حفاظت ایمان کے طریقےنیک لوگوں کی صحبت ومعیت:

مولانا سلیمان اختر(استاذ جامعہ اکل کوا)

            ”حضرت ابو موسیٰ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ: نیک اور برے ہم نشین کی مثال مشک رکھنے والے اور دھونکنی(بھٹی)دھونکنے والے کی سی ہے۔ مشک رکھنے والا یا تو تمہیں مشک مفت دے دے گا،یا تم اس سے خرید لوگے،اور یا (اگر کسی بھی صورت میں اس کا مشک تمہارے ہاتھ نہیں لگتا تو کم از کم)اس کی خوشبو تو تمہیں ضرور حاصل ہوجائے گی(اسی طرح صالح اور نیک ہم نشین سے کوئی عطیہ اور خاص نعمت نہ بھی ملے تو یہی کیا کم ہے کہ کچھ ساعتوں کے لیے اس کی صحبت میں سکون وطمانیت کے ساتھ بیٹھنا نصیب ہوجائے۔)اور بھٹی وھونکنے والا یا تو تمہارے کپڑوں کو جلادے گا یا تمہیں اس سے دماغ جلا دینے والا دھواں ملے گا(اسی طرح بدکارہم نشین ہے اول تو دین ودنیا دونوں میں نقصان پہنچاتاہے،وقت ضائع کرتاہے اور حصول سعادت کی صلاحیت کو بے کار اور مضمحل کردیتاہے اور اگر یہ نہ بھی ہوتو اس کی صحبت میں کم از کم اتنا توضرور ہوتاہے کہ زندگی کے قیمتی لمحات دل ودماغ کی کبیدگی اور لاحاصل صحبت میں گزرتے ہیں)“۔

فائدہ:

            مشکوٰة کی شرح ”مرقات“میں حضرت ملا علی قاری رحمة اللہ علیہ نے ارشاد فرمایا ہے کہ اس مبارک حدیث میں اہل اللہ اور علمائے حق کی صحبت ومعیت اور ہم نشینی اختیار کرنے کی ترغیب دی گئی ہے؛ کیوں کہ یہ صحبت ومجالست دنیا وآخرت میں اس کو نفع دے گی اور اس حدیث میں فاسق وفاجر اور بدکار لوگوں کے ساتھ میل جول سے اجتناب کرنے کی ترغیب ہے؛ کیوں کہ بروں کی صحبت دنیا وآخرت میں نقصان دینے والی ہے۔

            حضرت سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ارشاد فرماتے ہوئے سناکہ:

            ”مسلمانوں کے علاوہ اور کسی (کافرومشرک)کو اپنا ہم نشین اور دوست مت بناوٴ(یا یہ مراد ہے کہ نیک وصالح مسلمان کے علاوہ کسی فاسق وبدکار سے دوستی مت کرو)اور تمہارا کھانا نیک اور پرہیز گار مسلمان کے علاوہ کوئی نہ کھانے پائے“۔

فائدہ:

            حضرت ملا علی قاری رحمة اللہ علیہ نے لکھا ہے مسلمانوں کو دشمنان ِدین اور بدکار لوگوں کے ساتھ صحبت وہم نشینی اور ہم پیالہ وہم نوالہ ہونے سے اس لیے منع فرمایا ہے؛ تاکہ ان سے الفت ومحبت قائم ہونے کا سبب نہ ہواور ان کی صحبت وہم نشینی کی وجہ سے کفر وشرک اور بدکاری اور برائیوں کے زہریلے جراثیم سرایت نہ کریں۔

آدمی اپنے دوست کے دین پر ہوتاہے:

            حضرت ابو ھریرة رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایاکہ:

            ”انسان اپنے دوست کے دین پر ہوتاہے؛ لہذا یہ ضروری ہے کہ جب تم میں سے کوئی شخص کسی کو دوست بنائے تو دیکھ لے کہ کس کو دوست بنارہاہے۔

فائدہ:

            وجہ یہ ہے کہ جو شخص کسی کو دلی دوست بناتاہے تو عام طور پر اس سے عقائد ونظریات اور اس کی عادات واطوار کو قبول اور اختیار کر لیتاہے۔

