عبد المتین اشاعتی کانڑگانوی
وہ کب کے آئے بھی اور گئے بھی ، نظر میں اب تک سما ر ہے ہیں
یہ چل رہے ہیں ، وہ پھر رہے ہیں ، یہ آرہے ہیں وہ جارہے ہیں
ارشادِ باری تعالیٰ ہے: ﴿کل نفس ذائقة الموتo﴾”ہر ایک جان موت کا مزہ چکھنے والی ہے“۔
(سورہٴ آلِ عمران : ۱۸۵،وسورہٴ عنکبوت:۵۷)
﴿وما یعمر من معمر ولا ینقص من عمرہ إلا في کتاب إن ذلک علی اللّٰہ یسیرo﴾
”اورنہ عمر پاتا ہے کوئی بڑی عمر والا اور نہ گھٹتی ہے کسی کی عمر مگر لکھا ہے کتاب میں،بے شک یہ اللہ پر آسان ہے“۔ (سورہٴ فاطر:۱۱)
نوعِ انسانی کے کسی فرد کو طویل عمر دی جاتی ہے ، کسی کو کم عمر دی جاتی ہے،عمر میں کمی کرنے کا مطلب یہ ہے کہ ہر شخص کی جو عمر اللہ تعالیٰ نے لکھ دی ہے وہ یقینی ہے، اور جو دن گز رتا ہے اس مقررہ مدّتِ عمر میں سے ایک دن کی کمی کردیتا ہے، دودن گزرتے ہیں تو دو کم ہوجاتے ہیں، اسی طرح ہر دن بلکہ ہر سانس اس کی عمر کو گھٹاتا رہتا ہے، کسی نے کیا خوب کہا ہے:
حَیَاتُکَ أنْفَاسٌ تُعَدُّ فَکُلَّمَا
مَضٰی نَفْسٌ مِنْہَا انْتَقَصَتْ بِہجُزْء
”یعنی تیری زندگی چند گنے ہوئے سانسوں کا نام ہے، تو جب بھی
ایک سانس گزارتا ہے تیری عمر کا ایک جز گھٹ جاتا ہے“
موٴرخہ۱۷/ شعبان المعظم ۱۴۴۱ھ مطابق ۱۲/ اپریل ۲۰۲۰ء، بروز اتوار،صبح ساڑھے آٹھ بجے، حسبِ معمول دار المدرسین سے جامعہ کی درس گاہوں کی طرف نکلے، تو راستے میں شعبہٴ تحفیظ القرآن کے ایک استاذ(مولوی رضوان بھڑگاوٴں، جو آپ رحمہ اللہ کے صاحب زادہٴ اصغر ؛ محمد رضوان کے استاذ بھی ہیں، اور انہی کے ذریعے ان کو خبر ہوئی تھی) بڑے استعجاب سے کہنے لگے؛ …حضرت مولانا عبد الرحیم صاحب فلاحی کا انتقال ہوگیا !… اپنے کانوں پر یقین نہیں آیا کہ وہ کیا سن رہے ہیں؟ کہ یکایک سامنے سے ناظم مطبخ جناب حافظ عبد الصمد صاحب اپنی اسکوٹی پر سوار جلدی میں وہاں سے گزرتے ہوئے (دار المدرسین کی طرف جاتے ہوئے) گویا ہوئے… مولانا عبد الرحیم …کا انتقال ہوگیا ہے، … یہ سننا تھا کہ ہم وہیں رُک گئے، دل کو ایک جھٹکا سا لگا، کہ ایسا کیسے ہوسکتا ہے؟! لیکن آج تک ایسا ہی ہوتا آیا ہے، اور خدائی قانون بھی یہی ہے، کہ ”ہر جان دار کو موت کا مزہ چکھنا ہے“، اور ”جو جان دار بھی اس روئے زمین پر ہے اُسے فنا ہونا ہے“، دارِ فنا سے دارِ بقا کی طرف کوچ کرنا ہے، …بہر حال انسان چاہے نہ چاہے ، موت متفق علیہ ہے، اس کا یقین تو کرنا ہی پڑتا ہے، لیکن چوں کہ انسانی فطرت وطبیعت ہے کہ کسی چیز کو اچانک وفجأةً سننے یا کرنے کی متحمل نہیں ہوتی ہے، اس لیے اس طرح کی خبروں کا یقین دھیرے سے ہوتا ہے۔
