․․․․․․وعلم ینتفع بہ (الحدیث)

(حضرت مولاناعبدالرحیم صاحب رحمة اللہ علیہ اپنی تصنیفات وتالیفات کے آئینے میں)

از:حسین احمد قاسمی معروفی استاذجامعہ اکل کوا

            اس دنیائے رنگ وبومیں آئے دن حادثات پیش آتے رہتے ہیں۔ان میں کوئی عالمی ہوتاہے ،کوئی ملکی توکوئی شخصی ۔ان حادثات میں کچھ ایسے بھی ہوتے ہیں جولمبے عرصے تک کے لیے دل کو غم زدہ اورمحزون بنا دیتے ہیں۔اور لوگ اپنی اپنی بساط اورتعلق کے اعتبار سے اپنے الفاظ وبیان میں ظاہر کرتے ہیں۔

            ابھی دنیاجس نازک دورسے گزررہی ہے،وہ” لاک ڈاوٴن“ کا زمانہ کہلاتاہے اوراس کی تکلیف ناقابل بیان ہے ۔لیکن یہ تالابندی کادور جب سے شروع ہواہے اورلوگوں کاجونقصان ہواہے وہ ایک طرف لیکن اس درمیان چوٹی کے علمائے کرام کا رفتہ رفتہ دو مہینے کی اس قلیل مدت میں کثیر تعدادمیں ہمارے درمیان سے اٹھ جانا ایک ایساناقابل تلافی علمی ودینی نقصان ہے ،جس کا خلاپرہونامشکل ہے۔ایسے علمائے کرام جو ہمارے درمیان نہیں رہے،ان کی ایک لمبی فہرست ہے ۔ایک اندازے کے مطابق تقریباً ۲/سوعلمائے کرام اس دنیاسے رخصت ہوئے ہیں۔ فاناللّٰہ وانا الیہ راجعون۔

            بہرحال !اپنی تحریرکوطول نہ دیتے ہوئے اصل مقصدکی طرف آتاہوں۔ان علمائے کرام میں ایک بہت ہی معروف ومشہورنام محبوب العلما والصلحا حضرت مولاناعبدالرحیم صاحب فلاحی رحمة اللہ علیہ کا بھی ہے ۔ میں اولاًحضرت مرحوم کودل کی گہرائیوں سے خراج عقیدت پیش کر ناضروری سمجھتا ہوں کہ حضرت مرحوم جہاں گونا گوں صلاحیت کے مالک تھے، وہیں مولانانے اپنی حیات مستعار کے صرف ۵۶/سال میں دن رات کافرق کیے بغیر مسلسل اتناکام کرلیاکہ جوعام لوگ شایداسی(۸۰)سال میں بھی نہیں کر پاتے،شاید اللہ تعالیٰ کوکم وقت میں زیادہ کام لیناتھااس لیے ان سے دن رات کام لیا۔

            مولانامرحوم کے کارنامے ہرمیدان میں نمایاں نظرآتے ہیں ۔مولانارحمة اللہ علیہ صرف ایک کام یاب مدرس ومعلم ہی نہیں تھے، بل کہ تالیفی ،تصنیفی،رفاہی،سماجی اورتبلیغی خدمات کاایک لمباسلسلہ ہے،جس پر بہت سے لوگوں نے لکھاہے اورلکھتے رہیں گے۔ان شاء اللہ!

            مولانامرحوم نے خدمت ِخلق کاکوئی بھی گوشہ خالی نہیں رکھا۔ہرطرح کی خدمات بحسن وخوبی انجام دینااپنا فرض سمجھتے تھے۔چناں چہ آپ نے جہاں مسنددرس پربیٹھ کر ہزاروں تشنگان علوم نبوت کو سیراب کیا وہیں سیکڑوں مسجدیں تعمیرکرائیں ،بہت سے مکاتب ومدارس کے سرپرست رہ کر انہیں بام عروج پر پہنچایااورکسی رفاہی اورملی خدمات کوبھی تشنہ نہیں رکھا۔

