دنیا کی قومیں اخلاق سے بنتی ہیں:
میرے دوستو! سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ ہم اپنی اولاد کی جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم کے مطابق تربیت کر یں۔ اگر ہماری اولاد بداخلاق ہوجائیں گی تو دنیا میں ہمارا کوئی مقام نہیں ہوگا۔ یادر کھئے! دنیا میں قومیں اخلاق سے آگے جایا کرتی ہیں اور اسی لیے لوگ محنت کر کے ہمارے ان بچوں کے اخلاق خراب کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔پرسوں مجھے معلوم ہوا کہ ڈرگس میں جتنے لوگ پکڑے جاتے ہیں ان میں ۷۰% پر سینٹ مسلمان نو جوان ہوتے ہیں۔کتنے افسوس کی بات ہے؟ اللہ تعالیٰ اِس امت پر رحم فرمائے اور ہمارے اخلاق درست فرمائے۔
میرے بھائیو! ہم حالات کا مقابلہ اس طرح نہیں کر سکتے کہ ہم بے راہ روی پر اپنی اولادکوڈال دیں۔شوقی# عربی کے ایک شاعر ہیں جن کا تعلق مصر سے ہے، انہوں نے ایک بڑی عجیب بات کہی:
انما الأمم بالأخلاق
فاذا ذہبت اخلاقہم ذہبوا
دنیا کی قو میں اخلاق سے بنتی ہیں، جب ان کے اخلاق خراب ہو جاتے ہیں تو وہ قوم بھی ختم ہو جاتی ہے، برے اخلاق کی قومیں دنیا میں نہیں ٹک سکتیں۔
یا در کھو! رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے دس سال تک صحابہ کو مکہ معظمہ میں رگڑا، بہت مصیبتیں آئیں، وہ فریاد کرتے رہے یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دعا فرمائیں، آپ فرماتے رہے:
”صبراً یا آل یاسر، صبراً یا آل یاسر“
یہاں تک کہ صحابہٴ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کندن بن گئے۔ اور مضبوط کیرکٹر والے بن گئے، تب جاکر پھر مدینہ منورہ میں اللہ تعالیٰ نے دوسرے احکام نازل فرمائے۔
ہم اس کم ز ور نسل کے ساتھ جو ہماری آنکھوں کے سامنے اس وقت پل رہی ہے، دنیا میں اوپر کا مقام حاصل کرنا چاہتے ہیں۔جوعلم میں پیچھے ہے،ہمارے کتنے پر سینٹ بچے ہیں، جواعلی قسم کی تعلیم لے رہے ہیں؟سائنس کے اندر جار ہے ہیں؟ ڈاکٹر بن رہے ہیں؟
یہاں تو مجھے معلوم نہیں میں تو آٹھ نو سال سے وہاں ٹورنٹو میں رہتا ہوں۔وہاں بہترین لائر کے بارے میں پوچھتے ہیں کہ ٹاپ لیول کا لائرکون ہے؟ تو وہ یہودی ہے، بہترین اکاؤنٹنٹ یہودی ہے، پولیٹیشین یہودی ہے، چالیس بڑے بڑے اخبار یہودی کے قبضہ میں ہیں، قو میں اس طرح اوپر جایا کرتی ہیں!؟بودے اخلاق والے، ناچنے والے، شراب پینے والے اور ڈرگس کی پڑیا جیب میں رکھنے والے، دنیا میں کسی کا کوئی مقابلہ نہیں کر سکتے۔ ہماری سمجھ کو اللہ تعالیٰ درست فرمائے۔
میں آپ کا زیادہ وقت لینا نہیں چاہتا بہت قیمتی وقت ہے۔ میں بس صرف ایک دردمندانہ اپیل کرتا ہوں کہ ہر شخص ان حالات پر غور کرے اور ہر شخص اپنے بچوں پر محنت کرے۔ رسول ِپاک صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:”ألا کلکم راع وکلکم مسئول عن رعیتہ“ تم میں سے ہر شخص راعی ہے اور ہرشخص اپنی رعیت کے بارے میں قیامت کے دن پو چھا جائے گا۔
برطانیہ کے بچوں میں ڈپریشن کی ایک وجہ:
پرسوں میں نے ایک رپورٹ پڑھا کہ برطانیہ کے اندر سروے کیا گیا تو معلوم ہوا دولاکھ چھبیس ہزار بچے ڈپریشن کا شکار ہیں اور ان میں سے دس سے لے کر تیرہ سال کی عمر کے دس فیصدلڑکے ہتھیار یا کوئی چیز لے کر اپنے آپ کوزخمی کرتے ہیں۔ تو پھر ان لوگوں نے ریسر چ کیا کہ ایسا کیوں ہور ہا ہے؟ کھانا اچھا ملتا ہے، کپڑے اچھے ملتے ہیں، ماں باپ پیسے دیتے ہیں، موٹروں میں گھومتے ہیں، پھر انہیں ڈپریشن کیوں ہو گیا؟ تو معلوم ہوا کہ ماں باپ ان کے ساتھ محبت اور پیار کی باتیں کرنے کا وقت نہیں نکال سکتے۔ماں باپ دیر تک کام کے سلسلہ میں گھر سے باہر رہتے ہیں، پھر گھر آ کر تھک تھکا کر سو جاتے ہیں۔