            حدیث میں جس دوستی کا ذکر کیا گیا ہے، اس سے مراد دلی سچی دوستی ہے نہ کہ ظاہر داری اور خوش اخلاقی؛ کیوں کہ تعلقات، ضرورت کی بنا پر ہر ایک کے ساتھ استوار کیے جاسکتے ہیں،البتہ دلی اور سچی دوستی صرف انہیں لوگوں سے کرنی چاہیے، جن کے عقائد ونظریات صالح ہوں اور جن کے اعمال وعادات اور اطوار پاکیزہ ہوں؛ چناں چہ اس بارے میں قرآن ِکریم کی ہدایت بھی یہی ہے۔

            ”یا ایھا الذین اٰمنوا اتقوا اللہ وکونوا مع الصٰدقین“

            ”اے ایمان والو!اللہ سے ڈرو اور سچوں کے ساتھ رہو۔“

            حضرت امام غزالی رحمةاللہ علیہ نے ارشاد فرمایا ہے کہ:

            حریص کی ہم نشینی اور مخالطت حرص کا ذریعہ بنتی ہے اور زاہد کی ہم نشینی ومخالطت دنیا سے بے رغبتی پیدا کرتی ہے؛ کیوں کہ صحبت اور اختلاط کا اثر قبول کرنا اور اپنے ہم نشینی ومصاحب کی مشابہت وپیروی اختیار کرنا انسانی طبیعت وجبلت کاخاصہ ہے۔

انسانی زندگی پر صحبت کے اثرات:

            حضرت مجدد تھانوی رحمةاللہ علیہ فرماتے ہیں:

            ”چوں کہ انسان کے اندر اللہ تعالیٰ نے یہ خاصیت رکھی ہے کہ دوسرے انسان کے خیالات اور حالات سے بہت جلد اور بہت قوت کے ساتھ اور بدوں کسی خاص کوشش کے اثر قبول کرلیتاہے،اچھا اثر بھی اور برا اثر بھی،اس لیے اچھی صحبت بہت ہی بڑے فائدے کی چیز ہے اور اسی طرح بری صحبت بڑے نقصان کی چیز ہے اور ا چھی صحبت سے مراد ایسے شخص کی صحبت ہے جس کو ضرورت کے موافق دین کی باتوں کی واقفیت بھی ہو اور جس کے عقیدے بھی اچھے ہوں،شرک وبدعت اور دنیا کی رسموں سے بچتا ہو۔اعمال بھی اچھے ہوں ،نماز ،روزہ اورضروری عبادتوں کا پابند ہو،معاملات بھی اچھے ہوں،لین دین صاف ہو،حلال وحرام کی احتیاط ہو،اخلاق ظاہری بھی اچھے ہوں،مزاج میں عاجزی ہو،کسی کو بلا وجہ تکلیف نہ دیتا ہو،غریبوں حاجت مندوں کو ذلیل نہ سمجھتاہو، اخلاق ِباطنی بھی اچھے ہوں،خدا تعالیٰ کی محبت اور اس کا خوف دل میں رکھتاہو،دنیا کا لالچ دل میں نہ رکھتاہو،آخرت کی زندگی کے سامنے دنیا کی زندگی کو عزیز نہ رکھتاہو،ہرحال میں صبر وشکر کرتاہو،جس شخص میں یہ باتیں پائی جائیں، اس کی صحبت اکسیر ہے۔

             اور جس شخص کو ان باتوں کی پوری پہچان نہ ہوسکے، اس کے لیے یہ پہچان ہے کہ اپنے زمانے کے نیک لوگ(جن کو اکثر مسلمان عام طور پر نیک سمجھتے ہوں ایسے نیک لوگ)جس شخص کو اچھا کہتے ہوں اور دس پانچ بار اس کے پاس بیٹھنے سے بری باتوں سے دل ہٹنے لگے،اور نیک باتوں کی طرف دل جھکنے لگے بس تم اس کو اچھا سمجھو اور اس کی صحبت اختیار کرو اور جس شخص میں بری باتیں دیکھی جائیں،بدون کسی سخت مجبوری کے اس سے میل جول مت کرو کہ اس سے دین تو بالکل تباہ ہوجاتاہے اور بعض دفعہ دنیا کا بھی نقصان ہوجاتاہے،کبھی تو جان کا کہ کسی تکلیف یا پریشانی کا سامنا ہوجاتاہے،کبھی تومال کا کہ کسی بری جگہ خرچ ہوگیا یا دھوکہ میں آکر کسی کو دے دیا،خواہ قرض کے طور پر دیا تھا پھر وصول نہ ہوا اور کبھی آبرو کا کہ بروں کے ساتھ یہ بھی رسوا وبدنام ہوا۔

