خدا بخشے بڑی خوبیاں تھیں مرنے والے میں

مولانا ناظم صاحب ملی تونڈاپوری/استاذ جامعہ اکل کوا

            موت ایک ایسی شئی ہے ،جو زندہ اور مردہ کے درمیان ایسی آڑ بن جاتی ہے ،جس سے تمام بندھن ٹوٹ جاتے ہیں اور ان کے مابین ساری قرابتیں ساری نزدیکیاں سپوتازہوجاتی ہیں ۔سارے روابط ٹوٹ جاتے ہیں، اسی لیے سارے اعزاواقربا، اصدقاو رفقا کی جدائی پر غم ایک فطری جذبہ ہے، جس کااظہار آنسو وٴں اور جانے والوں کے اوصاف وکمالات کی یادوں سے ہوتا ہے۔ غم کے یہی آنسو جب قلم کے ذریعہ صفحہٴ قرطاس پر ثبت ہوجاتے ہیں تو وہ تاریخ کا ایک حصہ بن جاتے ہیں ،جو بعد کے آنے والی نسلوں کے لیے نشان راہ بن کر منزل تک پہنچنے کا ذریعہ بھی بن جاتے ہیں ۔

            ایسے ہی جامعہ کی اہم شخصیت حضرت مولانا عبد الرحیم صاحب فلاحی رحمة اللہ علیہ بھی تھے۔ اور اسی طرح اچانک ان کی موت کا واقع ہونا واقعی امت کا ناتلافی نقصان ہے اور جس نے بھی یہ جملہ کہا واقعی وہ مبنی بر حقیقت ہے کہ” موت العالِم موت العالَم“ کہ عالم کی موت نہ صرف اس کی اپنی موت ہوتی ہے،بل کہ ایک عالم کی موت ہوتی ہے۔ مرحوم مولانا عبدالرحیم صاحب اور اس خاکسار کے مابین کئی یادیں ہیں جو ایک دوسرے سے وابستہ ہیں اور اب وہ ماضی بن گیا ہے ۔

کسی شاعر نے کہا تھا کہ

یاد ماضی عذاب ہے یا رب

چھین لے مجھ سے میرا حافظہ

            شاعر کی یہ بات تخیلات پر محمول کی جا سکتی ہے یا پھر کسی خاص واقعہ کے تحت اس نے اس کا اظہار کیا ہو یا کسی عاشق زار کو اپنے محبوب کے لیے کہنا پڑا ہو ،جس کے لیے اپنے معشوق کی جدائی اور فراق و ہجر اس کے لیے سوہان روح بن گیا ہو اور یادوں کے میلے اس کو اپنے محبوب کی یاد میں بسمل بنا دیتے ہوں۔ سرد گرم ہواوٴں کے تھپیڑے اس کو اس قدر تڑپاتے ہوں کہ اس کو انگیز کرنا اس کے لیے محال اور وبال جان ہوجاتے ہوں جیسا کہ ایک دوسرا شاعر کہتا ہے کہ

دل کی چوٹوں نے کبھی چین لینے نہ دیا

جب چلی سرد ہوا میں نے تمھیں یاد کیا

            تو یاد ماضی کا عذاب ہونا؛ یہ اپنا اپنا زاویہٴ نگاہ ہے۔ اپنا اپنا خیال اور اپنی اپنی فکر وسوچ تو ہوسکتی ہے، تاہم کوئی قاعدہ کلیہ نہیں۔ اس لیے یہ کہنا چنداں درست نہیں کہ یاد ماضی عذاب ہے یارب ۔

