تصفیة العقائد کا مطالعہ(الامام محمد قاسم نانوتویکی تصنیف)

قسط:۱

از:مولانا حکیم فخرالاسلام مظاہری#

             یہ ایک حیرت انگیز حقیقت ہے کہ ایک ایسا شخص جس نے علم کلام و جدال کے باب میں دینی نتیجہ حاصل نہ ہونے والے بے نتیجہ مباحثوں کے متعلق اپنی اُفتادِ طبع یہ ذکر کی کہ:”بحث و مباحثہ اپنا شیوہ نہیں،خواہ مخواہ کسی کی بات میں دخل دینے کی عادت نہیں۔“جو ”اپنے عمدہ مشاغل چھوڑ کر اِس نفسا نفسی میں“پھنسوں۔ جس کا کہنا ہے کہ”میں نے بھی ٹھان رکھا ہے کہ ایسے جھگڑے میں پڑ کر اپنے اوقات خراب نہ کیجیے۔“جس نے حالات کو بہ نظرِ غائر دیکھا تھااوروقفہ وقفہ سے الگ الگ مکتوب الیہ کو اپنے اِس قسم کے بصیرت افروز تجزیے لکھ بھیجے تھے کہ:

            خود رائی کی”یہاں تک نوبت پہنچی کہ ترجمہ کرنے والے؛بلکہ ترجمہ پڑھنے والے اپنی فہم کے پیرو ہوئے۔مولانا صاحب!یہ نوبت پہنچی،تو ایسے وقت اِستفتا اور فتوی کس مرض کی دوا ہے بجز اِس کے(کہ) اِختلافِ سابق میں اور شاخ نکل آئے۔اب دہریہ اور جہنیہ جدا جدا ہو گئے۔ہر کوئی اپنے وضع کی سنتا ہے۔مولویوں کی بات اگر سنتے ہیں،تو اِس کان سے آئی،دوسرے کان سے نکل گئی۔ایسے وقت میں اِس حدیث:”إِذَا رَأَیْتَ ہَوًی مُتَّبَعًا وَشُحًّا مُطَاعًا وَدُنْیَا مُوْثَرَةً وَإِعْجَابَ کُلِّ ذِیْ رَأْیٍ بِرَأْیِہ فَعَلَیْکَ بِخَاصَّةِ نَفْسِکَ وَدَعْ أَمْرَ الْعَوَام۔ِ“أَوْ کَمَا قَالَ۔(۱)

             ”اِس زمانہ میں مستحسن یہی ہے کہ کتنی ہی بڑی زبان کیوں نہ ہو؛ پر اپنے منھ میں لیے بیٹھے رہنا چاہیے۔کیوں کہ جوسامان خیر خواہی کے موٴثر ہونے کے ہیں، وہ یک لخت مفقود ہوجاتے ہیں اور جو سامان الٹے تعصب کے ہیں، ایسے اوقات میں سب فراہم نظر آتے ہیں۔اِس صورت میں موافقِ فرمودہٴ مومن #

عرضِ ایمان سے ضد اُس غارت گرِ دین کو ٹھہری

تجھ سے اے مومن خدا سمجھے یہ تو نے کیا کیا

(۱) مولانا نورالحسن راشد:مقالات حجة الاسلام جلد ۱۳ ص۱۶۔جب تم یہ دیکھو کہ خواہش کی پیروی کی جارہی ہے اور بخل کی اطاعت کی جارہی ہے اور دنیا کو (آخرت پر) ترجیح دی جارہی ہے اور ہر شخص اپنی رائے پر نازاں ہے تو تم صرف اپنا خیال رکھواور لوگوں کے معاملے کے پیچھے نہ پڑو۔(ترمذی: المجلد الثانی من سورة المائدة:ناشر:بنگلہ اسلامک اکیڈمی دیوبند)

( ایسے اوقات میں جب کہ سامانِ تعصب موجود ہوں، تردید و مباحثہ سے)اُلٹا ترقی ِباطل کا کھٹکا ہوتا ہے۔(۲)

             یہی شخص ۱۹ویں صدی عیسوی کے ثلثِ آخرو عصرِ مابعد کے لیے اِمام الاصول،معلم کلام جدیدکی ایک انوکھی اساس پر تدوین کرنے والا،متکلمِ زمانہ اور حجة الاسلام بھی سمجھا گیا اوراُس کے اصول و دلائل اسلام کے دفاع کے نقطہٴ نظر سے معیاراور حجت قرارپائے۔ اِس حجت کو دو بڑے عنوانات کے پہلو سے دیکھا جا سکتا ہے:۱-بہ مقابلہ اہلِ اِلحاد۔ ۲-بہ مقابلہ ملحدوں کے افکار سے متاثرمعتقدانِ فطرت اورمسلمان اہلِ تجدد۔

            حجة الاسلام کی متکلمانہ حیثیت کے حوالے سے واقعات و تصنیفات گواہ ہیں کہ جب کبھی دینِ حق کی حمایت و حمیت کی نوبت آئی(۳)وقت کے اِس امام نے عقل وشرع کے صحیح اصولوں کے ذریعہ ’جدال بالتی ہِیَ اَحْسَنُ‘(۴) کا اسلامی فریضہ بہ خوبی انجام دیا؛بلکہ کہنا چا ہیے کہ دفاعِ اسلام کا حق ادا کیا۔اُس ذاتِ گرامی کا نام محمد قاسم نانوتوی(۱۸۳۳-۱۸۸۰ء)تھا۔

اِس مضمون کی یعنی الامام محمد قاسم نانوتوی کی اُفتادِ طبع اور طریقہ عمل دونوں پہلوٴں کی وضاحت یہ ہے کہ:اپنی اصل اور اِبتدا کے لحاظ سے بحث و کلام کی ضرورت اور علم کلام کا محرک یہ امر تھا کہ اہل باطل نے”قرآن کے معانی کو بدلنا شروع کیا،تو اہلِ حق کو جواب دینے کی ضرورت ہوئی۔“اِسی لیے علم کلام پیدا ہوا اور اِسی لیے حسبِ ضرورت اور بہ وقتِ ضرورت اِلحادی افکار کے اِزالہ کے لیے خود الامام نانوتوی نے”قاسم العلوم“کے نام سے موسوم مکتوبات کے اندر شبہات کے جواب میں”ہیاکل“ و”اِنتزاعیات“ اور”کلی طبعی“کے اصول و کلیات کی بحث چھیڑی۔علاوہ ازیں:

(۲)تصفیة العقائد:تحقیق و تشریح ص۱۴۹،۱۵۰۔مصنف الامام قاسم نانوتوی کا اشارہ اِس طرف ہے،جسے حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانوی نے اِن ملفوظات میں ذکر کیا ہے:”مناظروں اور جوابی رسالوں نے اہل باطل کو بہت فروغ دیا ہے ورنہ اگر بے پروائی برتی جاتی ان کے رد کی جانب کچھ التفات ہی نہ کیا جاتا تو ان کو اتنی اہمیت حاصل نہ ہوتی جتنی اب حاصل ہوگئی ہے․․․․․البتہ اہل باطل کا اثر مٹانے کے لئے حق کی تقریر واشاعت باربار اور جابجا کرنا البتہ نافع ہے۔“اور یہ کہ ”آج کل جواب دینا قاطع اعتراض نہیں ہوتا بلکہ اورزیادہ مطول کلام ہوجاتا ہے(یعنی بات بڑھانا ہوتا ہے) تو وقت بھی ضائع ہوا اور غایت(ومقصد) بھی حاصل نہیں ہوئی۔“(ملفوظات جلد ۲۲ص۱۸۵)

 (۳)اور یہ نوبت بھی بار بارآتی رہی۔

(۴)اِشارہ ہے قرآن کریم کی آیت ﴿جادِلْھُمْ بالتی ہِیَ اَحْسَنُ﴾کی طرف (اور (اگر بحث آن پڑے)تو اُن کے ساتھ اچھے طریقہ سے (کہ جس میں شدت و خشونت نہ ہو)بحث کیجیے )(بیان القرآن)

            #اِلحادی افکار کے ساتھ،الٰہی تثلیث اور تکثیرِ الٰہ کے قضیے نمٹانے کے لیے۱-”گفتگوئے مذہبی“،۲-”مباحثہ شاہ جہاں پور“،۳-”حجة الاسلام“،۴-”اِنتصارالاسلام“،۵-”تحفہٴ لحمیہ،“۶-”قبلہ نما“،۷-”جوابِ ترکی بہ ترکی“،۸-”تقریر دل پذیر“،۹-”آبِ حیات“،۱۰-”الحظ المقسوم من قاسم العلوم“یعنی گفتگو”جزء لا یتجزی“،۱۱-”تخلیقِ کائنات سے پہلے الله کہاں تھا؟از قاسم العلوم:مکتوب دوم“،۱۲-”جمالِ قاسمی“بحث”وحدة الوجود“،۱۳-”تحذیر الناس“،۱۴-”تنویرالنبراس“،”مناظرہٴ عجیبہ“،۱۴-”اسرار الطہارة“وغیرہ تصنیفات کے ذریعہ شعور و اِحساس کے ناخن لے کر فکر و آگہی میں بصیرت پیدا کر نے، عقدوں کو کھولنے اور مغالطُوں کو زائل نے کی دعوت دی۔

            #نیم اِلحادی (یہ حکیم ا لامت حضرت مولانا اشرف علی تھانوی کی اِصطلاح ہے،مغربی اصطلاح میں ڈی ا ِزم یعنی”نئی خدا پرستی“ پر مبنی افکارسے نبرد آزما ہونے کے لیے تواتر،فطرت، معجزات، خوارق کے مباحث زیرِ بحث لائے گئے۔۱-”تصفیة العقائد“،۲-”تصفیة العقائد“کے ہی اخیر میں مندرج زمین و آسمان کے متعلق۱۳ سوالات یعنی سائنسی شبہات کے جوابات،۳-”اسرارِ قرآنی“،۴-”اِنتباہ المومنین“(یہ اگرچہ شیعوں کے رد میں ہے؛لیکن برہانیات کے بعض پہلوٴں کے غلط اِستعمال کا جو تعاقب کیا گیا ہے،وہ عجیب چیز ہے۔ )،۵-”فتوی متعلق دینی تعلیم پر اُجرت“(جس میں عقلی علوم سے بے زاری پر تنبیہ کی گئی ہے)۔

            اِس طرح حضرت نا نوتوی کی ذات میں دونوں وصف جمع ہیں:نفسا نفسی و اسبابِ تعصب سے اِجتناب بھی اور بہ وقتِ ضرورت باطل افاکار کا رد و اِبطال بھی۔موصوف کی اِس جامعیت کا تعارف کراتے ہوئے حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانوی (۱۸۶۳-۱۹۴۳ء)فرماتے ہیں:

            حضرت مولانا محمد قاسم نانوتویبے ضرورت بحث و مباحثہ نہ کرتے تھے۔ہاں، دینی ضرورت پیش آنے پر آپ نے اہلِ باطل سے مناظرہ بھی کیا ہے، شیعوں اور غیر مقلدوں کے رد میں رسالے تصنیف فرمائے ہیں،نیز ”بہ ضرورت اہلِ زیغ سے تحریری گفتگوبھی فرمائی ہے،سرسید کے جواب میں بھی رسالہ تحریر فرمایا ہے“۔

 تصفیة العقائد‘اور اُس کا پس منظر

            اِس وقت رسالہ ’تصفیة العقائد“ہمارے پیشِ نظرہے جوامام محمد قاسم نانوتوی  کے لقبِ حجة الاسلام کے دوسرے پہلو کی نشاندہی کرتا ہے۔

(۱) اور یہی رسالہ اور دوسرا پہلو اِس وقت ہمارے پیشِ نظر ہے۔یہ ایک مکتوب ہے جوپیر جی محمد عارف صاحب (۵)کو لکھا گیاہے جس میں سر سیداحمد خاں (۱۸۱۷-۱۸۹۸ء)نے چند فکری و اعتقادی اصول ذکر کر کے بزرگانِ سہارن پور کی خدمت میں بھیجنے کا ذکر کیا ہے۔(۶)

            پیر جی صاحب چوں کہ دونوں کے مابین فکری نوع کی گفتگو کے لیے پہلے سے کوشاں تھے،اِس لیے اُنہوں نے یہ مکتوب حضرت نانوتوی کی خدمت میں بھیج دیا۔اِدھر یہ مکتوب پہنچا،اُدھر حضرت مولانا محمد یعقوب نانوتوی(۱۸۳۳-۱۸۸۴ء اول صدرالمدرسین دارالعلوم دیوبند)کی ایک تحریربھی اِس امر کی سفارش کے لیے پہنچی کہ سرسیدکے سوالوں کا جواب ضرور دیا جائے۔اپنی اِسی اُفتادِ طبع کے تحت حضرت نے جواب لکھا، جواب کا طرز مروجہ مناظرانہ نہیں؛بلکہ محققانہ ہے؛لیکن اُس وقت کی فضا پر ایک اِجمالی نظر ڈال لینا مناسب ہے:

(۱)حضرت حکیم الامت (۳)حکیم الامت:ملفوظات۔ جلد ۵ ص۱۳۴،۱۳۵۔(۴)اور اول پہلو کی نمائندگی کے لیے:”حجة الاسلام“اور”تقریر دل پذیر“وغیرہ ہیں۔(۵)پیر جی محمد عارف سر سید کے بہت پرانے اورگہرے دوستوں میں سے تھے۔یوپی کے مشہور مردم خیز خطہ انبیٹھہ کے پیر زادگان کے خاندان سے تعلق رکھتے تھے۔اُن کے والد حضرت شاہ ممتاز علی قصبہ کے ممتاز بزرگوں میں سے تھے۔پیر جی نے گورنمنٹ انگریزی کی طویل ملازمت کے بعد ۱۸۹۴ء میں پینشن پائی اور خانہ نشیں ہو گئے۔سالِ وفات معلوم نہ ہو سکا۔(شیخ محمد اسماعیل پانی پتی:مکتوبات سر سید جلد دوم ص۵۶)