             اور جس شخص میں نہ اچھی علامتیں معلوم ہوں اور نہ بری علامتیں اس پر گمان تو نیک رکھو،اس کی صحبت مت اختیار کرو،غرض تجربہ سے نیک صحبت کو دین کے سنور نے میں اوردل کے مضبوط ہونے میں بڑا دخل ہے اور اسی طرح صحبت بدکو دین کے بگڑے میں اور دل کے کمزور ہونے میں۔

 ماعاتب المرء الکریم کنفسہ             والمرء یصلحہ الجلیس الصالح

 علامہ عینی کی نظر میں صحبت کا فائدہ:

            مشہور حنفی امام علامہ عینی رحمة اللہ علیہ”شرح بخاری“میں فرماتے ہیں:

            حضرات ِمحققین نے نیک لوگوں کے پاس بیٹھنے اور ان کی صحبت کو مستحب قرار دیاہے،کیوں کہ اس صحبت کا ثمرہ یہ حاصل ہوتاہے کہ ان صالحین کے احترام اور ان سے حیاء کی وجہ سے نقائص اور عیوب میں مبتلا ہونے سے بچارہتاہے۔

            (یہ تو ان لوگوں کی حالت اور کیفیت ہوتی ہے، جن کے قلوب میں صالحین کا احترام اور ان سے حیاء ہوتی ہے)لھذا ان لوگوں کی طہارت اورپاکیزگیٴ نفس کا کیا عالم ہوگا، جن کو(احسانی کیفیت اور)یہ استحضار حاصل ہو کہ اللہ تبارک وتعالیٰ ان کی ہر چھپی ہوئی اور ظاہری بات سے باخبر ہیں۔

سعادت مندی کی علامت:

            حضرت ابو علی جوزجانی رحمةاللہ علیہ فرماتے ہیں کہ:بندہ کی نیک بختی کی علامت یہ ہے کہ اس پر اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت آسان ہوجائے اور اس کے افعال سنت کے مطابق ہوجائیں اور اس کو نیک لوگوں کی صحبت نصیب ہوجائے اوراپنے احباب واخوان کے ساتھ اس کو حسن ِسلوک کی توفیق ہوجائے اور خلق اللہ کے لیے اس کا نیک سلوک عام ہو اور مسلمانوں کی غم خواری اس کا شیوہ ہو اور اپنے اوقات کی نگہداشت کرے۔

دل کے نور اور ظلمت کی پہچان:

            حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ ارشاد فرماتے ہیں کہ چار چیزیں دل کی ظلمت اور تاریکی کی وجہ سے پیدا ہوتی ہیں:

            (۱)بغیر ضرورت کے پیٹ کو بھرنا۔

            (۲)ظالم لوگوں کی مصاحبت اختیار کرنا۔

            (۳)لمبی لمبی امیدیں باندھنا۔

            (۴)گناہوں کو بھلا دینا۔

            اور چارچیزیں دل کے نور کی وجہ سے پیدا ہوتی ہیں:

            (۱)خوف خدا کی وجہ سے پیٹ کا خالی ہونا۔

            (۲)نیک لوگوں کی مجالست وصحبت اختیار کرنا۔

            (۳)سابقہ گناہوں کو یاد کرکے روتے رہنا۔

            (۴)امیدوں کا مختصر ہونا۔

بیماردل کے لیے نسخہٴ شفا:

            حضرت عبداللہ انطاکی رحمة اللہ علیہ نے ارشاد فرمایاکہ:پانچ چیزیں دل کی بیماریوں کی دوا ہیں:

            (۱)نیک لوگوں کی صحبت ومجالست۔

            (۲)تلاوت قرآن مجید۔

            (۳)نماز تہجد۔

            (۴)پیٹ کو خالی رکھنا۔

            (۵)سحری کے وقت اللہ تعالیٰ کے حضور گریہ وزاری کرنا۔

فائدہ:

            مذکورہ بالا احادیث مبارکہ اور حضرات سلف رحمہم اللہ کے اقوال وارشادات سے نیک صحبت کی اہمیت کاخوب اندازہ ہوتاہے کہ ایک انسان کے اعمال و اخلاق،عادات واطوار کی تبدیلی میں صحبت وہم نشینی کس قدر زود اثر ہے۔