بچے کہیں گھوم رہے ہیں اور ماں باپ موجود نہیں۔ ماں باپ ایک کمرہ میں ٹیلی ویژن دیکھتے بیٹھے ہوئے ہیں ،تو دوسرے کمرے میں بچے انٹرنیٹ پر کسی کے ساتھ بات چیت کر رہے ہیں یا دوسری خرافات میں مشغول ہیں،اس کی وجہ صرف یہ ہے کہ وہ بچے ماں باپ کی شفقت سے محروم ہیں۔ یہ تو میں نے پرسوں پیپر میں خبر پڑھی ہے، میں تو روزانہ اخبار پڑھتا ہوں اور بہت دھیان دے کر پڑھتا ہوں اور بہت دھیان سے دیکھتا ہوں کہ قوموں کے بارے میں آج کیا خبر ہے؟ یہ کرکٹ والاصفحہ میں کبھی نہیں دیکھتاکہ فلاں کے اتنے ہوئے اور فلاں کے اتنے۔دوسرا ایک صفحہ آتا ہے اس میں عورتوں کی فیشن کے بارے میں معلومات ہوتی ہیں، وہ بھی نہیں دیکھتا، لیکن یہ خبریں میں ضرور دیکھتا ہوں؛ تا کہ ہمیں اندازہ ہو جائے کہ دنیا کہاں جارہی ہے؟
والدین کی ذمہ داری:
میں در اصل اس وقت اسی حدیث کا ٹکڑا سنانا چاہ رہا ہوں۔نیوز پیپر کی رپورٹ میں یہ جو آیا ہے نا کہ ماں باپ گھر میں نہیں رہتے اور اپنے بچوں کی نگرانی کرنے کا ان کے پاس وقت نہیں ہوتا، اس کے بارے میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے عمران ابن حصین رضی اللہ عنہ سے کہا تھا ”ولیسعک بیتک“تجھے چاہئے کہ تیرا گھر تجھ کوسموئے رکھے۔جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا ہی خوب لفظ استعمال فرمایا۔ اللہ اکبر! بار بار اس جملہ کی تکرار کیجیے، پھر اس جملہ کی قدر ہوگی، تجھے چاہئے کہ تیرا گھر تجھ کو سموئے رکھے تو اپنے فارغ وقت میں اپنے گھر میں بیٹھ تاکہ تو اپنے بچوں کے ساتھ محبت کی باتیں کرے، اس کی کچھ اچھی تربیت کرے۔
ہمارا سوچنے کا انداز بدل گیا:
اے امت ِاسلامیہ! دنیامیں اس وقت مسلمان پست حالت میں ہیں۔مسلمانوں کو یہ سوچنا ہے کہ دنیا جو ہم کمار ہے ہیں، اس کو ہمیں کس طرح خرچ کر ناہے۔ میں ہمیشہ وہاں ہندوستان میں بھی کہتار ہتا ہوں کہ بے شک مسجد بنانے کا بہت بڑا فائدہ ہے،بے شک بہت بڑا اجر ہے، جس نے اللہ تعالیٰ کا گھر بنایا اللہ تعالیٰ جنت میں اس جیسا گھر اس کے لیے بنادیں گے۔ یہ حدیث پاک میں ہے، لیکن اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ آپ کے گاؤں میں لوگ تو قرضوں میں ڈوبے ہوئے ہیں اور آپ چھوٹے چھوٹے گاؤں میں جہاں گردوغبار اڑتا رہتا ہے، جہاں لوگوں کے قدموں میں سے دھول چلتی رہتی ہے اور وہاں آپ اٹالین غالیچے بچھا کر تیس لاکھ کی مسجد بنائیں؛یہ عقل مندی کی بات نہیں ہے۔ ایک گاؤں میں تیس لاکھ روپے کی مسجد بنی،حالاں کہ چھوٹا سا گاؤں تھا، اس کی اوپنگ تھی، افتتاح میں ہم لوگوں کو بلایا تو میں نے کہا آپ ذرا اپنا مکتب بھی بتائیں تو جب میں مکتب میں گیا تو اس کی چھت پر کھپریل (نریا) تھے اور بچے گرمی کی وجہ سے پسینے سے شرابور بیٹھے ہوئے تھے۔ بے چارے چھوٹے چھوٹے تھے تو میں نے پھر اس دن تقریر میں کہا کہ اللہ کے بندو! یہ آپ کے معصوم بچے اتنی گرمی کے اندر بیٹھ کر تین تین گھنٹے پڑھتے ہیں، یہ مدرس پڑھار ہے ہیں تو آپ کم سے کم تھوڑاسایہ مکتب بنا لیتے، کیا ضرورت پیش آئی تھی کہ آپ تیس لاکھ روپے کی مسجد بنائیں؟لیکن یہ فہم کی کمی ہے، ہمارا سوچنے کا انداز بدل گیا ہے،ہم یہ سوچتے ہیں کہ فلاں گاؤں میں بیس لا کھ کی بنی تو ہم چالیس لاکھ کی کیوں نہ بنائیں؟یہ غلط قسم کی چیز یں سوچنا اور غلط قسم کے جذبات کو قائم کرنا کہ بھائی! ہمارے گاؤں میں بھی بڑی شان دار مسجد بن گئی، یہ سب غلط انداز فکر ہے،اس سے میرے کہنے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ مسجد یں نہ بنائیں۔ ہم یہ کہتے ہیں کہ سادہ مسجد بناؤاور آپ دیکھیں کہ امت کو کس چیز کی ضرورت ہے؟