(۶)یہاں پر علمائے سہارن پورکے محاورہ میں،مغربی یوپی،دیوبند،انبیٹھہ،تھانہ بھون،نانوتہ،گنگوہ،کاندھلہ،کیرانہ وغیرہ کے اُس وقت کے متعارف علمائے اہلِ حق شا مل ہیں۔در حقیقت حضرت نانوتویکے مقام و مرتبہ کے لیے درج ذیل امور خمسہ پر نظر رہنا مناسب ہے:۱-دار العلوم دیوبند حضرت مولانا محمد قاسم نانوتوی کے مقام و مرتبہ کے تعارف کی ایک علامت ہے۔۲-دوسری علامت اُن سے براہِ راست اِستفادہ کرنے والے تلامذہ ہیں۔۳-تیسری علامت مباحثہ شاہ جہاں پور کی فتح ہے۔۴-چوتھی علامت اُن کی تحریرات و تصنیفات میں مذکور اصول و تحقیقات ہیں۔۵-پانچویں علامت خاص فکری، کلامی،عقلی، اصولی وصف ہے جس کی بنیاد پر وہ دفاعِ حق کے باب میں اہلِ حق علمائے سہارن پور کے نمائندے سمجھے گئے اور اُن کی یہ حیثیت دار العلوم دیوبندکی شہرت سے پہلے؛بلکہ قیام (۱۸۶۶ء) سے بھی پہلے سے مسلم رہی ہے۔لہذا”تصفیة العقائد“ (۱۸۶۷ء) کی اِس مراسلت کو اِسی پانچویں نمبر کے تناظر میں دیکھنا چا ہے۔

            # ۱۸۶۲ء میں سر سید نے مسلمانوں میں مغربی لٹریچر عام کرنے کی غرض سے ”اِلتماس بہ خدمت ساکنانِ ہندوستان در بابِ ترقی تعلیم اہلِ ہند“کے عنوان سے اِشتہار دیااور غازی پور میں سائنٹیفک سوسائٹی قائم کی۔ ۱۸۶۴ء میں غازی پور سے تبدیل ہو کر علی گڑھ آئے اوریہاں سوسائٹی کے لیے بنائی گئی عالی شان عمارت میں ہر مہینے ڈاکٹر کلکلی ایک لکچر نیچرل سائنس پر دینے لگے۔۱۸۶۶ء آتے آتے غازی پور میں ایک مدرسہ ہندوستانی اور تمام ضلع کے حکام کی موجوگی میں قائم کیا اورسائنٹیفک سوسائٹی سے اخبار بھی نکالنا شروع کیا ”جوآخر کو علی گڑھ انسٹیٹیوٹ گزٹ کے نام سے جاری رہا۔“ اِس اخبار میں سرسید کے قلم سے لکھے ہوئے مضامین کثرت سے شائع ہوئے بہ قول حالی ان مضامین کو اگر”ایک جگہ فراہم کیا جائے، توبلا مبالغہ چند ضخیم جلدیں مرتب ہو سکتی ہیں۔“پھر۱۸۶۶ء میں اِسی اخبار میں رسالہ ”احکامِ طعام اہلِ کتاب“ شائع ہوا۔اور بعض نیچری عیسائیوں کی یہ بات سر سید کو پسند آئی کہ مختلف مذاہب میں نقاطِ اتحاد تلاش کیے جائیں اور جب ایک عیسائی عالم کرسٹو فر جبارہ نے کتاب ”وحدة الادیان و وحدة الایمان فی التوراة والانجیل والقرآن“لکھی،تواُس کے تتبع میں سر سید نے متعدد مذاہب میں توفیق و تطبیق کے لیے”تبیین الکلام فی تفسیرالتوراةوالانجیلِ علی ملة الاسلام“ لکھی۔ (۱)اندازہ ہے کہ یہی وہ زمانہ(۱۸۶۷ء) ہے جب سر سید کا مراسلہ بالواسطہ حضرت نانوتوی کی خدمت میں پہنچا۔

            # ۱۸۷۲ء میں سر سید کی جانب سے کمیٹی خواستگارِ تعلیم کے ذریعہ”کمیٹی خزنة البضاعة لتاسیس مدرسةالمسلمین“ تشکیل پائی اور ”مدرسة العلوم“ کے واسطے علمائے وقت کی رائے موافق بنانے کے لیے بنارس سے اِستفتاء کیا گیا، جس میں مجوزہ ”مدرسة العلوم“ کی خدا معلوم کیاخصوصیات ذکر کی گئی تھیں کہ:”جب یہ اِستفتاء شائع ہوا، تو کانپورسے مولوی امداد العلی نے- جو اُس وقت وہاں ڈپٹی کلکٹر تھے- ایک دوسرا استفتاء شائع کیا جس میں بنارس والے استفتاء کو غلط اور دھوکہ دینے والا بتایا تھا۔“(۱)حالی کے قول کے مطابق ”یہ پہلی مخالفت تھی جو مدرسة العلوم کے ساتھ کی گئی۔“(۲)

            #اِس تفصیل سے معلوم ہواکہ ”مدرسة العلوم“(جو بعد میں۱۸۷۵ء میں قائم ہوا)کا نقشہ،اِسکیم، اصول و منشور،سر سید کے خیالات کے مطابق ملتِ مسلمہ کے ذہن کو ساز گار بنانے کی تدابیرپہلے سے جاری تھیں۔(۳)اِس تناظر میں سر سید کولکھی گئی تحریر میں موجودحضرت نانوتوی کایہ اِقتباس جالبِ توجہ ہے:

            ”کارپر دازانِ کارخانہ جات ِرفاہ کو- جن کی درستی ایک عالم کے اجتماع پر موقوف ہو، جیسے مثلاً ”مدرسة العلوم“- لازم ہے کہ ایسی باتوں سے پرہیز کریں(جو)کہ عوام اہلِ اسلام کے تنفر کا باعث ہو، قطعِ نظر حرمت و کراہت ذاتی کے۔(ورنہ)ایسے شخص کو بہت سے محرمات و مکروہات کے استعمال سے ایسی خرابی کا دیکھنا پڑے گا جس کے باعث اپنی امید دیرینہ سے دست برداری اور محرومی کا کھٹکا ہے۔“(۴)

اِس سے دو باتیں معلوم ہوئیں:

            ۱-تحریرِ قاسم مولوی امدادالعلی کی مخالفت سے پہلے کی ہے۔(۵)اورایسی صورت میں اقتباس بالا،نیز کتاب’تصفیة العقائد“، مکمل پڑھنیسے یہ حیرت انگیز حقیقت واشگاف ہوتی ہے کہ سر سید کی نیت پر شبہہ نہ کرنے کے باوجود تحریک، طریقہٴ کار اور اُن کے افکار کے رد واِبطال کاکام سب سے پہلے حضرت نانوتوی کی جانب سے اِسی مراسلتکے ذریعہ سامنے آیا۔

