سائل : جو ّاد زبیر(بنگلور)مجیب: مفتی محمد سلمان مظاہری
السلام علیکم ورحمة اللہ و برکاتہ!
میرا نام جو ّاد زبیر ہے پوچھنا یہ ہے کہ کسی کمپنی کو گاہک لگا کر کمپنی سے کمیشن لینا کیسا ہے ، اور کمپنی کی شرائط میں سے یہ ہے کہ جب ایک پیر(Pair) مکمل ہوجائے یعنی پہلی مرتبہ جب تین( ۳)گاہک اپنے نیچے دائیں اوربائیں جانب جوائن کروائیں تو دس پرسنٹ( ٪۱۰) ہر گاہک کے اعتبار سے کمیشن ملتا ہے،پھر آگے جیسے جیسے اپنے ڈاوٴن لائن کے نیچے دو دو گاہک لگتے جائیں گے تو ہر گاہک کے اعتبار سے بھی دس پرسنٹ( ٪۱۰) کمیشن ملتا رہے گا ، توکیا میجک باکس گلوبل(Magic Box Global) نامی کمپنی میں اس طرح سے اپنے نیچے آدمی جوڑ کر کمائی کرنا جائز ہے۔
(نوٹ)اپنے نیچے ممبر جوائن کروانے کے لئے اپنی آ ئی ڈی(ID) سرخ کروانا لازم ہے اور اپنی آ ئی ڈی سرخ کروانے کے لئے کمپنی کے کسی نہ کسی پروڈکٹ کا خریدنا ضروری ہے، اسی طرح کمیشن حاصل کرنے کے لئے پہلی مرتبہ اپنے نیچے تین ممبرجوائن کروانا بھی لازم ہے یعنی ایک دائیں جانب اور دو بائیں جانب یا دو دائیں جانب اور ایک بائیں جانب ۔
فقط والسلام
جو ّاد زبیر(بنگلور)
الجواب حامداً ومصلّیا
شریعت نے اجرت یا کمیشن وغیرہ کے جواز کے سلسلہ میں یہ اصول مقرر کیا ہے کہ اجرت یا کمیشن وغیرہ اسی وقت جائز ہے، جبکہ وہ کوئی مفید اور ضروری کام کے بدلہ میں حاصل ہو مثلاً عمل ،مزدوری یا ملازمت وغیرہ کے بدلہ میں، اس کے علاوہ بطور ِ حق کوئی عوض لینا جائز نہیں ہے۔
سوال میں ذکر کردہ کمپنی ”میجک باکس گلوبل“(Magic Box Global) کا شرعی طور پر مکمل جائزہ لینے سے یہ حکم دیا جاسکتا ہے کہ اگر کوئی شخص اس کمپنی سے صرف سامان خریدتا ہے یا سامان کی خریداری کے ساتھ ساتھ، صرف پہلی مرتبہ اپنے نیچے تین ممبرجوائن کرواکر کمپنی سے حسب ِ وعدہ دس پرسنٹ( ٪۱۰) ہر گاہک کے اعتبار سے کمیشن لیتا ہے تویہ دونوں چیزیں اس کے لئے جائز ہیں یعنی(۱) کمپنی سے سامان خریدنا اور اس کے بعد (۲)صرف پہلی مرتبہ اپنے نیچے تین ممبر جوائن کرواکر کمیشن لینا۔
البتہ یہ سلسلہ جب ان ابتدائی دو مراحل سے آگے بڑھ کر جب تیسرے مرحلے میں داخل ہوتا ہے یعنی ٹاپ ممبر نے جن تین لوگوں کو محنت کرکے جوائن کروایا تھا اگر وہ تین گاہک اپنے نیچے مزید ممبرس جوائن کرواتے ہیں تو اس پر بھی کمپنی کی جانب سے جو ٹاپ ممبر کو بطور ِ کمیشن کے اجرت دی جاتی ہے اس کا لینا ٹاپ ممبر کے لئے جائز نہیں ہے۔
