افتخار احمد قاسمی سمستی پوری
استاذ تفسیرو حدیث جامعہ اکل کوا
سورج نکلتا ہے اور ڈوب جاتا ہے۔ صبح ہوتی ہے پھر شام آ جاتی ہے۔ دن چڑھتا ہے اور اتر جاتا ہے۔ روشنی ہوتی ہے پھر اندھیرا چھا جاتا ہے۔ پھول کھلتے ہیں اور مرجھا جاتے ہیں۔ کھیتیاں لہلہاتی ہیں پھر سوکھ جاتی ہیں۔ گھر بنتے ہیں اور ڈھہ جاتے ہیں۔ بستیاں بستی ہیں پھر اجڑ جاتی ہیں۔ شمع جلتی ہے اور بجھ جاتی ہے۔ محفل سجتی ہے اور بکھر جاتی ہے۔ آبادیاں ہوتی ہیں پھر ویرانیوں کا سناٹا۔ خوشیاں ملتی ہیں پھر غموں کی پرچھائیاں۔ کبھی وصال کی شادمانی، کبھی فراق کا صدمہ۔ کبھی مسرت کا نغمہ، کبھی عبرت کا تازیانہ
خوشی کے ساتھ دنیا میں ہزاروں غم بھی ہوتے ہیں
جہاں بجتی ہے شہنائی وہاں ماتم بھی ہوتے ہیں
یہ جہاں اور نظامہائے جہاں بتاتے ہیں کہ ہر آمد کے بعد رفت، کمال کے بعد زوال، عروج کے بعد غروب اور وجود کے بعد فنا ہے۔ یہ دنیا فانی ہے اور دنیا کی ہر شے فانی۔ یہاں کسی کو دوام نہیں۔ کسی کو ثبات نہیں۔ کسی کے لیے بقا نہیں۔ کسی کے لیے قرار نہیں۔ یہاں ہر آنے والا جانے کے لیے آیا ہے اور ہر جانے والا نہ آنے کے لیے گیا ہے۔ وفات تکمیل ہے اور ولادت اس کی تمہید۔ موت حقیقت ہے اور حیات محض افسانہ۔ رہے نام بس اللہ کا۔ ﴿کل من علیہا فان ویبقی وجہ ربک ذوالجلال والاکرام﴾
دو دہائی پہلے جب جامعہ میں خدمت تدریس پر مامور ہوا تو دیکھا کہ جامعہ کے وسیع آنگن میں ایک ایسا متحرک وجود ہے، جو سیماب کی طرح ہر وقت تھرکتا پھرتاہے۔ بے تھکے ہر وقت حرکت میں رہتا ہے۔ کبھی اساتذہ کے کتابی اور نصابی امور کو سلجھا رہا ہے۔ کبھی طلبہ کے داخلی اور خارجی مسئلوں کو نمٹا رہا ہے۔ کبھی انتظامیہ کا بے لوث تعاون کر رہا ہے۔ کبھی افرادِ کار کو کام کی ہدایت دے رہا ہے۔ کبھی مطبخ ،کبھی قیام گاہ، کبھی مسجداورکبھی درس گاہ کا چکر لگا رہا ہے اور جامعہ کے ہر نظام کو مستحکم کرنے میں جٹا ہوا ہے۔ کبھی مسندِ درس پر رونق افروز ہے، کبھی بزم و انجمن میں جلوہ گر۔ کبھی خلوت میں سنجیدہ اور یکسو ہے، کبھی جلوت میں چہکتا اور خندہ رو۔ کبھی اپنوں سے دل لگی ہے، کبھی غیروں سے دل داری۔ کبھی نووارد مہمانوں کی خبرگیری ہے، کبھی متعلقین کی احوال پرسی۔ جہاں جس وقت جو تقاضا ہوا خود کو پیش پیش کر دیا۔ بہ قول ڈاکٹر کلیم احمد عاجز
کوئی بزم ہو کوئی انجمن، یہ شعار اپنا قدیم ہے
جہاں روشنی کی کمی ملی، وہیں اک چراغ جلا دیا
جانے کو تو ہر کوئی جاتا ہے اور ہر کسی کو جانا ہے۔ مگر کچھ جانے والے ایسے بھی ہوتے ہیں جو جا کر بھی ہم میں رہ جاتے ہیں۔ ان کی یادیں اور ان کی باتیں رہ جاتی ہیں۔ ان کے کردار کا نقش ہمارے دلوں پر ثبت ہوتا ہے۔ ان کے اخلاق کا اثر ہمارے ذہنوں پہ چھایا رہتا ہے۔ ایسے لوگ عشق کی خاک سے اٹھتے ہیں اور عشق کی خاک میں چھپ جاتے ہیں۔ مگر چھپ کر اور زیادہ نمایاں ہو جاتے ہیں۔ عشق کی آگ انہیں جلا دیتی ہے۔ مگر یہ جلتے نہیں، بل کہ روشن اور تابناک ہو جاتے ہیں۔ یہ مرتے نہیں، بل کہ زندہ اور جاوید اں ہو جاتے ہیں۔ ان کی زندگی افسانہ ہوتی ہے اور موت حقیقی زندگانی
آتشِ عشق نے جلا ڈالا
زندگی ہم نے مر کے پائی ہے
(حضرت محمد احمد پرتاپ گڈھی)
جامعہ اکل کوا پر آج ایک سکوت سا چھایا ہواہے۔ اس کے دیوار و در پر ایک سناٹا سا برپا ہے۔ گوشہ گوشہ سونا اور چپہ چپہ خاموش ہے۔ سب کچھ ہے، مگر محسوس ہوتا ہے کہ کچھ نہیں ہے۔ زبان ہے،مگر تکلم نہیں۔ لب ہیں، مگر تبسم نہیں۔آنکھیں ہیں، مگر چمک نہیں۔ چہرہ ہے، مگر تازگی نہیں۔ پورا سراپا محوِ حیرت ہے کہ کیا ہوگیا؟ جسم کی حرکت کیسے رک گئی؟ رواں دواں زندگی یکبارگی کیسے تھم گئی؟ پھر اندر کا وجدان پکارتا ہے کہ
رگوں میں خون کیوں رواں نہیں ہے
ہمیں میں اب ہماری جاں نہیں ہے
(ثاقب قاسمی)
جامعہ کا متحرک وجود اور سر تا پا زندگی کا ثبوت رفیق محترم حضرت مولانا عبدالرحیم صاحب فلاحی ایک چراغ کی طرح جل کر دوسروں کو روشنی پہنچاتے رہے اور پھر اچانک پھڑک کر ایسے بجھ گئے کہ ان کے بجھنے کا یقین کرنا مشکل ہورہا ہے۔ مگر ایک چراغ کا جلنا کب تک؟ آخر وہ بجھ کے ہی رہتا ہے اور بعض چراغ کو تو بجھ بھی جانا چاہیے! ورنہ
اس کی اتنی روشنی سے دل و جاں سلگ رہے ہیں
وہ ذرا سی لو بڑھا دے تو یہ بزم جل نہ جائے
ہاں وہ چراغ بڑا عظیم ہے ،جو بجھنے سے پہلے تاریکیوں سے لڑنے اور روشنی پھیلانے کا مشن دوسروں کے سپرد کر جاتا ہے اور اپنی ایک ذات سے دوسرے انیک چراغ جلا کر تیار کر جاتا ہے۔ مولانا موصوف سے نہ جانے کتنے چراغ جلے اور ان چراغوں سے نہ جانے اور کتنے چراغ جلتے چلے جائیں گے۔ اللہ پاک ان روشن چراغوں کا سلسلہ دراز کرے۔
مولانا موصوف ایک ہمہ جہت اور ہمہ گیر شخصیت تھے۔ ان کی ذات گوناگوں صفات کا حامل تھی۔ وہ اپنے آپ میں ایک انجمن تھے۔ ایک عالم کی مکمل شان ان میں نمایاں تھی۔ ایک داعی اور مصلح کی پہچان ان سے قائم تھی۔ وہ بہ یک وقت مدرس اور مقرر تھے، مصنف اور موٴلف تھے۔ ان کی زبان حکمت ریز اور ان کا قلم گوہر افشاں تھا۔ نرالے درس و تدریس، انوکھی تصنیف و تالیف اور البیلی نظامت و خطابت کے ہنر کے ساتھ وہ علم دوستی، جوہر شناسی، افرادسازی اور انسانیت نوازی کے باکمال وصف سے معمور تھے۔ بزرگوں کی عظمت اور خوردوں کی شفقت کا انہیں خوب پاس تھا۔ بڑوں سے استفادہ کرنے اور چھوٹوں سے کام لینے کا فن وہ خوب جانتے تھے۔ اور ان سب سے بڑھ کر وہ غم زدوں کے غم خوار، بے کسوں کے غم گسار، بے سہاروں کا آسرا اور بے بسوں کے فریاد رس تھے۔ وہ ایک زندہ دل اور زندہ ضمیر شخص تھے۔ دوسروں کا دکھ اپنا دکھ سمجھنے والے، درد مندوں کا درد بانٹنے والے، دکھ کے ماروں اور روتوں کو ہنسانے والے اور کسی کے کام آ کر خوش ہونے والے؛ ایسا ساقی جو خود تشنہ لب رہ کر مے خانے کے ہر مے کش کو بھرپور سیراب کر دینے کا وسیع ظرف رکھتا ہو، مے کدے کا ہر جام جس سے بے حد انس رکھتا ہو اور ہر پیمانہ، جس سے بے پناہ محبت کرتا ہو؛ وہ دل ربا اور باظرف ساقی یہ کہتا ہوا مے خانہ چھوڑ چلا کہ جان کر من جملہٴ خاصان مے خانہ مجھے
مدتوں رویا کریں گے جام و پیمانہ مجھے
(جگر مرادآبادی)
قدرت کا فیصلہ بڑا اٹل ہے۔ اس کی مشیت بڑی ٹھوس ہے۔ اس کا نظام بڑا مستحکم اور اس کا قانون بڑا پختہ ہے۔ سارا عالم اسی قدرت کا مظہر اور اسی مشیت کا پرتو ہے۔ کوئی آتا ہے اور کوئی جاتا ہے، یہ جہاں کا نظام ہے۔ کوئی ہنستا ہے اورکوئی روتا ہے، یہ خالقِ جہاں کا قانون ہے۔ ﴿وأنہ ہو أضحک وأبکی وأنہ ہو أمات وأحیا۔﴾ہنسنا ہنسانا اور رونا رلانا عمل بھی ہے اور مکافاتِ عمل بھی۔ جو دنیا میں کسی کو ہنساتا ہے، وہ ہنستا ہوا دنیا سے جاتا ہے۔ اور جو دنیا میں کسی کو رلاتا ہے، وہ روتا ہوا دنیا سے جاتا ہے۔ کسی کے آنے پر خوشی ہوتی ہے اور جانے پر غم۔ اور کسی کے آنے پر غم ہوتا ہے اور جانے پر خوشی۔ جو دنیا میں دوسروں کی خوشی کا باعث بنتا ہے، وہ دنیا سے جاتا ہے تو خوش خوش جاتا ہے اور دنیا والے اس پر روتے ہیں۔اس کے برعکس جو دوسروں کو رلاتا ہے، وہ خود روتا ہوا دنیا سے جاتا ہے اور دنیا والے اس پر ہنستے ہیں۔ یہی عمل اور مکافاتِ عمل ہے۔ حضرت مولانا عبدالرحیم صاحب فلاحی کی زندگی اور موت حسنِ عمل اور حسنِ مکافاتِ عمل کا سچا مظہر اور بہترین نمونہ ہے۔ اللہ پاک اس حسنِ ظن کی لاج رکھے۔
جامعہ اکل کوا سے وابستہ ہر فرد اس سے واقف ہے کہ مولانا مرحوم نے نہ جانے کتنے دنوں اور کتنی راتوں میں کتنوں کے حادثہٴ موت کی خبر دی ہوگی اور مائک سے اعلان کیا ہوگا۔ مگر ایک دن وہ بھی آگیا کہ خود خبر دینے والے کے لیے خبر دی گئی اور اعلان کرنے والے کے لیے اعلان کیا گیا۔ یہ تکوینی طور پر مولانا کے حق میں حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ کے فرمان کی تائید ہے کہ ‘‘یقال فی کل یوم مات فلان و فلان ولا بد من یوم یقال فیہ مات عمر”۔ جب کہیں سے کسی کے حادثہٴ وفات کی کوئی خبر آتی تو مولانا فوراً تعزیتی تحریر لکھنے بیٹھ جاتے اور ”أذکروا محاسن موتاکم” کے پیش نظر مرحوم کی اچھائیاں تلاش تلاش کر نکالتے اور انہیں صفحہٴ قرطاس پر ثبت فرمادیتے۔ میں کبھی کبھی تفریحاً کہتا کہ مولانا آپ اپنا مرثیہ بھی لکھ جایئے۔
بہ قول شاد عظیم آبادی
بعد مرنے کے بھلا ہوگا کسے غم اپنا
ہاتھ قابو میں ہے کر لے ابھی ماتم اپنا
اور مولانا ”اقبال“ کی زبان میں جواب دیتے
نالہ ہے بلبلِ شوریدہ ترا خام ابھی
اپنے سینے میں اسے اور ذرا تھام ابھی
انتقال سے متصل ہفتہ میں مولانا کئی بار کمرے میں تشریف لائے اور کافی دیر تشریف فرما رہے۔ اپنی عادتِ حسنہ کے مطابق کچھ تحریری مسودات ساتھ لائے اور فرمایا کہ انہیں دیکھ لیں اور کوئی اچھا سا نام رکھ دیں۔ حقیر نے دریافت کیا کہ کیا ہے؟ فرمانے لگے کہ ”کورونا“ کا علاج ہے۔ کورونا کی وجہ سے ”لاک ڈاوٴن“ ہے اور فراغت ہے۔ اس سے کیوں نہ فائدہ اٹھایا جائے؟ دورہٴ حدیث شریف میں پڑھائی جانے والی کتابوں سے متعلق آٹھ عناوین سے بنیادی مباحث اور پڑھانے والے اساتذہ کی اسانید مرتب کر رہا ہوں۔ میں نے پوچھا آپ نے کیا نام رکھا ہے؟ فرمانے لگے ”الأبواب الثمانیة فیما یتعلق بالکتب العشرة“ میں نے وجہ تسمیہ دریافت کی۔ فرمانے لگے کہ جنت کے آٹھ دروازے ہیں۔ جی میں آتا ہے کہ ان کی مناسبت سے ہر کتاب سے متعلق آٹھ مباحث تیار ہوں۔ تاکہ ان کی برکت سے جنت کے آٹھوں دروازوں کا کھلنا آسان ہو جائے۔ میں نے کہا کہ اس کا اردو نام رکھ لیں: ”کھلتے دروازے“۔ کون جانتا تھا کہ یہ محض نام نہیں، بل کہ جنتی دروازوں کے کھولنے کا ایک عظیم کام ہے۔ یہ نام اور کام مرحوم کے حسنِ اختتام پر دال اور اللہ کی رحمت سے نیک فال ہے کہ یہ مبارک نام ”اسم بامسمیٰ“ ثابت ہوگا۔ اور یہ بابرکت کام اخروی کام کو آسان کرکے ابدی سعادت اور امتیازی سرخ روئی کا باعث بنے گا۔
﴿ربنا تقبل منہ ومنا انک انت السمیع العلیم﴾
یہ عجیب اتفاق اور مصلحتِ خداوندی ہے کہ مولانا کا انتقال ایک ایسے وقت اور ایسے حالات میں ہوا کہ بہ جز چند متعلقین اور وارثین کے کسی کو آخری دیدار اور آخری ادائیگیٴ حق کا موقع بھی نہ مل سکا۔ ہائے حرماں نصیبی کہ ہم مولانا کی تربت پر خاک ڈالنے سے بھی رہ گئے۔ لگتا ہے وہ ایک مرد قلندر تھا ،جو زندگی بھر ایک مردِ قلندر خواجہ عزیزالحسن مجذوب کا شعر گنگناتا رہا اور آخر دم اس شعر کو سچا کر گیا
آنے والی کس سے ٹالی جائے گی
جان ٹھہری جانے والی جائے گی
پھول کیا ڈالو گے تربت پر مری
خاک بھی تم سے نہ ڈالی جائے گی
کسی نے کہا تھا
میں اکیلا ہی چلا تھا جانبِ منزل مگر
لوگ آتے گئے اور کارواں بنتا گیا
آج ایک کارواں بن کر تیار ہے۔ خاص کر مسابقہٴ قرآنیہ کی برکت سے ایک قرآنی کارواں جادہٴ نور پر ثابت کھڑا ہے، مگر میرِ کارواں چل بسا ہے۔ مولانا نے جامعہ کے جن جن شعبوں کی رہ نمائی کی اور رئیس جامعہ کی جن جن پالیسیوں کو فروغ دیا، یہ سب اللہ کے فضل اور اس کی مشیت سے ہوا۔ اگرچہ اللہ نے مولانا کو اپنی آغوشِ رحمت میں اٹھا لیا۔ مگر جہاں ”کارِ جہاں دراز ہے“۔ وہیں ”اللہ کارساز ہے“ پر ہمارا یقین غیر متزلزل ہے۔ اس کریم رب سے امید ہے کہ وہ یوں ہی حسن کا انتظام کرتا رہے گا، تاکہ عشق کا کام ہوتا رہے۔ مولانا جامعہ اور کاروانِ جامعہ سے رخصت ہو گئے، مگر جاتے جاتے ایک لافانی پیغام بھی دے گئے کہ
قدم بڑھاوٴ کہ راہِ نجات باقی ہے
سحر بھی دور نہیں ، گرچہ رات باقی ہے
ثباتِ عزم سے ثابت کرو زمانے پر
کہ اس چراغ میں سوزِ حیات باقی ہے
(ڈاکٹر کلیم احمد عاجز)
اللہ پاک مولانا مرحوم کی تمام دینی و ملی خدمات کوقبول، پس ماندگان کو صبر جمیل اور جامعہ و کارہائے جامعہ کے لیے ان کا نعم البدل مہیا فرمائے۔ آمین یا رب العالمین!