۲- جس طرح مولوی اِمداد العلی کی مخالفت کا منشا عیاں ہوتا ہے،اُسی طرح حضرت نانوتوی کی بصیرت بھی ظاہر ہو جا تی ہے کہ اُنہوں نے تحریک سر سید میں پائی جانے والی جمہورِ اہلِ حق کی مخالفت کے ساتھ عقل وشرع کی مخالفت کومحسوس کیا اور موصوف کے افکارو خیالات کاکھراکھوٹا اُس وقت واضح کیا جب تحریکِ علی گڑھ نے اپنے ارتقا کی جانب سفر شروع کیا تھااور جس کو بعد میں اِستفتائے اِمداد کے نتیجے کے طور پر قوم نے دیکھا۔ایسی صورت میں ”تصفیة العقائد“کے تعارف میں یہ کہناکہ:اِس کتاب میں کہیں بھی تحریک ِسر سید کی مخالفت نہیں ہے،درست نہیں۔

(۱)حیاتِ جاوید:ص ۱۷۲-۱۷۴۔(۲) ۱۳ ربیع الثانی ۱۲۹۰ ھ سے کچھ پہلے(یعنی ۱۸۷۲ء ہی کے آس پاس)،علمائے لدھیانہ سے ایک اِستفتا کیا گیا ہے اور اُس کا جواب دیا گیا ہے۔اِستفتاء اورجواب کا خلاصہ جو اُسی مجموعہ فتوی میں موجود ہے۔

(۳) یہ تحریک کم و بیش۱۸۶۲ء سے جاری تھی،سر سیدکے لندن سے واپسی کے بعد ”علی گڑھ تحریک اپنی مکمل شکل میں ۱۸۷۰ء کے بعد سے نمودار ہوئی۔“ ۱۸۷۵ء میں علی گڑھ میں کالج قائم ہوا جوپہلے ”مدرسة العلوم“ بعد میں”اینگلو اورینٹل کالج“(۱۸۷۷ء) آخر میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی،علی گڑھ (۱۹۲۰ء)ہوا۔(۴) دیکھیے رسالہ ہذاص۱۴۶۔(۵)شیخ محمداسماعیل پانی پتی نے سر سید کے جو خطوط جمع کیے ہیں،اُن میں حضرت نانوتوی  کے نام یہی ایک مکتوب ہے جو پیر جی صاحب کے توسط سے بھیجا گیا ہے،جس کا سن اُنہوں نے۱۸۶۷ء درج کیا ہے،جو اِستفتائے امداد العلی سے پانچ سال قبل کا ہے۔“ (۱)الطاف حسین حالی:حیاتِ جاویدص ۱۳۱۔

(۱)ہاں یہ صحیح ہے کہ اُسلوب میں غلظت و جراحت نہیں ہے؛بلکہ لینت و ہمدردی ہے۔(۲)

             # مسلمان قوم میں عصری تعلیم، انگریزی زبان کا فروغ ایک مباح امر تھا؛مگر سر سید نے دین کے اندر دخل اندازی اورمذہب کی اِصلاحات کا سلسلہ جاری کرکے اپنے اِس عمل کو علی گڑھ تحریک سے جوڑ دیا۔

            #اب یہیں پر یہ بات آتی ہے کہ سر سید کی تحریک اوراُن کے افکارجو ایک دوسرے کے ساتھ لازم ملازم رہے، تواِس حوالہ سے علمائے اہلِ حق کا موقف کیا رہا؟اُن کا جو کچھ موقف سامنے آیا،اُس پربھی ایک اِجمالی نظرڈال لینا مناسب ہے:

تحریک ِسر سیداور علمائے اہلِ حق

            سر سید کی تحریک میں تین باتیں بڑی قوت سے پائی جاتی ہیں:

            الف-نیچری اصول و افکار کی ترویج۔

            ب-اسلام کے عقائد واصول میں رائے زنی و مداخلت۔

             ج-دنیوی ترقی کی راہ میں رکاوٹ بننے والے دینی احکام میں بے جا تاویلات۔

            اِن تینوں امور کے سر انجام دینے کا مفید طریقہ اُن کو یہ محسوس ہوا کہ سب سے پہلے امتِ مسلمہ کے اُس اعتماد کو -جو سلف کے ساتھ قائم ہے- متزلزل کردیا جائے۔اِس کا ذکر اُنہوں نے خود ہی متعدد جگہ کیا ہے۔مثلاً:اپنے ایک مضمون ”الدلیل والبرہان“ کے لکھنے کا مقصد وہ یہ بیان کرتے ہیں کہ:”اِس تحریر سے ہمارا مطلب یہ ہے کہ ہمارے علمائے مقدسین جو ان (جدید)علوم کے مسائل کی نسبت توجہ نہیں کرتے اور اُن کو لغو ومہمل کہہ کر ٹال دیتے ہیں اور بلا تحقیق اِس بات کے کہ دراصل قرآن مجید میں کیا ہے،اپنی سمجھی ہوئی بات کو قرآن مجید کا مطلب قرار دے کر

(۱)جیسا کہ بعض اہل ِ علم نے بے احتیاطی سے لکھ دیا ہے۔

(۲) نیچریت کی خرابی اور قومی ہمدردی کی حمایت کا موقف جداگانہ طور پر، ا بتداء سے ہی اہل حق کے یہاں معروف رہا ہے۔دونوں کو خلط کرکے بیان کرناٹھیک نہیں،جیسا کہ بعض لوگوں نے کیا ہے۔(دیکھیے:سید محمدالحسنی:”رودادِ چمن“ص۱۷۱۔مجلس صحافت و نشریات ۲۰۱۴ء)۔اور سر سید کے درد مند خادم ہونے کے تو سب ہی قائل ہیں،چناں چہ حضرت نانوتوی فرماتے ہیں:درد مندیِ اہلِ اسلام کے دل سے معتقد ہیں۔اور حضرت تھانوی سر سید کو قوم پر فدا بتاتے ہیں۔

             کہہ دیتے ہیں کہ- یہ سب غلط ہے اور قرآن مجیدمیں جو ہے یعنی جو ہم نے یااگلے لوگوں(سلف) نے -جب کہ نیچر ل سائنس کا علم نہ تھا- سمجھا ہے وہ ٹھیک ہے -،گو کہ عقل اُس کو قبول نہ کرتی ہو۔“(۱)

             نیچر ل سائنس کی موافقت کی غرض سے سلف کے اصولوں سے بے اعتمادی کرنے کا کام اُنہوں نے سب سے زیادہ تفسیرمیں کیا اور صاف اعلان کیا کہ:

            ”ہم اِس بات کو تسلیم نہیں کرنے کے کہ ہمارا بیان اس لیے غلط ہے کہ مفسرین نے اِس کے برعکس بیان کیا ہے۔“(۲)

