(تلخیص از محمد کمال الدین القاسمی)
عن أبی ہریرة أن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قال: نارکم جزء من سبعین جزء من نار جہنم، قیل: یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! إن کانت لکافیة،قال: فضلت علیہن بتسعةوستین جزء کلہن مثل حرہا۔
حضرت ابوھریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: تمہاری دنیا کی آگ دوزخ کی آگ کے سترحصوں میں ایک حصہ ہے۔ عرض کیا ، کہ اے اللہ کے رسول! یہ تو دنیا کی آگ ہی عذاب دینے کے لیے کافی تھی۔ آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: دوزخ کی آگ کو (دنیا کی آگ سے) انہتر (۶۹) حصہ بڑھادیا گیا ہے اور ان انہتر حصوں میں ہر ایک حصہ تمہاری (دنیا کی) آ گ کے برابر ہے۔ (البخاری)
حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشادفرمایا کہ:
اس دن (یعنی قیامت کے دن) دوزخ کو (اس جگہ سے جہاں اس کو اللہ تعالی نے پیدا کیا ہے)لا یا جائے گا، اس کی ستر ہزار باگیں ہوں گی اور ہر باگ پرستر ہزار فرشتے متعین ہوں گے، جو اس کو کھینچتے ہوئے لائیں گے۔
جہنم میں کفر کی سب سے ہلکی سزا:
حضرت نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فر مایا کہ:
حقیقت یہ ہے کہ دوزخیوں میں سے جو شخص سب سے ہلکے عذاب میں مبتلا ہو گا، اس کو آگ کی دو جوتیاں پہنائی جائیں گی ،جن کے اوپر آگ کے دو تسمے ہوں گے (یعنی ان جوتیوں کے تلوے بھی آگ کے ہوں گے، جو پیروں کے نیچے کے حصہ میں ہوں گے، اور ان کے تسمے بھی آگ کے ہوں گے، جو پیروں کے اوپر کے حصہ میں ہوں گے) اور ان (جوتیوں کے تلووں اور تسموں) کی تپش سے اس کا دماغ اس طرح جوش مارے گا، جس طرح دیگ جوش کھاتی ہے، وہ شخص (چوں کہ دوسرے دوزخیوں کی حالت و کیفیت سے بے خبر ہو گا)، اس لیے یہ خیال کرے گا کہ اس سے زیادہ سخت عذاب میں کوئی مبتلا نہیں ہے؛ حالانکہ وہ سب سے ہلکے عذاب میں ہوگا۔ (المشکوہ)
جہنم میں کافروں کی کھال اور دانت:
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فر مایا کہ:
دوزخ میں کافر کے (جسم کو اس قدر موٹا اور فربہ بنا دیاجائے گا کہ اس کے) دونوں مونڈھوں کا درمیانی فاصلہ تیزسوار کی تین دن کی مسافت کے برابر ہوگا۔ (نفسہ)
دوزخ کی آگ کارنگ سیاہ ہے:
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فر مایا: کہ دوزخ کی آگ کو ایک ہزار برس جلایا گیا ؛یہاں تک وہ سرخ ہوگئی، پھر ایک ہزار برس اور جلایا گیا ؛یہاں تک کہ وہ سفید ہوگئی، پھر ایک ہزار برس تک اور جلایا گیا ؛یہاں تک کہ وہ سیاہ ہوگئی، پس اب دوزخ کی آگ بالکل سیاہ ہے۔ (جس میں نام کو بھی روشنی نہیں) (الترمذی)
جہنم میں بدبو اور تعفن:
حضرت ابوسعید رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشادفر مایا کہ:
دوزخیوں کے زخموں سے جوزرد پانی بہے گا (یعنی خراب خون اور پیپ وغیرہ) اگر اس کا ایک ڈول بھر کر دنیا میں انڈیل دیا جائے تو یقینا تمام دنیا والے اس کے تعفن اوربد بو سے سڑ جائیں۔ (نفسہ)
جہنم میں کافروں کا خون کے آنسورونا:
حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
لوگو! (خدا کے خوف سے روؤ، اور اگر تمہیں رونا نہ آئے تو بتکلف روؤ) حقیقت یہ ہے کہ دوزخی جہنم میں روئیں گے اور ان کے آنسو ان کے رخساروں پر اس طرح بہیں گے، گویا وہ نالیاں ہیں اور جب ان کے آنسوختم ہو جائیں گے تو خون کا بہنا شروع ہو جائے گا اور آنکھیں لہولہان ہو جائیں گی، ان کی آنکھوں سے بہنے والے خون اور آنسو کی زیادتی اس درجہ کی ہوگی کہ اگر ان کے آنسوؤں کے بہاؤمیں کشتیاں چھوڑدی جائیں تو وہ بھی بہہ چلیں۔(البیہقی)
آگ کا کفار کے چہرے جھلس ڈالنا:
حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے آیت ِقرآنی کے ان الفاظ” وہم فیھا کالحون“ کی وضاحت کرتے ہوئے فرمایا:
دوزخ کی آگ کافر کے منہ کو بھون ڈالے گی، جس سے اس کے اوپر کا ہونٹ اوپر کو سمٹ جائے گا، یہاں تک کہ سر کے درمیانی حصہ تک پہنچے گا، اور نیچے کا ہونٹ لٹک جائے گا؛ یہاں تک کہ ناف تک پہنچ جائے گا۔(الترمذی)
قرآن کریم کی آیت جس کی تشریح میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مذکورہ بالا ارشاد فرمایا وہ یہ ہے: تلفح وجوہہم النار وہم فیہا کالحون“۔
جہنم کی آگ ان (دوزخیوں) کے چہروں کو جھلساتی ہوگی اور اس (جہنم) میں ان کے چہرے بگڑے ہوں گے۔(المشکاة)
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد (یسقی من ماء صدید یتجرعہ)کی وضاحت کرتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ: جب وہ پانی اس دوزخی کے قریب لایا جائے گا، تو وہ بہت ناک بھوں چڑھا ئے گا اور پھر وہ پانی جب اس کے منہ میں ڈالا جائے گا تو اس کے منہ کے گوشت کو بھون ڈالے گا، اور اس کے سر کی کھال گر پڑے گی، اور جب وہ دوزخی اس پانی کو پئے گا (اور وہ پانی پیٹ میں پہنچے گا) تو آنتوں کے ٹکڑے ٹکڑے کر دے گا اور پھروہ پاخانہ کے راستہ سے باہر نکل آئے گا۔ چناں چہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں” وسقوا ماء حمیما فقطع أمعائہم“ اسی طرح قرآن پاک میں ایک اور جگہ یوں فرمایا گیا ہے۔”وان یستغیثوا یغاثوا بماء کالمہل یشوی الوجوہ بئس الشراب“۔
کافروں کو باندھنے کے لئے زنجیر:
حضرت عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فر مایا کہ: اگر سیسہ کا ایک گولہ جواس جیسا ہو( آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سر کی طرف اشارہ فرمایا کہ کھوپڑی جیسا ہو) آسمان سے زمین پر پھینکاجائے، جس کا درمیانی فاصلہ پانچ سو برس کی مسافت ہے تو یقینا وہ (گولہ) ایک رات گزرنے سے پہلے (یعنی بہت مختصر مدت میں زمین پر پہنچ جائے گا، لیکن اگر وہ گولا زنجیر (جس سے جہنمیوں کو باندھا جائے گا) کے ایک سرے سے چھوڑا جائے تو چالیس سال تک مسلسل دن ورات لڑھکنے کے باوجوداس زنجیر کی جڑ یعنی اس کے آخری سرے یا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ ارشاد فرمایا کہ اس کی تہ تک نہ پہنچے۔(الترمذی)
ایک حدیث میں وارد ہے کہ آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشادفرمایا کہ دوزخ میں (آگ کی) ایک وادی ہے جس کا نام” ہبہب“ ہے اس وادی میں ہر اس شخص کو رکھا جائے گا جو متکبر و سرکش، حق سے دور مخلوق پرسختی کرنے والا ہے۔ (المشکوة)
اہل دوز رخ پر مسلط کیے جانے والے سانپ:
حضرت عبداللہ بن حارث بن جزء رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشادفرمایا کہ:دوزخ میں بختی اونٹ کے برابر (بہت بڑے بڑے) سانپ ہیں،ان میں سے جو سانپ ایک دفعہ بھی جس کوڈس لے گا ،وہ اس کے زہر کی ٹیس ولہر اور درد کی شدت میں چالیس سال تک مبتلا رہے گا، اس دوزخ میں جو بچھو ہیں وہ پالان بندھے خچروں کی مانند ہیں اور ان میں سے جو بچھو ایک دفعہ جس کو ڈنک مارے گا،وہ اس کی لہر اور درد کی شدت میں چالیس سال تک مبتلا رہے گا۔(احمد)
دوزخ میں کافروں کا کھانا اور پینا:
حضرت ابو دردا رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی کریم صل اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ دوزخیوں پر بھوک اس طرح مسلط کردی جائے گی کہ اس بھوک کی اذیت اس عذاب کے برابر ہوگی، جس میں وہ دوزخی پہلے سے گرفتار ہوں گے؛ چنا نچہ وہ بھوک کی اذیت سے بے تاب ہو کر فریاد کریں گے اور ان کی فریادرسی” ضریع“ کے کھانے کے ذریعہ کی جائے گی ،جو نہ فربہ کرے گانہ بھوک کو دفع کرے گا ،پھر وہ (پہلے کھانے کو لاحاصل دیکھ کر) دوسری مرتبہ فریادکریں گے اور اس مرتبہ ان کی فریادرسی گلے میں پھنس جانے والے کھانے کے ذریعے کی جائے گی ،اس وقت ان کو یہ یاد آئے گا کہ جب (دنیامیں) کھاتے وقت ان کے گلے میں کوئی چیز پھنس جاتی تھی تو اس کو وہ کسی پینے والی چیز سے نیچے اتارتے تھے، چنانچہ وہ پینے والی چیز کی التجاء کریں گے، تب ان کو تیز گرم پانی دیا جائے گا، جس کو لوہے کے زنبوروں کے ذریعہ پکڑ کر اٹھایا جائے (یعنی جن برتنوں میں وہ تیز گرم پانی ہو گا وہ زنبوروں کے ذریعہ پکڑکر اٹھائے جائیں گے اور اٹھانے والے یا تو فرشتے ہوں گے یا براہِ راست دست قدرت ان کو اٹھا کر دوزخیوں کے منہ کو لگائے گا اور جب گرم پانی کے وہ برتن ان کے مونہوں تک پہنچیں گے، تو ان کے چہروں (کے گوشت) کو بھون ڈالیں گے اور جب ان برتنوں کے اندر کی چیز (جوان کو پینے کے لیے دی جائے گی جیسے پیپ، پیلا پانی وغیرہ) ان کے پیٹ میں داخل ہوگی تو پیٹ کے اندر کی چیزوں (یعنی آنتوں و غیرہ) کو ٹکڑے ٹکڑے کردے گی، پس اس صورت ِحال سے بیتاب ہوکر، وہ دوزخی (جہنم پرمتعین فرشتوں سے کہیں گے اے دوزخ کے سنتریو! اللہ تعالی سے دعا کرو کہ کم از کم ایک ہی دن کے لیے ہمارے اوپر مسلط اس عذاب کو ہلکا کر دے)۔ دوزخ کے سنتری جواب دیں گے کہ (اب ہم سے دعا کے لیے کہتے ہو) کیا خدا کے رسول خدائی معجزے اور واضح دلیلیں لیکر تمہارے پاس نہیں آئے تھے (اور تم سے یہ نہ کہتے تھے کہ کفر و سرکشی کی راہ چھوڑ کر خدا کی اطاعت و فرماں برداری کا راستہ اختیار کرلو؛تاکہ کل آخرت میں دوزخ کے سخت عذاب سے محفوظ رہ سکو!؟) وہ کہیں گے کہ بے شک (خدا کے رسول) ہمارے پاس آئے تھے (اور ان کی تعلیمات ہم تک پہنچی تھیں؛ لیکن وائے افسوس! ہم گمراہی میں پڑے رہے اور ایمان و سلامتی کی راہ اختیار نہ کر سکے) دوزخ کے سنتری کہیں گے کہ پھر تو تم خود ہی دعا کرو اور کافروں کی دعا زبان کاری و بے فائدگی کے علاوہ کچھ نہیں ۔
آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:دوزخی کہیں گے کہ مالک! (جہنم کے داروغہ کانام) دارو غہٴ جنت سے مدد کی درخواست کرو! اور پھر وہ التجا کر یں گے کہ اے مالک! اپنے پروردگار سے دعا کرو کہ وہ ہمیں موت دیدے (تا کہ ہمیں آرام مل جائے)۔
آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:(دوزخیوں کی التجا سن کر) مالک خود اپنی طرف سے یا پروردگار کی جانب سے جواب دے گا کہ تمہیں ہمیشہ ہمیشہ یہیں اور اسی عذاب میں گرفتار رہنا ہے۔
حضرت اعمش رحمتہ اللہ علیہ (جواس حدیث کے ایک راوی ہیں)کہتے ہیں کہ بعض صحابہ نے مجھ سے بیان کیا کہ مالک سے ان دوزخیوں کی التجا اور مالک کی طرف سے ان کو جواب دینے کے درمیان ایک ہزار برس کا وقفہ ہوگا یعنی وہ دوزخی ما لک سے التجا کرنے کے بعد ایک ہزار سال تک جواب کا انتظار کرتے رہیں گے اور اس دوران بھی اس عذاب میں مبتلا رہیں گے)
آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: پھر وہ دوزخی (آپس میں کہیں گے کہ اب ہمیں براہِ راست اپنے پروردگار ہی سے اپنی نجات کی التجا کرنی چاہیے کیونکہ وہی قادر مطلق، رحیم و کریم اور غفار ہے ہمارے حق میں بھلائی وبہتری کرنے والا اس پروردگار سے بہتر اور کوئی نہیں، چناں چہ وہ التجا کریں گے۔
اے ہمارے پروردگار! ہماری بدبختی نے ہمیں گھیر لیا اور اس میں کوئی شبہ نہیں کہ ہم (تو حید کے راستہ سے) بھٹک گئے تھے، اے پروردگار ہمیں دوزخ (اور یہاں کے عذاب) سے رہائی عطا فرمادے، اگر ہم اس کے بعد بھی کفر و شرک کی طرف جائیں تو اپنے اوپر ظلم کرنے والے ہوں۔اللہ تعالیٰ ان کو جواب دے گا، دور رہو! دوزخ میں پڑے رہو! اور (رہائی ونجات کے بارے میں مجھ سے بات نہ کرو۔
آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:آخرکار وہ دوزخی ہر بھلائی سے مایوس ہوجائیں گے اور تب وہ حسرت ونالہ فریاد کرنے لگیں گے۔(الترمذی)
اللہ ہمارے لیے جنت اور اس کی نعمتیں مقدر فرمائے ، دوزخ اور اس کے عذاب سے نجات عطا فرمائے۔