تین سالہ دراساتِ دینیہ کورس ضرورت اہمیت اور نصاب و نظام

 

            (دو ہفتہ قبل ہماریضلع نندربار کے مرکز مسجد کے ذمہ دار بندہ کے پاس آئے اور درخواست رکھی کہ مختصر دورانیہ پر مشتمل کوئی کورس جامعہ سے تیار ہونا چاہیے۔ اس لیے کہ ہمارے یہاں تعلیم یافتہ نوجوان دین سیکھنا چاہتے ہیں۔تو میں نے کہا ٹھیک ہے، میں اس پر کچھ تیاری کرتا ہوں۔ اس لیے بندہ کے ذہن میں بھی کافی مدت سے اس سلسلہ میں خیال بار بار آرہا ہے اور حضرت تھانوی نے دراسات دینیہ کے نام سے ان کے لیے تین سالہ نصاب بھی تجویز کیا ہے۔میں نے اسے دیکھا ہے اب دوبارہ حالات کے اعتبار سے میں اسے مرتب کرتا ہوں۔پھر مجھے یاد آیا کہ مولانا عمران عیسی صاحب دامت برکاتہم نے اس پر کچھ لکھا ہے میں نے اسے تلاش کیا تو اسے دوسال کا پایہ اب اسی کو سامنے رکھ بندہ نے تیسرے سال کے نصاب کا اضافہ کیا اسے پڑھنے کے بعد ان شاء اللہ پنجم میں داخلہ ہوسکتا ہے۔ اگر کوئی مکمل عالم بننا چاہے اور امتحان پاس کرلے،البتہ اس کورس میں داخلہ کے لیے اردو زبان کو روانی سے پڑھنا آنا ضروری ہے۔ ساتھ ہی مکمل قرآن کریم کی ناظرہ تلاوت ضروری ہے اگر اردو اور ناظرہ نہ آتا ہوتو مزید ایک سال اضافہ ہوگا، جس میں اردو اشاعتی قاعدہ اردو زبان کی پہلی دوسری سے پانچویں تک اسلام کیا ہے؟ مکمل ناظرہ قرآن۔                                                                           (حذیفہ وستانوی)

            اللہ تعالیٰ نے اخیر زمانے کی انسانیت کی دنیا و آخرت کی فلاح و کام یابی کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ اپنے احکام و شریعت اُتاری۔ ان احکام میں سے سب پر عمل ہر کسی کے لیے ہر وقت ضروری نہیں، بل کہ بعض احکام تو سب کے لیے ضروری ہیں، جن کو دین کی اصطلاح میں فرض و واجب سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ اور بعض اس سے کم درجے کے احکام ہیں، پھر بعض کی بجا آوری کے لیے کچھ شرائط وتفصیل ہے۔ قرآن و حدیث کے بیان کردہ احکام کی اس درجہ بندی اور تفصیل کو ”علمِ شریعت“ کہتے ہیں۔ ظاہر ہے پوری اُمت اس تفصیلی ”علمِ شریعت“ کو حاصل کرے، یہ فطرت کے خلاف تھا۔جیسے قرآن کریم میں جہاد کے بارے میں اسی طرح کی بات ارشاد فرمائی:

            ”اور مسلمانوں کو یہ نہ چاہیے کہ سب کے سب نکل کھڑے ہوں۔ سو ایسا کیوں نہ کیا جاوے کہ ان کی ہر بڑی جماعت میں سے چھوٹی جماعت جایا کرے تاکہ باقی ماندہ لوگ دین کی سمجھ بوجھ حاصل کرتے رہیں اور تاکہ یہ لوگ اپنی قوم کو جب کہ وہ ان کے پاس آویں ڈراویں، تاکہ وہ احتیاط رکھیں۔“(التوبة:۲۲۱)

            چناں چہ بر صغیر میں علمائے کرام نے اپنی ذمہ داری نبھاتے ہوئے معیاری دینی مدارس قائم کیے، جن میں دینی علوم اس تفصیل سے پڑھائے جاتے ہیں کہ ان سے پڑھ کر نکلنے والا دیگر لوگوں کے لیے راہبر و راہنما بن سکتا ہے۔ مسلمان بچوں کی بنیادی اسلامی تعلیم کے لیے مکاتب کا سلسلہ قائم کیا گیا، جس میں بچوں اور بچیوں کو کلمہ، نماز، دعا اور قرآن کریم پڑھنا سکھایا جاتا ہے۔