اس لئے کہ ٹاپ ممبرنے صرف پہلی مرتبہ اپنے نیچے تین ممبرلگانے یاجوائن کروانے کے لئے محنت کی ہوئی ہوتی ہے ،لیکن یہ چائن (Chain)جب آگے چل کر لمبی ہوتی جاتی ہے تو ابتدائی ممبر کو اپنے ڈاوٴن لائن کے نیچے ایسے لوگوں کی جوائننگ یا خریداری کا کمیشن بھی مل رہا ہوتا ہے، جن پر اس نے براہ ِ راست محنت ہی نہیں کی ہوتی ہے ،بلکہ وہ ان کو جانتا تک نہیں ہوتا ہے،اوراس طرح بغیر محنت کے صرف بطور ِحق عوض لینا، جس میں اس کی محنت کا بالکل عمل دخل نہ ہو شرعاً جائز نہیں۔
لا یستحق الربح الا باحدی ثلاث بمال أو عمل أوتقبل (قولہ : أوتقبل) عبارة الدررأو ضمان ۔( شامی: ۴ /۳۲۴)
لا یجوز لأحد من المسلمین أخذ مال أحد بغیر سبب شرعی۔( شامی: ۲ /۱۶۷)
مذکورہ فقہی تکییف کے مطابق اس طرح کی کمپنیوں سے صرف سامان خریدنا یا سامان کی خریداری کے ساتھ ساتھ، صرف پہلی مرتبہ اپنے نیچے ممبرجوائن کرواکرہر گاہک کے اعتبار سے کمیشن لینا جائز تو ہے ، مگر اس طرح کی کمپنیوں کے تجارتی طریقہٴ کار کا بغور مطالعہ کیا جائے تو یہ بات کسی سے مخفی نہیں کہ اس طرح کا تجارتی طریقہٴ کار وضع ہی اس لئے کیا جاتا ہے؛ تاکہ لوگ کمپنی کے پروڈکٹ کی خریداری سے بڑھ کر کمیشن کے لالچ میں اپنے نیچے گاہکوں کی ایک لامتناہی قطار کھڑا کرکے اس کے ذریعہ زیادہ سے زیادہ نفع کماسکیں، اور اس بات کا مشاہدہ ان کمپنیوں کی جانب سے دی جانے والی ٹریننگ سے بھی بخوبی واضح ہوتا ہے، ان ٹریننگ پروگراموں میں گاہک کو جو کامیابی کے بڑے بڑے خواب دکھائے جاتے ہیں،اس کا سارا دارومدار اس کمپنی کے پروڈکٹ کے استعمال پر نہیں ہوتا ؛بلکہ اپنے نیچے گاہکوں کو لگا کر حاصل ہونے والی کمیشن پر ہی منحصر ہوتا ہے، پروڈکٹ تو بس ایک ذریعہ ہے مارکیٹنگ میں داخل ہونے اور اپنی آ ئی ڈی(ID) کے سرخ کروانے کا ، جیسا کہ سوال سے واضح ہے ۔
لہذا اگر کسی شخص کا ارادہ ابتداء سے ہی خالص اپنے نیچے گاہک لگا کر ان کے ذریعہ کمیشن حاصل کرنا ہواور اس کمپنی کے پروڈکٹ کا خریدنا محض ایک ضمنی چیز ہو تو پھر اس طرح کی کمپنیوں میں ابتداء ہی سے شرکت کرنا جائز نہیں ہوگا، کیوں کہ یہ شرکت اپنے ابتدائی مرحلہ میں فی الحال تو درست ہے، لیکن یہ سبب اورذریعہ ہے حرام میں مبتلاء ہونے کا، جس سے بچنا حتیٰ المقدور ضروری ہے ،چناں چہ گاہک لگا کر کمیشن لینے کی نیت سے خود شریک ہونا یا کسی اور کو شریک کروانا شرعاً جائز نہیں، مزید یہ کہ اس طرح کے معاملات میں اور بھی بہت ساری شرعی ومعاشی خرابیاں پائی جاتی ہیں۔
مثلاً سوال میں مذکور کمپنی ”میجک باکس گلوبل“(Magic Box Global)کے کل چھ اِنکم پلانس ہیں جس کے ذریعہ ممبر اپنے نیچے گاہک لگا کر کمیشن حاصل کرسکتا ہے :