حضرت والا کی موت کا تذکرہ یوں تو سبھی کررہے ہیں، اور کرنا بھی چاہیے،… کہ موت کا تذکرہ غفلت اور سُستی سے نجات دیتا ہے، گناہوں سے بچاتا ،آخرت کی یاد دِلاتا ہے، اس سے دل میں رقّت اور نرمی پیدا ہوتی ہے، اس اللہ کا ڈر دل میں جاگزیں ہوتا ہے،جس کی توفیق سے جتنے دن انسان زندہ رہتا ہے وہ اس کا احسان ہے، اور اگر وہ جانے کے لیے حکم دے، تو فوراً جانا لازم ہوتا ہے، اس میں مدت بڑھانے اور چوں چرا کرنے کی کسی کو ہمت اور جرأت نہیں ہوتی، … ہم یہاں پر حضرت رحمہ اللہ کی بعض یادیں،باتیں، خصوصیات وصفات(ذاتی ڈائری)سے بیان کررہے ہیں، تاکہ اللہ پاک ہمیں بھی ان پر عمل پیرا ہونے کی توفیق مرحمت فرمائے!مثلاً:
رشتہٴ نکاح میں رہنمائی اور تعاون۔
تصنیف، تالیف اور ترتیب میں رہنمائی۔
عمدہ وبہترین عنوان کا انتخاب۔
تقریظ لکھ کر حوصلہ افزائی۔آپ کی تالیف ؛ قطرہ قطرہ سمندر؛ یعنی نگارشاتِ فلاحی میں ان تقریظات ومضامین کو جمع کیا گیا ہے، جو آپ نے مختلف موقعوں پر ، مختلف کتابوں پر تحریر فرمائی تھی۔
کسی بھی موٴلف کی تالیف وتصنیف منظرِ عام پر آنے کے فوراً بعد آپ حوصلہ افزائی اور اشاعت کے مقصدسے متعدد نسخے نقد خرید کر اہلِ علم علماء وطلبہ میں تقسیم کردیا کرتے تھے۔
آپ مرنجاں مرنج طبیعت کے مالک تھے، یعنی ہر حالت میں خوش رہے اورکسی کا دل نہیں دکھایا۔
جب بھی ملاقات ہوتی اولاًضرور کسی علمی مشغولیت سے متعلق ہی سوال کرتے اور ثانیاً اہل وعیال ، والدین وغیرہ کی خیر خیریت دریافت کرنے کے بعد، گھریلو ضروریات سے متعلق استفسار فرماتے۔
رشتوں کا نبھانا کوئی آپ سے سیکھے، خود فرماتے تھے کہ میں روزانہ عصر کے بعد حضرت رئیسِ جامعہ کے دولت کدہ پر حاضری دیتا ہوں۔(آخری وقت میں جب اکل کوا سے کھروڈ ہسپتال جانے کے لیے سفر پر روانہ ہوئے، تو حافظ عبد الصمد صاحب(ناظم مطبخ) سے ملاقات نہ ہوسکی، کھاپر پہنچ کر فون کیا کہ میں دواخانہ کے لیے نکل چکا ہوں۔ بقول حافظ صاحب)
برادرِ کبیر حضرت مفتی عبد اللہ صاحب سے حد درجہ محبت اور اکرام کا معاملہ کرتے، ہمیشہ ان کی فکر دامن گیررہتی تھی۔
خوردوں کے ساتھ ذرہ نوازی کا معاملہ کرتے۔
کسی خاص علاقے کے سفر میں اگر راستے میں کوئی جامعہ کی شاخ یا زیر سرپرستی چلنے والا کوئی ادارہ آتا، تو جامعہ کی نسبت پر ضرور اس کی زیارت کرتے۔
آپ رحمہ اللہ کو اپنے اساتذہ اور اکابر وبزرگانِ دین سے والہانہ عقیدت ومحبت تھی، اگر اکابر وبزرگانِ دین آس پڑوس کے کسی علاقے میں تشریف لاتے، توان سے ملاقات اور استفادہ کی غرض سے اپنے تلامذہ وشاگردوں کو ساتھ لے کر ضرور پہنچ جایا کرتے۔(خود احقر اور جامعہ کے بعض اساتذہ کو مولانا عاقل صاحب مظاہری دامت برکاتہ سے ملاقات کے لیے اورنگ آباد لے کر گئے۔ ایک مرتبہ موسالی مفتی سعید صاحب پالن پوری کی آمد ہوئی، تو وہاں بھی ساتھ لے گئے۔ اور ایک جگہ حضرت شیخ یونس جون پوری رحمہ اللہ تشریف لائے تھے وہاں بھی لے گئے۔ ایک موقع پر ترکیسر میں مشہور پیر طریقت حضرت شیخ ذو الفقار صاحب نقش بندی کی آمد ہوئی، تو بہت سے اساتذہ انفرادی طور پر بھی گئے، اور خود حضرت رحمہ اللہ اپنی گاڑی میں بہت سے طلبہ کو ساتھ لے کر گئے)۔
