ریاض احمد اشاعتی
خادم:مدرسہ مرکزِ اسلامی سلیمیہ سلوڑ ضلع اورنگ آباد مہاراشٹر
کل نفس ذائقة الموت!یہ قدرت کا کتنا اٹل اصول ہے اور اسی اصول وضابطے کے تحت ہزاروں لوگ دنیا سے روزانہ رخصت ہوتے ہیں،لیکن کچھ لوگوں کا رخصت ہونا اک دنیا کو متأثر کرتاہے ۱۲/پریل بروزاتوار صبح ۹/بجے کے قریب یہ خبر صاعقہ بن کرہمارے اوپر گری کہ جامعہ اسلامیہ اشاعت العلوم اکل کوا کے استاذِ تفسیرو حدیث حضرت مولانا عبدالرحیم صاحب فلاحی اللہ کو پیارے ہوگئے ہیں۔سن کر تو یقین ہی نہیں ہوا، دل نے کہا کہ نہیں نہیں ایسا کیسے ہوسکتا ہے!یہ صاحب کوئی اور ہو ں گے !ہمارے حضرت نہیں ہوسکتے!لیکن اس خبر کو اک مرتبہ پھر غور سے پڑھا تو ایسا محسوس ہوا کہ کسی نے زوردار جھٹکا دیا ہو،نہ چاہتے ہوئے بھی یقین کرنا پڑا کہ حادثہٴ نامرضیہ واقع ہوچکا ہے اورہمارے حضرت ہم سے بہت دور ہمیں بنا بتائے آخرت کے سفر پر روانہ ہوچکے ہیں۔
اگلے ہی لمحے زبان پر انا للہ واناالیہ راجعون جاری تھا۔کلمات استرجاع ابھی مکمل بھی نہ ہوئے تھے کہ اپنی بے بسی،حسرت ویاس اورناامیدی کاادراک ہوا کہ ہائے یہ ”لاک ڈاؤن“اور بندش!میں سوچنے لگا کہ اگر یہ بندش نہ ہوتی، تو کسی نہ کسی طرح وہاں پہنچ جاتا، جہاں ہمارے روحانی باپ اور محبوب استاذ ہیں اوران کاآخری دیدار کرکے اپنے دل کو جھوٹی تسلی دے لیتا،لیکن حضرت ہی کی زبانِ مبارک سے یہ شعر بارہا سنا تھا کہ
میری نمازِ جنازہ تو پڑھی غیروں نے
مرے تھے جن کے لیے وہ رہے وضو کرتے
لیکن میں بہت ہی معذرت کے ساتھ حضرت کی روحِ مبارکہ سے یہ کہنا چاہتا ہوں کہ حضرت ہم اتنے بدقسمت ہے کہ ہمیں وضو کرنے کی توفیق تو کیا ملتی ہمیں آپ کے جنازے کو کندھا دیکر آپ کی آخری خدمت کرنے کاموقع تک میسر نہ آسکا۔
بہر حال یہی خدا کی مرضی تھی اور اسی پر ہمیں صابر وشاکررہنا ہے باقی رہنے والی ذات صرف اللہ کی ہے،اس کے سواسب کو فنا ہونا ہے۔
بس نام رہے گا اللہ کا:
جہاں تک مجھے یاد ہے حضرت کو میں نے سب سے پہلے (مادر علمی)جامعہ اسلامیہ اشاعت العلوم اکل کوا ہی میں دیکھا۔میں شعبہٴ دینیات کا طالبِ علم تھااورموقع تھا سالانہ امتحان کے بعد انعامی جلسے کا،جو مسجدِ سلیمانی میں بعد نمازِ جمعہ کے منعقد ہوا چاہتاتھاکہ ہمارے دینیات کے صدرِ محترم قاری سلیمان صاحب دامت برکاتہم نے اعلان فرمایا کہ آج ہمارے درمیان مولانا عبدالرحیم صاحب فلاحی تشریف لائے ہیں ،وہ جمعہ کاخطبہ دیں گے اور نماز بھی وہی پڑھائیں گے اور نماز کے بعد ہمارا جلسہ ہوگا۔ اعلان کیاختم ہوا ہزاروں نگاہیں اس طرف اٹھ گئی، جس طرف سے حضرت مسجد میں داخل ہورہے تھے۔بس وہ دن تھااورآج کی گھڑی وہ نورانی شکل وصورت اور وہ نامِ مبارک دل ودماغ میں ہمیشہ ہمیش کے لیے رچ بس گیا۔