            بل کہ ماضی تو وہ زاویہ اور وہ خط ہے، جس سے قوموں کے روشن مستقبل کی راہیں کھلتی ہیں۔ ماضی پر نظر کر کے مستقبل کے گھوڑے کو صحیح سمت دوڑایا جا سکتا ہے۔ دیکھا یہ بھی گیا ہے کہ ماضی کے روشن خطوط مستقبل کی تاریک راہوں کے لیے قندیل رہ نمائی ثابت ہوئے ہیں ۔جو قوم اپنے ماضی کو فراموش کر دیتی ہے وہ اپنے مستقبل میں کبھی صفحہٴ دہر پر کوئی نشان منزل قائم نہیں کر سکتی ،بل کہ منزل تک نہیں پہنچتی ۔ کسی انگریز نے کہا تھا اور بجا کہا تھاکہ:” کسی قوم کو نیست ونابود کرنا ہو،اس کو صفحہ ہستی سے مٹانا ہو تو ماضی سے اس کا رشتہ کاٹ دو“ ہندستان میں انگریزوں نے اسی زاویہ سے بہت محنت کی کہ ہندستانی مسلمان اپنے ماضی سے وابستہ نہ رہے اور مستقبل میں پھر کوئی روشن خطوط کی داغ بیل نہ ڈالے۔ اور آج بھی ان کی ہم نوا یا ان سے بھی دو قدم آگے آر ایس ایس اور اس کی ذیلی فسطائی بچہ تنظیمیں اسی ہڑبونگ میں کوشاں ہیں اور جانتی ہیں کہ مسلمان اپنے ماضی کو فراموش کر بیٹھے ہیں ۔”اے بسا آرزو کہ خاک شدہ “کہ وہ سب آج تک اس میں ناکام ہی ہیں اور اللہ کا شکر ہے کہ اس گھناوٴنی حرکت پر علماہر طریقہ سے کام اور ہرزاویہ سے اپنے خطبات، اپنی تصنیفات، مکالمات اور رسائل ؛نیز دیگر ذرائع سے مسلمانوں کو اپنے ماضی سے وابستہ کرنے کی ہر ممکن کوشش میں ہیں اور آج بھی اسی جد وجہد میں مصروف کار ہیں۔ یقینا امت کو اس طرف توجہ دینے کی پوری ضرورت ہے ۔ اپنا سرمایہ اسی مد و اسی باب میں خرچ کرنا چاہیے اور اپنے بزرگوں کی تاریخ کو حرز جاں بنانا اور اپنی ترقی کا سرمایہ سمجھ کر اسے اہم تصور کرنا چاہیے تاکہ ہماری آنے والی نسلوں کا مستقبل روشن اور تابناک ہو سکے۔ اور اسی حوالے سے ہم نے اسی بات کو مرحوم رفیق محترم مولانا عبد الرحیم صاحب فلاحی رحمة اللہ علیہ کی زندگی میں خوب دیکھا ،جانا اور پرکھا ہے ۔چوں کہ جامعہ کی اس چہار دیواری میں بفضل تعالیٰ ۳۳/ سال پورے ہو رہے ہیں۔ اس طویل عرصہ میں مولانا مرحوم کی زندگی میں یہ بات صاف وشفاف جھلکتی تھی۔ بزرگوں اور اہل علم سے تعلق اور اس تعلق کو بحال رکھنا اور اپنے طلبہ کو علمائے حق سے متعارف کرانا؛ خصوصاً جلسوں اور مسابقات کے پروگراموں میں اہل علم کو مدعو کرکے ان سے مستفید ہونا اور ان کے علوم ومعارف سے طلبہ عوام وخوا ص کو مستفید کرانا، مولانا کی زندگی کا ایک حسین پہلو تھا اور دیگر اوصاف میں ایک نمایا ں وصف تھا۔

            قارئین ! اب تک کی خامہ فرسائی سے میرا مقصد یہی ہے کہ اگر چہ رفیق محترم مولانا عبدالرحیم صاحب اب ہمارے درمیان نہیں ہیں اور اب وہ ہمارے لیے ماضی بن گئے ہیں، تاہم ان کی حیات مستعار کے روشن خطوط ہمارے سامنے موجود ہیں ۔ وہ دنیا میں جب تک تھے میرا احساس ہے کہ وہ ہماری رہ نمائی کرتے رہے اور آج جب وہ ہمارے درمیان نہیں ہیں تو یقینا ان کی زندگی کی یادیں، ان کے رہ نما خطوط؛ ہمارے ساتھ موجود ہیں ،جس سے ہم اپنا مستقبل روشن بنا سکتے ہیں ۔کسی عربی شاعر نے کہا تھا جو ہم بھی کہتے ہیں :