            اس کے علاوہ دعوت و تبلیغ کی محنت، درسِ قرآن، اصلاحی بیانات کے ذریعہ عوام میں دینی شعور اُجاگر کرنے کی کوشش بھی جاری ہے۔

            پھر عام مسلمانوں کو البتہ ”طلب العلم فریضة علی کل مسلم“ فرما کر پابند کیا گیا کہ ہر مسلمان کے ذمے کم از کم اتنا علم حاصل کرنا ضروری ہے،جس میں وہ فی الحال مشغول ہے۔مثلاً: مسلمان نماز پڑھے گا تو اس کو نماز کے مسائل کا جاننا ضروری ہے۔ رمضان آئے گا تو روزے سے متعلق پتا ہونا چاہیے۔ مالدار زکاة نکالے تو اس کی مقدار و مصرف کی آگاہی ہونی چاہیے۔ نیز جب یہ شادی کرے گا تو بیوی کے حقوق کا پتا ہونا چاہیے۔ پھر اپنی معاش کے لیے وہ جس پیشے سے بھی تعلق رکھے گا، اس سے متعلق دین کی تعلیمات کا پتا ہونا چاہیے۔ (ماخوذ از: مظاہرِ حق)

            سیرتِ صحابہ کے مطالعہ سے اندازہ یہ ہوتا ہے کہ عام صحابہ کے طلبِ علم کی شکل بالعموم یہی ہوا کرتی تھی۔ بلاشبہ ان میں تفصیلی علم حاصل کرنے والے حضرات بھی تھے، جیسے حضرت ابو ہریرہ اور اصحابِ صفہ اور جیسے مثلاً حضرت معاذ بن جبل کے بارے میں یہ فرمانِ رسالت کہ ”اعلمہم بالحلال والحرام“۔

            مگر عمومی صورت وہاں یہی تھی کہ جو جس عمر میں مشرف بہ اسلام ہوا، اس کو یا تو دربارِ نبوت سے اس کی طرف متوجہ کیا گیا یا اس نے خود اپنی تشنگی ظاہر کی۔

            طلبِ علم کے جو فضائل ہم عموماً سنتے بل کہ بیان کرتے ہیں، وہ بھی بسا اوقات انہی نو مسلم/ عمر رسیدہ حضرات کے حاضر ہونے پر بیان کیے گئے۔ اسی لیے امام بخاری نے صحیح بخاری کے ”کتاب العلم“ میں ”باب العلم قبل القول و العمل“ کے ذیل میں یہ تعلیق لگائی:”ویقال الربانی الذی یربی الناس بصغار العلم قبل کبارہ۔“۔ ”صغار العلم“ سے مبادیات اور ”کبار العلم“ سے تفصیلی جزئیات مراد ہیں۔ (فتح الباری) گویا عالمِ ربانی کا ایک کام یہ بھی ہے کہ عوام کو دین کی ضروریات ومبادیات سکھائے۔

            نیز امام بخاری ہی نے ایک باب قائم کیا:”باب التناوب فی العلم“ کہ کیسے صحابہ اپنے مشاغل کے ساتھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مجلس میں باری باری استفادے کے لیے جایا کرتے تھے۔ اسی کے ذیل میں حضرت عمر اور ایک انصاری صحابی کی جوڑی کا ذکر ہے کہ ایک دن حضرت عمر  حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی مجلس میں آتے اور وہ انصاری صحابی اپنے کھیت و باغ کے ساتھ حضرت عمر کے باغ کی دیکھ بھال کرلیتے اور دوسرے روز اُن انصاری صحابی کی باری مسجدِ نبوی حاضر ہونے کی ہوتی تو حضرت عمر  اس انصاری صحابی کے اُمور کو دیکھ لیا کرتے۔ وہ جو مشہور فضیلت بیان کی جاتی ہے کہ طالب علم کے لیے فرشتے پر بچھاتے ہیں اور ان کا تانتا آسمان تک بندھ جاتا ہے۔یہ خوش خبری بھی اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت صفوان بن عسّال مرادی سے ارشاد فرمائی، جب انہوں نے عرض کیا کہ: ”میں آپ سے علم حاصل کرنے آیا ہوں۔“

(دیکھیے: الترغیب والترہیب، کتاب العلم، بحوالہ مسند احمد، طبرانی و ابن حبان، وغیرہ)

