فقہ وفتاویٰ

مفتی محمد جعفر صاحب ملی رحمانی

صدر دار الافتاء-جامعہ اسلامیہ اشاعت العلوم اکل کوا

نماز میں انگلیوں کا چٹخانہ

مسئلہ:    نماز میں انگلیوں کا چٹخانہ مکروہ تحریمی ہے۔ اسی طرح نماز کے لیے جاتے ہوئے اور مسجد میں نماز کے انتظار کے وقت بھی یہ عمل مکروہ تحریمی ہے۔ البتہ نماز سے باہر اور مسجد سے باہر اگر انگلیوں کو راحت پہنچانے کے لیے ہو، تو مکروہ نہیں ہے۔ اور ویسے ہی بطورِ عبث ہو تو مکروہ تنزیہی ہے۔

والحجة علی ما قلنا

مافي ”السنن لإبن ماجة“: عن علي أن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قال لا تفقع أصابعک وأنت في الصلاة۔ (ص: ۶۸/ ابواب المساجد والجماعت، باب مایکرہ في الصلاة)

مافي ”المصنف لإبن ابی شیبة“: عن شعبة مولی ابن عباس قال: صلیت إلی جنب ابن عباس ففقعت أصابعی فلما قضی الصلاة قال: لا أم لک، اتفقع أصابعک وأنت في الصلاة۔ (۵/۱۰۱/ کتاب الصلاة، باب تفرقع الید في الصلاة، رقم الحدیث: ۷۳۵۸)

مافي ”رد المحتار“: قولہ: (وفرقعہ الأصابع) ہو غمزہا و مدہا حتی تصوت…قولہ: (للنہی) ہو مارواہ ابن ماجہ مرفوعاً: ”تفرقع أصابعک وأنت تصلی“ وروی في المجتبی حدیثاً ”أنہ نہی أن یفرقع الرجل أصابعہ وہو جالس في المسجد ینتظر الصلاة“ وفي روایة ”وہو یمشي إلیہا“…ونقل في المعراج الإجماع علی کراہة الفرقعة والتشبیک فی الصلاة وینبغي أن تکون تحریمیة للنہی للنہی المذکور، حلیة وبحر قولہ: (ولا یکرہ خارجہا لحاجة) المراد بخارجہا مالیس من توابعہا، لأن السعی إلیہا والجلوس في المسجد لأجلہا في حکمہا کما مر…واراد بالحاجة نحو إراحة الأصابع، فلو لدون حاجة بل علی سبیل العبث کرہ تنزیہًا۔ (۲/۴۰۹/ کتاب الصلاة، باب ما یفسد الصلاة ومایکرہ فیہا، مطلب: إذا تردد الحکم بین سنة وبدعة الخ)

(البحر الرائق: ۲/۳۵/۳۶/ کتاب الصلاة، باب مایفسد الصلاة وما یکرہ فیہا)

(تبیین الحقائق شرح کنز الدقائق:۱/۴۰۶/ کتاب الصلاة، باب ما یفسد الصلاة وما یکرہ فیہا)

(فتاوی دارالعلوم زکریا جنوبی افریقہ: ۸/۴۷۵)

کورونا وائرس کے خاتمہ کے لیے قنوت نازلہ پڑھنا

مسئلہ:    بعض لوگ یہ سوال کرتے ہیں کہ موجودہ ”کورونا “کی وبائی صورتِ حال میں قنوت ِنازلہ پڑھنا کیسا ہے؟

            جواباً عرض ہے کہ شامی و دیگر کتب فقہ وفتاوی میں طاعون وغیرہ کے موقع پر قنوت نازلہ پڑھنے کی اجازت مذکور ہے۔ لہٰذا موجودہ ”کرونا“ کی وبائی صورت میں قنوت نازلہ پڑھی جاسکتی ہے۔ واضح رہے کہ صرف قنوت نازلہ پر اکتفا نہ کریں، بل کہ اپنے اپنے گھروں میں تلاوت قرآن، درود شریف اور آیت کریمہ:﴿لَا اِلٰہَ اِلَّا اَنْتَ سُبْحَانَکَ اِنِّیْ کُنْتُ مِنَ الظَّالِمِیْنَ﴾کے وِرد کا خاص اہتمام کرتے ہوئے اللہ رب العزت کے سامنے گریہ وزاری کریں۔اور تمام دنیا سے اس وبا کے ختم ہونے کی خاص طور پر دعا کریں۔

