پرُفتن دور اور ہمارا ایمان

محمد ہلال الدین بن علیم الدین ابراہیمی

            ہم جس دور سے گذر رہے ہیں،ہر طرف سے فتنوں اور آزمائشوں کی بارش ہے،ایمان پر حملے اور اس کی جانچ ہے،مومن ہونے کا امتحان اور اس کے تقاضے ہیں۔ ایسے دور میں اگر ہم ایمان کی حقیقت،اہمیت،فضیلت کو نہ جانیں گے،فتنوں سے واقفیت حاصل نہیں کریں گے، تو نعوذ باللہ!فتنے میں مبتلا ہوکر ایمان سے ہاتھ دھو بیٹھیں گے۔بریں بنا ضروری ہو ا کہ ایمان کی اہمیت ،ساتھ ساتھ زوال وحفاظت کے اسباب ،فتنوں سے آگاہی،دور ِ پر فتن میں کرنے اور بچنے کے کام اور ایسے دور میں ایمان والوں کے لیے خوشخبری،اور عروج کے اسباب کو بیان کردیا جائے؛تاکہ ہم مایوس ہونے کے بجائے،پرجوش ہو جائیں، گھبرانے کے بجائے مضبوط ہو جائیں، ڈرنے کے بجائے بے خوف ہوجائیں،کمزور ہونے کے بجائے مضبوط ہو جائیں، غفلت کے بجائے بیدار ہوجائیں،منتشر ہونے کے بجائے متحد ہوجائیں،اور شکار ہونے کے بجائے شکاری بنیں!متأثر ہونے کے بجائے موٴثر بنیں۔

            اسی مقصد کے تحت یہ رسالہ اور یہ مضمون مفتی محمد نعیم صاحب کی کتاب” فضائل ایمان“ سے مستفید وکشید آپ کے حضور پیش خدمت ہے۔

تاریک رات کے ٹکڑوں کے مانند فتنے:

            حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ: اعمال ِصالحہ میں جلدی کرو اس سے پہلے کہ وہ فتنے ظاہر ہوجائیں جو تاریک رات کے ٹکڑوں کی مانند ہوں گے اور ان فتنوں کا اثر یہ ہوگا کہ آدمی صبح کو ایمان کی حالت میں اٹھے گا اور شام کو کافر بن جائے گا اور شام کو مومن ہوگا تو صبح کو کفر کی حالت میں اٹھے گا،نیز اپنے دین و مذہب کو دنیا کے تھوڑے سے منافع کے عوض بیچ ڈالے گا۔

(مسلم : کتاب الایمان)

اعمالِ صالحہ میں جلدی کرنے کا حکم کیوں؟

            حدیث پاک کامطلب یہ ہے کہ آنے والے فتنوں کے بارے میں کسی کو یہ معلوم نہیں ہو سکے گا کہ وہ کب اور کیوں نمودار ہوں گے اور ان سے چھٹکارے کی کیا راہ ہو گی، لہذا ان آنے والے فتنوں سے پہلے ہی اعمال ِصالحہ کے ذریعے اپنی زندگی کو مضبوط اور مستحکم بنالیجے! آنے والے وقت کا انتظار نہ کریں،کیوں کہ اس وقت دین و شریعت کے تعلق سے جو سخت ترین آفات و مصائب درپیش ہوں گے،اس میں اس طرح گم ہو کر رہ جاوٴ گے کہ نیک کام کرنے کا موقع ہی نہ پا سکو گے۔

سریع الاثر فتنے:

             وہ وقت لوگوں کے ذہن و فکر اور اعمال و کردار پرکتنا برا اثر ڈالے گا اور وہ فتنے کس قدر سریع الاثر ہوں گے اس کی طرف اشارہ فرمایا گیا ہے ،کہ مثلاً جب صبح کو اٹھے گا تو ایمان یعنی اصل ایمان یا کمال ایمان کے ساتھ متصف ہوگا، لیکن شام ہوتے ہوتے کفر کے اندھیروں میں پہنچ جائے گا۔