اس کے بعد مادرِ علمی ہی میں ایک طویل مدت تک حضرت کو میں نے بہت قریب ونزدیک سے دیکھا اور سنا،بے شک آپ بڑی خوبیوں کے مالک اورایک زندہ دل انسان تھے۔ آپ بیک وقت مفسر، محدث، مصنف، مؤلف،مقرراور ناظم ومنتظم سب کچھ تھے۔آپ ایک کامیاب استاذِ تفسیروحدیث ہونے کے ساتھ ساتھ ایک کامیاب مربی بھی تھے۔اندازِ تربیت بڑا ہی نرالہ تھا،دوران ِتربیت طالب علم کی عزتِ نفس کاخیال کرتے ہوئے انتہائی شیریں زبان میں اشارات و کنایات کے ذریعے نصیحت فرماکر اصلاح کازیور پہنادیتے ۔ سمجھنے والا سمجھ بھی جاتااور اس کی عزت بھی رہ جاتی۔بڑے ہی مزاج شناس،طلبہ کے مزاج کو پہچان کران کے مزاج کے موافق ان سے کام لیتے۔ طلبہ کی خوابیدہ صلاحیتوں کواجاگر کرنے کے لیے نت نئے پروگرام ترتیب دیتے،کسی کو کہتے کہ مولانا آپ فلاں فلاں حدیث پر کام کیجیے،کسی کو کہتے کہ آپ فلاں فلاں آیت کے تفسیری نکات نوٹ کرکے لائیے۔کسی کو کہتے کہ مولانا آپ فلاں موضوع پرمضمون لکھ کر لائیے، اگر طلبہ دیے ہوئے کام کو وقت پر مکمل کرکے لے آتے تو انھیں انعامات سے نوازتے۔ شعروشاعری کابڑا ستھرا ذوق تھا،دورانِ درس کبھی شعروشاعری کا سہارا لیتے تو کبھی علمی لطائف سے درسگاہ کو زعفران زار کیے رکھتے۔
آپ ایک شیریں زباں مقرروخطیب اور زبردست ناظمِ جلسہ تھے۔مجمع کو جب چاہا رلادیااورجب چاہا ہنسادیا۔ جامعہ کاسالانہ جلسہ اس کا جیتاجاگتا ثبوت ہے،جامعہ کا کونساایسا جلسہ یاپروگرام ہوگا، جو حضرت کی نظامت یا خطابت کے بغیرمکمل ہواہو،یا پھرصوبائی مسابقے ہوں یاکل ھند مسابقے کی پے در پے اور تھکا دینے والی نشستیں،وہ ساری کی ساری حضرت ہی کی نگرانی میں مکمل ہوتی تھی اور اس سلسلے میں آپ کواپنی ذمہ داری کا بخوبی احساس رہتا۔ کل ہند مسابقات کے درمیان ہمیں بارہا دیکھنے کوملا، آپ رات بارہ ایک بجے تک کسی فرع میں تشریف فرمارہے اورعلی الصبح نمازِ فجر کے فوراً بعد آپ دوسری فرع کاآغاز فرماچکے ہیں،جب کہ ہم ابھی چائے ناشتے سے بھی فارغ نہیں ہوپاتے۔ حضرت کی برابر یہ فکر رہتی کہ طلبہ بھی ان پروگرام کو اچھی طرح سے دیکھیں اور سیکھیں اور جب وہ میدانِ عمل میں اُترے تووہ ان امور کو اچھی طرح سے برت سکیں۔
ماضی قریب کے کچھ سالوں سے حضرت کایہ معمول بن گیاتھا کہ سال کے اخیر میں طلبہ کے درمیان جو تقریری مسابقات ہوتے ،اس کی ساری کارروائیاں انجام دینے کی ذمہ داری طلبہ کے سپرد فرماتے اوروقتاً فوقتاً طلبہ کی تیاریوں کاجائزہ لیتے۔ اگر کہیں پر کچھ خامی نظرآتی تو فوراً اصلاح فرمادیتے، پھر ایک دن فرمانے لگے کہ ان سب سے آپ کو پریشان کرنامقصود نہیں ہے،بل کہ ان محنتوں کے ذریعہ میرے بیس سے پچیس بچے بھی اگر تیار ہوجاتے ہیں تو میری محنت کامیاب ہے۔ اس موقع پر جامعہ کے سابق استاذمولانا عبدالرحیم بیڑ کاوہ مشہور شعر مجھے خوب یاد آرہاہے، جو انھوں نے استاذ الاساتذہ حضرت مولاناذوالفقار احمد صاحب نروری کے وصال پر کہاتھا کہ