            مجھے بھی کچھ باتیں لکھنی تھیں۔ (اورایک مختصرتاثراتی تحریربہ نام”حیات رحیمی کا آخر ی ہفتہ“پیش کی تھی،جس میں ہمارے لیے بہت کچھ سیکھنے کی چیزہے)لیکن سردست اس تحریرمیں صرف ایک گوشہ(تصنیف وتالیف)آپ لوگوں کے سامنے اجاگرکرنے کاداعیہ ہے اس لیے اسی سے متعلق چند سطریں پیش کرناہے ۔

            قبل اس کے کہ حضرت مرحوم کی تصنیفات وتالیفات سے روشناس کرایاجائے ،حضرت کا مختصرسا تعارف ضروری سمجھتاہوں:

            مولانامرحوم کواللہ تبارک وتعالیٰ نے بہت سی خوبیوں اورصلاحیتوں سے نوازاتھا۔ان میں ایک واضح اورنمایاں ترین صلاحیت ؛اظہارمافی الضمیراور زبان وبیان کی صلاحیت تھی، جس نے مولاناکی زندگی میں ایک اہم ترین رول اداکیاہے۔پھرکسی کے مضمون یاکتاب پراپنی رائے کا اظہار اور جچاتلاتبصرہ کرنایاکسی چیزکے بارے میں اپنی مثبت تاثراتی کیفیت کااظہارگرچہ بہت ہی اہم اور نازک کام ہے،ہرکس وناکس کے بس کی بات نہیں ہے،لیکن جب اللہ تعالیٰ نوازنے پرآتاہے تومشکل سے مشکل کام کوبھی آسان بنادیتاہے۔پھرانسان اپنی لگن، تڑپ، دھن اورعملی محنت کے تسلسل ودوام میں ممارست سے اتنی مہارت حاصل کرلیتاہے کہ اس کی آراء کو معرکةالآرااوراس کی سند،مستندمضمون کے طورپرپیش کی جانے لگتی ہے۔بہ قول شاعر 

إذاقالت حذام فصدقوہا

فان القول ماقالت حذام

            چناں چہ اس میدان میں مولانامرحوم نے نہ معلوم کتنے لوگوں کااعتمادحاصل کیاکہ اپنے اپنے میدان کے سرخیل اورسربرآوردہ حضرا ت بھی اپنی کتابوں پر تقریظات،حوصلہ افزا کلمات اوردعائیہ سخنہائے گفتنی لکھوانے اور تحریرکرانے میں فخرمحسوس کرتے تھے۔

            سچ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کی تحریرمیں ایسی سحر آفرینی اورجادوئی تاثیر رکھی ہے کہ جب منظر کشی یا جذبات کی ترجمانی کرنے پرآتے ہیں ، خصوصاًتاثراتی تحریریں ایسی ہوتی تھیں کہ قاری ایسامحسوس کرتا،جیسے یہ سارامنظراس کے سامنے تجسیمی شکل میں لاکرحاضرکردیاگیاہے اوروہ مضامین کی کشتی پر بیٹھامعلومات کے بحربے کراں میں رواں دواں ہے۔

            حضرت شیخ فلاحی ،ہند ستا ن کی علمی دانش گاہ، قدیم وجدیدکاسنگم جامعہ اسلامیہ اشاعت العلوم اکل کوا کے استاذ ِتفسیرو حدیث اوردارالعلوم فلاح دارین ترکیسر گجرات کے ایسے بے مثال فاضل تھے کہ آپ نے”فلاح ِدارین“سے فراغت پاکراپنی مادرعلمی کاایساحق اداکیاکہ اپنے نام سے زیادہ اپنی مادرعلمی کی نسبت ”فلاحی“سے متصف ہوکر،شیخ فلاحی یا مولانا فلا حی سے ایسے مشہور ہو ئے کہ بعض حضرات کوان کے نام سے بھی واقفیت نہیں رہی ۔

            اپنے چھوٹوں کو آگے بڑھا نا،ان کی خوابیدہ صلاحیتوں کونکھارنااوران میں ”اپنے من میں ڈوب کر پاجا سراغ زندگی “کاحوصلہ بیدارکرنا مولانارحمة اللہ علیہ کی خا ص عادت اور طرہٴ امتیازرہاہے ۔