”سابقٌ بالخیرات“ آپ کا امتیازی وصف تھا۔ کوٹ بھلوال (جموں کشمیر) کے سفرِ مسابقہ میں قاری غلام رسول صاحب کے فرزند اور صاحب زادی جنہوں نے حفظِ قرآن مکمل کیا ہوا تھا، اور کئی دور بھی سنائے تھے، حفظِ قرآن میں غضب کی پختگی تھی، حضرت رحمہ اللہ نے قافلے کے ہر فرد کے ذریعے مولانا کے فرزند کو مختلف جگہوں سے سوالات کروائے اور اخیر میں نوٹوں کا ایک بنڈل ان بچوں کے ہاتھ میں تھمایا، اس پر آپ کی قرآن وحافظِ قرآن سے محبت کو دیکھ کر حاضرین کی آنکھیں اشک بار ہوگئیں، اور پھر سب نے اپنی اپنی وسعت کے مطابق کچھ رقم ہدیہ کیں۔
حضرت قاری احسان محسن صاحب دامت برکاتہ (جو نابینا اور مشہور ثنا خواں ونعت خواں ہیں) سے آپ کو دلی محبت تھی، آپ رحمہ اللہ نے ان سے درخواست کی کہ جموں (جامع مسجد تالاب کھٹیکا مقامِ مسابقہ) آکر حاضرینِ محفل کو محظوظ فرمائیں، تو قاری صاحب بلا چوں وچراں آپ کی دعوت پر فوراً جموں پہنچ گئے اورآپ رحمہ اللہ سے محبت کا یہ عالم تھا کہ ٹرین نہ مل سکی، تو بذریعہ کار ہی یوپی سے جموں کے لیے روانہ ہوگئے)۔
اگر کوئی جان پہچان والا قریبی؛ استاذ یا شاگرد راستے میں آپ کو نظر انداز کردیتا، یا متوجہ نہ ہوپاتا، تو از خود سلام وکلام کرکے متوجہ کرتے، اور اپنے عمل سے گویا یہ سبق دیتے کہ بڑوں کو کسی حال میں نظر انداز نہیں کیا جاسکتا، اور سامنے والے کو یہ احساس ضرور ہوجاتا کہ ؛
بڑا فرق ہے تیرے میرے پینے میں
میں نے پی کتابوں سے آپ نے پی نگاہوں سے
موٴقر استاذِ جامعہ اور حضرت رحمہ اللہ کے خاص شاگرد؛ مولانا عبد العظیم صاحب امراوٴتی نے ایک سطر میں آپ رحمہ اللہ کے احوالِ واقعی بیان کردیئے:
”مردم شناسی، ہم دردی، خوشی اور غمی میں شرکت، ہر ایک کو اس کا مقام ومرتبہ دینا، متکبر لوگوں کا آپریشن (تربیت کرنا)۔“
بقرعید کے موقع پر وہ اساتذہ جن کے یہاں قربانی کا انتظام نہیں ہوتا، عید سے قبل اُنہیں فون لگاتے کہ آپ نے قربانی کا جانور لیا یا نہیں؟ اگر نہیں تو مجھ سے مل لو، یا مفتی ریحان سے کہہ دیا کرتے کہ ان کا جانور پہنچادو، یا براہِ راست مذبح خانے پر بلواکر پورا جانور سونپ دیا کرتے۔
سالانہ جلسے کے لیے آپ طلبہ کا انتخاب یوں کرتے کہ تقریباً ہرریاست کے طلبہ کی نمائندگی اس میں ہوجایا کرتی تھی۔ جلسے میں یہ بات بھی دیکھی گئی کہ بسا اوقات کسی طالبِ علم کے اچھا مظاہرہ کرنے پر حاضرین وسامعین کی طرف سے انعام کی بارش ہوجایا کرتی ہے، اور کسی پر ایک قطرہ بھی نہیں گرتا، تو آپ اپنی جیب میں رقم رکھا کرتے اور جب کسی کو حاضرین کی طرف سے انعام نہ ملتا، تو خود ہی دوسروں کے نام کا اعلان کرکے اپنی جیب سے رقم نکال کردے دیتے، اس کے دو فائدے ہوتے تھے، ایک تو یہ کہ اس سے دوسروں کو انعام دینے کی ترغیب بھی ہوجاتی تھی اور مظاہرہ کرنے والے طالبِ علم کا دل بھی خوش ہوجاتا تھاکہ میں بھی محروم نہیں رہا۔