حدیث پاک میں کفر سے مراد؟

            اوررہی یہ بات کہ کفر سے کیا مراد ہے؟ تو ہو سکتا ہے کہ اصل کفر ہو یعنی وہ شخص واقعتا کفر کے دائرے میں داخل ہو جائے گا ،یا یہ مراد ہے کہ کفران ِنعمت کرنے والا ہو جائے گا یا وہ کافروں کی مشابہت اختیار کرے گا یا یہ کہ وہ ایسے کام کرے گا جو کافر ہی کرتے ہیں۔

            حضرت امام نووی رحمة اللہ علیہ نے فرمایا ہے کہ یہ فتنہ تمام فتنوں سے بڑھ کر ہوگا ،کیوں کہ ایک ہی دن میں انسانوں میں ایسی ایسی تبدیلی آجائے گی ۔

فتنوں میں ایمان کے زوال کے اسباب:

             حضرت شیخ عبدالحق محدث دہلوی رحمة اللہ علیہ نے لکھا ہے کہ یہ صورت ِحال اس وجہ سے پیدا ہوگی کہ لوگ اپنی اغراض و منافع کی خاطر دنیادار امراء و حکام اور اہل دولت وثروت سے میل جول رکھیں گے، ان سے حاجت روی کی امیدمیں ان کے یہاں گھسنے، پھر ان کی حاشیہ نشینی اور مصاحبت کو بڑا اعزاز سمجھیں گے، پس اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ وہ ان کے تابع محض جی حضور بن جائیں گے اور ان کے خلاف ِشریعت امور و معاملات میں ان کی موافقت اورتائید کرنے پر مجبور ہوں گے۔ (مظاہر حق)

            حضرت مولانا محمد فاروق صاحب قدس سرہ العزیز فرماتے ہیں کہ: عموما یہ صورت حال ایسے غلط قسم کے دوستوں کی صحبت اور مجالست کرنے کی بنا پر پیدا ہوتی ہے، جن کی مجلس میں شریعت کی باتوں کا مذاق اڑایا جاتا ہے اور یہ شخص اپنے دوست کی طیب ِخاطر کے لیے، ان کی ہاں میں ہاں ملا کر اپنے ایمان پر ڈاکہ ڈالتا ہے ۔

فتنوں سے راہ ِفرار اختیار کرنا:

            حضرت ابو سعید رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ: عنقریب ایسا زمانہ آنے والا ہے؛ جب کہ ایک مسلمان کے لیے اس کا بہترین مال بکریاں ہوں گی، جن کو وہ لے کر پہاڑ پر بارش کے برسنے کی جگہ چلا جائے گا ؛تاکہ فتنوں سے بھاگ کر اپنا دین بچا لے۔(بخاری)

فتنے سے بھاگنا دین کا ایک حصہ ہے:

            حضرت امام بخاری رحمتہ اللہ علیہ نے اس حدیث پر باب کا عنوان یہ قائم فرمایا:”باب من الدین الفرار من الفتن“ یعنی امام بخار ی نے فتنوں سے بھاگ جانے کو دین کا حصہ فرمایا ۔مطلب یہ ہے کہ جب اہل دنیا کے میل جول میں دین کو بچانا مشکل ہو تو ایسے وقت اس کے پاس سے تھوڑی سی دنیا بکریاں ہوں اور ان کو لے کر ایسی جگہ چلا جائے ؛جہاں چراہ گاہ ہو اور پانی ملنے کا ذریعہ؛ بس ایک تھوڑی سی دنیا پر قناعت کرے، مگر اپنے دین کی حفاظت کر کے دنیا کی چند روزہ زندگی بسر کر لے۔

دلوں پر ڈالے جانے والے فتنوں کی مثال:

             حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ لوگوں کے دلوں پر فتنے اس طرح ڈالے جائیں گے، جس طرح چٹائی کے تنکے ہوتے ہیں (یعنی جس طرح چٹائی بنتے وقت اس کے تنکے یکے بعد دیگرے لگائے جاتے ہیں ،اسی طرح لوگوں پر بھی یکے بعد دیگرے فتنے ڈالے جائیں گے،پس جو دل ان فتنوں کو قبول کرے گا، اس میں سیاہ نقطہ پیدا کر دیا جائے گا اور جو دل ان کو قبول نہیں کرے گا ،اس میں سفید نقطہ پیدا کر دیا جائے گا ،پس انسان ان فتنوں کے پیش آنے اور ان کے دلوں پر فتنوں کی تاثیر اور عدمِ تاثیر کے اعتبار سے دو قسموں میں بٹ جائیں گے، ایک تو سفید مثل ِسنگ ِمرمر کے کہ جس پر کوئی چیز اثر انداز نہیں ہوتی۔

ایک ضروری وضاحت:

            واضح رہے کہ اس تشبیہ میں محض سفیدی مراد نہیں ہے؛ بلکہ سختی اور قوت کا اعتبار بھی ملحوظ رکھا گیا ہے، اس طرح کے دل پر کوئی بھی فتنہ اثر انداز اور مضرت رساں نہیں ہوگا جب تک زمین و آسمان قائم و باقی رہے یعنی اس کے دل کی کیفیت ہمیشہ باقی رہے گی اور دوسرا راکھ کے رنگ جیسا سیاہ دل، اوندے برتن کی مانند ،کہ اس میں جو کچھ بھی ہوگا گر پڑے گا۔

             مطلب یہ ہے کہ دل راکھ کے رنگ کی مانند سیاہ اور اوندے برتن کی طرح ایمان ومعرفت کے نور سے خالی ہوگا ،چناں چہ اس طرح کا دل نہ تو نیک اور اچھے اور مشروع کاموں کو پہچانے گا اور نہ برے کاموں کو برا جانے گا، وہ تو بس اس چیز سے مطلب رکھے گا ،جو از قسم خواہشات اس میں رچ بس گئی ہے اور جس کی محبت کا وہ اسیر بن چکا ہے یعنی وہ طبعی طور پر نفسانی خواہشات کا غلام بن چکا ہے(یعنی اچھے اور برے کا امتیاز کیے بغیر اس چیز کے پیچھے بھاگے گا) جو اس کے نفس کو مرغوب ہو گی ۔(مسلم)

 اسلام کا صرف نام باقی رہ جائے گا:

            حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ سرکارِدو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: عنقریب لوگوں پر ایک ایسا وقت بھی آئے گا کہ اسلام میں سے صرف اس کا نام باقی رہ جائے گا اور قرآن میں سے صرف اس کے نقوش رہ جائیں گے ان کی مسجدیں (تو بظاہر) آباد ہوں گی مگر حقیقت میں ہدایت سے خالی ہوں گی ان کے علما آسمان کے نیچے کی مخلوق میں سب سے زیادہ بدتر ہوں گے، انہی سے( ظالموں کی حمایت و مدد کی وجہ سے) دین میں فتنہ پیدا ہوگا اور انہی میں لوٹ آئے گا(یعنی انہی پر ظالم مسلط کردیے جائیں گے)۔

(بیہقی شعب الایمان)

 پرفتن دور میں کونسا آدمی اچھا ہے؟

            حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: عنقریب فتنے پیدا ہوں گے ان فتنوں میں بیٹھنے والا کھڑے ہونے والے سے بہتر ہوگا اور کھڑا ہونے والا چلنے والے سے بہتر ہوگا اور چلنے والا سعی کرنے والے یعنی کسی سواری کے ذریعہ یا پیادہ دوڑنے والے اور چلنے والے سے بہتر ہوگا اور جو شخص فتنوں کی طرف جھانکے گا فتنہ اس کو اپنی طرف کھینچ لے گا، پس جو شخص ان فتنوں سے نجات کی کوئی جگہ یا اس سے بھاگنے کا کوئی راستہ یا پناہ گاہ پائے ( یا کوئی ایسا آدمی اس کو مل جائے جس کے دامن میں وہ ان فتنوں سے پناہ لے سکتا ہو) تو اس شخص کو چاہیے کہ اس کے ذریعہ پناہ حاصل کر لے۔

