آہ میرے استاذ ؛ میرے ماموں جان!

مولانا بنیامین وستانوی/ناظم مدرسہ ریاض العلم انوا

            آج میں اپنے ماموں اور استاذ حضرت فلاحی کے بارے میں کچھ لکھنے کی کوشش کررہا ہوں۔

            بہت دنوں سے سوچ رہاتھاکہ اپنے پیارے ماموں پر اپنے احساسات کو قلم کے ذریعے کچھ تسکین دوں ، مگر دل رنجور اور مغموم ہمت جٹا نہیں پارہا تھا۔ میں اپنے شکستہ الفاظ اور ٹوٹے قلم سے ان کا حق تو ادا نہیں کرپاوٴں گا۔لیکن اس میدان میں آبلہ پائی بھی میری خوش نصیبی سمجھ کر میں نے قلم کو حرکت دی۔

میرے ماموں میرے مربی:

             یقینا حضرت الاستاذ کا اچانک اس طرح چلے جانا ہم سب کے لیے لمحہٴ فکریہ ہے ،آپ کومیں نے ہر اعتبار سے دیکھا ہے۔ مجھے یاد ہے کہ جب میری عمر سات سال یا اس سے کچھ زائد ہوگی ، تب سے ہی والدین نے مجھے تربیت کی خاطر اپنے ماموں کے حوالے کیا ،۔اس وقت ہم دوگر قلعہ پارڈی میں مقیم تھے اور والد صاحب وہاں امامت کے فرائض انجام دے رہے تھے ۔ وہیں چند مہینے حضرت مولانا عبد الرحیم صاحب فلاحی کے گھر رہا، جہاں میرے ماموں اور ممانی نے میری بہتر تربیت فرمائی اور میں نے ان کو اپنا بہت زیادہ مشفق پایا ۔ اپنی اولاد سے زیادہ لاڈ وپیار سے مجھے اپنے پاس رکھا۔ اور یہیں سے میری ابتدائی تعلیم کا آغاز ہوا۔

            میرے والدین نے مزید تعلیم کے لیے میرے لیے” جامعہ مظہر سعادت ہانسوٹ “کا انتخاب کیا ، جہاں بانی ٴجامعہ حضرت مفتی عبداللہ صاحب کی غیر حاضری میں آپ کو عارضی منصب ِاہتمام دیا گیاتھا ، وہاں بھی حضرت کی نوازش احقر کے ساتھ رہی اور انہوں نے والدین کی کمی کا احساس نہیں ہونے دیا ، لیکن کم عمری کی بنیاد پر اس وقت کے کئی اہم واقعات کا استحضار نہیں ہے۔

ایک یادگار واقعہ:

             البتہ ایک واقعہ یاد ہے کہ جب میں فلاح دارین ترکیسر میں درجہ حفظ میں تھا اور حفظ مکمل ہوچکا تھا ، دورکا سلسلہ جاری تھا، استاذ کی سختی کی بنیاد پر بندہ گھر” اکل کوا “آگیا تھا۔ تو حضرت نے بڑی حکمت اور شفقت کے ساتھ دوبارہ مجھے اس انداز میں استاذ کے حوالے کیا کہ استاذ کی بھی اہمیت باقی رہی اور میرے دل میں بھی استاذ کی قدر بڑھ گئی ۔ پھر عالمیت میں تو مسلسل حضرت بیک وقت استاذ اور ماموں کا کردار نبھاتے رہے اور ہر لمحہ موقع بہ موقع بندہ کی تربیت فرماتے رہے ۔ تقریرو تحریر میں میرے شوق کی ہمیشہ تسکین فرمائی ، مسلسل آگے بڑھاتے اور حوصلہ افزائی فرماتے رہے ۔

 آپ بڑے ہی مزاج شناس تھے:

            جب میرا حفظ مکمل ہوا تو پہلے سال مجھے حضرت ہی کی تربیت میں والدین نے رکھا؛ چناں چہ میں حضرت کے ساتھ رمضان میں عنبڑ ضلع جالنہ گیا ۔ کم عمری کی بنیاد پر ؛چوں کہ میں تراویح نہیں سنا سکتا تھا، لہٰذا حضرت نے میرے دور کی یہ ترتیب بنائی کہ آپ جب بھی پارہ پکا سناوٴگے آپ کو دس روپئے دیے جائیں گے ۔ میں جلد سے جلد پارہ یاد کرکے سنا دیتااور دس روپئے وصول کرلیتا ،جو حضرت بڑی بشاشت کے ساتھ حوصلہ افزائی فرماتے ہوئے عنایت فرماتے ۔ ایک مہینہ کیسے گزر گیا پتہ ہی نہیں چلا اور میرا قرآن بھی یا دہوگیا ۔پھر صبح نفل میں بھی حضرت اس پارے کو مجھ سے سنتے تھے ، چناں چہ میرے قرآن کی پختگی میں میرے استاذ کے علاوہ حضرت کی بھی مجھ پر خاص توجہ رہی۔اللہ پاک اس کا بہترین بدلہ عطا فرمائے ۔

ماموں جان سے براہ راست تدریس:

            یقینا حضرت کی حیثیت ایک مشفق اور مربی کی رہی ۔ میں نے حضرت سے باقاعدہ سب سے پہلے ہدایہ پڑھی۔ وہاں میں نے حضرت کے فقیہانہ انداز کو ملاحظہ کیا ، آپ مشکل سے مشکل مسائل کو بہت آسان اور دل چسپ اندازاورچٹکیوں میں سمجھا دیتے تھے ۔ حضرت کے درس کی خصوصیت یہ ہوتی تھی کہ آپ ہمیشہ اپنے طلبہ کو ہنستے ہنساتے طنز و مزاح کے ساتھ سبق ایساپڑھا تے تھے کہ طالب علم بالکل بھی بوریت محسوس نہ کرتا ۔ اپنے درس میں گاہے بگاہے تربیت بھی بڑے اچھوتے انداز میں فرماتے ۔ درس ہدایہ میں آپ صاحب ہدایہ کے مقصد کو بہت واضح طور پر سمجھاتے تھے ۔اس کے بعد آپ سے مشکوٰة شریف پڑھنے کا موقع ملا ۔ مشکوٰة میں آپ مقدمہٴ مشکوٰة کو بہت اہمیت سے پڑھاتے تھے ،تاکہ علمِ حدیث کا مبتدی طالب علم علم حدیث کے ہر ہر جز سے بہ خوبی واقف ہوجاوے اور درس حدیث میں آپ خصوصیت سے فقہ الحدیث پر کلام فرماتے اور مراد نبوی کو بہت آسان انداز میں طلبہ کے سامنے پیش فرماتے کہ غبی اورکم زورطالب علم بھی اس کو آسانی سے سمجھ لے ۔ نیز آخری سال میں ہم نے آپ سے بیضاوی شریف ، مسلم شریف اور موٴطا امام مالک پڑھی ۔

طلبہ میں تدریسی و تحقیقی صلاحیت پیدا کرنا:

             بیضاوی جیسی مشکل کتاب آپ طلبہ کو بہت آسانی سے سمجھاتے ؛بل کہ طلبہ کے اندر سمجھانے کی صلاحیت بھی پیدا فرما دیتے ۔جیسے” بسم اللہ الرحمن الرحیم“ پر آپ نے طلبہ سے اپنی تحقیقات لکھ کر لانے کا مکلف کیا اور طلبہ نے اپنی حیثیت کے مطابق اپنی تحقیقات کو پیش کیا ، جس پر حضرت نے طلبا کو گراں قدر انعامات سے نواز کر ان کی حوصلہ افزائی فرمائی۔ اس کے ذریعہ طلبا میں تحقیق وتصنیف کاملکہ پیدا ہوا ۔

             نیز انجمن اصلاح الکلام کے ذریعہ آپ عموما ہرطلبا میں اورخاص طور پر منتہی طلبا میں انتظامی صلاحیت پیدا فرماتے اور انجمن کے جلسوں میں اناوٴنسری وغیرہ کی تربیت دے کر اسٹیج ہوسٹنگ کا ملکہ بھی پیدا فرماتے تھے؛ جب حضرت رئیس جامعہ کی طرف سے احقر کو”مدرسہ ریاض العلوم انوا “کی خدمت کی ذمے دارے سونپی گئی اور الوداعی ملاقات کے لیے حاضر ہوا تو چند ہی منٹوں میں آداب ِنظامت حضرت نے سمجھا دیا ،جو آج تک عمل میں ہے۔ بہ حیثیت ماموں بھانجے کے بعض مرتبہ کہا سنی ہوئی تو بھی بندے کی نادانی سمجھ کر اسے معاف فرماتے اور پھر مربیانہ انداز ِتربیت فرماتے۔ یہ آپ کے وسعت ظرفی کی علامت تھی ۔

