نظامتِ جلسہ کا ایک ماہر شہ سوار

یعنی بلبل ہند حضرت مولانا عبد الرحیم صاحب فلاحی

مستقیم احمد خان                           

                                                (خادم جامعہ منہاج العلوم رنجنی ،ضلع جالنہ)

بسم اللہ الرحمن الرحیم

            الحمد للہ رب العالمین والصلٰوٰة والسلام علٰی رسولہ محمد وآلہ واصحابہ اجمعین ، فاعوذ باللہ من الشیطٰن الرجیم بسم اللہ الرحمٰن الرحیم ،الرحمٰن، علم القرآن، خلق الانسان، علمہ البیان ۔وقال النبی ﷺ ان من البیان لسحرا۔

            اللہ رب العزت کا بڑا احسان وکرم ہوا کہ اس نے ہمیں اشرف المخلوقات میں پیدا فرمایا اور انسان بنایا۔ قوت ِگویائی عطا کی اور اپنے ما فی الضمیر کو ادا کرنے کی صلاحیت عطا فرما ئی ،جو دیگر مخلوق کے اندر اللہ رب العزت نے نہیں رکھی ۔اسی لیے اللہ رب العزت نے سورہٴ رحمن میں سب سے پہلے عظیم نعمت؛ تعلیم قرآن کو بیان کیا۔ پھر اپنی قدرت کا اظہار کرتے ہوئے تخلیقِ نو ع انسانی کو بیان کر کے انسان کے اوپر ہونے والی تمام نعمتوں کو چھوڑ کر سب سے عظیم نعمت و صلاحیت کو ﴿علمہ البیان ﴾کے ذریعہ بیان فرمایا ۔کہ اے انسانو! ہم نے تمہیں بولنا سکھا یا ہے ،اپنے مافی الضمیر کو ادا کرنے کی صلاحیت ولیاقت تمہارے اندر ودیعت کر دی ہے اور اس بات کی تعلیم دی کہ اپنی زبان سے اچھے بو ل نکالو ۔

            اب اس کے آگے انسان جیسی محنت کرتاہے، اپنے اوپر جیسی صحبت وتربیت کا اثر ڈالتاہے، ویسے بول بولتا ہے ۔اگر وہ اپنے آپ کو علم سے آراستہ کر تا اورسنت ِنبویہ سے خود کو مزین کرتا ہے تو اس کی زبان سے ایسے کلمات صادر ہوتے ہیں، جن سے دل یاد ِالٰہی سے معمور ہوتا ہے ۔وہ ذکر اللہ سے رطب اللسان رہتا ہے ۔اور اگر ابن آدم نے اپنے آپ کو علوم دینیہ سے آراستہ اور سنت نبویہ سے مزین نہیں کیا ،صلحا کی صحبت اور ان کی تربیت سے استفادہ نہیں کیا تو ایسے لوگوں کی زبانیں بد گو ئی وفحش کلامی سے معتوب ہو جاتی ہیں ۔

            علم دین سے آراستہ انسان” امر بالمعروف“ اور” نہی عن المنکر“ کی ذمہ داریوں کو بھی بحسن وخوبی انجام دیتا ہے، جس کی بنیاد پر اللہ رب العزت نے اس امت کو خیر امت کا لقب عطا فرمایا ہے۔            ارشاد باری ہے:﴿کنتم خیر امة اخرجت للناس تأمرون بالمعروف وتنھون عن المنکر ﴾اس لیے ہر مقرر ،مبلغ اور خطیب کو اس بات کا اہتمام کرنا چاہیے کہ امر بالمعروف ونہی عن المنکر کے عنوان سے جو بات کرنی ہو ،اسے نہایت ہی عمدہ اور سلیقہ مندی سے مرتب کر ے تاکہ سامعین وقارئین پر اثر ہو ۔مدارس اسلامیہ میں طالبان ِعلوم نبوت کو یہی سلیقہ سکھایا جاتا ہے تاکہ یہاں سے فارغ ہونے والے اپنے علاقہ میں جا کر لوگوں کے درمیان موٴثر طریقہ سے دین کی تبلیغ کریں۔ امر بالمعروف کا فریضہ انجام دیں، جس کے لیے مدارس میں انجمنیں قائم ہوتی ہیں، جلسے منعقد کیے جاتے ہیں اورکسی بھی جلسہ اور کانفرنس کے نظم وضبط کو برقرار رکھنے کے لیے ایک ناظم ِجلسہ کی ضرورت پڑتی ہے، جو اپنے طرز گفتگو، باوقار آواز اور قیمتی تبصروں کے ذ ریعہ مجمع کو جوڑے رکھتا ہے ۔جلسہ کو کام یاب بنانے میں ناظم کا بڑا رول اور کردار ہو تاہے، جس کے لیے ناظم جلسہ کے اندر چند خصوصیات کا ہونا ضروری ہوتا ہے،جن میں سے چند حسب ذیل ہیں ۔