            اسی طرح اللہ تعالیٰ نے نظامت اوراناوٴنسری کاایساملکہ عطافرمایاتھاکہ سننے والے معمورومحظوظ ہونے کے ساتھ مسحوربھی ہوجاتے تھے ۔کبھی کسی پروگرام میں کسی وجہ سے اصل شخصیت کے آنے میں تاخیرہوتی تو حاضرین کوگھنٹوں اس طرح مصروف رکھتے کہ کسی کواحساس بھی نہ ہوتا۔ مولانا موصوف جب نظا مت کے لیے کھڑے ہوتے تواس شعرکے مصداق ہوجاتے۔ 

لکھنے جو رات بیٹھا غزل تیرے نام کی

الفاظ سامنے تھے کھڑے ہاتھ جوڑ کر

ذالک فضل اللہ یوٴتیہ من یشاء۔

            مسلم شریف میں ایک روایت ہے:”اذامات الانسان انقطع عملہ الامن ثلاث: صدقة جاریة وعلم ینتفع بہ وولدصالح یدعولہ“ ۔الحمدللہ حضرت مرحوم کو تینوں خوبیاں وافرمقدار میں اللہ تعالیٰ نے عطافرمائی تھیں۔

             چناں چہ” صدقة جاریة“کا مصداق بہت سی مسجدوں، مکاتب اورمدارس کی شکل میں موجود ہیں، جنھیں حضرت نے خودبنوایا تھا یا ان کے سرپر ست تھے۔

            ایسے ہی” علم ینتفع بہ“کا دونوں سلسلہ (درس وتدریس اور تصنیف تالیف )بھی آپ کوحاصل ہے ، چناں چہ ہزاروں شاگرد موجود ہیں اورمتعددتصنیفات بھی آپ کے قلم کا شاہکار بن کر امت کے سامنے پائی جارہی ہیں۔

            اور”ولدصالح یدعولہ“کی نعمت اس طرح سے حاصل ہے کہ حضرت مرحوم کی صلبی اولاد میں پانچ بیٹیوں کے علاوہ تین نرینہ اولادہیں، جن میں سے بڑے بیٹے الحمدللہ حافظ، عالم اورمفتی ہیں اورجامعہ میں ہی ابتدائی درجات کے کام یاب مدرس ہیں۔ دوسرے صاحب زادے عزیزم محمدریان سلمہ ہیں، جواِسی سال حفظ قرآن کی دولت سے مالامال ہوئے ہیں اورمحمدرضوان جومولاناکے تیسرے بیٹے اورتمام بھائی بہنوں میں سب سے چھوٹے ہیں ، حفظ ِقرآن میں مصروف ہیں۔

بہرحال! اصل مقصدکی طرف آتے ہیں اور یہاں سے شروع کرتے ہیں کہ:

کچھ نہ کچھ لکھتے رہو تم وقت کے صفحات پر

نسل ِنوسے اک یہی تورابطے رہ جائیں گے

            مولاناموصوف کی کئی تصنیفات وتالیفات ہیں، جن میں سے کچھ مطبوعہ اورکچھ غیرمطبوعہ ہیں۔ مطبوعہ تالیفات یہ ہیں:

(۱)…اورادِسعادتِ دارین:

            ۱۲۸/صفحات پرمشتمل ہے، جس میںآ یات ِقرآنیہ اور احادیث ِنبویہ کی روشنی میں مختلف قسم کی پریشانیوں کاحل پیش کیاگیاہے،جو ایک ساتھ اردواور انگلش دونوں زبانوں میں موجودہے۔ دور ِحاضر میں لوگوں کی بے دینی کی وجہ سے غلط قسم کے عاملوں اور جھاڑ پھونک کرنے والوں سے بچانے میں بھی بہت مفید ہے ۔

(۲)…تحفہٴ تراویح:(اردو/انگلش)