ماہِ رمضان میں آپ بیرونِ ملک سفر پر ہوتے، فون پر احوال وکوائف معلوم کرتے اوررمضان کی مشغولیت؛ تراویح و تفسیر وغیرہ کے بارے میں دریافت کرتے،بتانے پر خوشی کااظہار کرتے، مزید حوصلہ افزائی کرتے ہوئے؛ رمضان وسامعین کی مناسبت سے عناوین مضامین وکتب کی طرف رہنمائی فرماتے، مرتب انداز میں لکھنے کا مشورہ دیتے۔
ماہِ رمضان میں آپ چوں کہ تفسیر قرآن کے لیے لندن تشریف لے جایا کرتے، تو ایئر پورٹ پر آپ کے میزبان سے کسی نے آپ کے متعلق استفسار کیا کہ یہ کون صاحب ہیں؟ تو میزبان نے یوں جواب دیا کہ ”مولانا ماہِ رمضان میں ہماری زینت ہیں“؛ یعنی آپ دینی، دنیوی، علمی وعملی اعتبار سے ہماری رہبری فرماتے ہیں، جس سے ہمارا ماہِ رمضان مبارک نیکیوں کی بہاروں میں گزرتا ہے۔(یہ واقعہ خود حضرت سے سنا ہوا ہے)
ایک روز (۲۷/ مارچ ۲۰۲۰ء) دار الافتاء میں مفتی جعفر صاحب حفظہ اللہ سے ملنے کے لیے تشریف لائے، تو کورونا وائرس، لاک ڈاوٴن اور نمازسے متعلق فتاویٰ ومسائل کی تحقیق کا ذکر ہوا، تو احقر کو مخاطب کرکے کہا کہ اس طرح کی نئی تحقیقات ہوں، تو مجھے بھی بھیج دیا کرو، لہٰذا اسی دن احقر نے حضرت رحمہ اللہ کے وہاٹس ایپ پر؛”تحفظات کورونا وائرس“، ”کورونا وائرس اہم ہدایات وپیغام“ (از قلم: مفتی جعفر صاحب)، ”لاک ڈاوٴن میں نمازِجمعہ یا ظہر کیسے ادا کریں؟“، ”کورونا سے انتقال کرنے والوں کی تجہیزوتدفین سے متعلق احکام“ ارسال کردیئے۔
اگر کوئی کارِ خیر میں سبقت کرتا، جامعہ کے متعلقین ومنتسبین کے ساتھ احترام واکرام کا معاملہ کرتا، تو ضرور اس کی حوصلہ افزائی فرماتے، مثلاً:لاک ڈاوٴن کے نا مساعد حالات میں جامعہ سے سفر پر نکلنے والے طلبہ کی ”دار العلوم سیندھوا“ میں میزبانی کی گئی ، تو حضرت رحمہ اللہ نے اساتذہ ومہتمم دار العلوم سیندھوا کا شکریہ ان کلمات میں ادا فرمایا:”ما شاء اللہ جامعہ اکل کوا کے فضلا اور طلبہ دار العلوم سیندھوا میں حضرت مولانا یعقوب صاحب ناظم دار العلوم سیندھوا، اور حضرت مولانا آدم صاحب استاذ حدیث دار العلوم سیندھوا، اور قاری لقمان صاحب صدر القراء دار العلوم سیندھوا کی نگرانی میں اور مولانا عبد الرحمن خان پوری کی فکروں کے نتیجے میں بہت ہی اطمینان کے ساتھ کھانا تناول فرمار ہے ہیں، اللہ پاک ان کے اس اکرام کوقبول فرمائے۔ اور اللہ تبارک وتعالیٰ ان بچوں کی ضیافت کے صدقے میں دار العلوم سیندھوا کی ہر ضرورت کو اپنے خزانہٴ غیب سے پوری فرمائے، اور ان حضراتِ اساتذہ کی نسلوں کو ہر طریقے کی عزتوں سے مالا مال فرمائے، ذلتوں سے اللہ پاک حفاظت فرمائے، اللہ پاک ہر دینی مدرسے میں یہ جذبہ نصیب فرمائے کہ ایک دوسرے کے معاون بن کر، ایک دوسرے کا اکرام کرنے والے بن کر زندگی گزاریں، فجزاکم اللہ أحسن الجزاء، والسلام علیکم ورحمة اللہ وبرکاتہ!“ (آڈیوریکارڈنگ)
