از:مفتی عبدالقیوم مالیگانوی/استاذجامعہ اکل کوا
اسلام کے فرزانوں کاامتیاز:
یہ ایک ناقابل انکارحقیقت؛بل کہ نصوص وتاریخ سے مزین کردارہے کہ اسلام کے دورِ ابتداوابتلاسے ہی صنف نازک اپنی بساط اورمقدرت کے مطابق ،بل کہ بسااوقات مردوں سے دوقدم آگے اسلام کی نشرواشاعت اورحفاظت وصیانت کے فریضہ کواداکرنے میں پیش پیش رہی ہیں۔تاریخ ونصوص کے صفحات اُن حسین کرداروں اوربے لوث قربانیوں سے لبریزہیں۔
تاریخی صفحات کی ورق گردانی ہمیں اطلاع دیتی ہیں کہ صدائے حق کوبلندکرنا،باطل سے سامنے سینہ سپر ہوجانا،ماسوااللہ سے بے تعلق ہوکرایک رب کی محبت ووارفتگی میں دیوانہ واراپنے مقصداورمنزل کے حصول میںآ گے بڑھتے چلے جانااسلام کے فرزانوں،مستانوں اوراسلام ورسالت کی ناموس پرمرمٹنے والوں کاطرہٴ امتیازاورہرزمانہ میں ایسی تاریخ رقم کرنے کادستوررہاہے۔
مسکان نے ہمیں ذمہ داری کااحساس دلایا:
اوریہی وہ جذبہٴ حریت ،شوقِ شہادت اورسرکٹاکرکام یابی کاتصورہے،جس نے اسلام اوراس کے نظام کوپھلنے پھولنے اورتناوردرخت بننے کی راہ ہموارکی۔اس سے باطل کے خیموں میں زلزلہ،ارادوں میں جنبش، منصوبوں میں ناکامی اورمیدان اَزم میں شکست وریخت پیداہوئی ہے،جسے آج ایک بارپھرکرناٹک کے ایک کالج کی بے باک بہن ”مسکان بنت حسین خان“نے دہرایااورشیرجیسی للکارنے مفت خورگیڈروں کی چیخوں کوکچل کر رکھ دیا۔اس کی صدائے اللہ اکبرنے آنکھوں میںآ نسو،دلوں میں جذبہٴ حریت ،زبانوں پردعاوٴں اورتشکرکے کلمات کوگنگنانے پرمجبورکردیا۔اُس کی جرأت نے قرون اولیٰ کی یادوں کوزندہ کردیا۔اس کے اندازِ رفتاروگفتار نے ہمیں اپنی اصل حقیقت اورذمہ داری کااحساس دلادیا۔سونے والوں کوبیدارکیا،غافلوں کے لیے تازیانہٴ عبرت بن گئی۔دیش ودنیاکے بیٹوں اوربیٹیوں کے لیے مشعل راہ اورآئیڈیل بن کرایک نئی امیداورکام یابی کی کرن پیش کی۔ناصرف ہم؛بل کہ ملک ودنیاکے تمام ہی غیرت منداوراسلام کے عشاق اس کے لیے دعاوٴں اور محبتوں کی سوغات پیش کرتے اوراس کے روشن مستقبل کے لیے ہمیشہ دعاگورہنے لگے ہیں۔
کبڑے کاجواب:
گرامی قدرقارئین!یہ ماحول کیوں اورکیسے پیداکیاگیا؟اس کے پس پردہ کون سی سوچ کارفرماہے؟اس کی مثال بالکل ایسی ہے کہ کسی کبڑے شخض سے پوچھاگیاکہ تم کیاچاہتے ہو؟تم سیدھے ہوجاوٴیاپھرساری دنیا تمھاری طرح کبڑے ہوجائیں؟تواس نے دوسرے آپشن کواختیار کیااورکہاکہ میں چاہتاہوں کہ پوری دنیاوالے میری طرح کبڑے ہوجائیں۔
فاسدنظریات:
دراصل بات یہ ہے کہ جن کی فطرت مسخ ہوچکی ہے،زاویہٴ فکرونظرفاسدہوچکاہے،جوحیاکوبے حیائی، حلال کوحرام اورسلیقہ مندی کوبے ہودہ پن سمجھتے ہیں،ایسے لوگ عقل سے پیدل اور”جنوں کانام خرداورخردکانام جنوں“رکھنے کے مرتکب ہیں،جن کے متعلق کسی کہنے والے نے کہاہے کہ
”الٹی ہی چال چلتے ہیں دیوان گانِ عشق“یعنی جنوں کانام خرد،خردکانام جنوں رکھ دیا۔
حکم ران جماعت کاکارنامہ:
ابھی جلدہی موجودہ حکم ران جماعت نے نکاح کی عمرکے سلسلے میں اپنی سابقہ روایت کودہراتے ہوئے ایساغیرمعقول قانون پاس کروایاکہ ۲۱/سال کی عمردونوں؛یعنی لڑکااورلڑکی کے لیے بہ حیثیت میاں بیوی بن کررہنے کے لیے ضروری ہے ،اس سے کم عمرمیں نکاح غیرقانونی اوران کاساتھ رہناقابل سزاہوسکتاہے۔ جب کہ ۲۱/سال سے کم عمرمیں اگردونوں بہ حیثیت بوائے فرینڈاورگرل فرینڈکے رہناچاہے توکوئی جرم نہیں ہے۔ ظاہر سی بات ہے کہ اس کاسیدھامطلب یہ ہے کہ ۲۱/سال سے قبل سماج اورسوسائٹی گناہوں اوربدکاری سے خوب آلودہ اورگندی ہوجائے اوربے حیائی کوفروغ ملے۔جس کے نتیجہ میں معاشرے میں اچھے لوگوں کا رہنا اور جینا دشوارہوجائے۔جیساکہ لوط علیہ السلام کے دورمیں ان کی قوم جب ایک عظیم گندگی میں مبتلا ہوئی اوراس پرجب حضرت لوط علیہ السلام نے انہیں روکا،سمجھایاتواُن کاجواب یہی تھاکہ ﴿اخرجوہم من قریتکم انہم اناس یتطہرون۔﴾کہ ہماری سوسائٹی سے ان کونکال دویہ بڑے صاف ستھرے لوگ ہیں۔پتاچلاکہ سماج ومعاشرے کااکثریتی طبقہ تعفن آمیزاوربدبودارہوجائے تواقلیتی طبقہ کوان کے ساتھ رہنادشوارہی نہیں،بل کہ گھٹ گھٹ کرجیناہوگا۔اورناہی بگڑے مزاج والے انہیں برداشت کریں گے۔
عورت؛کسی آبگینہ سے کم نہیں:
چناں چہ جوبچیاں حجاب یااسکارف پہن کراسکول وکالج جاتی ہیں انہیں برداشت نہیں کیاجارہاہے۔ جب کہ پردہ اورسرکاڈھانکناان کامذہبی اورآئینی حق ہے۔مذہب کی تعلیم بالکل واضح ہے۔سیکولرازم اوردستور میں دی گئی مذہبی آزادی کاکیامطلب ہے؟یہی کہ کسی کے کھانے پینے،اس کے لباس اوررہن سہن پرپابندی لگائی جائے ؟اس کی جان ومال،عزت وآبروغیرمحفوظ ہوں؟اگریہی سیکولرازم ہے توپھرہم اس کونہیں مانتے ۔اس کے علاوہ دنیاکے خردمندوں اوراہل دانش سے سوال ہے کہ ایک خاتون خصوصاًنوجوان لڑکی ؛جس کی بناوٹ قدرت نے پرکشش رکھی ہے،جوایک آبگینہ سے کم نہیں،اس کی سلامتی اورسیکوریٹی بدن کوچھپانے والے لباس میں ہے یا ایسے لباس میں،جواس کے آدھے یااکثربدن کونمایاں کرتاہو؟دونوں میں سے کس لڑکی کی طرف اوباشوں، نکموں اورغلط نگاہ والوں کی نگاہیں اٹھیں گی؟ظاہرہے کہ جوچیزجتنی زیادہ قیمتی ہوتی ہے،اس کی حفاظت کے اقدامات بھی اتنے ہی زیادہ کیے جاتے ہیں۔کنکرپتھرکوئی بھی تجوری یالاکرمیں نہیں رکھتاہے،لیکن ہیرے،سونے چاندی محفوظ بکس میں ہی رکھے جاتے ہیں اوریہی اس کی عقل مندی کے ساتھ اس بیش قیمت چیزکی اہمیت وعظمت کابھی تقاضاہے۔لہٰذااگراسلام نے عورت جیسی بیش قیمت چیزکوپردہ میں محفوظ کیا،اس کی عصمت وآبروکوسرراہ نیلامی سے بچایااوراس شیشہ جیسے آبگینہ کوچکناچورہونے اورگندے ،اوباشوں کے پیروں تلے روندنے سے بچایاتوکیایہ انصاف نہیں،احسان نہیں؟؟؟
ماجددیوبندی نے کیاخوب عکاسی کی ہے
ماں مجھے دیکھ کرناراض نہ ہوجائے کہیں
سرپرآنچل نہیں ہوتاہے توڈرلگتاہے
یورپی تہذیب نے عورت کوکہاں پہنچادیا؟:
کیایورپ سے چلی اس گندی تہذیب اورماڈرن کلچرکواپنامحسن سمجھوگے ،جس نے ماں اوربیٹی ،بیوی بہن کے فرق کومٹاکرتمام مقدس رشتوں کو ملیا میٹ کردیا، جس بیٹیوں کے سرسے چادر عصمت کو پھینک کرسرِ بازار بکنے والا مال بنا دیا، جسے بے لباس یا نیم عریاں لباس پہناکر مرکز توجہات ،بل کہ ہر وقت ہر جگہ دست یاب سامان تسکین وہوس بنادیا، جس کے نتیجے میں ۶۰/ فیصد موجودہ نسلیں اپنے حقیقی ماں باپ کی نشاندہی سے محروم اوراپنی صحیح نسبت اورنسب سے ناواقف ڈپریشن کا شکار ہیں۔لیکن سب سے زیادہ قابل افسوس بات اس پر ہماری عملی کوتاہی ، ہراس حکم کے متعلق ؛جس کو دین و شریعت نے مردو خواتین کے لیے ضروری قرار دیا ہے، چنا ں چہ دیش و دنیا میں ہزاروں نہیں، بل کہ لاکھوں خواتین ایسی ہیں، جو پردہ نہیں کرتیں اور بہت ساری ایسی بھی ہیں، جنھیں پردہ بوجھ اور دنیاوی ترقی میں رکاوٹ معلوم ہوتا ہے، جو بالکل لبرل اور ماڈرن ایجوکیشن کی مداح اوردلدادہ ہیں، جو بڑی جرأت و بے باکی سے یہ نعرہ لگاتی ہیں،’ ’مراجسم میری مرضی‘ ‘۔یہ وہی خواتین ہیں، جومغربی فلسفہ ، آزادیٴ نسواں کے حسین ودل ربا اعلان سے متاثر ہی نہیں، بل کہ مخمور ہیں۔ جس فلسفہ اورنعروں نے عورتوں سے ان کی آزادی، ان کا حسن اوران کی نزاکت وعفت کو چھین لیا اور یورپ کے ان حریض اور نکمے مردوں نے بڑی عیاری و مکاری سے دو فائدے حاصل کرلیے۔ ایک تو اپنے ذمہ بیوی کے نفقہ وغیرہ کی ذمہ داری سے سبکدوشی اوردوسری یہ کہ عورت کو بے گھر کرکے ہرجگہ آسانی سے اپنی ناجائز خواہشات کی تکمیل۔
مولوی نماجاہل بھی شریک ہیں:
چنا ں چہ اسی عملی کوتاہی کی پاداش ہے کہ آج عدالت میں اس پربحث ہورہی ہے کہ کیا پردہ اسلام میں ضروری ہے؟ مزید ستم یہ کہ ڈبیٹ میں مولوی نما جاہل ایسے شریک کیے جاتے ہیں، جن سے بار بار پردہ کی فرضیت کا قرآن سے ثبوت مانگا جاتا ہے، لیکن وہ بت بنے خاموشی ساد ھ لیتے ہیں ، تا کہ دنیا کے سامنے یہ پیغام جائے کہ قرآن میں اس سلسلہ کا کوئی ضروری حکم موجود نہیں ۔ایسے ضمیر فروش ہمارے درمیان در اصل اہل نفاق ہیں جنھوں نے ہردورمیں اسلام کی مضبوط جڑوں کو کھوکھلا کرنے کی کوشش کی ہیں، جب کہ اسلام میں قرآن وحدیث سے پردہ کی فرضیت بالکل صریح طور پرموجود ہے۔ اللہ ر العزت کا ارشاد گرامی ہے:
﴿یَا أَیُّہَا النَّبِیُّ قُل لِّأَزْوَاجِکَ وَبَنَاتِکَ وَنِسَاءِ الْمُؤْمِنِینَ یُدْنِینَ عَلَیْہِنَّ مِنْ جَلَابِیبِہِنَّ ذَٰلِکَ أَدْنَیٰ أَن یُعْرَفْنَ فَلَا یُؤْذَیْنَ ، وَکَانَ اللَّہُ غَفُورًا رَّحِیمًا ﴾(الاحزاب:59)
سورہ احزاب میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم دیا جارہا ہے کہ اپنی بیبیوں ، بیٹیوں اور تمام اہل ایمان کی عورتوں سے کہو کہ اپنے اوپر اپنی چادر ڈال لیا کریں، یہ ذریعہ ہوگا انھیں پہچاننے کا ۔
یہ بھی عملی کوتاہی کامظہرہے:
پھر یہی عملی کوتاہی مردوں کی طرف سے ڈاڑھی کے سلسلے میں ہوئی ہے، جس کی وجہ سے بہت سے سرکاری ڈپارٹمنٹ اور اداروں میں ملازمین کو ڈاڑھی رکھنے پر دشواری اورپریشانی کا سامنا ہوتا ہے۔ان سے کہا جاتا ہے کہ ڈاڑھی نکالنا ہوگی، ورنہ ملازمت نہیں دی جائے گی یا لے لی جائے گی۔ جب کہ ڈاڑھی مرودو ں کے لیے حکم شریعت ، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت اوربقول فقہائے کرام واجب اور ضروری ہے، جو مردوں کی زینت بھی ہے۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشادفرمایا: ”قصوا الشوارب واعفوا اللحیٰ“ مونچھوں کو تراشو اور ڈاڑھی کو بڑھاوٴ۔ اور خود آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا عمل مواظبت کے ساتھ اس پررہا ہے۔
سکھوں کاطرزعمل:
اس کے برعکس ذرا سکھ برادری کو دیکھ لو، جنھوں نے اپنے مذہب کی ضروری چیزوں کو بڑی سختی اورپابندی سے اپنایا۔ جن میں پگڑی ، ڈاڑھی ، کرپال اور چاقو وغیرہ شامل ہیں۔جہاں کہیں رہیں ان چیزوں کو اپنے مذہب کے شعار وعلامت کی حیثیت سے چاہے ایوان اسمبلی میں ہو یا ایوان پارلیمنٹ میں ۔ فوج میں ہو یا کسی اور سرکاری دفتر میں۔ اُن سے آج تک اِن چیزوں کو چھوڑنے کا حکم نہیں دیا گیا، اس کی بڑی وجہ ان کا اپنی مذہبی علامات پر پابندی سے عمل کرنا ہے۔ کاش ! ہم بھی ان شعار دین واحکامِ شریعت کو پہلے سے پابندی کے ساتھ عمل میں لاتے تو ہمیں ان دنوں اورایسے قابل افسوس حالات کا سامنا نہیں کرنا پڑتا۔ لہٰذا ان مخالف آندھیوں اوران نا مساعد حالات میں مخالفین دین اورمعاندین اسلام کو بڑا طمانچہ یہی ہوگا کہ ہم اپنی شریعت ، اپنے شعائر پر پوری محبت اور کامل پاسداری کے ساتھ عمل پیرا ہوجائیں۔ اور ادنیٰ کوتاہی کے بھی مرتکب نہ بنیں تو ان شاء اللہ یہ ظلمتوں کے سیاہ بادل اور بے انصافی کی بدلیاں چھٹیں گی اور صبح نو کا طلوع ہونے والا سورج ایمان و یقین اور عدل وامن کی روشنی لے کر آئے گا۔ نیز شریعت پرعمل اوراسلام کو گلے لگانے سے ہمیں وہ عزتیں ،رفعتیں اوراقتدار ملیں گے،جو قرن اول میں ان اولین مجاہدین کو ملا تھا، جنھوں نے ناموس شریعت کے لیے اپنا سب کچھ مٹایا تھا اور ”فزت ورب الکعبة“ کا نعرہ لگاکرکام یابی کا یقین کرچکے تھے۔
مسکان کی عزت وشہرت کاراز:
اور جس طرح امت کی ایک مسکان نے ناموس شریعت کو بچایا اور حکم شریعت کے پردہ کو محفوظ کیا ، اللہ رب العزت نے چند سکنڈوں میں جہاں بھر میں وہ عزت ومحبت اور شہرت عطا فرمائی ، جہاں تک پہنچنے کے لیے بہت ساری عورتیں اپنے آپ کو بے آبرو بناکر اپنا سب کچھ لٹا چکی ہیں، پھر بھی اس منزل کو نہیں پہنچ سکیں۔
اللہ ہمیں بھی یہ سب کچھ عطا کرے گا۔ وماذلک علی اللہ بعزیز!
اقبال مرحوم کے اس شعر پر اپنی معروضات کو اختتام پذیر کرتا ہوں #
عمل سے زندگی بنتی ہے جنت بھی جہنم بھی
یہ خاکی اپنی فطرت میں نہ نوری ہے نہ ناری ہے