            تراویح میں عموماًپڑھی جانے والی یومیہ مقدار؛یعنی سواپارہ کا خلاصہ لکھاگیا ہے،جوبہت ہی مقبول ہے۔ختم تراویح کے بعد لوگ بڑی دل چسپی سے سنتے ہیں۔ہزاروں کی تعدادمیں ہر سال چھپتی ہے۔اب تک ۱۶/ایڈیشن چھپ چکے ہیں۔۱۰۸/صفحات

(۳)…توشہٴ راہ ِ حیات یعنی تحفہٴ بیٹی:

            یہ کتاب حضرت مرحوم نے اپنی سب سے بڑی بیٹی کی شادی اوررخصتی کے وقت ترتیب دی تھی ۔یہ کتاب؛ایک بیٹی کے لیے بہ وقت رخصتی اوراگلی زندگی گزارنے کے متعلق اہم اورقیمتی نصیحتو ں کامجموعہ ہے، جسے پڑھ کر ایک عورت اگراپنی زندگی ان خطوط کے مطابق گزار ے تودوسری عورتوں کے لیے آئیڈیل اور نمونہ بن سکتی ہے ۔

(۴)…تحفہٴ حفاظ:

            ۷۲/صفحات پرمشتمل آیات ِمتشابہات کا بہترین حل ہے،جوحفظ کرنے والے طلباکے لیے ایک چیلنج سے کم نہیں ہوتا۔

(۵)…تحفہٴ اذان وموٴذنین مع مسائل اذان واقامت:

            جس میں اذان موٴذن کی فضیلت کے ساتھ مسائل اذان کوبھی بیان کیاگیاہے ۔ یہ کتاب ایک خاص پس منظر میں لکھی گئی ہے ،جب کہ ایک موٴذن کی توہین ہوتے ہوئے عالمی پیمانہ کے ایک بہت بڑے ادیب نے کہا تھاکہ ”مجھ سے دیکھانہ گیا حسن کا رسوا ہونا“ ۲۴/صفحات پرمشتمل ہے۔

(۶)…ہدیة المتسابقین فی کلام سیدالمرسلین:

            ۲۰۱۵ء میں ریاستی وکل ہند مسابقات کے وقت خادم القرآن والمساجد حضرت مولاناغلام محمد صاحب مدظلہ کے حکم سے مرتب کی گئی ہے،جس میں چالیس احادیث ِمبارکہ کوباحوالہ لکھنے کے ساتھ ہر حدیث کو ایک جامع عنوان سے معنون کیا گیاہے۔ اور رواتِ حدیث کے حالات،مشکل الفاظ کی توضیح اورمستند تشریح پیش کرنے کے ساتھ ساتھ فوائد ِحدیث اور فقہ الحدیث کو بہت ہی البیلے اندازمیں بیان کیاگیاہے،جوطلبائے حدیث، خطبا اور علما کے لیے قیمتی تحفہ ہے۔۱۴۹/صفحات پرمشتمل ہے۔

(۷)…المذکرات التفسیریة :

            جامعہ کا ایک اہم مشن مسابقات ِقرآنیہ کا انعقاد ہے ۔چناں چہ جامعہ کی زیرنگرانی اب تک ۹/کل ہند مسابقے ہوچکے ہیں، فَلِلّٰہِ الْحَمْدُ عَلٰی ذَالِکَ۔جس میں کئی فروعات ہوتی ہیں،ان میں ایک فرع تفسیر کی بھی ہوتی ہے ۔اس موقع سے حضرت رئیس الجامعہ حفظہ اللہ کے ایما ء پر تفسیر ی مذکرہ تیار کیا جاتاہے ،ان میں سے زیادہ تر مذکرے حضرت مرحوم ہی کے تیارکردہ ہیں،مثلاً:

…المذکرات التفسیریة (سورہٴ فاتحہ)

…المذکرات التفسیریة (سورہٴ بقرہ)

…المذکرات التفسیریة (سورہٴ آل عمران)       

…المذکرات التفسیریة (سورہٴ یونس)

…المذکرات التفسیریة (سورہٴ ہود)   

…المذکرات التفسیریة (سورہٴ یوسف)

