جامعہ اکل کوا کے معلم اول ، عظیم مربی و معمار عم محترم حافظ اسحق صاحب وستانوی کی رحلت” انا للہ وانا الیہ راجعون“

(حضرت مولانا)حذیفہ (صاحب) وستانوی#

            بڑے افسوس اور انتہائی غم و الم کے ساتھ یہ خبر موصول ہوئی کہ میرے بڑے ابا اور خادم القرآن حضرت مولانا غلام محمد وستانوی# دامت برکاتہم کے برادرِ کبیر اور دست ِراست، جامعہ اکل کوا کے معلم ِاول، عاشق ِقرآن رجل ِبَکاء(بہت زیادہ اللہ کے حضور رونے والے) عظیم مربی، جنہوں نے فتنوں کے اس تاریک دور میں نصف صدی تک امت کی موجودہ نسل کی بے مثال تربیت کا فریضہ انجام دیا۔ اپنی شبانہ روز کی قربانیوں سے چمنستانِ علم و عرفاں اور ہندستان کی عظیم دینی و عصری تعلیم گاہ و دانش گاہ جامعہ اکل کوا کو بنیاد سے ثمر آور اور تناور درخت بننے تک اخلاص و للہیت کے ساتھ بے لوث ہو کر اپنی عظیم خدمات پیش کی۔اللہ نے اسے شرف قبولیت سے نوازا اور جمعہ جیسے مبارک دن بتاریخ ۷/ شعبان المعظم فجر کے بعد ۷/بج کر ۱۵/ منٹ پر آپ کی پاکیزہ روح قفس ِعنصری سے پرواز کر کے اپنے پیچھے لاکھوں محبان کو غم زدہ چھوڑ کر جنت الفردوس کی جانب چل بسی۔

             ”انا للہ وانا الیہ رٰجعون اللہم اغفرہ و ارحمہ و سکنہ فی الجنة و اجعل قبرہ روضة من ریاض الجنة آمین یا رب العالمین۔“

 حافظ صاحب رحمہ اللہ کے ابتدائی احوال :

            میرے بڑے ابا؛ جنہیں ہم گجراتی میں” لال پاپا“ کہتے تھے۔ جو عمر میں میرے والد سے دو سال بڑے تھے۔ آپ کی ولادت (۱۹۴۸ء) میں ہوئی ۔آپ نے کوساڑی گاؤں کے نیک صالح گھرانے میں آنکھ کھولی۔ اللہ رب العزت نے جس خانوادہ کو پندرہویں صدی ہجری میں اپنے دین ِمتین اور امت ِمحمدیہ” علیٰ صاحبہا الف الف تحیة وسلام“ کی بے پناہ وسیع اور مقبول خدمت کے لیے قبول کیا ،جو ہمارے آباء و اجداد کی نیکی اور صلاح کے مرہون منت ہے۔

 خانوادہ” رندیر ا“المعروف ”بالوستانوی“ کا پس منظر اور مقبولیت کا راز:

            ہمارے خاندان کے سلسلہ میں اب تک تحقیق کے مطابق یہ کہاجاتا ہے کہ نہر نرمدا بھروچ کے کنارے پر واقع ایک چھوٹے سے دیہات ”رندیری“ سے ہجرت کر کے کوساڑی تشریف لائے۔ ایک اندازہ کے مطابق یہ وہی علاقہ ہے ،جہاں اسلام کے پہلے قافلے نے خلیفہٴ راشد ثانی سیدنا حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے دورِ مسعود میں حضرت عثمان بن ابی العاص الثقفی رضی اللہ عنہ والیٴ بحرین کے ایما پر آپ کے بھائی حضرت حکم بن ابی العاص الثقفی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی قیادت میں اپنے مبارک قدم سے اس علاقے کو شرف بخشا اور نورِ اسلام کی شعائیں ہندستان میں یہیں سے پھیلیں۔ ہوسکتا ہے کہ اِنہیں صحابہ میں سے کسی مقدس صحابی کی نسل سے تعلق ہو،” اللہ اعلم بحقیقة الحال“ جس کی برکات، صلاح و تقوی اور خدمت ِدینِ اسلام کی توفیق کی صورت میں نسلا ًبعد نسلٍ جاری و ساری ہے اور ان شاء اللہ تا قیامت جاری رہے گی۔