اسی سال جب ملک کی راجدھانی دہلی میں فساد رونما ہوا، اور پورے ملک میں ابتدائی لاک ڈاوٴن (تالا بندی) شروع ہوا، اور جامعہ کے طلبہ واساتذہ یہی پھنس کر رہ گئے، تو حضرت وستانوی حفظہ اللہ نے نمازِ عصر میں تمام اساتذہٴ جامعہ کو مخصوص مجلس کے لیے مدعو فرمایا، سب نے نمازِ عصر مسجد میمنی میں ادا کیں، نماز بعد حضرت وستانوی نے بحوالہ قاری محمد علی صاحب ایک وظیفہ پڑھنے کو کہا، جس میں ۳۱۳/ مرتبہ ”حسبنا اللہ ونعم الوکیل“ بھی پڑھنا تھا، حضرت فلاحی رحمہ اللہ نے بلا تاخیر اور بغیر اٹکے ہوئے نہایت دل نشیں انداز میں اس تعداد کو پورا کیا، طلبہ واساتذہ دھیرے دھیرے پڑھ رہے تھے، تو آپ نے مائک ہاتھ میں لیا، اور بآوازِ بلند ورد شروع کیا، اور ایک نئے انداز اور لب ولہجے میں آیتِ کریمہ کا ورد کرتے رہے اور سب حاضرین آپ کے ساتھ پڑھتے جاتے تھے،ایک عجب سماں بندھ گیا تھا۔(بتانا مقصد یہ ہے کہ اچھے بھلے لوگ پڑھتے ہوئے تھک گئے لیکن حضرت کی آواز جو شروع میں تھی آخرتک ویسی ہی رہی تھی ۔ ما شاء اللہ!)
آپ رحمہ اللہ طلبہ کے ساتھ انتہائی شفقت کا معاملہ فرماتے۔ طلبہ بھی ان سے بے انتہا محبت کرتے تھے۔
سادات کا بہت زیادہ اکرام فرماتے تھے، درس گاہ میں جو طلبہ سادات گھرانے سے ہوتے اُن کا از حد خیال کرتے اور اُن کی طرف سے سرزد ہونے والی کوتاہیوں اور لغزشوں کو نظر انداز کردیا کرتے تھے۔
الغرض! آپ سے تعلق رکھنے والے ہر ایک کے ساتھ آپ کے بے شمار احسانات ہیں۔یہ واقعات محض اس لیے لکھے جارہے ہیں کہ ہم اپنے استاذِ محترم کے اسوہ پر خود بھی عمل کریں اور اپنے شاگردوں کو بھی آپ جیسا بننے کی ترغیب دے سکیں۔
دورانِ درس اور دورانِ وعظ وتقریر آپ کے مزاج اور ظریفانہ طبیعت کے سبب طلبہ وسامعین لطف اور خوشی محسوس کرتے تھے۔ خوش مزاجی، سادگی اور حلم وبردباری گویا ان کی فطرتِ ثانیہ بن گئی تھی، ان کی گفتگو سامع کے لحاظ سے مختلف ہوتی تھی۔ سامع اگر عالم ہوتا تو گفتگو عالمانہ ہوتی، اور عامی ہوتا تو گفتگو عامیانہ ہوتی تھی۔
ہدایہ شریف میں کتاب الطہارة میں سببِ مشروعیتِ تیمم ایک ہی جملے (فقدِ عقدِ عائشہ رضی اللہ عنہا) میں بیان کردیا۔ اور طریقہٴ تیمم کا مسئلہ سمجھاتے ہوئے رفیقِ درس (مولوی سلیم پھول شورا) کی مثال دی کہ وہ ٹرک پر جارہے ہیں اور راستے میں پانی ختم ہوگیا، کہیں سے ملنے کی امید بھی نہیں ہے۔إلخ … تو یہ مسئلہ احقر کو کتاب کی عبارت سے زیادہ آپ کے اندازِ بیان اور ظریفانہ تفہیم سے یاد ہے۔
مقدمہ صحیح مسلم بڑی اہمیت کا حامل ہے۔ آپ مقدمہ ایسے اچھوتے اور البیلے اندازمیں بیان کرتے کہ مزہ آجاتا، اور طلبہ بھی بہت مرتب انداز میں لکھ لیا کرتے تھے۔