            اہل اللہ کی صحبت سے ایسی ہمت وقوت حاصل ہوتی ہے کہ اپنی زندگی کو شریعت ِمقدسہ کی پاکیزہ تعلیمات کے مطابق گزارنا نہ صرف آسان؛ بل کہ مرغوب ہوجاتاہے،غیر ارادی طور پر قلب میں ایسی استقامت اور دین کی عظمت پیداہوجاتی ہے کہ پھر گمراہی اور بھٹکنے سے حفاظت ہوجاتی ہے۔

            جب کہ دوسری طرف بری صحبت میں اچھے سے اچھا انسان بھی بہت جلد بگڑ جاتاہے،بعض اوقات بری ہم نشینی کی وجہ سے آدمی دین وایمان سے بیزار ہوجاتاہے، شریعت مقدسہ کی تعلیمات کے سامنے سر تسلیم خم کرنے کے بجائے سر کشی پیدا ہونا شروع ہوجاتی ہے۔اعاذنااللہ منہ۔

صحبت ِصالحہ کا حکم مجدد تھانوی رحمہ اللہ کی زبانی:

            حکیم الامت مجدد الملت حضرت مولانا شاہ اشرف علی صاحب تھانوی نوراللہ مرقدہ نے(جن کی مجددانہ اور معتدل تعلیمات تمام شعبہ ہائے دین پر حاوی اور مکمل شریعت کا جو ہر اور مغز ہیں)دور حاضر کی بھیانک صورت حال کو بھانپتے ہوئے ارشادفرمایا:”یہ صحبت میرے نزدیک اس زمانہ میں فرض ِعین ہے۔بڑے ہی خطرے کا وقت ہے جو چیز مشاہدہ سے ایمان کی حفاظت کا سبب ہو، اس کے فرض ِعین ہونے میں کیا شبہ ہوسکتاہے۔ایسی چیز کا اہتمام تو ابتدا ہی سے ہونا چاہیے۔“

            مزید ارشاد فرماتے ہیں:

            میں کہا کرتاہوں کہ محض لکھنے پڑھنے سے کیا ہوتاہے،جب تک کسی کی جوتیاں سیدھی نہیں کی۔میں تو کہتاہوں کہ آدمی جاہل رہے، مگر اس میں تدین ہو،تووہ جاہل اس بددین عالم سے اچھاہے، جس میں دینداری نہ ہو اور ایسے ان پڑھ ہونے اور حساب کتاب نہ جاننے پر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فخر کیا ہے:”نحن امة امیة لا نکتب ولا نحتسب“بعض صحابی تو ایسے ہو تے ہیں کہ ان کو یہ بھی معلوم نہ تھا کہ سو کتنے ہیں، مگر ان میں پھر کیا بات تھی، جس کی وجہ سے ان کو فضیلت حاصل تھی ۔صحابہ کی حالت تو یہ تھی،مگر درجات کی حالت یہ تھی کہ اویس قرنی  ان کے برابر نہ عمر بن عبد العزیز  ان کے بر ابر ، نہ با یزید،ان کے برابر نہ جنید۔بات صرف یہ تھی کی صحابہ کو حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت نصیب ہوئی تھی اور اس صحبت سے ان کا دین ،ایمان ،خالص اور کامل ہو گیا تھا پس اصل چیز یہ ہے اور اگرآ دمی پڑھا ہوا ہو، مگر اس دولت سے محروم ہو یعنی کسی اہل اللہ کی جو تیاں سیدھی نہ کی ہو تو ایسا شخص بڑے خسارے میں ہے ۔

اہل اللہ کی صحبت حفاظت ِایمان کا بہت بڑا ذریعہ ہے :

            حضرت اقدس مجددتھانوی  کے ملفوظات میں ہے :

            ”صحبت اولیاء اللہ میں ایک خاص بات قلب میں ایسی پیدا ہو جارتی ہے کہ جس سے خروج عن الاسلام کا احتمال نہیں رہتا ،خواہ گناہ اور فسق و فجور سبھی کچھ اس سے وقوع میں آئیں ؛لیکن ایسا نہیں ہو تا کہ دائرہٴ اسلام سے خارج ہو جائے ،مردودیت کی نوبت نہیں آتی ،بر خلاف اس کے ہزاروں برس کی عبادت میں بھی بذاتہ یہ اثر نہیں کہ وہ کسی مردودیت سے محفوظ رکھ سکے؛چناں چہ شیطان نے لاکھوں برس عبادت کی،لیکن وہ اس کو مردودیت سے نہ روک سکی ،یہی معنی ہیں اس شعر کے        