            سلف پر سے اعتماد کو متزلزل کرنے میں اُنہوں نے پہلے چند مقدمات ذکر کیے،پھر

            اُن سے مزعومہ نتائج پیدا کرکے اُنہیں ’فطری‘ بتایااور پھرقرآن کو اُن کے موافق ٹھہرانے پر اصرار کیا، مثال کے طور پروہ کہتے ہیں:”الفطری“:یہ لفظ ہم نے قرآن مجید سے اخذ کیا ہے۔جہاں خدا نے فرمایا ہے ”فطرة الله التی فطر الناس علیہا“

            آیت کی اصل تفسیر کیا ہے،اُس کو یک قلم نظر انداز کر کے اُنہوں نے بغیر کسی دلیل کے یہ فیصلہ کر دیا کہ ”فطرت کا ٹھیک ترجمہ انگریزی میں نیچر ہے“۔اِس طرح سر سید نے نیچرل سائنس اور نیچرل عقل کے ساتھ قرآن کی موافقت دکھانے کی کوشش کی جواقسام مغالطہ میں سے ’تعریف‘اور’اصطلاح‘کا مغالطہ ہے۔اب یہ سمجھنا آسان ہو گیا کہ حضرت نانوتوی نے اِسی روِش پر قدغن لگائی ہے اور اِفتراق کا اعلان فرمایا۔ چناں چہ زیر دست کتاب سے ایک،دومثالیں ذکر کی جاتی ہیں:

            ۱-قرآن مجید کا کوئی حرف”نہ خلافِ حقیقت ہے اور نہ خلافِ واقعہ۔“(سر سید:اصول:۳)

             مولانا محمدقاسم نانوتوی نے فرمایا:اِس میں بھی کچھ شک نہیں کہ اس کلیہ اصول کے لیے کوئی خارجی جزئی واقعہ ”بہ وسیلہٴ عقل دریافت کرلینا ہم سے ہیچ مدانوں کا تو کیا حوصلہ،جناب سید صاحب اور مولوی مہدی علی خاں صاحب کا بھی کام نہیں“۔

             ۲-قرآن مجید کی جس قدر آیات،ہم کو بہ ظاہر خلافِ حقیقت یا خلافِ واقع معلوم ہوتی ہیں،اُن آیات کا مطلب سمجھنے میں محدثین ومفسرین نے غلطی کی۔ (سرسید:اصول۴)

(۱)محمد اسمٰعیل پانی پتی:مقالات سرسید:ج۲،ص۲۱۰۔(۲)ا یضاً حصہ سوم۔

            حضرت نے فرمایاتخالف و توافق کے سمجھنے کے لیے تین علموں کی ضرورت ہے:۱- علمِ یقینی معانیِ قرآنی۔۲- علم یقینی معانیِ قولِ مخالف۔ ۳-: علم یقینی اختلاف۔

             حضرت نانوتوی نے یہ رہنما اصول ذکر تو کیے لیکن سر سیدکا ذہن انہیں قبو ل کرنے سے اِ با ء کرتا رہا،وہ قرآن اور حدیث سے روشنی حاصل کرنے کا ذکرتو کرتے ہیں؛لیکن ادلہٴ شرعیہ کے متعلق اُن کاعمومی مزاج یہ ہے کہ اُنہوں نے قرآن کو حجت مانا؛مگر دلالت میں کلام کیا،حدیث کو حجت مانا؛لیکن ثبوت میں کلام کیا۔اور اِن دونوں موقعوں پر اصل معیار قانونِ فطرت کو ٹھہرایا۔ اِجماع کو حجت ہی نہیں مانااور قیاس شرعی کی جگہ رائے کا اِختراع کیا۔ جن کی طرف اشارہ مصنفِ ”تصفیة العقائد“ کے اِن فقروں سے ہوتا ہے:

            ”سید صاحب کی ہاں میں ہاں ملانا ہم سے جب ہی متصور ہے کہ سید صاحب اپنے اُن اقوالِ مشہورہ سے رجوع کریں جو اُن کی نسبت ہر کوئی گاتا پھرتاہے اور سید صاحب اُن پر اِصرار کیے جاتے ہیں اور رجوع نہیں فرماتے۔“

             یہ صحیح ہے کہ سر سید کی نیت پر حضرت نانوتوی کو شبہہ نہ تھا،وہ ”سنی سنائی سید صاحب کی اولو العزمی اور درد مندیِ اہل اسلام“ کے ”معتقد“اور”اُن کی نسبت اظہارِ محبت“کو بجا کہتے تھے۔ اِس کے با وصفطریقہٴ کار اور عقائددونوں کی خرابی پر اِظہارِرنج کیا:”مگر اِتنا یا اِس سے زیادہ اُن کے فساد ِعقائد کو سن سن کر اُن کا شاکی اور اُن کی طرف سے رنجیدہ خاطر ہوں۔…“اورآخر میں صاف مایوسی کا اعلان فرمادیا کہ:

             ”اِس تحریر کو دیکھ کر دل سردہوگیا۔یہ یقین ہوگیا کہ کوئی کچھ کہو وہ اپنی وہی کہے جائیں گے۔ اُن کے اندازِ تحریر سے یہ بات نمایاں ہے کہ وہ اپنے خیالات کو ایسا سمجھتے ہیں کہ کبھی غلط نہ کہیں گے۔“

             اور بتایا کہ”ایسے لوگوں کو(جو تعلیم واِجتہاد کا درجہ نہیں رکھتے)… اوروں کا اتباع ضرور(ی)ہے۔ عالم(مجتہد) بن بیٹھنا اور لوگوں کی پیشوائی(کرنا)جائز نہیں۔آپ بھی گمراہ ہوں گے، اوروں کو بھی گمراہ کریں گے۔پیشوایانِ فرقہائے باطلہ سب اِسی مرتبہ ( اتباع و تقلید)کے لوگ تھے( اجتہاد کے اہل نہیں تھے)، جنہوں نے بہ وجہِ اولو العزمی، اپنے فہم کے موافق اور وں سے اپنا کام لیا۔“(استدراک بر اصول ہشتم)

             ان اقتباسات سے اعلانِ افتراق کے ترشحا تِ محسوس ہوتے ہیں جوتأ سیس مدرسة العلوم کی مشاورت کے وقت بالکل عیاں ہوگیااوردینیات کمیٹی کی رکنیت مسترد کرنے کی وجہ بیان کرنے کے وقت نمایاں ترہوگیا۔اِس موقع پر الامام کے متعلق چند باتیں ملحوظ رہنا ضروری ہیں:

            ۱- عرض کیا جا چکا ہے کہ آپ نے اسلام کے باطل فرقوں کے افکار کا رد تبھی لکھا جب اُن سے اِستفسار کیا گیا۔اور جواب اُتنا ہی دیا جتنااِستفسار کے مضمرات تقاضا کرتے تھے۔

            ۲-آپ کے سامنے یا تو تکفیر پر مبنی اقوال نہیں آئے یاآپ نے اقوال میں تاویل کی گنجائش دیکھی،توتکفیرسے اِجتناب کیا۔