دورہٴ حدیث شریف میں جب آخری سال عبارت خوانی جاری رہتی، تو اِکّا دُکّا طالبِ علم اگر سُستی کا شکارنظر آتا، تو عبارت کے درمیان آپ رحمہ اللہ زبان سے کچھ نہ کہتے، لیکن اس انداز میں آنکھوں سے تنبیہ کرتے کہ وہ اُس طالبِ علم اور حضرت کے درمیان ہی راز رہتا، بعد میں وہ کہتا کہ مجھے حضرت نے پکڑ لیاتھا۔ ہماری جماعت میں مسلم شریف کی زیادہ تر عبارت خوانی ہمارے محترم رفیقِ درس مفتی مقیم الدین دیولائی، مولوی سعید کیوڑی اور مولوی عبد الماجد ہی پڑھا کرتے تھے۔ جب یہ لوگ تھک جاتے، تو حضرت روانی ، اچھوتے اور دل نشیں انداز میں عبارت شروع فرمادیا کرتے تھے۔
آپ کو عطریات بہت پسند تھے، اگر کوئی آپ کو خوشبو لگاتا، یا عطر ہدیہ کرتا، تو فوراً قبول کرتے اور بہت خوشی کا اظہار فرماتے تھے۔گلاب کا پھول بھی آپ کو بہت پسند تھا، ایک مرتبہ احقر نے گلاب کاپھول کہیں سے لایا، لیکن اس میں خوشبو نہیں تھی، تو اس میں عطر لگاکر میز پر رکھ دیا، تو آتے ہی پہلے اُسے سونگھا اور پہچان گئے، کہا کہ اس میں عطر لگایا ہوا ہے۔
دورانِ راہ جب بھی ملاقات ہوتی جیب سے عمدہ عطرکی شیشی نکال کر تمام حاضرین کو عطر لگاتے تھے۔
دورانِ درس جب کوئی طالبِ علم پینے کے لیے پانی لے کر آتا، تو بعض مرتبہ مخصوص ظریفانہ انداز میں یوں فرماتے:
پلا پلاکے گرانا تو سب کو آتا ہے مزہ تو جب ہے کہ گرتوں کو تھام لے ساقی
آپ کے اساتذہ بھی آپ سے حد درجہ محبت فرماتے تھے۔ دورہٴ حدیث کے سال (۲۰۰۷ء)میں جب ہم چند رفقاء ترکیسر حضرت شیخ ذو الفقار نروری رحمہ اللہ کے دولت کدہ پر بغرضِ زیارت پہنچے، تو سب سے پہلے مولانا عبد الرحیم صاحب رحمہ اللہ اور مولانا فاروق صاحب مدنی حفظہ اللہ کی خیر خیریت دریافت فرمائی اور سلام پیش کیا۔
آپ ظریفانہ طبیعت کے مالک تھے، ایک صاحب پریشان تھے، اُن سے برسبیلِ مزاح یہ سوال کیا کہ وفرہ، لمہ اور جمہ کن سبزیوں کے نام ہیں؟ جس سے وہ صاحب سکتے میں آگئے، پھر مسکرادیا۔
آپ رحمہ اللہ کی پوری زندگی دین کی خدمت کرتے ہوئے گزری، ان کی زندگی سے ہمیں یہی سبق ملتا ہے کہ دین اور دینی اداروں سے محبت کی جائے۔ اکابر وبزرگانِ دین اور علمائے حق کے زیر سایہ رہ کر ان کی اتباع واطاعت میں اپنی جان بھی پیش کرنے سے پیچھے نہ رہاجائے۔
الغرض! آپ رحمہ اللہ کی شخصیت ایسی دل نواز، حیات افروز اورایسی باغ وبہار تھی کہ جس کی خصوصیات کو ایک مختصر تحریر میں سمونا مشکل ہے، ہر فن میں اللہ تعالیٰ نے انہیں ایک خاص ملکہ عطا فرمایا تھا۔آپ کے یوں اچانک چلے جانے کا صدمہ ہر اس شخص پر بجلی بن کر گراہوگا ، جو آپ کی شخصیت سے واقف ہوگا۔اللہ پاک ان کے احباب ورشتے داروں کو صبرِ جمیل نصیب فرمائے اور ان کو جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے، آمین!