والجحة علی ما قلنا

(۱) مافي” اعلاء السنن“: القنوت في الفجر لا یشرع لمطلق الحرب عندنا، وإنما یشرع لبلیة شدیدة تبلغ بہا القلوب الحناجر، واللہ أعلم ، ولو لا ذلک للزم الصحابة القائلین بالقنوت للنازلة أن یقنتوا أبدا ولا یترکوہ یوما لعدم خلو المسلمین عن نازلة ما غالباً لا سیما في زمن الخلفاء الأربعة۔ اھ قلت: وہذا ہو الذي یحصل بہ الجمع بین الأحادیث المختلفة في الباب۔(۶/۱۱۶/ ابواب الوتر، تتمة فی بقیة أحکام قنوت النازلة)

مافي ”رد المحتار“: قولہ: (إلا لنازلة) قال في الصحاح: النازلة: الشدیدة من شدائد الدہر، ولا شک أن الطاعون من أشد النوازل، أشباہ…وقال الحافظ ابو جعفر الطحاوی: انما لا یقنت عندنا في صلاة الفجر من غیر بلیة، فان وقعت بلیة فلا بأس بہ فعلہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم۔ (۲/۴۴۸ﷺ ۴۴۹/ کتاب الصلاة، باب الوتر والنوافل، مطلب في القنوت للنازلة)

(۲) مافي ”مشکوة المصابیح“: عن سعد رضی اللہ عنہ قال قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم: دعوة ذی النون إذ دعا ربہ وہو فی بطن الحوت ﴿لَا اِلٰہَ اِلَّا اَنْتَ سُبْحَانَکَ اِنِّیْ کُنْتُ مِنَ الظَّالِمِیْنَ﴾لم یدع بہا رجل مسلم في شیء إلا استحباب لہ رواہ احمد والترمذي۔ (ص:          کتاب الدعوات، باب اسماء اللہ تعالیٰ، قبیل الفصل الثالث) (آن لائن فتاوی دارالعلوم دیوبند، رقم الفتوی: ۶۰۴۹۲۶)

کورونا وائرس میں جمعہ کی نماز کا حکم

مسئلہ:    کورونا کی اس دوسری لہر کے موقع پر جب کہ حکومت بھیڑ بھاڑ سے منع کررہی ہے، بعض لوگ جمعہ کے سلسلے میں راہنمائی طلب کررہے ہیں، تو جواباً عرض ہے کہ مسلمانوں کو مقامی انتظامیہ کی ہدایات کا لحاظ رکھنا چاہیے(۱) اور کسی جگہ کچھ لوگ مسجد میں جمعہ کی نماز نہ ادا کرسکیں تو وہ مسجد کے علاوہ کسی دوسری مناسب جگہ جیسے ہال یا بیٹھک وغیرہ میں شرائط جمعہ کی رعایت کے ساتھ جمعہ ادا کریں۔ یعنی امام کے علاوہ کم از کم تین بالغ مرد مقتدی ہوں۔(۲) اور کسی نمازی کو قانونی پابندی کے علاوہ کسی اور وجہ سے جمعہ میں شرکت سے منع نہ کیا جائے۔ اور اگر خدا نخواستہ کسی کے لیے جمعہ کی کوئی صورت نہ بن سکے تو وہ ظہر کی نماز ادا کرے۔

والحجة علی ما قلنا

(۱)مافي ”فیض القدیر“: طاعة الامام حق علی المرء المسلم مالم یأمر بمعصیة اللہ۔ (۷/۳۸۵۴/ رقم الحدیث: ۵۲۴۶)

مافي ”تکملة فتح الملہم“: إن المسلم یجب علیہ أن یطیع أمیرہ في الأمور المباحة۔ (۳/۳۲۳/ کتاب الامارة، باب وجوب طاعة الأمراء في غیر معصیة وتحریمہا في المعصیة)

(الدر المختار مع الشامیة: ۶/۴۱۶/ کتاب الجہاد، باب البغاة ، مطلب في وجوب طاعة الامام)

(الموسوعة الفقہیة: ۲۸/۳۲۳/ طاعة، طاعة أولی الأمر)

(۲) مافي ”أحکام القرآن للجصاص“: واختلفوا في عدد من تصح بہ الجمعة من المأمومین، فقال أبوحنیفة وزفر ومحمد واللیث: ”ثلاثة سوی الامام“ وروی عن أبی یوسف ”اثنان سوی الإمام“ وبہ قال الثوری…وأیضاً الثلاثة جمع صحیح فہي کالأربعین لاتفافہما في کونہما جمعاً صحیحاً، و مادون الثلاثة مختلف في کونہ جمعاً صحیحاً، فوجب الاقتصار علی الثلاثة وإسقاط اعتبار مازاد۔ (۳/۵۹۹/ سورة الجمعة، باب وجوب خطبة الجمعة)

