کا تارا؟ یہ ضو کیوں جاں آفریں نہیں ہے

یہ کون مجنوں شہر سے اٹھا یہ کس کی میت ہے دل کو تھامے؟

یہ خلق کا یوں ہجوم کیوں ہے؟ کیوں بس میں کوئی جبیں نہیں ہے

کیوں جلوہٴ طور بجھ گیا ہے؟ کلیم مایوس اٹھ گیا ہے؟

نشانِ داغ جگر مٹا کیوں؟ کیوں دل کوئی آتشیں نہیں ہے

یہ کعبہ بھی بند کیوں پڑا ہے؟ کیوں مندروں میں بھی غل مچا ہے؟

کہاں رہیں گے ہزار سجدے؟ یہاں تو کوئی جبیں نہیں ہے

نہیں ہے تجھ سا جو نغمہ ہائے حجاز کا ہو یہاں مغنی

کتاب دیں کی شرح ہو کیسے؟ کہ تجھ سا شارح دیں نہیں ہے

ہے دل کی محفل بھی سونی سونی، اچٹتی آنکھیں سلگ رہی ہیں

یہ سب کی روح بھی ہے شمع کشتہ کہ وہ گیسوئے عنبری نہیں ہے

یہ دشت وصحرا کے زمزمے کیوں سکوت مائل یوں ہوگئے ہیں؟

کیا قیس وفرہاد مر گیا ہے؟ لبوں پہ سب کے نہیں، نہیں ہے

ہے موت کیا ؟زندگی بھی کیا ہے؟ کہ جن کی گردش میں ہے زمانہ

سکوتِ دریا یہ موجِ دریا انہیں میں دنیائے بیکرانہ

مری نظر سے خرد جو دیکھے ، اسے نظر آئے زندگی بھی

ہاں! پائی موتوں سے زندگی بھی ، کہ یوں مراہے یہاں دیوانہ

ترے چراغِ یقیں نے ظلمت ، کے سارے پندار توڑ ڈالے

تمہاری ٹھوکر سے ہل گئی تھی، تھی ترساں دنیائے کافرانہ

ہر ایک بسمل سِسک رہا ہے، نہ دم نکل جائے ہچکیوں میں

ادائیں تیری تھیں دلبرانہ ، تری نظر تھی قلندرانہ

زمیں کی گردش میں گردشیں تھیں، تھا لرزے میں سارا آسماں بھی

وہ حشر برپا کرے تھے ہر دم ، تری نواہائے قاہرانہ

تیری اداوٴں سے قتل سارے، تمہارے بسمل بھی ہو گئے تھے

اے چشمِ دلبر! تو سب سے ملتی ، رہی باندازِ محرمانہ

دلوں میں محشر ہے کیسا امڈا؟ اسے بھی آخر کوشق نہ کردے

تڑپ رہے ہیں بِلک رہے ہیں ، یہ برسرِ سنگِ آستانہ

تمہاری لے میں یہاں کی بلبل، ہوئی ہیں یوں نغمہ سنج دیکھو

ابھی بھی سنتے ہیں سارے غنچے ، تری نوائیں تھیں جاودانہ

اے ساقی! تو جو اٹھاہے یہاں سے، شکستہ گرتے ہیں جام ومینا

چراغِ محفل بجھا بجھا ہے ، ہے پھیکی پھیکی مئے شبانہ

دمِ تکلم تمہارے لب سے ، مدام موتی سے جھڑ رہے تھے

ہاں! نکتہ رس تھیں تری نگاہیں ، تری نظر بھی تھی عارفانہ

ہر ایک ذرہ وغنچہ وگل ، بِلک رہے کیسے دل کو تھامے

اے باغباں! تو جو اٹھ گیا ہے ، اجڑ گیا گویا آشیانہ

ہاں! مثلِ پروانہ کس طرح سب نثار ہوتے تھے تجھ پہ ہر دم

سبھی کو ازبر رہیں گے حقا! ترے وہ اندازِ عاشقانہ

تمہارے جلووٴں کے آگے ، شرمندہ جلوہِ طور ہو رہا تھا

اشارے میں دل ہزار لوٹے ، عجب طریقے تھے ساحرانہ

تمہارا قال رسول عالم ، تمہارا قال خدائے ارحم

مدام قرآں کا ورد لب پر، تھے روز وشب تیرے راہبانہ

یہ مرد آہن کی رخصتی پر ، مجھے یہی غم ستا رہا ہے

رہیں گے قرآں سے دور کتنے ، بنیں گے کتنے قمار خانہ

جہاں میں اہل جبر ہیں کتنے ، انہیں تو لیتی نہیں ہے کیوں کر

میں لیتی ہوں صرف مرد صالح ،ہے موت تیرا عجب بہانہ

جگر کے ٹکڑے سے ہوگئے ہیں ، جناب وستانوی کے کتنے

ہر ایک پل بے کلی سی چھائی جگر کے بام ودر ماتم خانہ

تو ہی تو رہبر تھا کارواں تھا تو ایک گل تھا یا گلستاں تھا

تو جامعہ کا بھی ترجماں تھا ، خمیر تھا تیرا رہبرانہ

تو ہمنوا تھا تو ہم زباں تھا ، عجب سی تھی تیری ہمصفیری

کلیم وہاروں کے درمیاں جو تعلقات تھے رازدانہ

تمہارے سوزِ جگر سے وستانوی کا ساز جگر تھا دھن میں

سدا تھی تارے جگر کے بُن میں، تو ہی تھا ابروئے دوستانہ

تو ہم اداتھا تو ہم فغاں تھا ، تو دردِ دل تھا دوائے جاں تھا

اندھیری راہوں میں کہکشاں تھا تو ہی تھا رہبر زمانہ

جہان ِ ارض وسماں کے کافر نبی فرشتے خدا کے کافر

مگر اجل پہ سبھی کا ایماں عجب حقیقت ہے رازدانہ

تمہارے غم میں منیر بھی اب نڈھال سا ہوگیا ہے کیسے

نگہ کے گرتے سے موتیوں کا شمار کرتا ہے دانہ دانہ