            اور صحیح مسلم کی ایک اور روایت میں یوں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا”جب کوئی فتنہ ظاہر ہو گا تو فتنے میں سونے والا شخص (جو اس فتنے سے غافل اور بے خبر ہو اور اس کے بارے میں اطلاعات نہ سنتا ہو) جاگنے والے (یعنی اس فتنہ کو جاننے اور اس کی خبر رکھنے والے سے) بہتر ہو گا،جاگنے والا شخص (کہ خوا ہ وہ لیٹا ہوا ہو یا بیٹھا ہوا ہو) کھڑے رہنے والے سے بہتر ہو گا اور اس فتنہ میں کھڑا ہونے والا شخص ،اس فتنہ میں سعی و کوشش کرنے والے سے بہتر ہو گا،( یہاں” سعی“ کا لفظ ”مشی“ یعنی چلنے والے کے معنی میں ہے مراد اس میں مدد و تعاون دینا اور اس کے حق میں سعی و کوشش کرنا ہے) لہذا جو شخص اس فتنہ سے بھاگنے کا راستہ یا اس سے پناہ کی جگہ پائے تو اس کو چاہیے کہ وہاں جا کر پناہ حاصل کرلے ۔(مسلم: کتاب الفتن)

 حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ کا فتنوں سے بچنے کا اہتمام:

             حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ کو کون نہیں جانتا،مشہور صحابی” صاحب السر“(رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے رازدار اور بھیدی) ان کا لقب ہے،حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے منافقین اورفتنوں کا علم ان کو بتایا تھا۔

            کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ حضور ِاکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے قیامت تک جتنے فتنے آنے والے ہیں سب کو نمبر وار بتایا تھا،کوئی ایسا فتنہ جس میں تین سو آدمیوں کے بقدر لوگ شریک ہوں حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے نہیں چھوڑا، بل کہ اس فتنے کا حال اور اس کے مقتدیٰ کا حال مع اس کے نام کے نیز اس کی ماں کا نام اس کے باپ کا نام اس کے قبیلے کا نام صاف صاف بتا دیا تھا۔

برائی کی دریافت :

            حذیفہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:کہ لوگ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم سے خیر کی باتیں دریافت کیا کرتے تھے اور میں برائی کی باتیں دریافت کیا کرتا تھا؛تاکہ اس سے بچا جاوے ۔ایک مرتبہ میں نے دریافت کیا،یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم!یہ خیر و خوبی جس پر آج کل آپ کی برکت سے ہم لوگ ہیں،اس کے بعد بھی کوئی برائی آنے والی ہے؟

            حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:ہاں! برائی آنے والی ہے ۔

            میں نے عرض کیا کہ اس برائی کے بعد پھر بھلائی لوٹ کر آئے گی یا نہیں؟

             حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :کہ حذیفہ اللہ کا کلام پڑھ اور اس کے معنی پر غور کر، اس کے احکام کی اتباع کر! مجھے فکر سوار تھا میں نے عرض کیا: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! اس برائی کے بعد بھلائی ہوگی؟

             حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہاں! پھر بھلائی ہوگی لیکن دل ایسے نہیں ہوں گے، جیسے پہلے تھے۔

             میں نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! اس بھلائی کے بعد پھر برائی ہوگی؟

گمراہ کرنے والے لوگوں کا وجود:

             حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:ہاں ایسے لوگ پیدا ہو جائیں گے جو آدمیوں کو گمراہ کریں گے اور جہنم کی طرف لے جائیں گے۔

