(مفتی)عبد اللہ محمد پٹیل مظاہری(مرحوم)
۲۳/ شعبان المعظم ۱۴۴۱ھ کی شام ایک غم ناک اور میری زندگی کی الم ناک شام تھی ؛ جب یہ افسوس ناک اطلاع ملی کہ علوم کتاب وسنت کے شارح ، سیکڑوں علما و فضلا کے استاذ و مربی ، مسابقات قرآنیہ کی روح ، اورجامعہ اشاعت العلوم اکل کوا کے استاذ حدیث برادر عزیز جناب مولانا عبد الرحیم صاحب فلاحی اب اس دنیا میں نہیں رہے اور مولائے حقیقی کے جوار میں پہنچ چکے ہیں۔
حالات کے ستم گری پر اب مجھے رونا نہیں آتا ۔ عرصے سے میرے آنسو خشک ہوچکے ہیں، حادثات پر آنکھیں نہیں ڈبڈباتیں۔لیکن یہ سانحہ اس قدر شدید تھا کہ شدت تاثر کی وجہ سے میری آنکھیں چھلک پڑیں ، باچشم تر ’ انا للہ وانا الیہ راجعون“ پڑھااور مرضیٴ رب کے سامنے اپناسر جھکا دیا ۔ بندے کے کشکول میں تسلیم و رضا سے بڑھ کر اور کوئی چیز ہے ہی نہیں۔
یوں تو ہر کسی کو جانا ہے ، اس دنیائے ناپائید ار میں موت سے کس کو رستگاری ہے؟﴿ ماعندکم ینفد وما عند اللہ باق ﴾لیکن دنیا کی نگاہ کا کانٹا اور اپنوں کی ہی عنایتوں کا شکار بن جانے والے بڑے بھائی کو اپنی عمر کے ستر کے دہے میں جان سے زیادہ عزیز اپنے چھوٹے بھائی کا مرثیہ لکھنا پڑے گا ؛ یہ کبھی سوچا بھی نہ تھا ۔ لیکن میرا رب بڑا رحیم، بڑا کریم ہونے کے ساتھ بڑا بے نیاز اور قادر و مختار ہے ۔ ہر امر کی مصلحت اور ہر فیصلے کے کنہ ولم کو وہی جانتا ہے ، حکم الٰہی ہوتا ہے اور ہمارے تصورات و تخیلات کا طلسم بھسم ہوکر رہ جاتا ہے ۔ کاش اس سے ہمیں اپنی حقیقت اور دنیا کی بے ثباتی کا ادراک ہوجاتا !
مولانا عبد الرحیم صاحب عمر کے لحاظ سے مجھ سے چھوٹے تھے اور ہم تین بھائیوں میں وہ دوسرے نمبر پر تھے۔ تاہم اس کے اعتراف میں کوئی مبالغہ نہیں کہ وہ انابت و تقویٰ اور علم وعمل کی جامعیت میں مجھ ناکار ے سے کافی بڑے تھے۔انہوں نے حرکت وعمل سے لبریز بامقصد زندگی گزاری اور امید ہے کہ وہ اس حال میں اپنے کریم آقا کے دربار میں پہنچے ہیں کہ ان کے حسنات کا پلڑا بھاری ہے۔ ان شاء اللہ العزیز!
”رویدرا “کے پشیتنی مکان میں ۱۸/ اگست ۱۹۶۳ء میں مولانا کی پیدائش ہوئی۔ اپنی سعادت مندی ، اطاعت شعاری اور سلامتیٴ طبع کی وجہ سے شروع ہی سے والدین کی آنکھوں کا تارا بنے رہے ۔وہ ہم سے زیادہ والدین کی خدمت کرتے اور ان کی راحت وضرورت کا خیال رکھتے تھے۔ جب کبھی سفر سے واپسی ہوتی تو والدین دیکھ کر کھل اٹھتے ۔ والد مرحوم ” حاجی محمد ابراہیم صاحب “ شیخ الاسلام حضرت مدنی سے ارادت اور بزرگوں کے فیض ِصحبت کی وجہ سے بڑے متدین ، اصول پسند اور بچوں کی تعلیم وتربیت کے حوالے سے سخت واقع ہوئے تھے؛ لیکن برادرم مرحوم کے سلسلے میں بڑی شفقت اور محبت کا مظاہرہ کرتے تھے ۔ میں چوں کہ بڑاتھا اور مرحوم میری ہی نگرانی میں تھے ، لیکن بسا اوقات مجھے اپنے سخت رویے کی وجہ سے والد صاحب کی خفگی کا بھی سامنا کرنا پڑتا تھا۔
جب میں مظاہر علوم سہارن پور میں زیر ِتعلیم تھا تو یہ بھی میرے ہم راہ وہیں قرآن مجید کا دور کررہے تھے ۔ یہ ان کی سعادت مندی تھی کہ میرے مشفق استاذ ومربی اور ناظم مظاہر علوم حضرت مولانا اسعد اللہ صاحب کو روزانہ بعد نماز فجر قرآن مجید سناتے اور ان کی خدمت کرکے دعائیں لیتے تھے۔ پھر جب میں مدرس ہوکر فلاح دارین ترکیسر آگیا تو یہ بھی میرے ہم راہ ترکیسرآگئے اور دورے تک کی تعلیم وہیں مکمل کی ۔ اس دوران مجھ سے بھی کئی کتابیں پڑھنے کا موقع ملا ، وہ میرے چھوٹے بھائی تھے اور مجھے بہت عزیز تھے ؛ لیکن انہوں نے تادم آخر اس نسبت تلمذ کا بڑا لحاظ کیا اور ہمیشہ نیاز مندی سے پیش آتے رہے۔
۱۹۸۷ء سے محترم مولانا غلام محمد صاحب وستانوی دامت برکاتہم کی زیرنگرانی ملک کی معروف دینی درس گاہ جامعہ اسلامیہ اشاعت العلوم اکل کوا میں تدریسی خدمات انجام دینے لگے تھے۔ حدیث و تفسیر کی کتابوں کی تدریس کے ساتھ احاطہٴ جامعہ میں طلبہ کی تقریری و تحریری صلاحیتوں کو پروان چڑھانے ،مولانا وستانوی کے بنائے ہوئے خاکوں میں رنگ بھرنے نیز ملک کے طول وعرض میں جامعہ کے زیر ِاہتمام منعقدہونے والے مسابقات ِقرآنیہ کی تنسیق وا دارات میں سرگرم اور فعال کردار ادا کرتے رہے ۔اس لیے انہیں جامعہ کے اندر طلبہ میں اور بیرون جامعہ عوام و خواص میں خاص قسم کی محبوبیت اور ہر دل عزیزی حاصل تھی۔
۱۹۸۵ء میں جب محض فضل ایزدی سے ہانسوٹ میں ”جامعہ مظہر سعادت“ کے قیام کی سعادت نصیب ہوئی ، جس نے بحمدللہ تھوڑے ہی عرصے میں اکابر کے فیضان ِنظر سے تعلیم وتربیت کے حوالے سے اپنی ایک خاص شناخت قائم کرلی تو یقین مانیے کہ جامعہ کی ان حصولیابیوں میں برادرِمرحوم کی کوششوں اور مخلصانہ تعاون کو بھی بڑا دخل تھا اور اس کے لیے وہ کسی بھی طرح کی ممکنہ مدد سے دریغ نہیں کرتے تھے ۔ دوسال قبل جب جامعہ پر قبضہ کرکے مجھے بے دخل کردیا گیا تومیرے اس غیرت مند اور قدرداں بھائی کو بڑا درد اور غم تھا، کوشش کے باوجود احوال میں اصلاح اور تبدیلی نہیں ہوسکی ، جس کی کسک وہ ہمیشہ محسوس کرتے رہے اور اسی غم میں دار آخرت کو سدھار گئے۔
میرے مرحوم بھائی نے ہر موڑ پر اخوت کا حق ادا کردیا۔ زندگی بھر میرا اکرام اور احترام کیا۔ ایسے آڑے وقت میں بھی میرا ساتھ دیا، جب کئی اپنوں نے منھ موڑ لیاتھا۔میرے غائبانے میں ایک شفیق باپ کی طرح میرے گھر اور بچوں کی خبر گیری کرتے رہے ۔ میرے لیے دوڑتے اور تڑپتے رہے ، روتے اور گھلتے رہے، وہ میرے دست و بازو تھے۔ وہ میرے لیے عطیہ الٰہی اور احسان ذوالمنن تھے۔ بدلے میں میں انہیں کچھ نہیں دے سکا۔ ایک پابند ِسلاسل اورمجبور وبے بس انسان؛ جس سے زمین بھی روٹھ گئی ہے اور فلک بھی ؛ بھلا کسی انسان کو دے بھی کیا سکتا ہے ؟ احسانات کے بوجھ تلے دبے ہوئے مجھ جیسے شخص سے اتنا بھی نہ بن پڑا کہ اپنے محسن بھائی کی قبر پر پھول نہیں توکم ازکم تھوڑی سی مٹی ہی ڈال دیتا۔ میرے بھائی ! مجھے معاف کردینا ، میں بہت شرمندہ ہوں تم سے بھی اور اپنے تمام محسنین سے بھی، جن کی خیر خواہی اور مسلسل احسان کا بدلہ دینے کے لیے میرے کشکول میں کچھ نہیں بچا ہے ۔ رب کریم ہی اپنے فضل ِخاص سے اتنا نواز دے جو اس کی شایان شان ہے۔
بارِ الٰہ ! میرے پیارے بھائی کی سیئات سے درگزر اور اعلیٰ علیین میں مقام ِبلند نصیب فرما۔ جملہ حسنات وخدمات کو شرف قبول عطا کر ، اولاد و احفاد اور تلامذہ ومتعلقین کو صبر جمیل دے۔ اور مجھ ناکار ہ پربھی حیاً و میتاً نظر کرم رکھ ۔ آمین یارب العالمین بجاہ سید المرسلین ، علیہ افضل الصلوات و التسلیم۔
ایک غم زدہ بھائی :
عبد اللہ محمد پٹیل مظاہری
۷/ ذوالحجہ ۱۴۴۱ھ