            اس سے واضح قصہ، حضرت قبیصہ بن مُخارق کا ہے جو”حیاة الصحابہ “میں مسند احمد کے حوالے سے ذکر ہے۔جس کا حاصل یہ ہے کہ حضرت قبیصہ فرماتے ہیں کہ: میں حاضرِ خدمت ہوا، مجھ سے آنے کی وجہ پوچھی تو میں نے عرض کیا: میری عمر زیادہ ہوگئی ہے اور ہڈیاں جواب دے گئی ہیں(مگر) میں اس لیے حاضر ہوا ہوں کہ آپ مجھے کوئی ایسی بات تعلیم دے دیں جو مجھے فائدہ پہنچائے۔ اس پر اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے نصیحت تو فرمائی ہی، مگر اس سے پہلے فرمایا: ”اس نیت کے ساتھ آنے کی وجہ سے تم جس درخت، پتھر یا ڈھیلے کے پاس سے گزرے، اس نے تمہارے لیے استغفار کیا۔“ یہ حضرت قبیصہ کوئی دین کا تفصیلی علم حاصل کرنے نہیں آئے تھے، جیسے کہ پوری روایت سے معلوم ہوتا ہے۔مگر طلبِ علم کی فضیلت کا مستحق اُن کو بھی قرار دے کر حوصلہ افزائی فرمائی۔ (دیکھیے: حیاة الصحابة، الباب الثالث عشر، رغبة الصحابة فی العلم و ترغیبہم بہ)

            الغرض تمام صحابہ اپنی ضرورت کا بنیادی علم تو لازمی حاصل کرتے تھے، اس لیے ہمارے مدارس کے اکابر کی چاہت رہی کہ درسِ نظامی کے ساتھ عام مسلمانوں کے لیے بھی کوئی نصاب تجویز کیا جائے، تاکہ ہر مسلمان اپنے حصے کا علم حاصل کرکے اس پر عمل کرنے والا بنے، چناں چہ محدث العصر علامہ محمد یوسف بنوری  ایک مضمون میں لکھتے ہیں:

            ”اس ضمن میں میری ایک خواہش یہ ہے کہ ہمارے مرکزی مدارس میں جہاں علمی نصاب وعلمی تحقیقات کے لیے کوشش ہو، اس کے ساتھ ایک ایسا مختصر نصاب ان حضرات کے لیے مقرر کیا جائے جو انگریزی تعلیم سے بقدرِ ضرورت فراغت پا چکے ہیں۔ وہ مدرس عالم بننا نہیں چاہتے، بل کہ صرف اپنی دینی ضرورت کے پیشِ نظر قرآن و حدیث و اسلامی علوم سے واقفیت حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ اس کے لیے زیادہ سے زیادہ ایک سہ سالہ نصاب مقرر کیا جائے، جس میں بقدرِ ضرورت صرف ونحو، قرآن وحدیث، فقہ وعقائد اور ادب و تاریخ تک علوم شامل ہوں، ان کو پڑھ کر عربی زبان میں بولنے اور لکھنے کی قدرت کے ساتھ اپنی ضرورت کو پورا کرسکیں اور جہاں تک میری معلومات کا تعلق ہے وقت کے اہم تقاضوں میں سے ایک تقاضا یہ بھی ہے اور بہت سے قلوب میں یہ تڑپ موجود ہے۔ جہاں اس کا یہ فائدہ ہوگا کہ ایک انگریزی گریجویٹ عالم دین بن سکے، اس کا ایک اہم فائدہ یہ بھی ہوگا کہ دینی ودنیوی تعلیم میں جو خلیج حائل ہے اور فریقین ایک دوسرے سے مسلک وخیال میں دو نقطوں پر الگ الگ ہیں، ان میں اجتماع کی خوشگوار صورت پیدا ہوگی اور ایک دوسرے سے قریب تر ہوجائیں گے اور خیالی ووہمی بدگمانیوں میں جو ہر فریق مبتلا ہے، یہ اختلاف بھی ختم ہوجائے گا۔“

             (دینی مدارس کی ضرورت وجدید تقاضوں کے مطابق نصاب ونظامِ تعلیم، جمع وترتیب: مولانا محمد انور بدخشانی)

دراساتِ دینیہ کا نصاب:

            اس کا نصاب حسبِ ذیل ہے:

دراساتِ دینیہ سالِ اول:

            1- ترجمہ وتفسیر: (سورہٴ یونس تا عنکبوت) از معارف القرآن الکریم مفتی شفیع

            2- حدیث: اردو ترجمہ الادب المفرد للامام البخاری، معارف الحدیث (ج:۲-۳-۴)

            3- فقہ: تعلیم الاسلام مولانا مسیح اللہ خان صاحب(مکمل ۵ حصے)، بہشتی زیور (ج:۲-۳-۴)