مافي ”تنویر الأبصار مع الدر المختار“: والسادس الجماعة وأقلہا ثلاثة رجال سوی الإمام بالنص لأنہ لا بد من الذاکر وہو الخطیب وثلاثة سواء بنص فاسعوا إلی ذکر اللہ۔ (۳/۲۴/ کتاب الصلاة، باب الجمعة، مطلب في قول الخطیب: قال اللہ تعالیٰ الخ)

(الفتاوی التاتار خانیة: ۱/۵۳۸/ کتاب الصلاة، الفصل الخامس والعشرون، النوع الثاني في بیان شرائط الجمعة الخ)۔ (آن لائن فتاوی دار العلوم دیوبند)

بحا لت ِروزہ کورونا وائرس ٹیسٹ

مسئلہ:    کورونا وائرس ٹیسٹ میں ناک کے اندرونی حصہ کی رطوبت اور حلق کی دیوار پر لگی ہوئی رطوبت لینے کے لیے ناک اور حلق میں جو پلاسٹک کی اِسٹک ڈالی جاتی ہے، اس میں یا اس کے کنارے پر لگی ہوئی روئی میں کسی طرح کی کوئی دوا یا کیمیکل نہیں ہوتااور یہ اِسٹک صرف ایک بار ڈال کر اور اندر گھماکر واپس نکال لی جاتی ہے ، دوربارہ نہیں ڈالی جاتی، یعنی ناک یا حلق کی رطوبت لینے میں حلق یا دماغ میں کوئی دوا یا کیمیکل نہیں جاتا، بل کہ سادی اور خشک روئی میں ناک اور حلق کی رطوبت لی جاتی ہے اور اسے مشین کے ذریعہ چیک کیا جاتا ہے۔ لہٰذا روزہ کی حالت میں کورونا وائرس ٹیسٹ کے لیے ناک یا حلق کی رطوبت دینا جائز ہے، اس سے روزہ نہیں ٹوٹے گا۔

الحجة علی ما قلنا

مافي ”سنن الکبریٰ للبیہقي“: عن ابن عباس أنہ ذکرعندہ الوضوء من الطعام…إنما الفطر مما دخل ولیس مما خرج۔ (۴/۴۳۵/ کتاب الصیام، باب الإفطار بالطعام)

مافي ”بدائع الصنائع“: لأن فساد الصوم متعلق بالدخول شرعاً، قال النبي صلی اللہ علیہ وسلم: ”الفطر مما یدخل والوضوء مما یخرج۔“ علق کل جنس الفطر بکل ما یدخل، ولو حصل لا بالدخول لم یکن کل جنس الفطر معلقاً بکل ما یدخل، لأن الفطر الذي یحصل بما خرج لا یکون ذلک الفطر حاصلاً بما یدخل۔ (۲/۶۰۴/ کتاب الصوم، فصل أرکان الصیام، ط:بیروت،D.K.I)

وفیہ أیضاً: لأن الحجامة لیست إلا اخرجا شیء من الدم۔ والفطر مما یدخل والوضوء مما یخرج۔ کذا قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم- (۲/۶۴۱/ کتاب الصوم، فصل فیما یستحب للصائم وما یکرہ)

مافي ”المبسوط للسرخسي“: ولنا الحدیث الحدیث الذي روینا الفطر مما یدخل و بنیتہ ما وصل شئ إلی باطنہ۔ (۳/۹۴/ کتاب الصوم، ط: D.K.I بیروت)

مافي ”رد المحتار“: المفطر إنما ہو الداخل من المنافذ۔ (۳/۳۶۷/ کتاب الصوم، باب ما یفسد الصوم وما لا یفسد، مطلب: یکرہ السہر اذا خاف فوت الصبح، ط: D.K.I بیروت)

مافي ” الدر المختار مع رد المحتار“: وکذا لو ابتلع خشبہ أو خیطاً ولو فیہ لقمة مربوطة إلا أن ینفصل منہا شئ ، ومفادہ أن استقرار الداخل في الجوف شرط للفساد، بدائع (در مختار)

قال الشامي رحمہ اللہ تعالیٰ: قولہ: (وکذا لو ابتلع خشبة أی عوداً من خشب إن غاب في حلقہ أفطر وإلا فلا، قولہ: (مفادہ) أی مفاد ما ذکر متناً وشرحاً، وہو أن ما دخل في الجوف إن غاب فیہ فسد، وہو المراد بالإستقرار وإن لم یغب بل بقي طرف منہ في الخارج أو کان متصلاً بشئ خارج لا یفسد لعدم استقرارہ۔ (۳/۳۶۹/ کتاب الصوم، باب ما یفسد الصوم ومالا یفسد، مطلب یکرہ السہر اذا خاف الخ)