            (۱) ناظم جلسہ ایک باوقار، بلند ہمت اور باصلاحیت ہونا چاہئے۔

            (۲) ناظم جلسہ کو سامعین اور اسٹیج پر تشریف فرما علمائے کرام اور زعمائے عظام پر مکمل کنٹرول ہو ۔

            (۳) ناظم جلسہ کا افتتاحیہ ایسے مقدمہ پر مشتمل ہو، جس میں انعقاد جلسہ کا مقصد اور سامعین کومحظوظ کرنے والا ہو ۔

            (۴) کسی بھی مقرر کی تقریر یا شاعر کے کلام کے بعد ایسا تبصرہ کرنے والا ہو کہ اس تقریر کو غفلت کے ساتھ سننے والے کو حسرت اور پچھتاوا ہو ۔

            (۵) اگلے مقرر کومدعو کرنے سے پہلے ایسی گفتگو کرے کہ حاضرین اس کو سننے کے لیے ہمہ تن متوجہ ہو جائیں ۔

            (۶) بر محل کچھ اشعار ولطائف اور اقوال زریں پیش کرنے پر قادر ہو ۔

            (۷) جلسہ میں شریک ہونے والے مہمانِ خصوصی کے استقبال میں ایسے کلام پیش کرنے کی قدرت ہو، جو مہمانوں کے شایان شان ہو ۔

            (۸) ہر ماحول کو بھانپ کر گفتگو کرنے والا ہو ۔

            (۹) مدارس ِاسلامیہ سے منسلک پروگرام چلانے والے کے لیے اردو، عربی اور علاقائی زبان کے ساتھ ساتھ قدرے انگریزی زبان پر بھی عبور حاصل ہو تو بہتر ہے ۔

            (۱۰) صدر اجلاس کے مطیع فرما ں بردار ہو ۔”تلک عشرة کاملة “

            ظاہر ہے ایسے خصوصیات سے متصف ناظم لاکھوں میں ایک پایا جاتا ہے ۔

            ہمارے حضرت الاستاذ مولانا عبد الرحیم صاحب فلاحی رحمہ اللہ تعالیٰ رحمةً واسعةً ان ہی لاکھوں میں سے ایک قیمتی ہیرا تھے، جن کے اندر اللہ نے یہ سارے اوصاف جمع فرما دیے تھے۔ آپ بڑے باحوصلہ، بلند ہمت اور باصلاحیت تھے۔ آپ کی نظامت سے متاثر ہو کر بڑے بڑے علما وزعما نے آپ کی صلاحیت کا اعتراف کیا ۔ جامعہ کی جانب سے ہر تین سال کے بعدجو کل ہندمسابقات کا انعقاد ہوتا ہے، ان میں اس عاجز کا سفر حضرت کے ساتھ ہوتا رہا ہے۔ ان مسابقات میں ہر مسابقہ کی آخری مجلس بہت اہم ہوتی ہے ،جس میں علاقہ کے بڑے بڑے علماو دانش وران، اس علاقہ کے سرکاری بڑے بڑے عہدوں پر فائز مہمانان ِکرام شامل ہوتے ہیں۔ کہیں کہیں تو ایسا بھی ہوتا ہے کہ جس ریاست میں مسابقہ ہورہا ہوتا ہے اس ریاست کے گورنر وغیرہ بھی مدعو ہوتے ہیں۔ ان سب کے سامنے حضرت مولانا مرحوم بڑی بے باکی اور جرأت مندی کے ساتھ جامعہ اور رئیس جامعہ کی ایسی ترجمانی کرتے تھے کہ مجمع پر سناٹا طاری ہوجاتا تھا اورحاضرین کوحضرت ِرئیس جامعہ کی خدمات کو قبول کرنا پڑتا تھا ۔بر محل اشعار واقوال کہہ دینا چٹکیوں کا کھیل تھا ۔جلسہ میں شریک مہمانا ن ِخصوصی؛ علما وزعما میں سے ہر ایک کا پورا پورا خیال رکھتے تھے ۔یہاں تک کہ اگر کوئی اسٹیج لیبل کا فرد عام مجمع میں بیٹھا ہوا ہوتا تو ان کو مائک سے پکار کر اسٹیج پر تشریف فرما ہونے کی دعوت دیتے ۔خواہ وہ مقام ومرتبہ کے اعتبار سے خود حضرت علیہ الرحمة سے کم درجہ کا کیوں نہ ہو یا شاگرد ہی کیوں نہ ہو۔اکرام اور احترام کرنے کا جذبہ کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا تھا۔ آپ کا افتتاحیہ بھی بڑا پر مغز ،بصیرت آمیز اور سبق آموز ہوتا تھا ۔اپنے افتتاحیہ میں جلسہ کے اغراض ومقاصد کو بڑی ہی خوب صورتی کے ساتھ بیان کر دیتے تھے ۔