زاہد مقامِ شکر ہے رنج والم کے ساتھ
کتنوں کو اپنے جیسا بناکر چلے گئے
غریب اور ضرورت مند طلبہ کی ہمیشہ اس طرح خبر گیری فرماتے کہ ان طلبہ کی عزتِ نفس کو ٹھیس تک نہ لگنے دیتے اور ان کاکام کرجاتے ،ایسے طلبہ کو ہمیشہ ہدایااور تحفے تحائف سے نوازتے،بڑے ہی مدبراور بالغ النظر شخصیت کے حامل تھے۔ ایک مرتبہ ششماہی کی تعطیلات ہوئی،میں ملاقات کے لیے خدمتِ اقدس میں پہنچا،آپ دورہٴ حدیث کی درسگاہ میں تشریف فرماتھے،بڑی محبت اور تپاک سے ملے اوردیرتک شفقت سے گفتگو فرماتے رہے،جب میں واپس ہونے لگاتو کچھ سوروپئے میری جیب میں ڈالنے لگے،میں نے لینے سے انکار کیا تو ایک بڑاپیارا جملہ فرمایا (جس کو میں نقل نہیں کرسکتا) اور فرمایاکہ”بیٹا“رکھ لے کام آئیں گے۔
سردیوں کے موسم میں حضرت کی یہ عادت ہمیشہ رہی کہ اپنے گھر سے کپڑوں کی اک گٹھری کسی طالب علم کے ذریعہ بھیجتے،جس میں گرم کپڑے ہوتے تھے جب آپ درسگاہ میں تشریف لاتے تواپنے دستِ مبارک سے ان کپڑوں کو طلبہ میں تقسیم فرماتے۔ اور نام لے لے کر فرماتے مولانا…صاحب آپ یہ سوئٹر پہنیے۔مولانا…… آپ یہ شال اوڑھیے.مولانا…….آپ یہ رومال اوڑھیے آپ کارومال بہت پتلا ہے۔ حضرت کاعطاکردہ ایک رومال میرے پاس بھی تھا، جس کو میں نے فراغت کے بعد کئی سالوں تک استعمال کیا۔
میری زندگی کامقصد،ہرایک کو فیض پہنچے
میں چراغِ رہِ گزر ہوں،مجھے شوق سے جلائے
اب کہاں ملے گے ایسے پاکیزہ صفات,اور مشفق ومہربان لوگ جو طالبانِ علومِ نبوت کے ساتھ اپنی سگی اولادوں ساسلوک کرتے.جو طلبہ کے درد کواپنادرداوران کی تکلیفوں کواپنی تکلیف سمجھتیاور ان کے سکھ دکھ میں برابر کے شریک رہتے.اقبال کایہ شعر میرے دل کی صحیح عکاسی کرتاہے کہ
آئے عشاق,گئے وعدہٴ فردالیکر
اب انھیں ڈھونڈ,چراغِ رُخِ زیبا لیکر
جس سال ہماری فراغت ہوئی.اورسالانہ جلسے کاموقع آیا،تواُس زمانے میں اک رواج تھا کہ فارغ ہونے والے طلبہ جلسے میں شرکت کے لیے اپنے عزیزوں,اوررشتے داروں کو مدعوکرتے۔سو ہمارے بھی عزیزواقارب آئیاورجلسے میں شرکت کی۔جب دستارِ فضیلت سر پر بندھ چکی اورسندِ فضیلت تفویض ہوگئی، توجلسے کے اختتام پرمیں حضرت سے الوداعی ملاقات کے لیے پہونچا۔ملاقات کے لیے فارغین طلبہ کی اک لمبی لائن لگی ہوئی تھی میں نے میرے عزیزوں سے کہا کہ آپ لوگ یہیں ٹھہریے میں ابھی ملاقات کرلیتاہوں ۔یہ کہ کر میں لائن میں لگ گیااورمیرے عزیز مسجد ہی کے کسی حصے میں کھڑے ہوکر ملاقات کایہ جزباتی منظر دیکھنے لگے۔اور میں اپنی باری کاانتظار کرنے لگا،طلبہ یکے بعد دیگرے ملاقات کرتے رہے اور چلتے رہے،لیکن مجھ سے پہلے جوطالبِ علم تھاوہ انتہائی ذھین اور ہوشیاراور بہت ہی باادب اورصوفی مزاج،اسکی ملاقات کانمبرآیاتو وہ حضرت کے قدموں میں گرپڑااورانتہائی لجاجت اورخوشامد کے ساتھ عرض کرنے لگا کہ حضرت مجھے معاف فرمادیجیے…حضرت مجھے معاف فرمادیجے.