(آن لائن فتاوی دارالعلوم دیوبند: رقم الفتوی: ۱۷۸۵۵۸)

جمع بین الصلاتین کا حکم

مسئلہ:    احناف کے نزدیک دو فرض نمازیں ایک ساتھ ایک وقت میں پڑھنا جسے جمع بین الصلاتین حقیقی کہتے ہیں۔ صرف حجاج کرام کے لیے حسبِ شرائط وتفصیلات، عرفہ اور مزدلفہ میں مشروع ہے۔ باقی کسی اور کے لیے کہیں بھی جمع بین الصلاتین حقیقی جائز نہیں۔ البتہ عذر کے موقع پر جمع صوری کرسکتے ہیں۔ یعنی ایک نماز اس کے آخری وقت میں اور دوسری نماز اس کے اوّلِ وقت میں پڑھی جائے۔ اور جن احادیث سے جمع بین الصلاتین کی اجازت معلوم ہوتی ہے، احناف کے نزدیک اُن سب احادیث میں جمع سے جمع صوری ہی مراد ہے، جمع حقیقی مراد نہیں ہے۔ اس لیے موجودہ کورونا بیماری کی وبائی صورت ِ حال میں بوقتِ ضرورت جمع ِصوری کی جاسکتی ہے۔جمع حقیقی کی اجازت نہیں ہوگی۔

الحجة علی ما قلنا

مافي ” التنویر مع الدر والرد“: (ولا جمع بین فرضین في وقت بعذر) سفر ومطر خلافاً للشافعي، وما رواہ محمول علی الجمع فعلاً، لا وقتاً(فان جمع فسد لو قدم ) الفرض علی وقتہ (وحرم لو عکس) أی أخرجہ عنہ (وإن صح) بطریق القضاء (إلا لحاج بعرفة ومزدلفة)۔

قال الشامي رحمہ اللہ تعالیٰ: وقال أبوداوٴد: لیس في تقدیم الوقت حدیث قائم وقد انکرت عائشة رضی اللہ تعالیٰ عنہا علی من یقول بالجمع في وقت واحد، وفي الصحیحین عن ابن مسعود: ”والذي لا إلہ غیرہ ماصلی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم صلاة قط إلا لوقتہا إلا صلاتین جَمعَ بین الظہر والعصر بعرفة۔ وبین المغرب والعشاء بجمع،“ ویکفي في ذلک النصوص الواردة بتعیین الأوقات من الآیات والاخبار، وتمام ذلک في المطولات کالزیلعي وشرح المنیة۔ (۲/۴۵/۴۶/، کتاب الصلاة، قبیل باب الأذان)

مافي ”بذل المجہود في حل سنن أبي داوٴد“: والحاصل أن النص القرآني القطعي حاکم بعدم جواز الجمع الحقیقي بین الصلاتین، لأنہ اخراج الصلاة عن وقتہا المقدم، فلا یعارض ہذا الحکم إلا بمثلہ، فخراج بہذا الجمع بین عرفات والمزدلفة، فان ثبوتہ بلغ حد التواتر علی أنہ من مناسک الحج بالإجماع، لأنہ أجمعت الأمة علی ہذا الجمع في المواضعین۔

…وأما الاحادیث التي فیہا ذکر الجمع فمختلفة، واکثر الروایات في الجمع وردت في السفر، وبعضہا یوہم جمع التقدیم، واکثرہا في جمع التاخیر، وأما جمع التقدیم فغیر ثابت…وأما جمع التاخیر فمحتمل للجمع الحقیقي والجمع الصوري، فاذا حمل علی الجمع الحقیقي یعارض الآیة القطعیة والاحادیث الظنیة…وأما إذا حمل علی الجمع الصوري فلا یخالفہ شیء من الأحادیث ، فالحمل علیہ أولیٰ لموافقة الکتاب والأحادیث التي فیہا ذکر الجمع في الحضر، فہذا الجمع محمول علی الجمع الصوري قطعاً۔ (۵/۳۵۴، کتاب الصلاة، باب الجمع بین الصلاتین، رقم الباب: ۲۷۵)

( معارف السنن: ۲/۱۶۱/۱۶۲/ باب ماجاء في الجمع بین الصلاتین)-(بدائع الصنائع: ۱/۵۸۰ تا ۵۸۲/کتاب الصلاة، فصل في بیان شرائط الأرکان)-(البحر الرائق: ۱/۴۴۱/ کتاب الصلاة، قبیل باب الأذان)- (فتاوی دارالعلوم دیوبند: آن لائن: رقم الفتوی:۱۷۸۵۳۰)