…المذکرات التفسیریة (سورہٴ کہف)           

…المذکرات التفسیریة (سورہٴ موٴمنون)

…المذکرات التفسیریة (سورہٴ نور) 

…المذکرات التفسیریة (سورہٴ فرقان)         

   ان مذکرات میں تفسیری سوالات کے علاوہ ترجمہ،بلاغت،معانی ،قصص،نحووصرف اور تجوید وقراء ت سے متعلق بھی سوالات ہوتے ہیں۔ ان مذکرات کی خصوصیت یہ ہے کہ یہ تمام چیزیں یکجا بیان کی جاتی ہیں،جس کی وجہ سے ایک لحاظ سے یادکرناآسان ہوجاتاہے۔

            نوٹ:ان تمام مذکرات کو نئی شکل اور نئے نام سے لانے کی بھی تیاری ہے اوربہت حد تک کام ہوبھی چکا ہے۔اب دیکھئے طباعت کا مرحلہ کب آتا ہے۔

(۸)…قطرہ قطرہ سمندر بنام نگارشات فلاحی :

            ۴۱۶/صفحات کومحیط یہ کتاب

قَطْرٌقَطْرٌإذَااجْتَمَعَتْ نَہْرٌ

نَہْرٌنَہْرٌإذَااجْتَمَعَتْ بَحْرٌ

کا مصدا ق ہے ۔کیوں کہ اس میں لکھی ہوئی تحریریں مختلف موضوعات پر مختلف اوقات میں ہی ترتیب دی گئی ہیں۔چناں چہ اس کتاب میں قطرہ قطرہ کو سمندربنایاگیاہے، مثلاً:

            (۱)انوارنبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے عنوان سے ۱۵/مضامین ہیں،جو۲۶…تا…۸۱صفحات پر پھیلے ہوئے ہیں،جن میں حدیث پاک کی پراثرتشریح کی گئی ہے۔

            (۲)۳۴/تقاریظ وتحاریض ہیں،جوچھوٹی بڑی ہر طرح کی شخصیت کی کتابوں پر لکھے ہوئے تاثرات ہیں،۸۲…تا…۱۸۴/صفحات پر مشتمل ہیں۔

            (۳)ابتدائیہ کے عنوان سے ۱۸۵…تا…۲۱۰/صفحات پرمحیط ۷/تحریریں ہیں،جوخود حضرت مرحوم کی اپنی کتابوں پرپس منظر کے طورپر لکھے ہوئے نقوش ہیں۔

            (۵)۲۱۱…تا…۳۰۶/صفحات پر پھیلے ہوئے ۱۳/مضامین ہیں،جووفیات کے عنوان سے معنون ہیں،جن میں ہمارے ملک ہندستا ن کی اہم شخصیات کے انتقال کے وقت لکھے ہوئے تاثرات وانفعالات کو تحریری شکل دی گئی ہے۔

            (۶)مقالات ومضامین کے عنوان سے صفحہ ۳۰۷ سے ۴۱۶/تک مختلف موضوعات پرلکھی ہوئی تحریریں ہیں۔

(۹)…فیض وستانوی؛ فکرکاپودروی کا خوش نمامظہر:

            یہ کتاب مفکرملت حضرت مولانا عبداللہ صاحب کاپودروی کی حیات وخدمات کے عنوان سے منعقدہ سمینارکے موقع پر تیارکی گئی ہے ،جو ۸۸/صفحات پر مشتمل ہے۔اس میں خادم القرآن رئیس الجامعہ حضرت وستانوی مدظلہ کے کارنامے کا تذکرہ ہے۔ کیوں کہ حضرت وستانوی کے کارنامے حضرت مفکر ملت کی تربیت کا بھی نتیجہ ہیں۔

(۱۰)…افکارپریشاں…یا…افکارذی شاں:

            ۲۸/صفحات کی یہ کتاب حضرت مولانا عبداللہ صاحب کاپودروی کی ”افکارپریشاں“نامی کتاب کو بڑے اچھوتے اندازمیں خراج عقیدت پیش کرنے کی غرض سے لکھ کر یہ ثابت کرنے کی کوشش کی گئی ہے کہ ”افکارپریشاں“ہم چھوٹوں کے لیے بہت ہی ذی شان ہے ،جس سے بہت سے تعمیری پہلو اخذ کیے جاسکتے ہیں،لہٰذایہ افکار ذی شان کہلانے کے لائق ہے۔

(۱۱)…شہ سوارِ تعبیرات کے تعبیری جواہر پار ے:

            شہ سوارِتعبیرات سے حضرت کاپودرویمرادہیں۔۱۶/صفحات کے اس کتابچہ میں حضرت کاپودروی کی مختلف کتابوں سے چندتعبیرات ادبیہ کو جمع کرکے حضرت  کی ادیبانہ شان کو اجاگرکرنا مقصودہے ، نہ کہ احاطہ۔

(۱۲)…دورِحاضرکی شش جہات شخصیت :

            خادم القرآن حضرت وستانوی دامت برکاتہم کے فرزند اکبرحضرت مولانا محمدسعید صاحب وستانوی ، جو طویل علالت کے بعد وفات پاگئے تھے ؛ان کی وفات کے بعد ان کی زندگی کے لمحاتِ سعیدہ کو اجاگر کیا گیا ہے۔ ۲۴/صفحات کا ایک مسلسل مضمون ہے،جس میں مولانا محمدسعید صاحب  سے متعلق ارتباط وتعلقات کوبیان کیا گیا ہے، مثلاً:

            …ارتباط وتعلقات مع الاکابرین۔     

…ارتباط وتعلقات مع الاصاغرین۔

…ارتباط وتعلقات مع المعاصرین۔   

…ارتباط وتعلقات مع المدارس۔                   

…ارتباط وتعلقات مع الاقرباء۔       

…ارتباط وتعلقات مع الاساتذہ۔                                   

…ارتباط وتعلقات مع المصنفین والموٴلفین     

…ارتباط وتعلقات مع العوام والدعاة

(۱۳)…قرآنی قَسَموں کانادراسلوب ؛ایک اجمالی جائزہ :

            یہ مقالہ فل اسکیپ سائزکے۵/صفحات پرمشتمل ہے ،جس میں قرآن کے اندر اللہ تعالیٰ نے کسی چیز کو قسم کھاکر کیوں بیان کیااوراس کا انداز کیوں اور کیسا ہے ،اسے تفصیل سے بیان کیاگیاہے ۔

            یہ تحریردارالعلوم ندوةالعلما کے سہ روزہ عالمی رابطہٴ ادب اسلامی کے اجلاس کی مناسبت سے منعقد ہونے والے پروگرام کے وقت لکھی گئی تھی۔اس اجلاس کاانعقادجامعہ کے ناظم تعلیمات کی علم دوستی کی وجہ سے جامعہ اسلامیہ اشاعت العلوم اکل کوا،نندوربار(مہاراشٹر)میں بتاریخ: ۲۳،۲۴،۲۵/محرم الحرام۱۴۳۷ھ مطابق :۶،۷،۸/نومبر۲۰۱۵ء کومنعقدہواتھا،جوبہت ہی کام یاب تھا،جس نے بہ قول بعض،اپنے سے پہلے رابطہ کے تمام پروگرام کو پیچھے چھوڑدیاتھا۔

            غیرمطبوعہ تحریریں دوطرح کی ہیں:کچھ قریب بہ تکمیل ہیں اور کچھ زیرترتیب ہیں،جوعزیزم مفتی محمد ریحان سلمہ کے توسط اور ان کی نگرانی میں ان شاء اللہ العزیزمنظر عام پر آئیں گی۔مثلاً:

(۱)…امت مسلمہ کے اختلافی مسائل اوران کا حل:(فل اسکیپ۱۱/صفحات)

(۲)…معذورکے احکام:(فل اسکیپ۹/صفحات)

            یہ دونوں مقالے فقہ اکیڈمی کے زیراہتمام منعقدہونے والے اجلاس کے موقع پرلکھے گئے ہیں۔پہلے مقالہ میں ۵/اوردوسرے مقالہ میں ۹/اہم سوالا ت کا بہترین حل پیش کیا گیاہے۔