            ہمارے گاؤں کے ایک بزرگ اور ہمارے والد کے پھوپھا حاجی محمد ماسٹر صالح مرحوم؛جنہیں اللہ نے طول ِعمر اور توفیق ِخیر سے نوازا تھا ایک موقعہ پر بندہ سے کہا تھا کہ اللہ آپ حضرات سے جو خدمت ِدین کا کام لے رہا ہے، اس کے پیچھے آپ کے اجداد کے صلاح کو بڑا دخل ہے۔ اور پھر کہا کہ آپ کے دادا کے دادا حاجی محمد رندیرا نے اپنے گھر سے حجاز تک کا سفر پیدل کیاتھا؛ گویا پیدل حج کا شرف حاصل کیا تھا۔ اس کے بعد اُن کے صاحبزادے حاجی ابراہیم بڑے نیک، عاشق ِقرآن، تہجد اور تکبیر ِاولیٰ کے پابند تھے اور علما سے بے پناہ محبت کرتے تھے۔ اپنے گھر پر اپنے زمانے کے کبار ِعلما کو بلاتے رہتے تھے اور ان کی خوب خدمت کرتے تھے؛ پھر دادا حاجی اسماعیل بھی بالکل اپنے والد کے نقش قدم پر تھے، زندگی میں ان کی کبھی تہجد فوت نہیں ہوئی۔ دسیوں سال تک تکبیر اولیٰ بھی فوت نہیں ہوئی؛ بس یہی سب ان کی نیکیوں کا ثمرہ ہے تو بندہ نے کہاکہ جی !بالکل صحیح ہے۔ قرآن کہتا ہے:” وکان ابوھما صالحا۔“

 بڑے ابا حافظ صاحب نوراللہ مرقدہ کے امتیازی اوصاف:

            اللہ نے ہمارے انہیں آبائے و اجداد کی برکت سے یہی صفات؛ یعنی اللہ کے سامنے دعاؤں میں خوب رونا، قرآن کی کثرت سے تلاوت کرنا ،طلبہ اور علما کی فکر کرنا، غریبوں اور بے کسوں کی مدد کرنا، رشتہ داروں کے ساتھ صلہ رحمی کرنا ،جامعہ کی خاطر پیرانہ سالی اور امراض کے باوجود دور دراز کے سفر کی صعوبتوں کو برداشت کرنا، صرف جامعہ ہی نہیں،بل کہ دیگر مدارس کی بھی فکر کرتے تھے ۔

            اللہ نے آپ کے ہاتھوں سیکڑوں مساجد تعمیر کروائی، دسیوں مدارس بنوائے، سیکڑوں مقامات پر پانی کا انتظام کروایا، مکاتب کا جال بچھایا ،بے شمار علما کے گھر تعمیر کروائے ،بیماروں کے علاج میں تعاون کروایا، غریب خاندانوں کی شادیاں کروائیں، ہسپتال بنوائے، اسکول تعمیر کروائے۔ گویاکہ جامعہ کے مشن کو آپ نے پوری تندہی کے ساتھ آگے بڑھایا اور وسعت دی۔ اللہ آپ کی اِن خدماتِ جلیلہ کو شرفِ قبولیت سے نوازے۔ آمین یا رب العالمین!

 حافظ صاحب رحمہ اللہ اور تربیت ِاولاد:

            آپ نے اپنے بچوں کی بہترین تربیت کی۔ الحمدللہ آپ کے بڑے صاحبزادے مولانا حنیف صاحب حافظ، عالم، بہترین خطیب اور دارالعلوم اکواڑا بھاوٴ نگر کے مہتمم اور شیخ الحدیث ہیں۔

            دوسرے صاحبزادے مولانا فاروق صاحب بھی حافظ ،عالم ،خطیب اور جامعہ عمر بن خطاب کنج کھیڑا کے مہتمم اور شیخ الحدیث ہیں۔ دونوں ادارے اپنے علاقے کے سب سے بڑے اور مقبول ادارے ہیں الحمدللہ۔

            تیسرے صاحبزادے حافظ عبیداللہ جو افریقہ میں مقیم ہیں۔ آپ کے تمام داماد حافظ اور عالم ہیں۔             مولانا بنیامین جو جامعہ ریاض العلوم انوا کے مہتمم اور شیخ الحدیث ہیں۔

            مولانا آدم جو جامعہ اکل کوا کے استاذ شعبہ ٴحفظہ ہیں۔

             مولانا فاروق لولات مولانا یوسف نرولی صاحبان ۔

            چھوٹے صاحبزادے ،بھائی جابر جامعہ کے شعبہٴ تعمیر و صیانت میں خدمت انجام دے رہے ہیں۔         الحمدللہ سب دین سے وابستہ ہیں یہ آپ کی تربیت ہی کی برکت ہے۔