۱) میچنگ پوائنٹس (Matching Points)۔
۲) رائلٹی بونس(Royalty Bonus)۔
۳) ریوارڈس(Rewards)۔
۴) بونانزا(Bonanza)۔
۵) ری پرچیس بونس(Re-Purchase Bonus)۔
۶) فرنچائزی(Franchisee)۔
ان چھ طرح کے انکم پلانس میں سے صرف پہلے پلان کا جائزہ لینے سے ہی یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ ان ذرائع سے منافع حاصل کرنا شرعاً جائز نہیں۔
چنانچہ کمپنی کا پہلا انکم پلان میچنگ پوائنٹس(Matching Points) ہے، اس میچنگ پوائنٹس کو کمپنی نے چار حصوں میں تقسیم کیا ہے(۱) سلور کلب(Silver Club) (۲)گولڈکلب(Gold Club) (۳)پلاٹینم کلب(Platinum Club) (۴)اور ڈائمنڈ کلب(Diamond Club) ان چاروں طرح کے میچنگ پوائنٹس انکم پلان میں مجموعی طور پر یہ بات مذکور ہے کہ کوئی بھی ممبر ان مذکورہ پلان کے ذریعہ کمیشن کا حقدار اسی وقت بن سکتا ہے؛ جب کہ وہ پہلی مرتبہ اپنے نیچے تین ممبرجوائن کروائے ایک دائیں جانب اور دو بائیں جانب، جس کی تفصیل اوپر ذکر کی جاچکی ۔
لیکن اب سوال یہ ہے کہ اگر کوئی شخص اس کمپنی کا مستقل ممبر بننے کے بعد جب پہلی مرتبہ مارکیٹنگ کرتے ہوئے اپنے نیچے صرف ایک ممبر جوائن کروائے دوسرا ممبر نہ بنا سکے ،یا کسی طرح کوشش کرکے دو ممبرتو جوائن کروادے؛ لیکن تیسرا نہ بنا سکے تو ایسی صورت میں اس شخص کی اپنے نیچے ایک یا دو ممبر جوائن کروانے پر جو محنت لگی، اس کا کچھ بھی صلہ اس کو نہیں ملتا ،گویا کہ اس کی پوری محنت رائیگاں گئی جو کہ خلافِ ِشرع ہے، اور یہ حقیقت میں ایک معاملہ کو دو چیزوں کے درمیان معلق کرنا ہوا یعنی پہلی مرتبہ اگرتین ممبر بنائے تو اتنی اجرت ملے گی اگرتین ممبرنہ بناسکے تو کچھ بھی نہیں ملے گا، چاہے تم کوشش کرکے ایک یا دو ممبر ہی کیوں نہ بنالو، حالاں کہ یہ اجارہ کے اصول کے خلاف ہے ، بلکہ اجارہ کا اصول یہ ہے کہ جس نے جتنی محنت کی ہوتی ہے اس کو اس کی محنت کے بقدر معاوضہ ملنا چاہیے۔
ھذہ فصول أحدھا أن یقول ان خطتہ الیوم فلک درھم وان خطتہ غداً فلا شئی لک وھو فاسد بالاتفاق! لانّ ھذہ مخاطرة فانّہ شرط لہ علی نفسہ درھماً ان خاطہ الیوم ولنفسہ علیہ العمل ان لم یخطہ الیوم وھو صورة القمار۔ (المبسوط للسرخسی)
مزید یہ کہ تجربہ بھی اس بات کا شاہد ہے کہ اس طرح کی اسکیموں میں حصہ لینے والے ممبروں میں سے تقریباً پچاس فیصد ممبر ایسے ہوتے ہیں، جو ایک یا دو ممبر بناکر چھوڑدیتے ہیں،آگے کام نہیں کرتے، اب ان پچاس فیصد ممبروں کی وجہ سے کمپنی کو جتنے بھی گاہک ملے اس کا نفع تو کمپنی اٹھاتی رہتی ہے، لیکن ان بیچاروں کے ہاتھ کچھ نہیں آتاسوائے ان قیمتی پروڈکٹس کے جس کو انھوں نے اس امید پر خریدا تھا کہ اس سے ان کی زندگی خوشحال ہوجائے گی۔