            یقینا آپ نظامت جلسہ کے ایک ماہر شہ سوار تھے ۔کسی بھی عنوان کاکوئی بھی جلسہ ہو، کانفرنس ہو یا داخلی وضلعی ،ریاستی یا ملکی پیمانہ کا مسابقہ کیوں نہ ہو؛ آپ بحسن وخوبی ان تمام کو کنٹرول کر لیتے تھے۔ کیوں کہ ناظم جلسہ کے لیے سب سے بڑا چیلنج حاضرین وسامعین کو کنٹرول کرنا ہی رہتا ہے۔ چناں چہ جب بھی جامعہ اسلامیہ اشاعت العلوم اکل کوا میں سالانہ جلسہ ہوتا تو اس جلسہ کو کام یاب بنانے کے لیے بہت فکر مند ہوتے اور ایک ماہ قبل سے ہی اس کی تیاری میں مصروف ہو جاتے تھے۔ پروگرام میں حصہ لینے والے طلبا کا حسن انتخاب، ان کی تقاریر، نعت ونظم کو سننا اور تیاری میں مصروف رکھنا ، اجلاس سے قبل جلسہ گاہ کا انتخاب ، اس میں کام آنے والی تمام چیزوں کی فکر کرنا ،اسٹیج تیار کرنا، مائک سسٹم درست رکھنا، آنے والے مہمانوں کے لیے فرق مراتب کو ملحوظ رکھتے ہو ئے ان کے بیٹھنے کاایسا انتظام کرتے کہ” انزلوا الناس منازلھم“ کا بہترین نمونہ پیش کر دیتے۔ اور کسی کی دل شکنی بھی نہ ہوتی، یہ آپ کا خصوصی وصف تھا ۔

            یقینا آپ علیہ الرحمةکا اس دنیا سے رخصت ہو جانا ؛جامعہ اور فروعات جامعہ کے لیے بالخصوص اور جملہ وابستگان علوم دینیہ کے لیے بالعموم بہت بڑا خسارہ ہے ۔آپ کی وفات کیا ہو ئی پورا علمی حلقہ ہی سوگوار ہو گیا۔اس میں کوئی شک نہیں کہ حضرت علیہ الرحمہ جامعہ کے اہم رکن رکین، علم دوست ،صفت عبدیت اور صفت رحیمیت کے مظہر تھے ۔گویا اسم با مسمی تھے ،حلیم الطبع اور متبسم الوجہ تھے ۔دل میں فیاضی کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی ۔ہر چھوٹے بڑے کی ضیافت کا مزاج تھا۔طالبان علوم نبوت کے سروں پر دست شفقت رکھنے والے تھے۔ یتیم طلباکے لیے تڑپ جاتے تھے ،رفقائے کا رکے مابین بڑی ملنسار ی سے رہتے تھے، مسابقہٴ قرآنی وقافلہٴ نورانی کے بڑے لیڈر اور قائد ہوا کرتے تھے ۔

            ایسی عظیم ہستی کے احاطہٴ جامعہ سے اٹھ جانے سے حضرت رئیس جامعہ کو کتنا صدمہ ہوا ہوگا اس کا ندازہ نہیں لگایا جا سکتا۔ اللہ سے دعا گو ہوں کہ اللہ رب العزت حضرت مولانا مرحوم کی قبر کونور سے منور فرماکر جنت کے باغوں میں سے ایک باغ بنائے ۔جنت الفردوس میں جگہ عطافرماتے ہوئے پسماندگا ن کو صبر جمیل اورجامعہ کو نعم البدل عطا فرمائے ۔ اللھم اغفرہ وارحمہ وسکنہ فی الجنہ واجعل قبرہ روضة من ریاض الجنة “   

تربت پہ تیری رحمتیں اب برسیں ہمیشہ

نسلوں پہ تیری رحم کرے اللہ ہمیشہ

شاگرد تیرے دین کے خادم ہوں ہمیشہ

دارین میں مل جائے فلاح ان کو ہمیشہ

                                                                        فقط والسلام

                                                                        ۔:شریک حزن وغم :۔

                                                                        مستقیم احمد خان

                                                (خادم جامعہ منہاج العلوم رنجنی ،ضلع جالنہ)