            ۳- سر سید(متوفی ۱۸۹۸ء)حضرت نانوتوی کی وفات(۱۸۸۰ء) کے ۱۸سال بعد تک حیات رہے اور بہ تدریج اُن کے خیالات زیادہ سے زیادہ اِنحراف پذیر ہوتے چلے گئے، حتی کہ اُن کی ”مدلل مداحی“کرنے والے خواجہ حالی بھی یہ لکھے بغیر نہ رہ سکے کہ آخرِ عمر میں:”بعض آیات قرآنی کے وہ ایسے معانی بیان کرتے تھے جن کو سن کر تعجب ہوتا تھا کہ کیوں کر ایسا عالی دماغ آدمی اِن کمزور اور بودی تاویلوں کو صحیح سمجھتا ہے۔ہر چند کہ اُن کے دوست اِن تاویلوں پر ہنستے تھے؛مگر وہ کسی طرح اپنی رائے سے رجوع نہ کرتے تھے۔“(حیاتِ جاوید)

            یہ باتیں سر سید کے متعلق الامام  کی رائے کا وزن جاننے کے لیے بڑی اہم ہیں۔

            دوسری طرف فقہ واِفتا کا منصب رکھنے والے علماء کے سامنے جب حقائق لائے گئے،تو اُن میں بھی دو جماعتیں ہیں:

            #-جنہوں نے یہ محسوس کیا کہ سر سید ضروریاتِ دین کے منکر ہیں اور ضروریاتِ دین میں تاویل مدافعِ کفر نہیں ہے،اُنہوں نے تکفیر کی۔

            #- جنہوں نے حقائق سامنے آنے پر بھی اِجتناب کیااور کہا:”بہ سبب اِدعائے ظاہری اسلام، اِطلاق اِس لفظ سے اِحتیاط کرتا ہوں؛البتہ اعلی درجہ کا گمراہ اور مبتدع کہتا ہوں۔“(۱)

 اِس دوسری قسم کے علماء نے تکفیر نہ کرنے کے بعد بھی گمراہیوں کے اِظہار میں ہرگز مداہنت سے کام نہیں لیا۔ واقعات کو ۱۸۶۹ء کے سفرِ لندن سے مربوط کرتے ہوئے حکیم الامت حضرت تھانوی لکھتے ہیں: لندن کے سفرکے دوران”چند روز ایسے دہری ملحد لوگوں کی صحبت کا اتفاق ہوا۔مزاج میں پہلے سے آزادی تھی، اب کھل گئے او ر وہاں سے تشریف لاکر کھلم کھلا ملتِ نیچریہ کی دعوت شروع کی اور نیچر میں -جس کو وہ قانونِ فطرت کہتے ہیں اور ہنوز کسی نے اُس کے قواعد منضبط نہیں کیے- اس کو کتاب، اور خیالات ورسومِ ملاحدہٴ یورپ -جس کا نام علومِ واقعیہ وتحقیقاتِ نفس الامریہ و تہذیب رکھا ہے-اس کو سنت ٹھہراکر، جو اُن دونوں کے خلاف پایا اگر وہ اجماعِ مسلمین تھا تو بے دھڑک اُس کو خیالِ جاہلیت بتایا۔اگر حدیث تھی تو اُس کو کہیں

(۱)امداد الفتاوی جلد ۶ ص۱۸۴۔

 معنعن، کہیں مرسل،کہیں منقطع اور کچھ بھی نہ بن پڑا تومخالفِ فطرت ٹھہرا کر غلط ٹھہرایا۔رُوات کو کاذب و مفتری فرمایا، اگر قرآن ہوا تو اُس پر معلوم نہیں کس مصلحت سے تکذیب وتردید کی توعنایت نہیں فرمائی؛لیکن کہیں کہیں تمثیلی قصہ،کہیں خواب وخیال، کہیں صرف موافقتِ خیالِ مخاطبینِ جہال کہہ کر، کہیں الہام کا دعوی کرکے، کہیں تحریف فرماکر پیچھا چھڑایا۔“(۱)

            یہ تفصیلات اِس لیے ذکرکی گئیں تا کہ یہ بتایا جا سکے کہ مخالفت جو صحیح بات سمجھنے سے انسان کو باز رکھے اور مداہنت جو حق بات ظاہر کرنے اور باطل کو باطل کہنے سے عارپیدا کرے،اِن دونوں باتوں سے حکیم الامت کی طرح حجة الاسلامبھی بری تھے۔

تحریک سر سیدکے اصولوں پر گفتگو

             جیساکہ ظاہر ہے کہ سرسید کے طریقہٴ کار میں نیچر اور فطرت کی اصطلاحات کے سہارے اسلام کوفطرت اور عقل کے مطابق بتایا گیا ہے۔”نیچر سے سر سید کی مراد ایک تو خارجی کائنات اور اُس کے قوانین ہیں، اور دوسرے انسانی زندگی اور اُس کے ضابطے۔“

سر سید کا کہنا ہے کہ ”نیچر کے یہ قوانین اور ضابطے اِس قدر مستحکم ہیں کہ اُن کو کوئی توڑ نہیں سکتا۔ اللہ خود بھی ان کو نہیں توڑتا“۔”چوں کہ یہ نیچر کے قوانین بھی اللہ کے بنائے ہوئے ہیں اور اسلام بھی اللہ کا مقرر کیا ہوا سچا دین ہے،اس لیے دونوں میں موافقت اور ہم آہنگی ہونا لازمی ہے۔اسلام کا کوئی حکم اور شریعت کا کوئی قانون مقتضیاتِ فطرت کے خلاف نہیں ہوسکتا“۔

وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ:”اسلام نے جن باتوں کو اچھا بتایا ہے وہ وہی ہیں جو فی نفسہ اچھی ہیں، یا جو نیچر کی رو سے اچھی ہیں۔جن باتوں کو اُس نے برا کہا ہے وہ وہی ہیں جو فی نفسہ بری ہیں یعنی نیچر کی رو سے بری ہیں۔“

            خلاصہ یہ کہ:”سرسید اسلام یا نیچر، یا اسلام اور فطرت کی ہم آہنگی اور یگانگت کے قائل ہیں، وہ توحید، رسالت، وحی اور تمام عقائد واحکام ِ اسلام کو نیچر ہی کی بنا پر ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں، وہ ملائکہ اور شیطان

(۱)حکیم الامت مولانا اشرف علی تھانویامداد الفتاویٰ:ج۶، ص۱۶۷- ۱۶۸

 وغیرہ کو نیچرل قوتوں سے تعبیر کرتے ہیں۔یہ ہے ان کا مطلب اِس دعوی سے کہ”الاسلام ہوالفطرة، والفطرة ہی الاسلام۔“(۱)