            میں نے عرض کیا کہ اگر میں اس زمانے کو پاؤں تو کیا کروں؟

گمراہی سے بچنے کی راہ: 

             حضور ِاقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:اگر مسلمانوں کی کوئی متحدہ جماعت ہواور ان کا کوئی بادشاہ ہوتو اس کے ساتھ ہو جانا، ورنہ ان سب فرقوں کو چھوڑ کر ایک کونے میں علیحدہ بیٹھ جانا یا کسی درخت کی جڑ میں جاکر بیٹھ جانا اور مرنے تک وہیں بیٹھے رہنا۔

حضرت حذیفہ کومنافقوں کی نشاندہی:

             چوں کہ ان کو منافقوں کا حال حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے بتا دیا تھا اس لیے حضرت عمر رضی اللہ عنہ ان سے دریافت فرمایا کرتے تھے کہ میرے حکام میں کوئی منافق تو نہیں؟ایک مرتبہ انہوں نے عرض کیاکہ ایک منافق ہے مگر میں نام نہیں بتاؤں گا۔

            حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اس منافق کو معزول کر دیا،غالباً اپنی فراست ایمانی سے پہچان لیا ہو گا۔ جب کوئی شخص مر جاتا تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ تحقیق فرماتے کہ حذیفہ رضی اللہ عنہ ان کے جنازے میں شریک ہیں یا نہیں، اگر حذیفہ رضی اللہ عنہ شریک ہوتے تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ بھی نماز جنازہ پڑھتے ورنہ وہ بھی نہ پڑھتے۔

اپنی ملاقات میں برکت عطافرما:

            حضرت حذیفہ رضی اللہ تعالی عنہ کا جب انتقال ہونے لگاتو نہایت گھبراہٹ اور بے چینی میں رو رہے تھے لوگوں نے جب دریافت کیا تو فرمایا کہ دنیا کے چھوٹنے پر نہیں رو رہا ہوں؛ بل کہ موت تو مجھے محبوب ہے؛ البتہ اس پر رو رہا ہوں کہ اس کی خبر نہیں کہ میں اللہ کی ناراضی پر جا رہا ہوں یا خوشنودی پر ،اس کے بعد کہا کہ میری دنیا کی آخری گھڑی ہے یا اللہ مجھے معلوم ہے کہ مجھے تجھ سے محبت ہے اس لیے اپنی ملاقات میں برکت عطا فرما!

بارش کی مانند برسنے والے فتنے:

            حضرت اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک دن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ کے ایک بلند مقام کی چھت پر چڑھے اور پھر صحابہ رضی اللہ عنہ کو مخاطب کر کے فرمایا :کیا تم اس چیز کو دیکھتے ہوجس کو میں دیکھ رہا ہوں؟صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین نے جواب دیا کہ نہیں۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا حقیقت یہ ہے کہ میں ان فتنوں کو دیکھ رہا ہوں جو تمہارے گھروں پر اس طرح برس رہے ہیں،جس طرح بارش برستی ہے۔(متفق علیہ)

گونگے بہرے اور اندھے فتنے:

            حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ: عنقریب گونگے بہرے اور اندھے فتنے کا ظہور ہوگاجو شخص اس فتنے کو دیکھے گا اور اس کے قریب جائے گا وہ فتنہ اس کو دیکھے گا اور اس کے قریب ہو جائے گا ،نیز اس فتنے کے وقت زبان درازی تلوار مارنے کی مانند ہوگی ۔(ابوداؤد)

 پر فتن دور میں اہل دین کے لیے خوشخبری:

            حضرت عمر وبن عوف رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ سرور دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: بلاشبہ دین ِاسلام حجاز مکہ اور مدینہ اور اس کے متعلقات کی طرف اس طرح سمٹ آئے گا، جس طرح کہ سانپ اپنے بل کی طرف سمٹ آتا ہے اور دین حجاز میں اس طرح جگہ پکڑے گا؛جیسے کہ بکری پہاڑ کی چوٹی پر جگہ پکڑ لیتی ہے اور دین اجنبی حالت میں شروع ہوا تھا (یعنی دن کو اوپری اوپری نگاہوں سے دیکھا جاتا تھا)عنقریب اسی حالت کی طرف لوٹ آئے گاجس حالت میں شروع ہوا تھا۔(قیامت کے دن )بڑے مزے ہیں ان لوگوں کے لیے جن کو اجنبی اور اوپرا سمجھا جاتا ہے اور یہ وہ لوگ ہیں، جو میری اس سنت کی اصلاح کریں گے، جس میں لوگوں نے فساد پیدا کر دیاہوگا۔(ترمذی)

اشاعت دین اور شیدایان دین کے کیا کہنے:

             سبحان اللہ!کتنی بڑی خوشخبری ہے ان لوگوں کے لیے جو اس پرفتن دور میں جب کہ ہر طرف بے دینی اور فحاشی وعریانی کا سیلاب ہے ،شریعت مقدسہ پر نہ صرف بذات ِخود عمل پیرا ہیں؛ بلکہ بھٹکے ہوئے لوگوں کی اصلاح اور ان کی ہدایت کے لیے اپنی جان و مال اور عزت و آبرو کی پرواہ کیے بغیر شب و روز اللہ تعالی کے دین کی اشاعت میں منہمک ہیں۔ جو مذہب اسلام کے جنونی حد تک شیدائی ہیں۔ جو بد دینوں کی طرف سے گالم گلوج، لعن طعن کو بڑی فراخدلی سے برداشت کر جاتے ہیں۔کبھی بنیاد پرست کا طعنہ ہے تو کبھی دقیانوسی ہونے کا خطاب ،کبھی شدت پسندی کا پروانہ ہے، تو کبھی دہشت گردی کا تمغہ۔

قابلِ مبارک باد لوگ:

            مگر یہ قابل ِمبارک لوگ ہیں دنیا کی ذلت ورسوائی طعن و تشنیع، فقر و فاقہ وغیرہ سے بے نیاز ہو کر، آخرت کی ابدی کامیابی کے لیے شریعت کو جنہوں نے مضبوطی سے تھام رکھا ہے اور اللہ تعالی کی خوشنودی ان کا مطمع نظر ہے، ایسے ہی مشکل وقت کی سرکارِ دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے پیشینگوئی فرمائی ہے ۔

مضبوط دین والوں کی آزمائش:

            یعنی لوگوں پر ایسا زمانہ آئے گا کہ ان میں دین پر مضبوطی سے کاربند رہنے والے آگ کے انگارے کو پکڑنے والے کی طرح ہوں گے۔(ترمذی)

            حدیث میں ایسے ہی لوگوں کو غربا فرمایا ہے،مبارک ہیں یہ لوگ !یہی وہ لوگ ہیں جن کے لیے اللہ تعالیٰ نے دنیا میں چین و سکون ،موت کے وقت خوش خبریاں، قبر میں راحت و آرام، محشر کے دن خوش حالیاں پھر ہمیشہ کے لیے جنت تیار کر رکھی ہے۔

ہلاکت کی بات:

             جی ہاں! وہ لوگ اپنی خیر منائیں جو دین و ایمان کی پرواہ کیے بغیر دولت و سروت کے گھمنڈ میں اہل دین سے نہ صرف ضد اور عناد رکھتے ہیں؛ بل کہ( معاذ اللہ) اسلامی وضع قطع ،تہذیب و تمدن، شریعت کے احکام سے استہزاء بھی کرنے لگتے ہیں۔

ڈرنے کی بات:

            کاش! یہ لوگ اپنی آخرت کی فکر کر لیں،راتوں کو بستر پر لیٹتے وقت کچھ ہی دیر کے لیے سوچ لیں کہ کہیں ہم تباہی کے کنارے پر تو نہیں کھڑے ہیں، اگر موت نے ہمیں اچانک اچک لیا تو پھر کیا ہمیشہ کی زندگی کے لیے توشہ اورزادِ سفر تیار کیا ہے۔

