عمار لمباڈا
شہر بھٹکل سے تقریباً چالیس کلومیٹر کی دوری پر بالکل لبِ سمندر ”نوائط“ برادری کی ایک چھوٹی سی بستی ہے،جس کا نام ہے گنگولی۔یہیں کے مولانا عبد السبحان ناخدا صاحب ہیں اورضیاء العلوم رائے بریلی میں تدریسی خدمات انجام دے رہے ہیں۔ بڑے قابل وفائق ہیں اور قرآنیات پر اچھی نظر ہے۔ اس بستی میں ایک چھوٹا سا مدرسہ ہے” مدرسہ مصباح العلوم“جس میں عربی پنجم تک تعلیم ہوتی ہے ۔ 2013 میں عاجز اسی مدرسے میں تدریسی خدمت سے جڑا ہوا تھا، ششماہی کی تعطیلات میں کچھ طلبا اور ایک مدرس کے ہمراہ وطن گجرات آنا تھا۔
اس سفر میں ہم لوگوں نے جامعہ فلاح دارین اور جامعہ اکل کوا کی خصوصی زیارت کی۔ ایک دن صبح 9 بجے کی بس سے اکل کوا کے لیے نکلے اور دوپہر بارہ بجے وہاں پہنچ گئے۔ یہ زندگی کا پہلا موقع تھا ،جب ہم نے اشاعت العلوم اکل کوا کی آنکھوں کو خیرہ کردینے والی عمارتیں اور دلوں کو سرور پہنچانے والا ماحول دیکھا۔ یہ پہلا ہی موقع تھا، جب مجھے پہلی مرتبہ مولانا عبدالرحیم صاحب (جن کو اب مرحوم لکھنا پڑ رہا ہے) کی زیارت کا شرف ملا۔ نام پہلے سے سن رکھا تھا اور کام کا شہرہ بھی خوب سنا تھا۔ آج دیدار بھی نصیب ہوئے، انتہائی نرم خو، شیریں زبان، میانہ قد،سادہ لباس اورسفید پوش۔باتوں میں بے تکلفی اور کئی خوبیاں یکجا دیکھنے میں آئی۔
اب تقریباً تین مہینے گزر چکے تھے،جامعہ اسلامیہ بھٹکل میں عربی اور اردو تقریر کا مسابقہ ہونے والا تھا۔ میں اپنی کلاس میں بیٹھا ایک دوست؛ شاگرد مولوی عبدالسبحان کو عربی تقریر کی تیاری کروا رہا تھا کہ اچانک فون کی گھنٹی بجی،ہمارے پھوپھی زاد بھائی، مولانا وستانوی# کے داماد مولوی محمد علی بیلم بول رہے تھے۔
علیک سلیک کے بعد فرمانے لگے کہ آئندہ کل مولانا عبدالرحیم صاحب جامعہ اکل کوا اور جامعہ ہانسوٹ کے کچھ طلبا کو لے کر بھٹکل مسابقہ کے لیے تشریف لا رہے ہیں،آپ ان سے ضرور ملیے گا۔
دوسرے روزہم بعد نماز مغرب پروگرام میں شریک ہو گئے۔ عصر کے بعد مولانا کے متعلق دریافت کیا تو معلوم ہوا کہ مولانا؛مولانا عبدالعزیز ندوی بھٹکلی (نائب مہتمم ندوة العلماء) کے ساتھ سمندر کی سیر کو گئے ہوئے ہیں؛بہر حال پروگرام ختم ہوا تو مولانا سے ملنے مہمان خانہ گئے۔ ہمیں دیکھتے ہی مولانا کھڑے ہوگئے اور انتہائی تپاک سے ملے۔ تھوڑی ہی دیر میں اتنے سوال کیے کہ علاقے کے حالات،مدرسوں کی علمی سرگرمیاں، علاقے کا جغرافیہ، میرے اس علاقے سے تعلقات، یہاں کے قیام میں خوشی ناخوشی، یہاں کے لوگوں کی طبیعت سب کچھ جان لیا۔ باتوں ہی باتوں میں ہم سے یہ معلوم بھی کرلیا کہ ہمیں اس وقت کسی چیز کی ضرورت ہے یا نہیں؟ اس انداز سے معلوم کیا کہ ہمیں اس کا احساس بہت بعد میں ہوا ۔(یعنی انسان کی خودداری کو بھی آنچ نہ آئے اور ضرورت بھی پوری ہو جائے).میں نے انہیں ہمارے مدرسہ مصباح العلوم تشریف لانے کی دعوت دی تو انہوں نے اس معاملہ کو وقت کی فراوانی اور فرصت کے حوالے کردیا۔
پھر تقریباً ایک سال بعد میرا تقرر جامعہ ابو ہریرہ بدنا پور اورنگ آباد میں ہوا ۔چوں کہ یہ جامعہ اکل کوا کی اہم شاخ ہے، اس کے ذمہ دار بھی مولانا وستانوی کے داماد ہیں۔ مولانا عبدالرحیم صاحب کا یہاں سال میں ایک دو بار تو ضرور آنا ہوتا۔
ایک مرتبہ تعلیمی سرگرمیوں کا جائزہ لیتے ہوئے انہیں معلوم ہوا کہ اس عاجز نے مدرسے میں دارالمطالعہ کا نظام شروع کیا ہے تو انتہائی فرحت اور مسرت کا اظہار کیا اور ڈھیر ساری دعاؤں سے نوازا۔ اور ساتھ ہی اپنی طرف سے کتابیں بھیجنے کا وعدہ کیا۔ کچھ ہی عرصہ بعد ناظم مدرسہ مولانا محمد علی صاحب کا اکل کوا جانا ہوا تو تین بکس بھر کر کتابیں دارالمطالعہ کے لیے بھیجیں اور عاجز کے لیے خصوصا ًتین چار کتابیں ارسال کیں۔ان میں سے ایک کتاب ”مشائخ احمد آباد“از مولانا اسماعیل متالا پڑھنے کی تاکید کے ساتھ ارسال کی تھی ۔یہ کتاب 1994 کی مطبوعہ ہے اور میرے پاس ابھی بھی ان کی یاد کے طور پر محفوظ ہے۔میں نے مولانا کی نصیحت پر عمل کرتے ہوئے کتاب اسی وقت پڑھ ڈالی تھی۔
مولانا انتہائی علمی ذوق رکھنے والے فعال شخصیت کے حامل تھے۔خوردوں کی حوصلہ افزائی ان کا خاص وطیرہ تھا، بے تکلفی ان کے وجود کا حصہ تھا، سادگی ان سے پھوٹتی تھی اوراردو زبان انتہائی فصیح بولتے۔ انداز ایسا کہ زبان سے پھول جھڑتے۔پروگراموں میں اناؤنسری اس خوبی سے کرتے کہ لوگ ہمہ تن گوش رہتے، سستی اورکاہلی محفل سے قریب تک نہ پھٹکتی۔
اللہ انہیں غریق رحمت کرے،آج ان کی جدائی پر بہت دکھ ہے۔