 یک زمانے صحبت با اولیاء

 بہتر از صد سالہ طاعت بے ریا

                        (مولانا رومی رحمة اللہ علیہ)

            ”اللہ والوں کی صحبت میں گزراہو اتھوڑاسا وقت بھی سو سالہ بے ریا طاعت و عبات سے بہتر ہے۔“ کیو ں کہ ظاہر ہے کہ ایسی چیز جو مردودیت سے ہمیشہ کے لیے محفوظ کر دے ، ہزار ہا سال کی اس عبادت سے بڑھ کر ہے جس میں یہ اثر نہ ہو ۔“

            مولانا تھانوی  اپنے ایک وعظ میں فر ما تے ہیں:

            صحبت اہل اللہ سے وہ بات حاصل ہو گی کہ اس کی بدولت اسلام دل میں رچ جائے گا،اور یہی مذہب کی روح ہے کہ رب کی عظمت دل میں رچ جائے اور ضرورت اسی کی ہے کہ مذہب د ل میں رچاہو،اگر دل میں یہ حالت نہیں ہے تونہ ظاہری نماز کام کی،نہ روزہ،بس یہ حالت ہے کہ طوطے کو سورتیں رٹادیں کہ وہ محض اس کی زبان پر ہیں ،دل میں کوئی اثر نہیں ہوتا۔

            جس تعلیم کا اثر دل پر نہیں ہوتا ، مصیبت کے وقت وہ کچھ کام نہیں دیتی، تو اگر دین کی محبت دل میں رچی نہ ہو توحافظ قرآن و عالم بھی ہو گا، تب بھی آٹے دال ہی کا بھاوٴ دل میں لے کر مرے گا؛جیسا کہ اس وقت اکثر حالات ہیں کہ دل میں اسلام کا اثر کم ہو جا تا ہے۔

            اسی کو دیکھ کر میں کہتا ہو ں کہ مسلما نوں کا اسلام نکلا جا رہا ہے،اپنی اولاد پر رحم کرو ،اور ان کو اسلام کے سیدھے راستے پر لگاوٴ۔“

کامل محقق کی علامت :

            حضرت مجددتھانوی قدس سر ہ نے ارشاد فرمایا کہ:

            صاحب کمال ہو نے کی علامتیں یہ ہیں کہ۔

            ۱) بقدر ضرورت علم دین رکھتا ہو۔

            ۲) دوسرے شریعت پر پوری طرح پابند ہو۔

            ۳) تیسرے اس میں یہ بات ہو کہ جس امر کو خود نہ جانتا ہو،علماء سے رجوع کر تا ہو۔

            ۴)چوتھے علما سے اس کووحشت نہ ہو۔

            ۵) پانچویں یہ کہ روک ٹوک کی عادت ہو ،مریدین اور متعلقین کو ان کی حالت پر نہ چھوڑ دیتاہو۔

            ۶)چھٹے یہ کہ اس کی صحبت میں یہ بر کت ہو کہ اس کے پاس بیٹھنے سے دنیا کی محبت کم ہو تی جائے۔

            ۷) ساتویں یہ کہ اس کی طرف صلحا اور دین کے سمجھنے والے زیادہ متوجہ ہوں اور یہ کمال کی بڑی علامت ہے، جس شخص میں یہ علامتیں پائی جائیں ،وہ مقبول اورکامل ہے اور اس کی صحبت سے مستفید ہونا چاہیے ۔

اہل باطل کی تحریرات کا مطالعہ دور حاضر کی غلط صحبت:

            آج کل جس امرمیں سب سے زیادہ بے احتیاطی برتی جارہی ہے، وہ کتب بینی اور مطالعہ ہے۔(اسی طرح سوشل میڈیا پر ہر کس وناکس کی اسلام سے متعلق کلب دیکھنا ہے)جس قسم کی تحریر یا کتاب سامنے آئی ہے اس کا بڑی بے باکی سے مطالعہ شروع کردیتے ہیں،اس بات کی تحقیق نہیں کی جاتی کہ اس کتاب کا مصنف صحیح العقیدہ اور صحیح الفکر مسلمان ہے یانہیں؟مصنف کتاب حضرات ِسلف ِصالحین کی روش پر گامزن ہے یا اپنے قلم کے ذریعے مسلمانوں کی چودہ سو سالہ سوچ اور فکر کے خلاف کوئی نئی سوچ اور فکر پیدا کرنا چاہتاہے۔لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ کتاب کے مطالعہ میں کیا حرج ہے؟