            #سرسید کا دوسرا اہم دعوی ہے کہ اسلام مطابقِ عقل ہے، سرسید کی مراد عقل سے تجرباتی عقل ہے، یعنی وہ عقل جو نیچر اور فطرت کی روشنی میں کام کرتی ہے۔اُن کے قول کے مطابق ”عقل سے غلطی ممکن ہے؛مگر جب عقل ہمیشہ کام میں لائی جاتی ہے،ایک شخص کی عقل کی غلطی،دوسرے شخص کی عقل سے اور ایک زمانہ کی عقلوں کی غلطی دوسرے زمانہ کی عقلوں سے صحیح ہو جاتی ہے۔“(۲)اسی اعتبارسے اُن کا خیال ہے کہ تمام اشیاء اورتمام احکام کا حسن وقبح عقلی ہے۔ (۳) خیال رہنا چا ہیے کہ اِس عقل سے اُن کی مراد لاک،مل،ہیوم جیسے مفکروں کی تجرباتی عقل ہے۔

            خارجی کائنات توسائنسی اصول یعنی لا آف نیچر کے مطابق کام کرتی ہے، جب کہ عقل نیچر اور فطرت کی روشنی میں کام کرتی ہے۔اور مذہبِ اسلام کی صداقت یہ ہے کہ وہ عقل اور فطرت کے مطابق ہے۔یہی سرسید کے سارے مذہبی فکر کا مرکز اور محور ہے اور یہی اُن کا بنیادی عقیدہ ہے۔

تصفیة العقائد کا مختصر تعارف:

            ”تصفیة العقائد“الامام محمد قاسم نانوتوی کی مشہور تصنیف ہے۔اِس میں اُن اصول و عقائد کا تجزیہ کیاگیا ہے جو ایک مکتوب کی شکل میں سر سیداحمد خاں کی جانب سے اِرسال کیے گئے تھے اور یہ دکھایا گیاہے کہ یہ اصول و عقائد کس طرح جمہورِ اہلِ حق کے عقائد کے خلاف ہیں اور کس طرح اِن اصول و افکار میں اہلِ حق سے اِنحراف پا یا جا تا ہے۔

اِس تناظر میں قانون فطرت،احکام اسلام سے فطرت کی مطابقت، مظاہرِفطرت کی قرآن کے ساتھ تطبیق کا جائزہ، عقل و نقل میں تعارض کا حل،نیزقضا و قدر وغیرہ موضوعات زیرِ بحث آئے ہیں۔

اصولِ سر سید پر اِستدراکاتِ قاسم:ایک تعارف

            # ”تصفیة العقائد“میں مذکور اصول ِسرسیدپر اِستدراکات میں سے:

(۱)ڈاکٹرعمرالدین ”سرسید کا نیا مذہبی طرزِفکر“علی گڑھ میگزین ”علی گڑھ نمبر“ ۱۹۵۴-۱۹۵۵: ص۱۹۴،۱۹۵،۲۰۰۔ (۲)ایضاً ص۱۹۶بہ حوالہ ”تہذیب الاخلاق“جلد ۱نمبر ۲،۱۷۸۰ء۔(۳)ایضاً ص۱۹۷۔

            اصول- ۱ کا استدراک: افعالِ اختیاری کے مخلوقِ خدا ہونے،حسن وقبح کے عقلی اور احکامِ خداوندی میں اُن کی رعایت ضروری ہونے،نہ ہونے کے متعلق ہے۔

            اصول-۲کااستدراک: ”حقیقت“ اور ”واقع“کی دریافت کے معیار اور عقل ونقل میں تعارض دور کرنے کے قاعدہ سے متعلق ہے۔

            اصول- ۳کااستدراک: ”قرآن مجید کا کوئی کلمہ خلافِ واقع اور خلافِ حقیقت نہیں“کے دعوی کو استقرائی ظنی ’حقیقت‘ پر منطبق کرنے پر کلام کیا گیا ہے۔

            اصول- ۴کااستدراک:بتایا گیا ہے کہ ’حقیقت ‘اور ’واقع‘جیسے کلیہ کا خارجی جزئیہ پر اِنطباق آسان ہے، نہ ہی آیات کے ساتھ تخالف و توافق کے معیار کی فہم آسان اور جو آسانی پیدا کی گئی ہے وہ خلاف ِ عقل ہے۔

            اصول- ۵کااستدراک:کسی آیت کے منسوخ التلاوت ہونے کے متعلق پیدا

ہونے والے خلجان کااِزا لہ اِس طرح کیا گیا ہے کہ مشخص و متعین آیت کے منسوخ التلاوت ہونے سے دیگر آیاتِ قرآنی پر عمل میں کوئی رکاوٹ نہیں ہوتی۔

            اصول- ۶کااستدراک:اجماعِ امت اور قیاس کے بے سند ہونے کے اعتراض کا اِزالہ ہے، جس میں بتا گیا ہے کہ ”خدا وندِ کریم بالذات مطاع ہے اور انبیاء بہ وجہِ رسالت، اور علماء بہ وجہِ تبلیغِ رسالت“۔ (۱)

            اصول -۷کااستدراک: اِس عقیدہ کی اصلاح کرتے ہوئے- کہ انسان معاشی

امورمیں احکامِ نبوت سے آزادو خود مختار ہے- بتایا گیا ہے کہ آخرت کی منفعتوں اور مضرتوں سے تعلق رکھنے والے دنیوی امور میں بھی انبیاء کی ہدایات کی پابندی لازم ہے۔

            اصول -۸کااستدراک:زمانہ کے بدلنے کے ساتھ اجتہاد واستنباط میں اصولی تبدیلی کے مغالطہ کو دور کیا گیا ہے اور قیاسِ شرعی کو محض رائے کا درجہ دینے کے خلجان کا اِزالہ کرتے ہوئے منصبِ اِجتہاد کی شرائط اوراِجتہاد کی اہلیت پر تفصیلی گفتگو کی گئی ہے۔

            اصول- ۹کااستدراک:تکلیف مالا یطاق کے اِمکان کو ثابت کرتے ہوئے بتایا گیا کہ: مکلف کی عقل میں کسی عمل کی سر و مصلحت کانہ آنا اُس عمل کے مکلف بنائے جانے سے مانع نہیں۔

(۱)حاشیہ:سر سیداحمد خاں نے مجتہدین کے اِستنباط سے ظاہر ہونے والے بعض واجب احکام کی اِتباع کے وجوب کو شرک فی النبوة قرار دیا ہے۔ نانوتوی نے اِس اِشتباہ کا اِزالہ فرمایاہے۔

            اصول- ۱۰کااستدراک:افعالِ مامورہ وممنوعہ کے حسن و قبح کا تجزیہ کرتے ہوئے فی نفسہ کسی فعل کے حسن یا قبیح ہونے کی حیثیت واضح کی گئی ہے۔نیزاُن افعال کے حسن وقبح کی تعیین و تشخیص سے متعلق انبیاء کی حیثیت کو طبیب – جوفقط خواصِ ادویہ کے ضرر و نفع کے بتانے والے ہیں-کی حیثیت سے ممتاز کر کے اُن کا آمر ہونا ثابت کیا گیا ہے۔