فنا فی الجامعہ:
حضرت فلاحی رحمہ اللہ کی وفات پر ہم چند احباب بغرضِ تعزیت وتسلی حضرت رئیس جامعہ؛ مولانا غلام محمد صاحب وستانوی حفظہ اللہ ورعاہ کی خدمت میں حاضر ہوئے، تو آپ نے آیتِ کریمہ﴿الذین إذا اصابتہم مصیبة قالوا إنا للّٰہ وإنا إلیہ راجعون﴾ کی تلاوت کے بعد ، حضرت فلاحی رحمہ اللہ سے متعلق سب سے اونچی بات یہ بیان فرمائی کہ ”مولانا عبد الرحیم صاحب فنا فی الجامعہ تھے۔“
پھر فرمایا کہ ہر استاذ کے اندر دو صفات ہونی چاہییں: (۱) ہم دردی۔ (۲)انصاف۔مولانا عبد الرحیم کا وصفِ امتیازی یہ تھا کہ آپ کے اندر ”طلبہ سے ہم دردی“ کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی۔ (نیز آپ ”أعط کل ذي حق حقہ“ کا پورا لحاظ کیا کرتے تھے)
آگے فرمایا: آدمی کو کام کراتے آنا چاہیے، ایک ہوتا ہے کام کرنا، اور ایک ہوتا ہے کام کرانا، کام تو گدھا بھی کرتا ہے، اصل ہے کام کرانا، کسی کو کام کا بناکر اس سے کام لینا۔ مولانا عبد الرحیم طلبہ کو کام کا بناتے تھے، انتقال سے پہلے تک طلبہ سے تفسیری وقرآنی کام لے کر، انہیں اپنی حیثیت کے مطابق انعام سے بھی نوازا۔
بہر حال حضرت رئیس جامعہ دامت برکاتہ نے حضرت مولانا عبد الرحیم صاحب کی یہ صفات وخصوصیات بیان کرکے، ہم سب شاگردوں اور متعلقین کو بھی ،اپنے اندر یہ صفات وخصوصیات پیدا کرنے کی ترغیب دی۔
ابھی کچھ روز پہلے بعض رفقائے جامعہ کے ساتھ مردم خیز بستی”رویدرا“ کے قبرستان میں جب بغرضِ زیارت داخل ہوئے اور دو جید عالمِ دین (مفتی عبد اللہ صاحب اور مولانا عبد الرحیم صاحب رحمہما اللہ) کو اپنے والدین کے درمیان(دائیں طرف والد صاحب، پھر مفتی صاحب، اس کے بعد حضرت فلاحی اور پھر بائیں طرف والدہ کی قبر ہے) سوتے دیکھا، تو آنکھوں میں آنسو بھر آئے اور یہ احساس بھی دل میں آیا کہ یہ دونوں خادمِ دین زندگی میں اپنے والدین کی حد درجہ خدمت گزاری کرتے رہے اور مرنے کے بعد بھی تھک ہار کر اُن کی آغوش میں سوگئے۔بہر حال! آپ حضرات کی قبروں پر کھڑے ہوکر یہ جملے دماغ میں گردش کرنے لگ گئے تھے:
الموت کأس وکل الناس شاربہ ! القبر دار وکل الناس داخلہ !
(موت کا جام ہر شخص کو پینا ہے، قبرہر ایک شخص کا ٹھکانہ ہے!)
یہاں ہم سب مسافر ہیں وہی آخر ٹھکانہ ہے کوئی آگے روانہ ہے کوئی پیچھے روانہ ہے
ویسے بھی ہر اُٹھائے جانے والے جنازے اور شہرِ خموشاں کی ہر قبر سے یہ صدا آرہی ہوتی ہے:
یا واقف عند قبري ، لا تتعجب من أمري بالأمس کنتُ مثلک ، وغدا تکون مثلي
(میری قبر کے زائر مجھ پر حیرت وتعجب مت کر، گزشتہ کل میں بھی تیری ہی طرح تھا، اور آئندہ کل تو بھی میری طرح ہوجائے گا)
کسی نے یوں تعبیر کیا ہے: ” عش کل یوم في حیاتک ، وکأنہ الیوم الأخیر ، فأحد الأیام سیکون کذلک “(زندگی کے ہر دن کو آخری دن کی طرح سمجھ کر گزارو، کیوں کہ زندگی کاکوئی بھی دن آخری دن ہوسکتا ہے)
اور گویا خود حضرت فلاحی رحمہ اللہ روحانی طور پر ہم سے یوں مخاطب ہیں:
سفر کی منزل ہے دارِ دنیا، ذرا تو اس کا خیال کر! صدا نہیں ہے یہ دیس تیرا،ضرور جانا ہے دن نبھاکر!