آپ کی باوقار زندگی کی ایک جھلک:

            آپ ہمیشہ باوقار انداز میں رہتے اور خوش بو سے آپ کو خصوصی لگاؤ تھا۔ نیز جب کبھی کوئی نئی کتاب آتی آپ عنایت فرماکر حوصلہ افزائی فرماتے ۔اخیری اوقات میں جب جامعہ میں ختم بخاری شریف کا جلسہ تھا اس وقت حضرت مولانا عاقل صاحب کے استقبال میں آپ کھروڈ تشریف لے گئے تھے۔بندہ بھی اپنے ماموں زاد بھائی مولانا عبد الروٴف ابن مفتی عبد اللہ کے نکاح کی مناسبت سے وہاں حاضر تھا ، پروگرام کے بعد ہم مولانا حنیف صاحب لوہاروی کے مکان پر بیٹھے ہوئے تھے ۔حضرت پر تھکان کا غلبہ تھا اس لیے بندہ سے کہا کہ اگر کہیں جگہ ہو تو تھوڑی دیر قیلولہ کرلیا جاوے۔ چناں چہ میں نے حضرت کو ایک کمرہ کی نشاندہی کی اور میں آرام پہنچانے کی خاطر خدمت کرنے لگ گیا تو وہاں حضرت مولانا یوسف صاحب ٹنکاروی نماز کے لیے حاضر ہوئے ، مجھے خدمت کرتا ہوا دیکھ کر کہنے لگے ان کی خدمت کر لو ۔ آپ کو ان سے بہت کچھ ملے گا اور آپ نے خوشی کا اظہار کیا ، چوں کہ امسال انوا میں دورہٴ حدیث کا آغاز ہونے والا ہے ان شاء اللہ ، تو حضرت نے فرمایا کہ میں نے افتتاحِ بخاری کے جلسے کی مناسبت سے تمہارے لیے ایک سر پرائز رکھا تھا، مگر کووِڈ ۱۹/ کی وجہ سے تمہارا پروگرام کینسل ہو گیا ۔ خیر وہ کام اخیر مرحلہ میں ان شاء اللہ آپ کے ادارے کی نسبت سے شائع کیا جائے گا۔مگر کسے پتہ تھا کہ اچانک عبد الرحیم کے لیے رحمن و رحیم کی طرف سے بلاوا آجائے گا اور وہ ہمیں اکیلا چھوڑ کر ہمیشہ ہمیش کے لیے جنت کے راہی ہوجائیں گے۔ چلتے چلتے ایک بات اور یاد آگئی کہ دوران تدریس حضرت اپنے شاگردوں سے ناراض بھی ہوجاتے تھے اور غالباً یہ ناراضگی مصنوعی ہوتی تھی ، اس ناراضگی سے آپ اپنے طلبہ کو استاذ کی اہمیت اور استاذ کا ادب سکھلانا مقصود ہو تا تھا۔ گویا آپ کی ناراضگی بھی تربیت کے خاطرہی ہوا کرتی تھی۔

طلبہ کے ساتھ آپ کا سلوک:

            میرا چوں کہ جامعہ کے دارالاقامہ میں رہنے کا اتفاق نہیں ہوا، مگر ساتھیوں سے یہ بات معلوم ہوئی کہ آپ طلبہ کو ہمیشہ فجر سے پہلے بیدار کرنے کے لیے تشریف لاتے تو اس وقت آپ کاانداز یہ ہوتا گویا ایک مشفق باپ اپنے بیٹوں کو بیدار کررہا ہو۔ اور ہم شاگردوں کے لیے یقینا آپ باپ کے درجہ میں تھے ۔ آپ غریب طلبہ کا خصوصی خیال فرماتے اور اگروہ تعلیم میں ذہین ہوتا تو اس کے ذوق کی تسکین ہر اعتبار سے فرماتے ۔ مالی اعتبار سے بھی اور علمی اعتبار سے بھی اور فراغت کے بعد آپ کو یہ فکر رہتی کہ میرا یہ طالب علم کسی طرح سیٹ ہوجائے ۔ چناں چہ انتقال کے چند دن قبل حضرت رئیس جامعہ کی ایما پر بندہ کو ایک نئے فاضل کی طرف نشاندہی فرمائی ، بل کہ با ر بار اصرار کرتے رہے کہ اس طالب علم کا اپنے یہاں تقرر کر لو۔ یہ آپ کے بہت کام آئے گا اور پھر مجھ سے بار بار اس کے بارے میں سوال بھی کرتے رہے کہ کیا ہوا ، آپ نے اس طالب علم کے بارے میں کیا سوچا؟ بیڑ ضلع کا وہ طالب علم ہے۔ پھر جب جامعہ کے سالانہ نتائج آئے تو حقیر کو اس طالب علم کے نتائج سے بھی آگاہ کیا کہ وہ اپنے درجہ میں پہلے نمبر سے کام یاب ہواہے ۔ میں نے حضرت کو یقین دلایا کہ آپ فکر نہ کریں ، میں اس طالب علم کو اپنے پاس بلالوں گا، تب آپ مطمئن ہوئے۔ یہ تھی آپ کی اپنے شاگردوں کی فکر کہ صرف تعلیم ہی نہیں تعلیم کے بعد ان کی صلاحیت کہیں ضائع نہ ہوجاوے اوریہ طالب علم بے کار نہ ہوجائے ،آپ اس کی بھی فکر فرماتے تھے۔ یہ تو ہوئی ذہین طالب علم کی بات ،مگر درجہ میں متوسط اور ادنیٰ درجہ کے جو طلبہ ہوتے آپ ان کی بھی فکر فرماتے ، ان کی صلاحیتوں کے اعتبار سے ان کی آپ تربیت فرماتے ۔ کسی کو وعظ وخطابت کے لیے توکسی کو”علّم بالقلم “کی طرف ، کسی کو انتظامی امور کی اور کسی کو امامت وغیرہ کی ۔گویا ہر طالب علم پر آپ کی یکساں نگاہ ہوتی اور آپ اسے امت کے لیے کار آمد بناتے اور آپ کسی بھی طالب علم کو احساس کمتری کا شکار نہ ہونے دیتے یہ آپ کا وصف خاص تھا۔

ماموں جان اور میرے والدین:

             میرے والد صاحب سے آپ کے روابط بہت گہرے تھے۔ گویا وہ ایک دوسرے کے ہمراز اور مخلص دوست تھے ۔ جب کبھی میری حضرت سے کچھ چپقلش ہوتی تو آپ والد صاحب کے ذریعہ مجھ تک ہر وہ بات پہنچاتے جو میرے لیے مفید ہوتی ۔ یقینا ہم نادانوں نے آپ کی ویسی قدر نہیں کی جیسی کرنی تھی ۔ آپ میری والدہ کے لیے بھی ہمیشہ ایک مخلص بھائی کی حیثیت سے رہے ۔ میں نے یہ بات دیکھی کہ کبھی والدہ اور ماموں میں کسی بات پر نا اتفاقی ہوجاتی ، جو عام طورپر بھائی بہنوں میں ہوتی رہتی ہے تو فوراً دوسرے وقت میں آکر میری والدہ ؛یعنی اپنی بہن کو خوش کرتے ۔ کوئی نہ کوئی تحفہ لے کر آتے اور اپنے الفاظ کے جادو سے فوراً اپنی بہن کو منالیتے ۔ یہ آپ کے حسن اخلاق اور بلند کردار کی علامت تھی ۔

آخری عیادت:

             انتقال سے چند روز پہلے صبح فجر بعد میری آنکھ لگ گئی ، میں سویا ہوا تھا کہ اچانک والدہ نے کہاکہ آپ کے ماموں بیمار ہیں ، سب میرے ساتھ چلو ان کی عیادت کے لیے ۔ چناں چہ ہم سب بھائی بہن اپنے ماموں کی عیادت کے لیے ان کے گھر اپنی والدہ کے ساتھ پہنچے ، آپ نے خندہ پیشانی سے سب کا استقبال کیا اور اپنی بیماری کے تعلق سے بے فکر رہنے کی ہدایت دی کہ چند دن میں اچھا ہوجاوٴں گا۔ کوئی فکر کی بات نہیں اور مجھے پھر کافی دیر ہدایت ونصیحت فرماتے رہے کہ آپ کے یہاں حدیث کے اسباق شروع ہونے والے ہیں ، آپ کو کیا کیا کرنا چاہیے وغیرہ۔ اور پھر دعا سلام کے بعد پھر ہم اپنے گھر واپس آگئے ۔ اور دوسرے دن وہی بات ہوئی والدہ نے کہا آپ کے ماموں کو دواخانہ لے کر جارہے ہیں ، چل کر ان کی عیادت کرو، پھر ہم سب بھائی بہن مل کر اپنی والدہ کے ساتھ عیادت کے لیے گئے مگر آج بھی کوئی ایسی بات نہیں لگ رہی تھی کہ آپ بہت زیادہ بیمار ہیں ، بس یہ کہا کہ بہت بے چینی ہورہی ہے ۔ ڈاکٹر کو بتا کر آؤں گا اور پھر آپ اور ممانی اپنی گاڑی میں سوار ہوئے۔ جب آپ گھر سے نکل رہے تھے تو کافی لوگوں نے آپ سے مصافحہ کیا ۔ میں اپنے دل ہی دل میں سوچ رہا تھا کہ آپ کیوں اتنا تکلف فرمارہے ہیں ، صبح جانا ہے اور شام کو تو واپس آپ ڈاکٹر کو دکھاکر تشریف لے آئیں گے۔ مگر میں نہیں سمجھ سکا کہ یہ اس تھکے مسافر کا آخری سفر اور یہ آخری دیدار ہے ، اسے اب دوبارہ یہاں لوٹ کر نہیں آنا ہے ۔اور پتہ نہیں یک لخت میرے دل میں بھی یہ بات آئی کہ میں اپنے ماموں اور استاذ کا دیدار کرلوں ،خداجانے کہ پھر یہ دیدار ہوگا یا نہیں اور میں ٹکٹکی لگائے آپ کو دیکھتا رہا ؛ یہاں تک کہ گاڑی آنکھوں سے اوجھل ہوگئی اور پھر وہ چہرہ کبھی لوٹ کر نہ آیا ۔

             ہم مطمئن تھے کہ ماموں جان ٹھیک ہوکر جلد واپس آجائیں گے ، مگر قدرت کو کچھ اور ہی منظور تھا کہ اس مسافر کو اپنے وطن سے قریب کردیا ،وہ پیارا و طن؛ جس کو تعلیم و تعلم کی وجہ سے آپ نے قربان کیاتھا، چناں چہ تیسرے دن وہی وقت اوروہی حالت کہ فجر کے بعد میں سویا ہوا تھا کہ اچانک والدہ نے روتے ہوئے مجھے جھنجھوڑا اور کہا کہ آپ کے ماموں بہت زیادہ بیمار ہوگئے ہیں ، قلب کی حرکت بند ہوگئی ، آئی سی یو میں لے گئے ہیں ، مگر معلوم نہیں مجھے ان کی بات پر یقین کیوں نہیں آیا ؟ چناں چہ میں نے اپنے ماموں زاد بھائی مفتی ریحان سلمہ کو فون ملایا ، جس کو آپ کے بڑے داماد اور میرے ماموں زاد بھائی حضرت مولانا عبید اللہ صاحب نے ریسیوکیا اور یہ اندوہناک اورغم ناک خبر سنائی کہ حضرت اب اس دار فانی میں نہ رہے اور دار بقا کی طرف کوچ کرگئے ۔ فوراً ”انا للہ وانا الیہ راجعون “پڑھا ۔ ﴿الذین اذا اصابتہم مصیبة قالوا انا للہ وانا الیہ راجعون ﴾عبد الرحیم کو رب رحیم کی طرف سے دعوت آگئی ۔ اللہ پاک آپ کو غریق رحمت فرمائے، آپ کے درجات کو بلند اور آپ کی خدمات جلیلہ کو آپ کے لیے صدقہ جاریہ بنائے۔ آمین!