            اصول -۱۱کااستدراک:تمام اسلامی احکام کے فطرت کے مطابق ہونے پر تجزیاتی گفتگو کرتے ہوئے فطرت کی حقیقت، صحیح الفطرت اور صحیح الوجدان کا معیار واضح کیا گیا ہے۔

            اصول- ۱۲کااستدراک:افعالِ انسانی میں ارادہٴ انسانی کی حیثیت کو ظاہر کرتے ہوئے مسئلہٴ قضا و قدر پرہونے والے شبہات کا تشفی بخش اِزالہ کیا گیا ہے۔

            اصول- ۱۳کااستدراک: ظنی احکام کو دین سے خارج قراردینے کے مغالطہ کا اِزالہ کیا گیا ہے۔

            اصول -۱۴کااستدراک: احکامِ اسلام کی خود ساختہ تقسیم کے ذریعہ تمام احکامِ اصلی کو مطابقِ فطرت قرا ر دینے کی غلطی ظاہر کرنے کے بعد احکام ِ اسلام کی صحیح تقسیم اور اُس سے پیدا ہونے والی قسموں کی حیثیت اور ہر ایک کا الگ الگ حکم واضح کیا گیا ہے۔

            اصول -۱۵کااستدراک:نبی کی طرف گفتار مخالفِ واقع منسوب کرنے کی بحث سے متعلق مغالطہ کا اِزالہ ہے۔

            رسالہ کے آخر میں ”اجتماعِ اقرارِ توحید و کفر، کیا مِن جملہ محالات سے ہے؟“کے تحت سر سید کے اِس اِشکال کا جواب ہے کہ:”وحدانیت ورسالت کی تصدیق کے ساتھ کفر جمع“ہونا محال ہے۔

            #سر سید احمد خاں کے مندرجہ بالا پندرہ اصولوں میں مغالطُوں کی تہ بہ تہ پرتیں ہیں۔ رسالہ ”تصفیة العقائد“ میں الامام محمد قاسم نانوتوی کے ذریعے گویا یہی پرتیں ہٹائی گئی ہیں۔ ہندوستان میں ’جدیدیت ‘کو فروغ دینے والے مغربی افکارپر بند باندھنے کا کام، اول اول اِسی رسالہ نے کیا۔یعنی ازالہٴ شبہاتِ جدیدہ پر اہلِ حق متکلمین کے وضع کردہ علم کلام کے اصولوں سے جواب سب سے پہلے اِسی رسالہ میں دیا گیا۔اِس طرح گویا علم کلام جدید کی یہ پہلی، سب سے اہم، سب سے اصولی اور سب سے معتبر تحریر ہے۔

            #عصر حاضر میں اِس تحریر کی طرف شدید اِحتیاج کے باوجود استفادہ کی جانب اگر مفکروں،متکلموں کو توجہ نہیں، تو اس کے اسباب میں ایک تو یہ ہے کہ اِس رسالہ تک رسائی نہ ہوسکی ہو، دوسرے وہ خیالات ہیں جو علم کلام کے صحیح اصولوں کے اختیار کرنے اور جاری کرنے میں مزاحم ہیں۔

خصوصیاتِ رسالہ

            # یہ رسالہ صرف دو روزمیں(۴۸/گھنٹوں کے دوران) تحریر کیا گیا۔

            #اِس میں عقل کے صحیح اصولوں کو بہ روئے کار لا کرحق واضح کیا گیا ہے۔

            #اِستدلال ِ قاسم عقل کے ضروری (Necessary) اصولوں پر مبنی ہے۔

            # بعض جگہوں پر خود سر سید نے نہایت مشکل اورنازک بحث چھیڑی،اُس حوالہ سے اصل حقیقت واضح کرنے کے لیے نسبتاً گہری عقلی تحقیقات نا گزیر تھیں،اِس لیے ایسے موقعوں پر جواب کا مضمون غور وتامل چا ہتا ہے۔ حضرت نانوتوی کے اِستدراکات میں بعض موقعوں پر بادی النظر میں ایسا محسوس ہوتا ہے کہ منشائے اعتراض سے تعرض نہیں کیاگیا،یا سر سید نے کسی خاص لفظ کو جس معنی میں استعمال کیا ہے،حضرت نے مغالطہ کھولے بغیر، لفظ کو عرفی معنی پر محمول کر کے محض ذہانت سے ایک مستقل ہدایت فرمادی ہے۔حالاں کہ ایسا نہیں ہے؛بلکہ منشائے اعتراض سے تعرض کے ساتھ حلِ مغالطہ بھی موجود ہے اور خاص پہلو کی اصلاح کے لیے مستقل ہدایت بھی۔ اِس قسم کی ایک مثال یہاں ذکر کی جاتی ہے:

            اصولِ ہشتم میں سر سید نے لکھا ہے کہ:”احکام منصوصہ، احکام دین بالیقین ہیں۔ اور باقی مسائلِ اجتہادی اور قیاسی، سب ظنی ہیں۔“

             سر سیدکے نزدیک یہاں”ظنی“کے معنی اٹکل کے ہیں،چناں چہ وہ فقہاء کے اِستنباط کیے گئے مسائل کو دینی نہیں سمجھتے،جیسا کہ اُن کی تحریروں سے ظاہر ہے۔ اور اصولِ ششم میں بھی اُنہوں نے اپنے اِسی نظریہ کی طرف اشارہ کیا ہے کہ:”کوئی انسان سوائے رسو ل خدا ﷺ کے ایسا نہیں ہے جس کا قول و فعل بلا سند ِقول و فعل رسولﷺ کے دینیات میں قابل تسلیم ہو۔“

            سر سید کے اِن دونوں اصولوں کو بیک وقت سامنے رکھیے،پھر اِن پرکیے گئے اِستدراک کا مطالعہ کیجیے۔آپ پائیں گے کہ حضرت نانوتوی اصولِ ششم میں یہ بات ثابت کر چکے ہیں کہ ظنی احکام بھی دینی احکام ہیں۔اورفقہاء کے ظن سے مواقعِ وجوب میں وجوب کا درجہ پیدا ہو جاتا ہے، جس کی خلاف ورزی گناہ ہے۔اوریہ کہ فقہی اصطلاح میں ”ظنی“کے معنی اٹکل کے لینا درست نہیں۔یہ بات وہاں ذکر کی جا چکی ہے اور آگے تیرہویں اصول کے اِستدراک میں بھی بتایاجائے گا کہ”جو احکام ظنی ہیں، اُن کابھی نہ اِنکار درست ہے، نہ اُنہیں دین سے خارج سمجھنا درست۔احکام ِیقینیہ کو یقینا دین سمجھنا چاہیے اور احکام ِظنی کو ظناً (دین)کہناچاہیے۔“

            اطلاقِ دین دونوں پر(ہونا) چاہیے۔اِس لیے آٹھویں اصول کے استدراک میں اِعادہ اور تکرار سے بچتے ہوئے اِلتباس زدہ پہلو کی اصلاح کی طرف ہدایت فرمائی گئی ہے۔اور وہ پہلو ہے منصوص احکام اوراِجتہادی احکام میں فرق و تمیز۔(جاری)