            4- صرف ونحو: علم الصرف(ج:۱-۲)، علم النحو

            5- لغة عربیہ: دروس اللغة العربیة (ج:۱ /)، قصص النبیین(ج:۱-۲)

            6- سیرت: سیرتِ خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم (مفتی محمد شفیع )

            7 – حدر: حدر آخری پارہ عم مع حفظ۔

کتب برائے مطالعہ دراسات سالِ اول:

            ۱- اسوہٴ رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور نمازِ مدلل

            ۲- تفسیر میں گمراہی کے اسباب از علوم القرآن مفتی محمد تقی عثمانی۔

دراساتِ دینیہ سالِ دوم:

            1- ترجمہ وتفسیر: سورہٴ فاتحہ تا سورہٴ روم از اشرف التفاسیر

            2- حدیث: معارف الحدیث (ج:۱-۵-۶-۷)

            3- فقہ: بہشتی زیور (ج:۵-۶-۷)

            4- لغہ عربیہ: دروس اللغة العربیة (ج:/)، قصص النبیین(ج:۳-۴)

            5- صرف ونحو: علم الصرف (ج:۳-۴)، ہدایة النحو

            6- عقائد: حیات المسلمین (اردو)متن عقیدة الطحاویة (عربی)

             7- اصول فقہ: اصول دین حضرت مولانا داکٹر عبدالاحد

             8- منطق و فلسفہ،اصطلاحات فلسفہ:اس میں حکمت وفلسفہ قدیم و جدید کی اصطلاحات کا تعارف ذکر کیا جائے گا۔

 دراساتِ دینیہ سالِ سوم:

             1- ترجمہ وتفسیر: سورہٴ عنکبوت تا ختم قرآن از بیان القرآن تھانوی۔

            2- حدیث: مختصر ریاض الصالحین۔

            3- فقہ: نورالایضاح و کتاب البیوع از مختصر القدوری۔

            4- اصول فقہ:اصول الشاشی۔

            5- لغہ عربیہ: معلم الإنشاء(1-2) قصص النبیین(ج:)

            5- صرف ونحو: علم الصیغة (ج:۳-۴)، ہدایة النحو۔

            6- عقائد: الانتباہات المفیدة للاشتباہات الجدیدة حضرت تھانوی مع حاشیہ حکیم فخر الإسلام (اردو) تصفیة العقائد حضرت نانوتوی ۔

             7- منطق و فلسفہ: آسان منطق مولانا سعید پالنپوری، الحاد جدید تعارف و رد۔

کتب برائے مطالعہ دراسات سالِ سوم:

            ۱- اختلاف امت و صراط مستقیم مولانا یوسف لدھیانوی:”الشفا“ حضرت تھانوی۔

            ۲- ”تفسیر بیان القرآن کامطالعہ“ از شاہراہ علم

دراسات دینیہ کورس کے نصاب کے تین بنیادی فائدے ہیں:

            ایک تو یہ کہ علما و عوام میں خلیج کو قُربت سے بدلنا۔ ورنہ ایک دوسرے سے دوری کی وجہ سے بعض مرتبہ بظاہر دین دار حضرات کو بھی علما اور مدارس کے بارے میں بدگمانیاں اور غلط فہمیوں میں مبتلا پایا گیا اس طرح کے کورس سے عوام کے سامنے اپنے علماکی خدمات آتی ہیں۔

            دوسرا اہم فائدہ یہ ہوتا ہے کہ ایمان و نظریات کے لحاظ سے یہ مسلمان پختہ ہو جاتا ہے۔ ورنہ فتنوں اور دین میں شک پیدا کرنے کے اس ماحول میں اچھے خاصے مسلمان کے نظریات بھی ڈگمگا جاتے ہیں۔ (عمل کا فائدہ بھی بلا شبہ ہوتا ہے اور ان کی زندگی بھی بدلنے لگتی ہے، مگر اس کا ذکر اس لیے نمایاں نہیں کیا کہ یہ فائدہ تو بفضلہ تعالیٰ دعوت و تبلیغ کی محنت سے بھی پیدا ہورہا ہے)

            تیسرا فائدہ یہ ہے کہ یہ طبقہ، تجارت و ملازمت یا اپنی معاشی مصروفیت کی وجہ سے براہِ راست عملی زندگی و دنیا سے وابستہ ہے۔ ایسے احباب کے دین و علمِ دین کی طرف آنے سے اُمید ہے کہ مختصر عرصے میں دین کے آثارِ طیبہ ان کے متعلقہ شعبوں میں نظر آنے لگیں گے۔ واضح بات ہے ہماری ساری دینی محنتوں کا آخری ہدف تو احیائے دین ہی ہے اور اس کے احیاء کی صورت اسی وقت ممکن ہوگی جب تمام شعبوں سے وابستہ مسلمان دھیرے دھیرے دین و علم دین کے طرف متوجہ ہوں، ورنہ خود ہمارے لیے بھی پورے دین پر چلنا مشکل ہے۔