وانّ الغررفی مثل ھذا النظام کثیر، وخاصة لانّہ یعتمد عادة علی شروط معقدة یفحش بھا الغرر۔(فقہ البیوع : ۲ / ۸۱۵)
مذکورہ بالا تفصیل کے پیش ِنظر شرعی اعتبار سے میجک باکس گلوبل(Magic Box Global) نامی کمپنی کو گاہک لگا کراس سے کمیشن حاصل کرنا جائز نہیں۔
اور معاشی پہلو سے بھی اس طرح کی کمپنیوں میں بہت ساری قباحتیں پائی جاتی ہیں، بطورِ تمثیل صرف سمجھنے کے لئے ان میں سے چند معاشی قباحتوں کا ذکر کیا جاتا ہے، مثلاً ان کمپنیوں کا حال یہ ہے کہ وہ اپنے پروڈکٹس کے ذریعہ لوگوں کو ان کے روزمرہ کی ضروریات مہیا کرانے سے بڑھ کر بے جا اشیاء کی ایک مصنوعی طلب پیدا کرکے زیادہ سے زیادہ خریداروں کو اس طرف مائل کرتے ہوئے کمیشن کمانامقصود ہوتا ہے ، جو معاشی وسائل کے ضیاع کا ذریعہ بھی بن سکتا ہے، اور حقیقت میں یہ نجش کی صورت ہے، جس کی ممانعت حدیث میں آئی ہے:
”نھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم أن یبیع حاضر لباد ، ولا تناجشوا، ولا یبیع الرجل علی بیع اخیہ“ (صحیح البخاری : ۲۱۴۰)
صاحب ِ ہدایہ نے نجش کی تعریف کرتے ہوئے ذکر کیا ہے:
وفی الہدایة قال: ونھی رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم عن النجش وھو أن یزید فی الثمن ولا یرید الشراء لیرغب غیرہ ۔
ترجمہ: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے نجش سے منع فرمایا ہے، اور نجش یہ ہے کہ کوئی ثمن میں اضافہ کرے، لیکن اس کا خریدنے کا ارادہ نہ ہو، تاکہ دوسروں کو اس کی طرف رغبت ہو۔
اس طرح کی کمپنیوں کے اکثر ممبرس(Members) کا حال بھی تقریباً یہی دیکھا گیا ہے کہ وہ اپنے نیچے گاہک لگانے کے چکر میں ایسے لوگوں کو بھی ایک نا ختم ہونے والی آمدنی کے خواب دکھا کرکمپنی کے کسی نہ کسی پروڈکٹ (Product) کوان کے سر باندھ دیتے ہیں، جن کو حقیقت میں ان پروڈکٹس (Products)کی ضرورت ہی نہیں ہوتی ۔
مثلاً سوال میں مذکور اسی کمپنی کی مثال لے لیں کہ اس کا ایک پروڈکٹ ہے، جس کا نام”اِمولیا ۷“(IMOLIYA 7) ہے، جس کی قیمت ڈھائی ہزار روپئے ہے، اورکمپنی کی جانب سے اس پروڈکٹ کی خاصیت یہ بتائی جاتی ہے کہ انسان کے کھانے پینے کی اشیاء میں کیلشیم کی کمی کی وجہ سے جو کمزوری واقع ہوتی ہے اس کا تدارک اس ” اِمولیا ۷“ نامی کیپسولس یا پاوٴڈر سے کیا جاسکتا ہے، بات تو ٹھیک ہے ۔