            میرے محترم!خوب سمجھ لیجیے!جس برق رفتاری سے بری صحبت اور غلط سوسائٹی سے انسان کے اخلاق و اطوار بگڑتے ہیں،اہل باطل کی کتابوں سے بھی ویساہی اثر انسان کے عقائد واعمال پر پڑتاہے۔

            لہذا ایسے حضرات کو چاہیے جو مطالعہٴ کتب کا جذبہٴ نیک رکھتے ہیں،کہ کسی کتاب کے مطالعہ سے پہلے علمائے محققین سے مشورہ ضرور کرلیں کہ آیا اس کتاب کا پڑھنا ہمارے لیے مفید ہے یا مضر؟ علمائے محققین کی پہچان کے بارے میں گزشتہ اوراق میں بفضلہ تعالیٰ عرض کیا جاچکاہے۔(حضرت تھانوی کے حوالے سے۔)

بغیر تحقیق کی ہر کتاب کا مطالعہ کرنے کے نقصانات:

            حضرت مجدد تھانوی رحمةاللہ علیہ کے ان ارشادات کو اپنے سینے اور لوح ِقلب پر نقش کرلیجیے!

            حضرت رحمةاللہ علیہ فرماتے ہیں:

            آج کل لوگ کثرت سے یہ غلطی کرتے ہیں کہ جو کتاب دین کے نام سے دیکھی یا سنی خواہ اس کا مضمون حق ہویا باطل،خواہ اس کا مصنف ہندو ہو یا عیسائی، یا دہریہ ہو یا مسلمان،پھر مسلمان بھی گو صاحب ِبدعت ہی ہو۔

            غرض کچھ تفتیش نہیں کرتے اور اس کا مطالعہ شروع کردیتے ہیں۔

اس میں چند مضرتیں ہیں:

            (۱)بعض اوقات کم علمی کی وجہ سے یہ ہی امتیاز نہیں ہوتاکہ ان میں کون سا مضمون صحیح ہے کون سا غلط ہے۔

            (۲)بعض اوقات پہلے سے معلوم ہوتاہے کہ یہ امر غلط ہے، مگر بعض مصنفین کا طرزِ بیان ایسا تلبیس آمیز یا دل آویز ہوتاہے کہ دیکھنے والا فی الفور اس سے متاثر ہوجاتاہے اور اس کے مقابلے میں اپنے پہلے اعتقاد کو ضعیف اور بے وقعت خیال کرکے اس کو غلط اور اس کو صحیح سمجھنے لگتاہے۔بعض دفعہ غلط عقیدہ قبول نہیں کرتا،مگر مذبذب ہوکر شک میں مبتلا ہوجاتاہے۔

            اس میں اور بھی مضرتیں ہیں۔میں خیر خواہی کے ساتھ عرض کرتاہوں کہ نئی کتابیں نہ دیکھا کیجیے خواہ مخواہ کوئی شبہ دل میں بیٹھ جائے گا، جس کا حل آپ سے نہ ہوسکے تو کیا نتیجہ ہوگا؟ لوگ اس کو معمولی بات سمجھتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہم پکے خیال کے لوگ ہیں،ایسے لوگوں کو اس قصہ میں غور کرنا چاہیے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو تورات اچھی معلوم ہوئی اور لاکر حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے پڑھنے لگے بتائیے کہ اس میں خرابی تھی؟حضرت عمر رضی اللہ عنہ جیسے کامل الایمان جن کے شان میں وارد ہے۔”الشیطٰن یفر من ظل عمر“شیطان عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے سایہ سے بھاگ جاتاہے۔

            ان کے اوپر شیطان کے اثر ہونے کے کیا معنی!پھر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے صرف منع نہیں کیا ؛بل کہ اتنے غصہ ہوگئے کہ آپ کے چہرے کارنگ تک بدل گیا اور حضرت عمر جیسا شخص آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اس حالت کو دیکھ کر کانپ گیا اور معافی مانگی۔جب حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو منع کیا گیا تو ہم کیا ہیں؟اور نہ معلوم کیوں دیکھتے ہیں لوگ!اپنے یہاں تو اتنے علوم ہیں کہ عمر بھر بھی ان کے دیکھنے سے فرصت نہ ملے؛ لہذا اپنی کتابوں کو دیکھیے۔