اس وقت دو باتوں کی ضرورت معلوم ہو رہی ہے:

۱:-پہلی بات

            شہروں کی تمام مساجد میں دراسات دینیہ کورس کو پڑھانے کا انتظام کیا جائے اور اس پر پوری توجہ کے ساتھ کام کیا جائے۔

توجہ سے کام کرنے کی مرادیہ ہے کہ:

            الف:…. ان کے اسباق جیّد اساتذہ اور عوام کی نفسیات سمجھنے والے علما کے حوالے کیے جائیں۔ اس کی آسان صورت ان اساتذہ کا چناوٴ ہے جو کسی محلے کی مسجد میں امام بھی ہوں۔ گویا مبتدی مدرس کے بجائے تجربہ کار اساتذہ اس شعبہ میں غالب ہوں۔

            ب:…. اصلاحی بیانات و تربیت کی ضرورت تو درسِ نظامی کے طلبہ کو بھی ہے، مگر ان کی طویل اور کل وقتی مجالست کا قدرے فائدہ بالآخر ہو ہی جاتا ہے، جب کہ دراساتِ دینیہ کورس ہے بھی دو سالہ اور وقت بھی بہت محدود ہے، اس لیے کسی بزرگ عالم سے ماہ وار ایک بیان کرا لیا جائے تو یہ طبقہ اس کا اثر بہت جلدی لیتا ہے۔

            ج:…. تالیفِ قلب و دل جوئی کے لیے ان کے لیے گاہے گاہے (حسبِ حیثیت و ماحول) اکرام کی ترتیب بنائی جائے۔کیوں کہ درسِ نظامی کے طلبہ بھی اولیٰ/ ثانیہ کے سالوں میں شیطان کے بہکاوے میں آ جاتے ہیں۔یہ طبقہ تو بطور خاص، مثلاًصرف و نحو کو مشکل سمجھ کر ابتدائی مہینوں میں ہی حوصلہ ہار جاتا ہے اور ذہن یہ ہوتا ہے کہ کورس تو اچھا ہے، مگر میرے بس کا نہیں۔ ایسے میں ان کو سنبھالنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ دیکھا یہ گیا کہ اس طبقہ کے لوگ اگر ایک سہ ماہی مدرسہ کے شفقت و دلجوئی کے ماحول میں گزار لیں تو وہ چل پڑتے ہیں۔

۲:-دوسری بات:

            ہر مسجد کا امام اور قرب و جوار کے نوجوان اور جدید فضلا مشن بنا کر اپنے اہلِ محلہ کو تیار کرکے اپنے یہاں اس کورس کی شروعات کریں۔ یہ محلے والوں کا ہم پر حق بھی ہے اور اس کورس سے ہمارے نوجوان فضلا کو ایک علمی و تدریسی مشغولیت بھی مل جائے گی۔ ورنہ بہت سے فضلا تدریس کے لیے سرگرداں نظر آتے ہیں۔

اختتامی بات:

             خطبا و ائمہ مساجد اپنے جمعہ کے بیان کو اس کا موضوع بنائیں اور انفرادی طور پر نمازیوں کو اس کی طرف راغب کریں۔محلے میں مناسب جگہوں پر پینا فلیکس اشتہار آویزاں کیے جائیں۔

            غرض مشن بنا کر اس پر توجہ کی جائے گی تو ایک مناسب جماعت اس کے لیے تیار ہو سکتی ہے۔ بڑی تعداد کے جمع ہونے کی نہ فکر کی جائے اور نہ انتظار؛بل کہ شاید عام مساجد کے لیے تھوڑی تعداد ہی کو قابو کرنا آسان ہو، اس لیے ہمت فرمائیں اور آگے بڑھیں۔ ایک مرتبہ یہ سلسلہ چل پڑا تو اس طبقہ کو آپ حقیقی اور سچا ”طالب“پائیں گے اور پھر یہ طبقہ خود آپ کو چلائے گا۔

            اللہ تعالیٰ ہمیں اُمت کے ہر طبقہ پر محنت کا جذبہ وفکر عطا فرمائے۔

وصلی اللہ وسلم علٰی سیدنا محمد وآلہ وصحبہ اجمعین