ندامت اور کف افسوس ملنے سے پہلے:

            خدانخواستہ اگر کھوٹے ایمان کے ساتھ اپنی جان اللہ کے حوالے کی اور مجرم کی حیثیت سے آخرت میں کھڑے ہوئے تو قبر و حشر اور جہنم کے کی تکالیف کی کچھ سہارہے؟ اور کب تک اتنے سخت عذابوں کو برداشت کر سکیں گے، کیا پھر معافی مانگنے اور توبہ کرنے کی مہلت ملے گی ،کیا آہ و بکااور چیخ و پکار سنی جائے گی؟ خدا کے لیے اللہ تعالیٰ کو راضی کر لیجیے !ابھی وقت ہے توبہ و ندامت کو اختیار کر لیجیے! اپنے عقائد ٹھیک کر لیجیے! ایمان بچا لیجیے؛ ورنہ پھر ہمیشہ کے لیے سوائے ندامت اور کف افسوس کے کچھ حاصل نہ ہوگا۔

             اے کاش! میرے بس میں ہوتاکہ جگر چیر کے یہ غم تمہارے دل میں ڈال دیتا،کاش! میرے پاس کوئی تدبیر ہوتی۔ اے اللہ آپ ارحم الراحمین ہیں، آپ کریم ہیں، اپنے فضل سے آپ خود ہی بچا لیں، بے بس لوگوں پر کرم فرما دیں؛ ورنہ ہمارا کیا بنے گا اے مولا! آپ کے سوا آخرجائیں کہاں!!

ہجرت کا ثواب:

             حضرت معقل بن یسا ر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ فتنے کے زمانے میں اور مسلمانوں کی باہمی محاذ آرائی اور قتل وقتال کے وقت پوری استقامت و مداومت کے ساتھ دین پر قائم رہنے اور عبادت و نیکی کرنے کا ثواب میری طرف ہجرت کرنے کے ثواب کے برابر ہے۔(مسلم)

فائدہ:      مطلب یہ ہے کہ زمانہٴ نبی صلی اللہ علیہ وسلم میں فتح ِمکہ سے پہلے دارالحرب سے ہجرت کر کے مدینہ آجانے اور آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی رفاقت اور صحبت کا شرف رکھنے والے کو جو عظیم ثواب ملتا تھا،اسی طرح کا عظیم ثواب اس شخص کو بھی ملے گا، جو فتنہ و فساد کی جہالت وتاریکی سے اپنے کو محفوظ رکھ کر اور مسلمانوں کی باہمی محاذ آرائی سے اپنا دامن بچا کر ،مولا کی عبادت میں مشغول اور اپنے دین پر قائم رہے ۔(مظاہر حق)

 سو شہیدوں کا ثواب:

            اور ایک حدیث میں ہے کہ جو شخص میری امت کے فساد کے وقت میری سنت کو مضبوطی سے پکڑے گا اس کو سو شہیدوں کا ثواب ملے گااس حدیث کی شرح میں حضرات علمائے کرام فرماتے ہیں کہ مراد ایسی سنت ہے جس کے مقابلے میں بدعت رائج ہوچکی ہو ایسے وقت میں بدعت کو چھوڑ کر سنت پر عمل کرنے والے کے لیے یہ فضیلت ہے ۔

احیائے سنت جہادکفارسے زیادہ سخت:

            مشہور حنفی محدث اور فقیہ حضرت ملا علی رحمتہ اللہ علیہ نے اس عظیم اجر و ثواب کی وجہ یہ بیان فرمائی ہے کہ ایسے دور میں؛ جبکہ ہر طرف بدعت اور فسق و فجور کا راج ہو، تمام لوگوں کو پس ِپشت ڈالنے والے متبع سنت مسلمان کو بھی سنت کے زندہ کرنے میں ایسی مشقت اور مجاہدہ برداشت کرنا پڑتا ہے؛ بل کہ اس سے بھی بڑھ کر مشقت برداشت کرنی پڑتی ہے، جو ایک مجاہد کو کفار سے جہاد کرتے ہوئے جھیلنا پڑتی۔

            اللہ اس پر فتن دور میں ہمارے ایمان کی حفاظت فرمائے۔ایمان پر ثابت قدم رکھے۔ اولاً آزمائش میں مبتلا ہی نہ کرے،اگر کرے بھی تو اپنی قدرت سے مقابلے کی طاقت اور فضل سے کامیابی عطا فرمائے۔

ایمان کی طاقت اور مسلمانوں کا عرو ج:

            فتنوں کے دور میں ہمیں گھبرانے اور مایوس ہونے کی چنداں ضرورت نہیں ؛بل کہ ضرورت ہے تو ایمان کو مضبوط کرنے کی،اس پر صدفیصد عامل ہونے کی ، اس کے تقاضوں کو پورا کرنے کی،اسی پر عروج کا وعدہ ہے۔آیے صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین کی زندگی سے سبق لیں!

             حضرات ِصحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے مبارک حالات ِزندگی ہمارے لیے مشعل راہ ہیں، جن کے قلوب آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت کی برکت سے تعلق مع اللہ سے لبریز تھے،آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نظر ِکرم کے طفیل اس مقدس جماعت کا ایک ایک فرد ایسا بلند نظر اور عالی ہمت تھا کے باوجود بے سر و سامانی کے انہوں نے عملِ پیہم اور اخلاق ِفاضلہ کے ذریعہ تمام اقوام ِعالم پر دین ِاسلام کی عظمت کی دھاک بٹھا دی ،اسلامی تاریخ کے سنہرے اوراق اس بات پر شاہد ہیں کہ جس دور میں مسلمانوں نے اسلام کو مضبوطی سے تھامے رکھا، جس وقت ان کے نفوس ظاہری ، باطنی کثافتوں سے پاک تھے ،ان کے قلوب اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت سے شیریں تھے ۔بڑی بڑی طاغوتی قوتیں ان کے سامنے گھٹنے ٹیک دینے پر مجبور ہو گئیں، شاہانِ ِعالم نے مسلمانوں کی آستانہ بوسی میں اپنی نجات سمجھی، خود کسی کا اثر قبول کرنے کے بجائے دوسری اقوام ان سے متاثر تھی ۔مگر افسوس صد افسوس! جب سے مسلمانوں نے شریعت ِمقدسہ پر عمل کرنے میں تکاسل سے کام لیا، اس وقت سے کفر،ان پر بھوکے بھیڑیے کی طرح جھپٹ پڑا ،اور ان کو ذلت و رسوائی کا سامنا کرنا پڑا۔   #

            وہ زمانے میں معزز تھے مسلماں ہو کر         اور ہم خوار ہوئے تاریک قرآن ہو کر

امت کے آخری حصے کی اصلاح پہلے حصے کی اصلاح کے طریق پرممکن:

             حضرت امام مالک رحمة اللہ علیہ نے ارشاد فرمایا:مطلب یہ ہے کہ اس امت کے آخری حصہ کی اصلاح اس طریقے سے ممکن ہو گی، جس طریقے سے امت کے پہلے حصے کی اصلاح ہوئی۔

            اللہ ہمیں صحابہ کے نقشِ قدم پر چلا، ان کے ایمان کا کچھ حصہ نصیب فرما! ہم میں اتحاد واتفاق ، بردباری و سمجھداری عطا فرما! نام ونمود، جاہ ومنصب کے بجائے ،خلوص وللہیت کے ساتھ، محض اعلاء کلمة اللہ کے لیے خدمت دین کرنے کی توفیق عطا فرما۔             حق دکھا اور اس کی پیروی کی طاقت عطافرما! باطل دکھا اور اس سے بچنے کی قدرت عطا فرما!