صحبت ِطالح ترا طالح کند:

            جس طرح اہل ِباطل کی کتابوں میں ظلمت ہوتی ہے اسی طرح اہل ِباطل کے لیکچرز اور تقریروں کا حال ہے، بل کہ اگر بہ نظر غائر دیکھیں تو غلط قسم کی کتب ورسائل کے مطالعہ سے یہ لیکچرز اور تقریریں زیادہ ضرررساں ثابت ہوتی ہیں،کیوں کہ مقرر بالمشافہ اپنی جادو اثر تقریر کے ذریعے اپنے دل کی بات سامعین کے قلوب میں اتارنے کی کوشش کرتاہے۔بعض اہل ِباطل تو اس قدر چرب لسان ہوتے ہیں کہ اپنے زور ِخطابت کے ذریعے ایسی ایسی باتیں اور قصے کہانیاں بیان کرتے ہیں کہ غیر شعوری طور پر سامعین کے قلوب میں ان مسلّمہ اجماعی عقیدوں کے بارے میں جن پر چودہ سو سال سے امت ِمسلمہ عمل کرتی چلی آرہی ہے،تردد ہوجاتاہے۔

ایک غلط فہمی کا ازالہ:

            بعض حضرات کا خیال ہوتاہے کہ بات سننے میں کیا حرج ہے؟بات ہر ایک کی سننی چاہیے۔اگر غلط بات بیان ہوئی تو ہم نہیں لیں گے۔بس ہم تو”خذ ماصفا ودع ماکدر“کے اصول پر عمل کریں گے یعنی اچھی اچھی باتیں لے لیں گے اور کچی اور کمزور باتوں کوچھوڑ دیں گے۔آخر وہ بھی تواپنے آپ کو حق ہی کا علم بردار کہتے ہیں وغیرہ وغیرہ۔

            خوب یادرکھیں!یہ سب وہ شیطانی خیالات ہے، جن کے ذریعے شیطان اہل ِباطل کی صحبت اور جال میں پھانسنا چاہتاہے اور پھر صحبت ِبدکا نتیجہ صاف ظاہر ہے۔

            حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے توریت پڑھنے کا وہ قصہ عبرت ونصیحت کے لیے کافی ہے جو چند سطور پہلے مذکور ہوا۔

            اہل ِباطل کے ساتھ اختلاط کی مثال تو بجلی کے ننگے تارکی سی ہے کہ کوئی اس کو دور کرنے کے لیے ہاتھ لگائے یا اپنے قریب کرنے کے لیے۔ دونوں صورتوں میں جان لیوا ثابت ہوتی ہے۔عافیت اسی میں ہے کہ تار کو سرے سے چھیڑاہی نہ جائے ،بعض اہل ِباطل کو قوت خیالیہ اور مسمریزم کے فن میں بہت مہارت ہوتی ہے، وہ اپنے ملنے والے کو قوت ِخیالیہ کے زور پر بہت جلد اپنا ہم نوا بنالیتے ہیں۔

ایک ضروری تنبیہ:

            آخر میں اس بات کا تذکرہ کرنا بھی ضروری معلوم ہوتاہے کہ جس طرح آدمیوں کی اچھی بری صحبت دوسرے آدمی کے نظریات وعقائد اور اخلاق واطوار کے بدلنے میں موٴثر ہوتی ہے ،اسی طرح وہ اشیاء جن کا انسان کے ساتھ چولی دامن کا ساتھ ہوتاہے ،ان کے اثرات بھی مخفی طور پر قلوب کے اندر سرایت کرتے ہیں۔

            حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے نقل کیا گیا ہے کہ بکریوں میں مسکنت ہوتی ہے اور فخر وغرور گھوڑے والوں میں ہوتاہے۔اس کی وجہ ظاہر ہے کہ ان دونوں جانوروں کے اندر یہ صفات پائی جاتی ہیں۔اونٹ اور بیل والوں میں شدت اور سخت دلی بھی وارد ہے متعدد روایات میں چیتے کی کھال پر سواری کرنے سے ممانعت آئی ہے۔ علما نے منجملہ دوسری وجوہ کے ایک وجہ یہ بھی بیان فرمائی ہے کہ مجالست کی وجہ سے اس میں درندگی کی خصلت پیدا ہوجاتی ہے۔