…میری وجہ سے آپ کو بہت تکلیف پہونچی ہے۔حضرت نے اس کو اٹھا کر گلے سے لگالیااوردیرتک سینے سے لگائے رکھا؛حال یہ تھا کہ سسکیاں آہوں میں تبدیل ہوچکی تھیں…یہ منظر دیکھ کر ہم شاگردوں کی بھی چیخیں نکل گئیں اورتو اورمسجد میں جو بہت سارے مہمان اور ہمارے عزیز کھڑے تھے وہ بھی آبدیدہ ہوگئے۔ حضرت نے اس کو دیرتک سینے سے چمٹائے رکھا اور خوب تسلیاں دیں.اسی جزباتی کیفیت میں میری بھی ملاقات کانمبر آگیا،میں دل ہی میں اپنے آپ کو مخاطب کرکے کہنے لگا کہ یہ تو بے چارہ صوفی آدمی تھا لیکن تو تو اس سے زیادہ نالائقاور بدتمیزتھا.اوراچانک مجھے اپنی وہ ساری غلطیاں اور لغزشیں یاد آگئیں، جو میری اپنی بیوقوفی کی وجہ سے سرزد ہوئی تھیں اور جس کی وجہ سے حضرت کو بہت تکلیفیں پہونچی تھیں.میں حضرت کے گلے لگاتوآنسوں تھے کہ تھمنے کا نام نہیں لے رہے تھے،ویسے بھی یہ الوداعی ملاقات تھی۔حضرت نے دیرتک سینے سے لگایا اورخوب تسلیاں دیں۔یقین مانیے!اُس معانقے کی ٹھنڈک آج بھی میں اپنے سینے میں محسوس کررہاہوں۔
میرے رشتے دار جو میرے انتظار میں کھڑے تھے اس جزباتی منظر کو دیکھ کر اُن میں سے بہت سارے آبدیدہ ہوگئے تھے.اور وہ یہ سوچ رہے تھے کہ شاگردوں کا اپنے ایک استاذ کے ساتھ اتنا گہرا رشتہ اورتعلق کیسے ہوسکتا ہے۔اب اُنھیں کون بتائے کہ ایک استاذاور شاگرد کے رشتے میں کتناتقدس،کتناادب،اورکتنی پاکیزگی پنہاں ہوتی ہے.اُنھیں کون بتائے کہ یہ نبوی علوم کی نسبت کااثر ہے کہ جہاں استاذ کو سگے باپ کے برابر یااس سے زیادہ وقعت وعزت دی جاتی ہے۔اُنھیں کون بتائے کہ ایک شاگرد کے دل میں اپنے استاذ،اپنی مادرِ علمی اوراس مادرِ علمی کے اربابِ حل وعقد کا کیامقام اور مرتبہ ہوتاہے۔
دوعالم سے کرتی ہے بیگانہ دل کو
عجب چیزہے لذتِ آشنائی
حضرت سے آخری ملاقات مولانااکرم صاحب امراوتی کی شادی میں ہوئی تھیاور وہی آخری ملاقات ٹھہری،کسے پتہ تھا کہ یہ نورانی چہرہ آج کے بعد پھردیکھنانصیب نہیں ہوگا۔اورملاقات وزیارت سب جنت کے لیے اُٹھ رہیں گے.
خدارحمت کند ایں عاشقانِ پاک طینت را
مفتی ریحان سلمہ(حضرت کے بڑے فرزند) میرے حفظ کلاس کے ساتھی ہیں ،میں ان سے یہ کہ کر تعزیتِ مسنونہ پیش کرتاہوں کہ ہم تمام ہی وابستگان جامعہ آپ کے اور آپ کے اہلِ خانہ کے غم میں برابر شریک ہیں۔دعا ہے کہ اللہ پاک حضرتِ مرحوم کی بال بال مغفرت فرمائیں.اللہ آپ کی تمام خدماتِ جلیلہ وجمیلہ کو قبول فرماکر ان کو رفعِ درجات کا سبب بنائے ۔پسماندگان کو صبرِ جمیل عطا فرماکر جامعہ کو آپ کا نعم البدل عطا فرمائے۔ آمین۔ بحرمة سیدالمرسلین صلی اللہ علیہ وسلم.