نزلنا ساعة ثم ارتحلنا

کذا الدنیا رحال فارتحلنا

جس کو اردو میں کہا جاتا ہے

فقیرانہ آئے صدا کر چلے

میاں خوش رہو ہم دعا کرچلے

یا یوں بھی تعبیر کیا جاسکتا ہے

آئی حیات لائی قضا لے چلی چلے

 اپنی خوشی سے آئے نہ اپنی خوشی چلے

یا اس طرح بھی کہ

موت سے کس کو رستگاری ہے

آج وہ کل ہماری باری ہے

موت کا شکنجہ :

            موت کا شکنجہ ہے ہی اتنا مضبوط ومستحکم کہ یہاں نہ رستم کی چلی نہ سہراب کی۔ اور نہ جانے دنیا کے کسی اور تانا شاہ کی ، یہاں نہ دنیا میں اپنی طاقت پر غرانے والا اور ساری دنیا پر اپنی دھاک بٹھانے والا سکندر رہا، نہ ساری مخلوق پر حکمرانی والے سلیمان علیہ السلام رہے۔ حد ہوگئی کہ کائنات؛ جس کے طفیل میں چلائی گئی اور دنیا جس کی مرہون منت ہے ، آخر وہ پیغمبر بر حق اور ہستیٴ مغتنم بھی اپنے وقت پر ہی دنیا سے سدھاری۔توپھر ہما وشما کی کیا بساط : ہاں اس جہان کا خاصہ ہی یہ ہے کہ جو یہاں آیا ہے جانے ہی کے لیے آیا ہے ، اب یہاں نہ آدم نا شیث، نوح ہے نا ادریس ،نہ زکریا نہ یحی ،نہ موسیٰ نہ عیسیٰ علیہم السلام ۔دنیا کے حکما، دانش ور اور نہ فلاسفی ،نہ ارسطو نہ افلاطون ۔﴿کل نفس ذائقة الموت﴾ پھر ایک وقت وہ بھی آئے گا کہ یہ کارخانہٴ ہستی ہی معدوم ہوجائے گااور قرآن پاک کی یہ صدا تمام لوگوں کے کانوں سے ٹکرائے گی۔﴿ اذا زلزلت الارض زلزالہا﴾ اور ﴿القارعة مالقارعة وماادراک مالقارعة یوم یکون الناس کالفراش المبثوث وتکون الجبال کالعہن المنفوش ﴾یہ منظر دیکھ کر سب کی آنکھیں پتھرا جائیں گی۔﴿ اذا لشمس کورت واذالنجوم انکدرت﴾ اور انسان یہ منظر اپنی آنکھوں سے دیکھ لے گا﴿ اذاالسماء انفطرت واذا الکواکب انتثرت واذا لبحار فجرت واذاالقبور بعثرت﴾ مگر ہاں !ان سب کے ہوتے ہوئے بھی اس جہاں میں ایک سچائی اور بھی ہے کہ فنا کے گھاٹ اترنے والے بہت سے لوگ وہ بھی ہوتے ہیں جو اپنی یادوں کے مہکتے پھول اور دمکتی چمکتی یادیں چھوڑ جاتے ہیں، جن کے کردار کی خوش بووٴں سے بعد والوں کا مشام جان معطر ہوتا رہتا ہے۔ بعد والے ان کے افعال اور اقوال وکردار کی چمک سے مستنیرہوتے اور ان کی یادوں کی سوغات ایک دوسرے کو بھینٹ کرتے رہتے ہیں۔ ایسے ہی باکردار، باضمیر اورباحوصلہ حضرات میں ہمارے رفیق محترم مرحوم فلاحی صاحب بھی ہیں ،جو بڑے خوش پوش، خوش مزاج، باسلیقہ ،با قرینہ اورمرنجاں مرنج طبیعت کے مالک تھے ۔گفتگو میں شگفتگی ، تفکرات میں بلندی، بات میں بات پیدا کرنے کے ہنر سے مالامال ، جاذب اور انگنت خوبیوں سے متصف انسان تھے۔اورکیوں نہ ہوتے؟ کہ فلاح دارین جیسے مردم ساز ادارے میں تعلیم وتربیت پائی۔ وہاں کے باصلاحیت ،باحوصلہ اور ذی فہم حضرات اساتذہ کرام کے سایہ عاطفت میں رہے۔ پھر اس پر مستزادیہ کہ سہارن پور میں مظاہر علوم کی چہاردیواری، وہاں کا فکری، علمی، فنی اور پاکیزہ ماحول اور اس پر سونے پہ سہاگہ حضرت رئیس جامعہ کی مشفقانہ اور آفاق جوہ تربیت ۔ان تمام چیزوں نے ان کو گویا مرد صالح اور مرد کار کے قالب میں ڈھال لیا تھا۔ ”خدا بخشے بڑی خوبیاں تھیں مرنے والے میں“ ۔

            یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ جامعہ جیسے ایک عظیم ادارہ سے منسلک رہ کر اور تادم اخیر اس کی شادابی کے لیے بے قرار رہنا اور جامعہ کے کار اور مشن کی بہتری وبرتری کے لیے اپنا ایک ایک سانس لگا دینا یہی آپ کا مطمح نظر تھا گویا وہ اس شعر کے مصداق تھے :

نہ کہنا ہے کچھ کسی سے بس کام اپنے ہی کام سے

تیرے ذکر سے تیری فکر سے تیری یاد سے تیری ذات سے

            دیکھا یہ بھی گیا کہ مختلف صفت رکھنے والے اس شخص نے فعالیت کو اپنا مزاج بنا لیا تھا۔ہمہ دم مستعد اور حرکت میں رہنا، نہ خود بینی نہ خود نمائی، نہ قیل وقال، نہ خستہ خصال ،زودکی ضرورتھی۔ مگر کیا مجال کہ زبان پھسل جائے شاید کسی کو ان سے کبھی شکایت کا موقع ملا ہو ۔نرم دم جستجو اور گرم دم گفتگو تھے آپ ان کے نفس ذکیہ سے ہمیشہ خیر کی خوش بو پھوٹتی تھی، ان کا ذوق تھا

جزی اللہ عنا الخیر من یعیش بیننا

ولابینہ ود ولا متعارف

            جس کا مفہوم اس طرح لیا جا سکتا ہے کہ

جو عالی ظرف ہوتے ہیں ہمیشہ جھک کر ملتے ہیں

 صراحی سرنگوں ہوتی ہے تب پیمانے بھرتے ہیں

کسی کو جانے نہ جانے کوئی ان کا شناسا ہو یا نہ ہو ربط وارتباط اور میل ملاپ کے سلسلہ میں اتنا خیال ضرور فرماتے۔

اقل سلامی حیث ماخف عنکم

واسکت کئی مالا یکون جواب

کہ میں سلام کرتا ہوں کہ معاملہ ہلکا پھلکا رہے اور جواب کے لیے زحمت نہ اٹھانی پڑے خاموش رہتا ہوں ۔ ہمارے بعض بزرگوں کا تو معاملہ یہاں تک تھا۔ وہ فرماتے تھے :

لقاء الناس لیس یفید شیئا

سوی الہذیان ومن قیل وقال

فاقلل من لقاء الناس الا

أخذ العلم وواصلاح حال

            کہ لوگوں کی ملاقات سے سوائے فضول گوئی اور قیل وقال کے کچھ حاصل نہیں ہوتا ۔لہٰذا لوگو ں سے ملاقات کم کیا کرو ۔ہاں! تحصیل علم اور اصلاح حال کے لیے ملنے میں کوئی مضائقہ نہیں۔