لیکن سوال یہ ہے کہ کیا کمپنی اس پروڈکٹ کو صرف انہی لوگوں تک پہنچاتی ہے، جن کو کیلشیم کی کمی کی وجہ سے کمزوری واقع ہوئی ہے یا اس طرح کے پروڈکٹ ان لوگوں کے ہاتھوں میں بھی تھمادیا جاتاہے ،جو ابھی جوانی کے ابتدائی اسٹیج میں قدم رکھے ہوئے ہوتے ہیں اور یہ بات کسی سے مخفی نہیں کہ خاص طور پر اس طرح کی کمپنیاں اسکولوں اور کالیجز میں پڑھنے والے نوجوان طلباء کو ایک ناختم ہونے والی پرافٹ کے سنہرے خواب دکھا کراپنے پروڈکٹس کی مارکیٹنگ کے لئے آلہٴ کار بناتی ہیں ، بلکہ اب تو یہ بھی سننے میں آرہا ہے کہ آج کل مدارس میں پڑھنے والے طلباء کو بھی اس میں پھنسایا جارہا ہے،چوں کہ عام طور پرزمانہ طالب علمی میں طلباء کے پاس آمدنی کا کوئی معقول ذریعہ نہیں ہوتا،اس لئے یہ بیچارے بآسانی ان کا شکار بھی ہوجاتے ہیں، اب ذرا غور کریں کہ ان اسکولوں،کالیجوں اور مدارس میں پڑھنے والے طلباء کو ایک نا ختم ہونے والی آمدنی کے جھوٹے خواب دکھا کر ” اِمولیا ۷“ نامی کیپسولس یا پاوٴڈر کا بیچنا دھوکہ نہیں ہے؟ اور یہ بیچارے طلباء بھی باوجود ضرورت نہ ہونے کے صرف اس لئے بخوشی اس طرح کے پروڈکٹ خریدنے پر آمدہ ہوجاتے ہیں کہ انہیں اس کے ذریعہ ایک بہت بڑی ناختم ہونے والی کامیابی نظر آتی ہے جو کہ حقیقت میں دھوکہ کے سوا کچھ نہیں۔
لاتفعلوا ذلک وسبب ذلک ایقاع رجل فیہ بأزید من الثمن وھوخداع ، والخداع قبیح جاورھذا البیع فکان مکروھا۔ (عنایہ مع فتح القدیر: ۶ /۴۳۶)
اسی طرح عام طور پر اس نوعیت کی کمپنیاں اپنے پروڈکٹس کی قیمت عام بازاری قیمت کے مقابلہ میں زیادہ رکھتی ہیں ، لہذا جہاں ایک طرف یہ کمپنیاں اپنے کم قیمت کے پروڈکٹس(Products) مہنگے داموں میں فروخت کرکے بہت بڑا نفع کماتی رہتی ہیں،وہیں دوسری جانب بھولے بھالے لوگوں کو کمیشن دلوانے کا لالچ دلاکر ان کے ذریعہ اپنے گاہکوں کی تعداد روزبروز بڑھاتے ہوئے کم وقت میں بہت بڑا نفع ہڑپ لے جاتی ہیں ۔
عام آدمی بے چارہ کمیشن کے لالچ میں آکر نہ چاہتے ہوئے بھی اس مہنگے پروڈکٹ کے خریدنے پر مجبوراً راضی ہوجاتا ہے جس کا مکمل فائدہ کمپنی کو ہوتا ہے، جو کہ معاشی و شرعی اعتبار سے دھوکہ ہے۔
یہ چند شرعی اور معاشی خرابیاں ہیں جو اس کمپنی کے سرسری مطالعہ سے ظاہر ہورہی ہیں، اگر کوئی دقیق النظراس طرح کی کمپنیوں کاگہرائی سے مطالعہ کرے تو اور بھی بہت ساری خرابیاں سامنے آسکتی ہیں، لہذا عقلمندی کا تقاضہ یہی ہے کہ اس طرح کی کمپنیوں سے حتی المقدور خود کو اور اپنے جاننے پہچاننے والوں کو دور رکھا جائے ۔
وا للہ سبحانہ وتعالیٰ أعلم باالصواب
بندہ: محمد سلمان مظاہری