حضرت فلاحی کی سہارنپور اور سہارنپوریوں سے محبت کی دلنشیں یادیں!
احمد بن حافظ قربان سہارنپوری
ہر ایک سے واقفیت اور تعلق کا نرالا انداز:
استاذ محترم حضرت مولانا عبدالرحیم صاحب فلاحی کا تعارف سب سے پہلے اس وقت ہوا جب میں اپنے اسکول میں جماعت ہفتم کا طالب علم تھا۔ جامعہ ڈی ایڈ بی ایڈ کالج کی طرف سے اس سال اکل کوا میں موجود تمام اسکولوں کے درمیان ایک تقریری مقابلہ ہوا تھا، اس مقابلے کے انعامی جلسے میں حضرت مہمان ِخصوصی کے طور پر تشریف لائے تھے۔ انعامات تقسیم کرتے وقت جب حضرت نے میرے ہاتھ میں ٹرافی تھمائی تو والد صاحب کا نام لے کر تعریف کرنے لگے، میں چوں کہ اس وقت چھوٹا تھا تو چونک گیا کہ یہ مجھے اتنی اچھی طرح جانتے ہیں اور مجھے ان کا نام تک نہیں پتا۔ گھر آکر والد صاحب کو پورا قصہ سنایا تو والد صاحب نے حضرت کا مکمل تعارف کرایا۔ اس کے بعد جب شعبہ ٴعالمیت میں داخلہ ہوا تو حضرت سے بارہا ملاقات ہوتی اور حضرت اپنے شفقت بھرے انداز میں ہر دفعہ ایک ہی سوال پوچھتے : اجی تم کہاں کے ہو جی ؟ اجی تم سہارنپور کے ہو جی ؟ اجی وہاں کی بولی تو مھارے پے آوے ہے جی۔ اور سہارنپور کی دیہاتی زبان میں ہی بات کرتے۔ اور فرمایا کرتے تھے کہ مجھے سہارنپور کے لوگوں سے بہت محبت ہے۔
زندگی میں چھپ کر نہیں چھپ کر کام کرو:
حضرت اپنے چھوٹوں اور طلبہ کی شخصیب بھانپ لے تے ،ان کی صلاحیتوں کو نہ صرف پرکھتے بل کہ اسے لہلہانے کے لیے جس انداز سے سینچائی کی ضرورت ہوتی ہے سینچتے اور پروان چڑھاتے ۔میرا ذاتی واقعہ ہے: عربی چہارم کے سال میں جب ہم نے "یہ ہندوستان ہمارا ہے” ترانہ پڑھا تو وہ بہت مقبول ہوا اور اس سے اچھا خاصہ تعارف ہوا۔ میں اس کے بعد جب حضرت سے ملا تو حضرت نے صرف ایک جملہ فرمایا : بیٹا زندگی میں چھپ کر نہیں چھپ کر کام کرو۔
طلبہ سے مثالی محبت اور تربیت کا نرالا انداز:
حضرت کو طلبہ سے بڑی محبت تھی اور آپ کا اصلاح کرنے کا اپنا ایک الگ ہی انداز تھا، پہلے ڈانٹ پلاتے یا جو اصلاح کرنی ہوتی کر دیتے اور پھر طالب علم کی دلجوئی کے لئے اسے اپنی طرف سے ہدیہ دے دیا کرتے ،گویا آپریشن کرکے گندہ مواد نکال دیتے اور پھر زخم کھلا نہ رہے اور مندمل اور پر سکون ہو جائے اس کے لیے محبت بھرا مرحم۔
ّذاتی واقعہ:
ایسا ہی واقعہ میرے ساتھ اس وقت پیش آیا جب میں عربی پنجم میں تھا۔ صبح پہلے گھنٹے کے لئے میں تھوڑا تاخیر سے مدرسہ پہنچا اور اچانک باب ِصدیق کے پاس حضرت سے ملاقات ہو گئی تو سلام کرنے کے بعد حضرت کا پہلا سوال تھا : اجی آپ کیا پڑھاتے ہو جی ؟ میں نے سوچا حضرت یہ پوچھنا چاہ رہے ہیں کہ آپ کس درجہ میں پڑھتے ہیں ؟ میں نے جواب دیا : عربی پنجم
اگلا سوال : اچھا جی تو آپ عربی پنجم میں کونسی کتاب پڑھاتے ہو جی ؟
اس وقت میں سمجھ گیا کہ حضرت مزاق کر رہے ہیں اور میں ہنس کر خاموش ہو گیا اس کے بعد معمول کے مطابق حضرت سہارنپوری زبان میں ہی بات کرتے ہوئے اپنے ساتھ دورہٴ حدیث شریف کے دوسرے منزلے تک اپنے ساتھ لے گئے وہاں پہنچ کر ہم تینوں کو ( دورہ حدیث شریف کے وہ دو طالب علم جو حضرت کو نیچے لے نے کے لئے آئے تھے ) سو سو روپے دیے اور نصیحت فرمائی کہ بیٹے محنت سے پڑھو اور امت کا درد اپنے اندر پیدا کرو! پھر مجھے رخصت کر کے ان طلباء کا سہارا لیتے ہوئے اوپر کو یہ کہتے ہوئے چڑھے : مجھے سہارنپور والوں سے بہت محبت ہے۔ مجھے سہارنپور والوں سے بہت محبت ہے۔