(۳)…زبان وادب اوراردو(منظروپس منظر):(فل اسکیپ۱۰/صفحات)

            جامعہ اسلامیہ اشاعت العلوم،اکل کوا،نندوربارکے زیراہتمام منعقدہونے والے ،دس روزہ تربیتی پروگرام برائے اساتذہ ٴ مدارس بتاریخ: ۱۲…تا…۲۱/جنوری۲۰۱۰ء کے موقع پرحسب ایماء خادم القرآن والمساجدحضرت مولانا غلام محمد صاحب وستانوی دامت برکاتہم لکھاگیاتھا۔ جس کے مندرجات یہ ہیں:

            …تمہیدجامع۔ …زبان؛ مرادبہ کی حقیقت اوراس کی تسخیری قوت۔…اردوزبان اور اس کاتدریجی ارتقا۔…اردوزبان کی نشوونماایک تاریخی جائزہ۔…اردوزبان کی لسانی انفرادیت۔ …اردوزبان میں اصناف سخن۔ …اختتا م براردوکاپیغام۔

(۴)…درس ِمشکاة:

            اس عنوان سے۱۵/صفحات پرمشتمل کسی ادارہ کے ختم مشکاة شریف کے موقع پر تیارکی گئی ایک جامع تقریرہے۔

(۵)…توضیح حدیث تسبیح برموقع تکمیل صحیح للبخاری:

            بخاری شریف کی آخری حدیث ”کلمتان حبیبتان الی الرحمن خفیفتان علی اللسان ثقیلتان فی المیزان،سبحان اللّٰہ وبحمدہ سبحان اللّٰہ العظیم “کی بہت تفصیلی توضیح ہے ،جوکسی ادارہ میں ختم بخاری کے لیے تیارکی گئی ہے۔اس کتاب کے۲۴/صفحات ہیں۔

            (۶)…شرح بیضاوی شریف۔                        (۷)…مواد خطابت۔           

            (۸)…شرح مقدمہٴ مسلم شریف۔         (۹)…قطرہ قطرہ سمندر(دوم)

            (۱۰)…ہدیة المتسابقین کی ترتیب جدید۔ (۱۱)…خطبات فلاحی ۔ …یہ سب زیرتیب ہیں۔

(۱۳)…الابواب الثمانیة:

            اس کتاب میں دورہٴ حدیث میں پڑھائی جانے والی دس کتابوں کے متعلق ۱۶/۱۶/باتیں لکھی گئی ہیں۔آٹھ ”مَایَتَعَلَّقُ بِالْمُصَنَّفْ“ یعنی کتاب سے متعلق۔اور آٹھ ”مَایَتَعَلَّقُ بِالْمُصَنِّفْ“ یعنی مصنف ِکتاب سے متعلق ۔بہت خاصے کی چیزہے ، جس کا احساس مطالعہ کے بعد ہی ہوسکتاہے۔عن قریب منظر عام پرآرہی ہے۔

(۱۴)…ان کے علاوہ مختلف موضوعات پر سیکڑوں مضامین ومقالات اورقیمتی تحریریں ہیں۔

            اللہ تعالیٰ سے دعافرمائیں کہ جلدازجلد یہ ساری تحریریں منظرعام پرآجائیں تاکہ لوگ استفادہ کریں اور حضرت مرحوم کے لیے ایصال ثواب کا باعث ہو۔جی توبہت کچھ لکھنے کوچاہتاہے،لیکن بہت طویل ہونے کے خطرے سے اتنے پرہی اکتفاکرتاہوں۔

            ہم تمام محبین ومتعلقین کی طرف سے اللہ تعالیٰ حضرت مرحوم کوجزائے خیرعطافرمائے اوراللہ وحدہ لاشریک لہ جنت الفردوس میں اعلیٰ علیین میں جگہ عنایت فرمائے اوران کے چھوڑے ہوئے تابندہ نقوش پر عمل کی توفیق بخشے۔(آمین)