            اوپر کے بیان کردہ شعر میں پہلی چیز حال ہے ،جب کہ دوسری چیز اعتدال ہے۔ اور ارشاد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے ،:”کن وسطا وامش جانبا “کہ میانہ رو رہو اور یکسو ہوکر چلو۔بندہ نے آں محترم کی وفات سے متاثر ہوکر یہ چند سطریں صفحہٴ قرطاس پر رقم کی ہے کہ قبل وفات تین دن پہلے ہی حضرت رئیس جامعہ کی آفس میں مرحوم سے شرف لقا ہوا تھا۔ پھر اس کے ایک دن بعد ہی آپ کے بڑے صاحبزادے عزیزم مفتی محمد ریحان صاحب سے علالت کی اطلاع ملی تھی اور ابھی علالت ہی کا غم محو نہ ہوا تھا کہ علی الصباح کان ایک جانکاہ خبر سے آشنا ہوگئے ، کہ موصوف اب اس دنیا میں نہ رہے اور بالآخر اپنے رب کا جوار پالیا تو زبان پر بے ساختہ انا للہ کا ورد جاری ہوگیا۔ جو ہر مصیبت میں حوصلہ دیتا ہے اب سوا اس کے کیا تھا کہ آپ کے حق میں دعا کے لیے دست دعادراز کرتے۔ زبان پر بے ساختہ جملے گردش کرنے لگے، خدا بخشے بڑی خوبیاں تھیں مرنے والے میں۔

            بقول شاعر 

ہے موت میں کوئی راز دلنشیں

سب کچھ کے بعد کچھ بھی نہیں یہ کچھ تو نہیں

جلوہ گر نور بقامیں صورت سیماب ہے

اے تماشا گاہ عالم بس تجھے آداب ہے

حیات انسانی کی بے ثباتی:

            انسانی حیات مستعار کی حقیقت اور اس کی بے ثباتی بس ایک پانی کا بلبلہ ہے اور اس کی حسین تعبیر وتوضیح تعزیت ہے، کسی عربی شاعر نے کہا تھا:

انا نغزیک لا انا علی ثقة

من البقاء ولکن سنة الدین

فلا اطعزیٰ بباق بعد میتہ

ولا المعزیٰ وان عاشی الی حین

            میں تسلی دیتا ہوں اس لیے نہیں کہ میں یقینا زندہ رہوں گا ،بل کہ شریعت کا حکم ہے ۔ چناں چہ متوفی کے گزرجانے کے بعد وہ شخص بھی دائمی حیات کو نہیں پہنچے گا جو تعزیت کررہا ہے، اگرچہ کچھ اور دن دنیامیں گزار لیں۔

            سیدنا علی رضی اللہ عنہ جن کو باب العلم سے تعبیر کیا جاتا ہے ،اس سلسلہ میں بڑی سبق آموز بات فرماگئے:

اری علل الدنیا علی کثرة

وصاحبہا حتی الممات علیل و

ان افتقادی فاطمة بعد احمد

دلیل علی ان یدوم خلیل و

            کلام کا ایک ایک فقرہ پڑھیے اور سر دھنیے کہ موت وحیات کی اس کشمکش میں موت یقینی ہے اس سے دل کی دنیاآبادکیجیے ایک مرتبہ جنت البقیع سے گزرتے ہوئے فرمایا :

مالی مررت علی القبور مسلما

قبر الحبیب فلم یرد جوابی

یا قبر مالک لا تجیب منادیا

املک بعد خلة الاحباب

حضرت فاروق اعظم نے بھی اپنے بھائی کی وفات پر یوں فرمایا تھا:

فلیت المنایا کن خلفن عاصما

فغشنا جمیعا او ذہبن بنامعا

            تکلیف ہجر مہجوری کی ہے نہ موت کی، وہ بھی عارضی یہ بھی عارضی ۔ خاتمہ بخیر ہوجائے ، تو کام یابی ہی کام یابی ہے۔ اور﴿ کان قیلاسلاما سلاما﴾ کی صداوٴں سے آشنا ہو جائے، بس یہی اصل فلاح ہے ۔بس اسی پر اکتفا کرتا ہوں ۔

 انا انشاء اللہ بہم لاحقون توفنا مسلما والحقنا بالصالحین وماذلک علی اللہ بعزیز ۔

الٰہی لست للفردوس اہلا

ولا اقویٰ علی نار الجحیم

فہب لی توبة واغفر ذنوبی

فانک غافر الذنب العظیم

            اللہ پاک مولانا عبدالرحیم صاحب فلاحی رحمة اللہ علیہ کی مغفرت فرمائے ، درجات کو بلند فرمائے ، جنت الفردوس کا قیام مقدر فرمائے ، پسماندگان کو صبر جمیل عطا فرمائے۔آمین!