اورچوں کہ آپ دورانِ درس اکثر دل لگتے اشعار پڑھا کرتے تھے، قبر کی زیارت کے وقت بھی ایسا محسوس ہورہا تھا جیسے آپ رحمہ اللہ دورانِ درس کسی کے انتقال پر،یا کسی اللہ والے کی قبر پر جاکر یہ اشعار گنگنارہے ہوں:
بخت سے کوئی شکایت ہے، نہ افلاک سے ہے
یہی کیا کم ہے کہ نسبت مجھے اس خاک سے ہے
بزمِ انجم میں قبا خاک کی پہنی میں نے
اور مری ساری فضیلت اسی پوشاک سے ہے
نیز:
مر مر کے مسافر نے بسا یا ہے تجھے
منہ پھیر کے سب سے، منہ دکھایا ہے تجھے
کیوں نہ لپٹ کر سووٴں تجھ سے اے قبر
میں نے بھی تو جاں دے کہ بسایا ہے تجھے
ایصالِ ثواب کی درخواست:
حضرت رحمہ اللہ نے بہت سارے طلبہ کو مخصوص علمی کام سونپے ہوئے تھے، انہیں چاہیے کہ حضرت رحمہ اللہ نے جس کے حوالے جو بھی کام سپرد کیا ہوا تھا وہ اُسے پایہٴ تکمیل کو پہنچاکر حضرت کے لیے صدقہٴ جاریہ کا ذریعہ بنیں!
پڑھنے پڑھانے والے تمام شاگردان وتلامیذ حضرت رحمہ اللہ سے درخواست ہے کہ آپ جو کچھ تعلیم وتعلُّم، جب تک کررہے ہیں، اس کا ثواب حضرت رحمہ اللہ کو بخش دینے کی نیت کرلیا کریں، یہ آپ کے اور حضرت کے حق میں صدقہٴ جاریہ رہے گا۔
جس شخص نے جو کچھ قرآنِ کریم پڑھا ہو، اس کا ثواب حضرت رحمہ اللہ (اور دیگر تمام مرحومین ) کو پہنچا سکتا ہے، خواہ نیا پڑھا ہو یا پہلے کا پرانا پڑھا ہوا ہو۔
ایصالِ ثواب کے لیے پورا قرآن پڑھنا یا پڑھوانا ضروری نہیں ہے، جتنا پڑھا ہے یا پڑھا گیا ہے اس کا ثواب بھی میت کو پہنچایا جاسکتا ہے۔چلتے پھرتے گیارہ گیارہ بار سورہٴ اخلاص، یا دیگر سورتیں پڑھ کر بخش دیا کریں،ہم علما وحفاظ کے لیے تو زیادہ سے زیادہ قرآنِ کریم کی تلاوت کرکے حضرت رحمہ اللہ اور دیگر تمام متعلقین ومرحومین کو ایصالِ ثواب بہت آسان ہے۔
الغرض! ہر نیک عمل جیسے؛ صدقہ خیرات، قرأتِ قرآن، ذکر واذکار، طواف، حجِ بدل یا عمرہٴ بدل وغیرہ کرکے مرحوم کو ثواب پہنچایا جاسکتا ہے۔ (البحر الرائق،شامی، ہندیہ)
”شرح الصدور للسیوطی“ میں ابو محمد سمرقندی رحمہ اللہ نے فضائلِ قل ہو اللہ أحد میں حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مرفوعاً نقل کیا ہے کہ : ”جو شخص قبرستان سے گزرتے ہوئے ”سورہٴ اخلاص“ ﴿قل ہو اللہ أحد﴾ إلخ گیارہ بارپڑھ کر اُس کا ثواب مرحومین کو بخشے، تو قبرستان میں موجود تمام مرحومین کی تعداد کے بقدر اسے بھی ثواب ملتا ہے۔“ (شرح الصدور: ص/۲۹۶)
اللہ پاک حضرت رحمہ اللہ کے تمام پس ماندگان واہلِ خانہ، رئیس ونائب رئیس جامعہ ، جملہ رشتہ دار ، احباب ، اعزا واقربا اور متعلقین ومنتسبین کو صبرِ جمیل عطا فرمائے!آپ کی اولاد واحفاد کی وکالت وکفالت فرمائے!
حسبنا اللّٰہ ونعم الوکیل ، نعم المولی ونعم النصیر!
إنا للّٰہ وإنا إلیہ راجعون … للّٰہ ما أخذ وللّٰہ ما أعطی ، وکل شيء عندہ بمقدار !
أعظم اللّٰہ أجرکم وأحسن عزائکم ! اللّٰہم تقبلہ في عبادک الصالحین !
اللّٰہم اغفر لہ وارحمہ وعافہ واعف عنہ ، وأکرم نزلہ ووسع مدخلہ ، واغسلہ بالماء والثلج والبرد ، ونقہ من الخطایا کما ینقی الثوب الأبیض من الدنس ، وأبدلہ دارا خیرا من دارہ ، وأہلا خیرا من أہلہ ، وأزواجا خیرا من أزواجہ ، وأدخلہ الجنة ، وأعذہ من عذاب القبر ومن عذاب النار ۔ آمین یا رب العالمین بجاہ سید المرسلین صلی اللہ علیہ وسلم !