امتحان کے ایام تھے اور تمام طلبہ اپنے اپنے اعتبار سے امتحان کی تیاری میں مصروف تھے۔ درسگاہ میں تاخیر سے پہنچنے پر مولانا صدر الحسن صاحب نے وجہ دریافت فرمائی تو میں نے پورا ماجرا کہہ سنایا۔ مولانا نے بات پوری ہونے پر پوچھا کہ اس واقعے سے تم نے کیا سمجھا ؟ میرا جواب تھا کہ "طالب علم کو محنت سے پڑھنا چاہیے” مولانا نے فرمایا کہ نہیں اس سوال سے حضرت کا منشا یہ نہیں تھا بلکہ حضرت کہنا چاہ رہے تھے کہ جب تم ایک طالب علم ہو تو اساتذہ کے وقت میں کیوں آ رہے ہو تمہیں تو پہلے سے درسگاہ میں حاضر رہنا چاہیے۔
پھر جب ہم دورہٴ حدیث شریف میں پہنچے تو حضرت نے خصوصی توجہ فرمائی اور ہم دونوں (میں اور مولانارفیق درس مولانا حذیفہ صاحب سہارنپوری ) کو پہلی صف میں بٹھایا اور ہمیشہ اپنے ساتھ گھر تک لے جانا اور سہارنپوری زبان بولنا اور مزے لے لے کر سہارنپور میں بیتے ایام کے واقعات سنانا سال بھر چلتا رہا۔
آخری ملاقات:
مگر کسے علم تھا کہ یہ مشفق و مربی اتنی جلدی داغ مفارقت دے دیں گے، ہمیں تو آج بھی یقین نہیں ہوتا کیوں کہ آخری ملاقات جس وقت ہوئی تو حضرت دورہٴ حدیث شریف کے سامنے اپنی گاڑی میں سوار ہو رہے تھے اس دن بھی مجھ سے کہا کہ چلو احمد بیٹھ جاوٴ ،مگر میں نے یہ کہتے ہوئے اور اجازت لیتے ہوئے گاڑی کادروازہ بند کر دیا کہ مجھے یہاں ابھی کچھ کام ہے لہذا ابھی آپ کی رفاقت و شفقت سے محروم ہونا پڑے گا۔
کیا پتا تھا کہ یہ حضرت سے آخری ملاقات ہے پھر دو دن ملاقات نہیں ہو پائی اور اچانک تیسرے دن صبح آٹھ بجے اچانک مفتی سعید الدین معروفی کی کال آئی کہ حضرت فلاحی صاحب کا انتقال ہو گیا۔ میرے پیروں تلے سے زمین نکل گئی میں بنا سوچے سمجھے حضرت کے مکان کی طرف بھاگ پڑا اور وہاں جا کر جب اپنے بھائی حافظ ریان اور رضوان کو روتا ہوا دیکھا تو میری آنکھیں بھی نم ہو گئیں اور میں وہاں خود کو زیادہ دیر روک نہیں پایا اور واپس گھر آکر اپنے کمرے میں بند ہو گیا۔
اور سچ کہوں تو میرے ذہن میں آج بھی وہی مسکراتا چہرہ گردش کرتا ہے جسے میں نے آخری ملاقات کے وقت کار میں بٹھایا تھا اور آج بھی ایسا ہی لگتا ہے جیسے حضرت کہیں سفر پر گئے ہوئے ہیں۔لیکن یہ کبھی نہ ختم ہونے والا سفر رہ رہ کر آپ کی جدائی ،محبت، شفقت،کو کچوکے لگاتا رہتا ہے۔
اللہ ہمارے حضرت کی مغفرت فرمائے۔
احسان مندی کی پیکر عظیم:
آپ کس قدر احسان مند اور نسبتوں کا خیال رکھنے والے تھے کہ اپنی مادر علمی ،جہاں آپ نے اپنی تعلیمی زندگی کے ابتدائی اور انتہائی اوقات گذارے ہیں،اس مادر علمی اور اساتذہ سے محبت کا کیا عالم ہوگاکہ وہاں کے باشندے اور رہنے والوں کو دیکھ کر کھل اٹھتے ،اپنائیت کا پورا احساس کرتے اور کراتے اور ماضی کی سنہری یادوں کوہمیشہ تازہ رکھنے کی کوشش کرتے۔
میں آپ کی شخصیت کو دیکھتا ہوں ،تو بچپن کا نہ سمجھا شعر بار بار سامنے آتا ہے اور آپ کی ذات اور آپ کی ذات میں سموئی گوناگوں خوبیوں کی مکمل شہادت دیتا ہے
ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پر روتا ہے
بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا