ہند کے جگر پاروں کو سلام

 

مفتی عبد القیوم مالیگانوی / استاذ جامعہ اکل کوا

ناکامی کا الارم :  

            تخلیق ِکائنات وانسان کا مقصدِ عظیم ﴿وماخلقت الجن والانس الالیعبدون﴾کے مطالبہ کو سامنے رکھنے کے بعد ؛صرف عبادتِ خداوندی ہی نہیں ہے ؛بل کہ انسانوں کی آزمائش اور امتحان بھی ہے۔ جیساکہ خالق ِکائنات کاارشادہے:﴿احسب الناس ان یترکواان یقولواآمناوہم لایفتنون﴾اس لیے ہمیں شعبہٴ حیات میں بہرحال یہ یادرکھناچاہیے کہ انسانوں کی ہر حالت اور ہر شعبہٴ زندگی بلاوٴں اور آزمائشوں سے عبارت ہے۔ اور ان میں جس طرح سے پامردی وجواں مردی؛ کام یابی کی کلیدی اور بنیادی شاہ را ہ ہے۔اسی طرح سے پست ہمتی اور حوصلہ شکنی بھی ناکامی ونامرادی کا الارم ہے۔ ارشاد ربانی ہے:

             ﴿ولنبلوکم بالشر والخیر فتنة والینا ترجعون

             کہ شر اور خیر ہر دو پہلو سے ہم تمہیں آزماتے ہیں۔

مایوسی اِس راہ کی بڑی رکاوٹ ہے:

            اس امتحان کا آغاز تو دنیا کے پہلے انسان سیدنا حضرت آدم علیہ السلام سے﴿لا تقربا ہٰذہ الشجرة فتکونا من الظالمین﴾ کہہ کر ہوچکا تھا۔ جس میں ناکامی نزول ارضی کا سبب بنی اور پھر یہ سلسلہ بنی آدم کے ساتھ زلف ِمعشوق کی طرح دراز ترہوتا گیااورہنوزیہ سلسلہ جاری وساری ہے ،جس میں بندوں کی ایک بڑی تعداد کام یاب اور کامران ثابت ہوئیں تو ایک بڑی تعداد نے ناکامی اور شکست کی تاریخ ؛تاریخ کے اوراق میں رہتی دنیا تک کے لیے رقم کرادی۔ نیز آزمائش و ابتلا کے راستے سے شکست و ریخت اور ہار جیت کا یہ سلسلہ صبح ِقیامت تک چلتا رہے گا۔فتح وشکست کی یہ زنجیری کڑی کبھی ٹوٹنے والی نہیں ہے ؛لہٰذا اچھی طرح سے سمجھ لیجیے کہ ڈر اور مایوسی اس راہ میں بڑی رکاوٹ ؛یعنی دیوارِچین سے کسی بھی طرح کم نہیں ہے۔ کسی نے بہت خوب کہا ہے ، اُسے آپ بھی پڑھ لیجیے #

مجھے کسی بلا سے ڈر نہیں لگتا

کیوں کہ مری ماں نے مجھے بلاوٴں میں پالا ہے

تائید خداوندی ہماری آخری منزل ہے:

            آج پھر سے تاریخ اپنے آپ کودُہرارہی ہے ،جس کی وجہ سے اس امت اور خصوصاً حق پرستوں، امن وانصاف کے متوالوں اور مجاہدہ وقربانیوں کی بھٹی میں تپنے والوں پرآزمائش اور بلاوٴں کا کوہِ گراں گرا چاہتا ہے، آزمائش اور امتحان کی یہ گھڑی بہت ہی نازک اور پر خطر ہے۔تاریخ کامطالعہ کریں تو ایامِ ماضیہ کے امتحانات اور بلائیں اس کے سامنے بہت معمولی اور کم زور معلوم ہوتے ہیں۔کیوں کہ یہ فتنہ اور بلا؛ باطل اوردوست نما دشمن کی ۹۰/ سالہ منصوبہ بندی، زمینی محنت اور دیگر اعدائے دین واسلام سے سازباز کے نتیجہ میں وجود پائی ہے۔ جس کے لیے دشمن ہر حربہ اور حد سے گزر نا چاہتا ہے؛ تا کہ وہ اپنے ناپاک عزائم اور منصوبہ بندی کے خوابوں کاتاج محل آسانی کے ساتھ تعمیر کر سکے؛ لیکن ہمارے پاس سوائے اللہ کے کوئی اور پناہ گا ہ نہیں۔ اس کی تدبیر اور تائیدہی ہماری آخری منزل اورٹھکاناہے؛جیساکہ ارشادِربانی﴿

 ﴾اِس بات پرشہادت پیش کررہاہے۔

مردانِ ذی ہوش کی پہچان:

            لیکن دشمن اور مدمقابل کی تدبیر اور منصوبہ بندی کی نزاکت کو سمجھنا اور اس کے دور رس نتائج سے بروقت آگاہ ہوجانا ایک کام یاب مقابل اور ذی ہوش مردان کار کی علامت اورپہچان ہے۔ہم سب سے پہلے اللہ رب العزت ، مدبر کائنات اورقادر ِمطلق کی نوازشاتِ لامحدود اور بے پناہ کرم کے شکر گزار ہیں کہ جس نے ہمیں محض اپنے فضل وکرم اور لطف ِعمیم سے حوادثات ِزمانہ اور فتن ومحن کے اس سیاہ اوربدترین دور میں بھی ایمان ومعرفت اور اسلام کی آغوش میں رہنا نصیب کیا ۔اپنی جبین ِنیازاورقیمتی پیشانی کو۳۵/کڑورسے ہٹاکرایک ہی مرکز ِتوحید پر جھکنا مقدر فرمایا۔ ورنہ……

 کہاں میں اور کہاں یہ نکہت گل

نسیم صبح تیری مہر بانی

ملک کی شاہینوں کوسلام:   

            تشکر ِخالق کائنات کے بعد؛ ہم دل کی اتھاہ گہرائیوں اور بدن کے روئیں روئیں سے محبتوں کی سوغات، تشکر و امتنان کے جذبات، نیز امن و سلامتی اور حفاظت وعافیت کی دعائیں شب و روز پیش کرتے ہیں۔ ہند کے اُن جگر پاروں، یعنی جامعہ ملیہ، جامعہ علی گڑھ اور جواہر لعل نہرو یونی ور سٹی کے ان جاں بازجیالوں، بے باک سپاہیوں اور ملک کے عظیم سپوتوں؛کو جنہوں نے اپنی پرزور صداوٴں کو بلند کیا، حکومت کے ظالمانہ اورمخالف دستور ایکٹ کی خرابیاں لوگوں پر واضح کیں، گولیاں کھائیں، لیکن میدان میں چٹان بن کرڈٹے رہے، ڈنڈے برسے لیکن جمے رہے، جیلوں میں ڈالا گیا، لیکن بھاگے نہیں، ملک کی ریکارڈتوڑسردی بھی اُن کے عزم وحوصلے اورجذبوں کوسردکرنے میں ناکام رہی، ہر مشقت اورہر تکلیف کو ہمارے لیے جھیلتے رہے اور جھیل رہے ہیں۔نیزشاہین باغ کی ان شاہین صفت،باحوصلہ وباوقارخواتین کی خدمت میں ، جنہوں نے نہ صرف اپنے لیے، بل کہ ملک اور دستور کی حفاظت، اپنے روشن مستقبل کی ضمانت اور ملک کے بھائی چارہ،قومی ایکتا اور ملن کو باقی رکھنے کے لیے اس سے بڑھ کر ملک کے تمام کم زوروں، ٹوٹے دلوں اور خستہ حال انسانوں کی ترقی اور سکون کے لیے اپناآرام، اپنی تعلیم اور اپنی تمام تر مصروفیات کو ایک کنارہ کرکے سڑکوں پراترکر سراپا احتجاج بنی ہوئی ہیں۔ ایسے موقع پر اقبال مرحوم کا وہ شعر ضرور یاد آتا ہے #

عقابی روح جب بیدار ہوتی ہے جوانوں میں

نظر آتی ہے اُن کو اپنی منزل آسمانوں میں

اور یہ بھی کہا تھا #

نہیں تیرا نشیمن قصر سلطانی کے گنبد پر

تو شاہیں ہے بسیرا کر پہاڑوں کی چٹانوں میں

چھیڑوگے توچھوڑیں گے نہیں:       

            وقت کے ان عقابوں اور زمانہ کی ان شاہین صفت خواتین وطالبات نے آج پورے ملک پر اپنے ٹھوس عزم وعمل اورآہنی ارادوں سے یہ ثابت کردیا اورساری دنیاکوایک پیغام دے دیاہے کہ ہماری خاموشی کو کوئی بزدلی سمجھنے کی غلطی نہ کرے۔ ہم اگرموم ہیں تووقت آنے پرشعلہٴ جوالہ بھی بننے کی سکت رکھتے ہیں،ہم قلم کے ساتھ ساتھ ؛کتابوں کے بھی ہم نشیں اورخوگرہیں۔ اگر ہمیں چھیڑاجائے، ہمارے امن وامان کو غارت کیا جائے، ہمارے ملک میں تخریبی سسٹم نافذ کیا جائے اور ہماری محبتوں اور آپسی اتحاد کو بکھیرنے اور توڑنے کی کوشش کی جائے تو ہم اپنے اندر ایسی اسپرٹ اور ایسی قوت بھی رکھتے ہیں ،جو حکمرانوں اوروقت کے فرعون وشدادکی نیندیں اڑا دے۔ ایسی اتحادی زنجیر سے بندھ سکتے ہیں، جسے توڑ نا ظلم و تشدد کے مافیاوٴں کے بس میں نہیں۔ اور ایسی صدائے حق بھی رکھتے ہیں، جس کی آہٹ اتنی دور تک جاتی ہے جس کے بعد دوری کا کوئی تصوربھی نہیں، جس سے ظالموں کی ہلاکت وبربادی یقینی ہو جاتی ہے۔ شاعر اسلام ولی اللہ ولی# بستوی صاحب نے کہا ہے #

آس جو ٹوٹی تو محسوس ہوئی دل میں خلش

دل جو ٹوٹا تو بہت دور تک آواز گئی

بچ کے رہنا:       

            حق کی یہ آواز ،مظلوموں کی یہ فریاد، خوف و ہراس میں مبتلا کیے گئے بے بسوں کی یہ پکار؛ آج جہاں پورے ملک میں گونج رہی ہے یقینا رب العالمین کی بارگا ہ ِصمدیت میں بھی ضرور پہنچ رہی ہے، جو رائیگاں نہیں جائے گی؛ کیوں کہ وہ صدا پرلبیک کہتا اور فریاد رسی اپنے بندوں کی ضرور کرتا ہے، جسے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس طرح بیان فرمایا تھا :

             ” اتق دعوة المظلوم فانہ لیس بینہ وبین اللّّٰہ حجاب

            کہ مظلوم کی بد دعا سے اپنے آپ کو بچانا، اس لیے کہ اس کے اور اللہ کے درمیان کوئی آڑ اور رکاوٹ نہیں ہوتی ہے۔ وہ براہ ِراست اللہ کے دروازے کو کھٹکھٹا تی اور ظالم کا بیڑہ غرق کرنے کے لیے کافی ہوتی ہے۔

اللہ اُن کے حوصلوں کواستحکام بخشے:

            آج اس پر خطر ماحول میں بغیر کسی قیادت کے ان فکر مند ،غیور نوجوانوں اور ان کے ساتھ باہمت خواتین نے پوری قوت و ہوش مندی کے ساتھ پیش رفت کی ہے، وہ بہت ہی قابل ِمبارک باد اور لائق ِتحسین ہیں، جو مستقبل میں ایک روشن اور تابناک بیداری کی علامت ہیں۔ ہمارے دل اور دماغ ان کی حفاظت اور ہر محاذ پرسرخ روئی کے لیے بے چین اور ہماری آنکھیں ان کے حال ِزار پر نم اور اشک بار ہیں۔اور بارگاہ ِخداوندی میں ہزاروں نہیں، بل کہ دکھے دل سے لاکھوں التجا ئیں اور گزارشات ہیں کہ اللہ تعالیٰ ان کو مزید طاقت وہمت اور بے پناہ حوصلوں کے ساتھ صحیح رخ بھی عطا فرمائے اور یہ سب ؛بل کہ ملک وملت کی اُن شاہینوں کے عزم واستقلال کی بہ دولت ہم سب اپنے مقصدعظیم میں ہر سو کام یاب وکامران ہوں۔ اے اللہ ! اس کاروان ِاحتجاج کو اپنے کرم سے منزل مقصود پر پہنچا دے اوراس کشتی ٴبِلا ناخدا کو ساحل پر اتار دے۔

یہ توآپ ہی جانتے ہیں:

            اے اللہ ! مظلوموں کے آپ ہی حامی اور ناصر ہیں، ٹوٹے دلوں کی قیمت آپ ہی جانتے ہیں۔ بے بسی وبے کسی ہماری صفت ہے، بے نیازی اور علوِشان آپ ہی کو زیبا دیتی ہے، آپ نے ہر موڑ پر اس امت کو سنبھالا اورسہارا دیا ہے۔ آج امت کی کشتی ؛طوفان بلا خیز میں ہچکولے کھارہی ہے، اہل زمانہ کے ستم سے دوچار ہے، زخموں سے چور اور غموں سے رنجور ہے۔ اے اللہ ! ہرہوا کا جھونکا ہرچہارجانب سے ہمارے خلاف ہے، زندگی بیقرار اور بے چینی سے عبارت ہوچکی ہے، ہر صاحب ِقوت کم زور کو کچل دینا چاہتا ہے، وقت کے عفریت فرعونیت اور قارونیت کی تصویر بن چکے ہیں، جنہیں آپ کا خوف نہیں۔ آپ کی پکڑ کا اندازہ نہیں، دوسری زندگی میں اپنے سیاہ کرتوتوں کی جوابدہی کا احساس نہیں۔ مولائے کریم ! اگران سیاہ بختوں کی قسمت میں آئندہ ہدایت مقدر ہوتو انہیں عمر بن خطاب کی طرح حامیٴ اسلام اور ناصرِدین محمدی بناکر دولت ِایمان وتصدیق سے سرخیل امت اور سپاہ سالار امت ِاسلامیہ بنادے، جیسا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے دور ِمظلومیت میں مکہ کے دو بہادر اور جانباز وں کے لیے مسلسل تین روز کعبہ کے سامنے ایمان و ہدایت کی اللہ کریم سے بھیک کچھ اس طرح مانگی تھی :

             ”اللہم اعزالاسلام بعمر بن الخطاب او بابی جہل بن ہشام

             اے اللہ ! اسلام کو عمر بن خطاب یا ابو جہل بن ہشام کے ذریعہ عزت وتقویت عطا فرما۔

عمر؛مرادِ نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہیں:

             چناں چہ دعائے مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی تاثیر؛ تیسرے دن بروز بدھ بعد نماز ظہراثر انداز ہوناشروع ہوئی اوراسلام کی کرنوں نے قلب ِعمر پر اپنی روشنی بکھیرنا شروع کردیا۔ اور اسلام کی نورانیت قلب ِعمر پرپڑنا شروع ہوئی اور دنیانے یہ بھی دیکھ لیاکہ ایمان واسلام کا آفتاب؛ قلبِ عمر میں ایسا روشن ہوا کہ مکہ اور اطراف کی وادیاں اور پہاڑیاں بھی اللہ اکبر کا نعرہٴ تکبیر بلند کیے بغیر نہ رہ سکیں۔ اور دنیا جانتی ہے کہ مراد ِنبی حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے اپنے طویل ،یعنی ۱۲/سالہ دور ِخلافت میں ۲۲/لاکھ مربع میل پراسلام کاپرچم لہراکرنبی کی تمناوٴں اور مشن کا پورا حق ادا کردیا۔اور آخری چوٹ بھی مصلاَّئے رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر کھائی اوراے اللہ! اگر ان محروم القسمت کے حصہ میں بے ایمان ہی ہندستان سے شمشان جانا آپ نے طے کیا ہے تو انہیں جلد؛یعنی کل کے بجائے آج ہی اپنے انجام ِواقعی سے اُس ناہنجارکو دو چار فرماکر ملک کو ان کے ناپاک وجود سے صاف فرمادیجیے ؛تاکہ ملک وقوم کاہر انسان؛ خصوصاً کم زوروناتواں ، مزدورطبقہ اور پڑھنے لکھنے والے چین وسکون اور اطمینان کی سانس لے سکیں۔ ہمارا پیارا وطن جو اُن کی غلط سوچ ، طور وطریق اورنفرت کی آبیاری سے پوری دنیا میں بدنام ہوا اس سے بدنامی کا داغ دھل کر ہمیشہ کے لیے صاف وشفاف ہوجائے اور ترقی و بلندی سے ایسا مالا مال ہو کہ دیگر ممالک کے لیے نمونہ اور مشعل راہ ثابت ہو؛ کیوں کہ وطن سے محبت ایمان ہی کا ایک حصہ ہے اور اس سے وفاداری نمک حلالی ہے۔ اسی لیے یہ محبتِ وطن اور وفاداریٴ ملک کی چنگاری شعلہٴ جوالہ بن کرآج سڑکوں اور چوراہوں پر گھوم رہی ہے، جس کی حرارت وتپش نے قلم کے دھنی نوجوان طلبہ اورطالبات کے علاوہ شرم وحیاکی علم برداراور پردہ نشیں خواتین کو بھی گھر میں ٹھہرنے نہیں دیا، بل کہ اظہار محبت ، حفاظت وطن اور تحفظ دستور کے لیے ایک عظیم قربانی پیش کرنے کے لیے کمر بستہ ہو کرسدسکندری کی طرح کھڑی ہوئی ہیں اورہرقوت باطلہ سے ٹکرانے کے لیے تیارہیں۔جسے در اصل جنگ ِآزادی ہی کہا جا سکتا ہے ،جس میں ہمارے بہت سارے نوجوان بھائی پولیس کی گولی کھاکر شہید ِوطن ہوئے اور اپنی وفاداری کا عملی ثبوت پیش کر دیا اور دیگر بہت سارے زخمی ہوکر اپنا خون سرزمین ِوطن پر گرا کروفا شعاروں اور جاں نثاروں کی فہرست میں اپنانام لکھوا چکے ہیں۔

 ﴿ومنہم من قضیٰ نحبہ ومنہم من ینتظر

             ہم خداوند قدوس سے شہیدوں کے لیے مغفرت وسرخ روئی کی اور زخمیوں کے لیے صحت وعافیت کی دعائیں کررہے ہیں اور ہرلمحہ کرتے رہیں گے۔ اور آخر میں ملک کے بد خواہ اور طاقت کے نشہ میں چور افراد سے یہ کہتے ہوئے جائیں گے کہ #

ہم ہیں غدار تو پابند وفا تم بھی نہیں

اپنی قسمت پہ نہ اتراوٴ خدا تم بھی نہیں

جلیں گے ہم تو جل جائے گا سارا گلستاں مالی

سمجھ مت صحنِ گلشن میں مرا ہی آشیانہ ہے

حالات کی نزاکت کااحساس کیجیے:  

            ایسے حالات میں ضرورت اِس بات کی ہے کہ اس احتجاجی طاقت کومزیدطاقت وراورمضبوط کیا جائے۔ اورہراس قول وفعل سے اجتناب کیاجائے ،جواس قوت احتجاج کو کم زوراوربے اثربنائے ۔لہٰذاہرقسم کی مصلحت پسندی اورخاموشی کوپھینک کرہمت وحوصلہ پیش کرناہے ۔اوراگرکوئی اپنی خاموشی ہی کواپنی عافیت سمجھنے کی غلطی کرتا ہے توکم ازکم اُن جیالوں اورجفاکشوں کے حوصلوں اورمحنت کوبے اثرکرنے کے لیے بھی کچھ نہ بولے اوراپنے گردوپیش کے تمام احوال کی نزاکت اورحسّاسیت کااچھی طرح سے جائزہ لے،تاکہ ہم جانے یاانجانے میں کسی بھی جماعتِ مخالف اور گروہِ بدخواہ کی تدابیرکاحصہ نہ بن جائیں۔ورنہ ملک اوراس کے وفاداروحوصلہ مندلوگ اِس حرکتِ بے جاکوکبھی فراموش نہیں کریں گے،بل کہ ملک اوراس کے انصاف پسندانسانوں اورخصوصاً اہل ایمان کابہت بڑا نقصان اورخسارہ ہوگا،جس کی تلافی صدیوں میں بھی نہ ہوسکے گی اور”لمحوں نے خطاکی تھی ،صدیوں نے سزاپائی“ کی آوازہمارے کانوں سے ہمیشہ اورہرموڑپرٹکراتی رہے گی۔

            اللہ ہم سب کی دست گیری فرمائے اوراپنے مشن میں کام یابی سے ہمکنارفرماکرامن وعافیت کاماحول مقدرفرمائے۔آمین!