            آپ کا خاص تعلق قرآن سے تھا ۔بہت زیادہ تلاوت کرتے اور دعاؤں میں اللہ کے حضور بلبلا اورگڑگڑکر رونا، ایسا روتے تھے کہ دیکھنے والے بھی اشک بار ہو جاتے تھے۔

جامعہ کے لیے آپ کی جلیل القدر خدمات:

            بہر حال! آپ نے ۴۳/ سال تک جامعہ کی خدمت کی۔ میرے والد صاحب نے جب جامعہ کی بنیاد رکھی تو آپ چوں کہ دارالعلوم کنتھاریا ضلع بھروچ کے شعبہ ٴعا لمیت کے مدرس تھے۔۱۴۰۰ھ میں آپ نے اپنے برادرِ کبیر حافظ اسحق صاحب وستانوی# نوراللہ مرقدہ کو جو” لکٹھور “میں امامت اور ہیرے کا کام کرتے تھے، وہاں سے اکل کوا جانے کے لیے کہا اور آپ اپنے اہل و عیال کے ساتھ اکل کوا منتقل ہوگئے، جہاں جامعہ کے سب سے پہلے معلم ہونے کا آپ کو شرف حاصل ہوا۔

             ۶/ طلبہ سے( ۱۹۷۹ء) میں جس جامعہ کا چھوٹے پودے کی صورت میںآ غاز ہواتھا ،آج آپ ، والد صاحب،مولانا یعقوب خانپوری مرحوم اور حافظ عبدالصمد صاحب ناظم ِمطبخ وغیرہ جیسے مخلصین کی برکت،بے مثال جد وجہد اوررات دن کی قربانیوں کی وجہ سے جامعہ ایک تناور درخت اور ہندستان میں مسلمانوں کے صف ِِاول کے تعلیمی اداروں میں کھڑا ہے ،جس کی خدمات ہمہ جہتی ہے۔

             جس میدان میں امت کو ضرورت ہے، جامعہ اپنی وسیع اور عظیم خدمات کو ہندستان کے مسلمانوں کے لیے پیش کررہا ہے۔ گویا آپ جامعہ کے مؤسسین میں سے تھے ۔خاص طورپر شعبہٴ حفظ کے صدر تھے، جو دنیاکے سب سے بڑے حفظ کے شعبوں میں سے ایک ہے؛ جہاں ۳/ ہزار سے زائد طلبہ زیرِ تعلیم ہوتے ہیں جامعہ کی(۱۰۷) شاخیں ہیں، آپ ان کی بھی بہت زیادہ فکر کرتے تھے۔ جامعہ اور اس کی فروعات سے اب تک ۵۲/ ہزار طلبہ نے حفظ مکمل کیا ہے، جو یقینا آپ کے لیے صدقہ ٴجاریہ ہے۔

            آپ جامعہ اکل کوا کے نائب رئیس بھی تھے،اِس لیے جامعہ بھی آپ کے لیے عظیم صدقہ جاریہ ہے۔

            آپ کی جدائی جامعہ کے لیے عظیم خسارہ ہے ،مگر یہ دنیا کا دستور ہے ،یہاں ہر آنے والے کو جانا ہے۔ مگر جانے والے کا اپنے پیچھے اثرِ خیر چھوڑنا یہ اللہ کی توفیق اور اس کے فضل ِخاص سے ہوتا ہے اور اللہ نے آپ کو اس نعمت سے سرفراز کیا ،یہ آپ کے لیے سعادت اور نیک بختی ہے۔

             آپ کا فراق یقینا جامعہ اور متوسلین ِجامعہ کے لیے باعث رنج والم ہے، مگر قضا و قدر کے فیصلے کے سامنے ہم سب بے بس ہیں۔

             ”ان العین لتدمع ان القلب لیحزن وانا علی فراقک لمحزونون یاعمی و لا نقول الا مایرضی ربنا انا للہ وانا الیہ راجعون، للہ ماأعطی و لہ ماأخذ اللٰہم ارفع درجتہ فی العلیین و اجعل قبرہ روضة من ریاض الجنة و الحقہ بالصالحین مع النبیین و الصدیقین والشہداء و ارض عنہ و تقبل منہ ما قدم لخدمة الإسلام و المسلمین و اجرنا فی مصیبتنا و الہمنا الصبر والسلوان۔“