اِک چہکتابلبل اب خاموش ہے

ازقلم :شفیع احمدقاسمی اِجرا،مدھوبنی/استاذجامعہ اکل کوا

            قَالَ اللّٰہُ تَعَالیٰ فِی الْقُرْْآنِ الْکَرِیْمِ:﴿کُلُّ نَفْسٍ ذَائِقَةُ الْمَوْتِ﴾۔وَفِیْ مَقَامٍ آخَر﴿کُلُّ مَنْ عَلَیْہَافَانٍ ﴾۔وَقَالَ:﴿اَلَا اِنَّ اَوْلِیَاءَ اللّٰہِ لَاخَوْفٌ عَلَیْہِمْ وَلَاہُمْ یَحْزَنُوْنَ۔﴾

مشعل وہی بجھتی ہے پہلے ، جو نازِ شبستاں ہوتی ہے

اُس گل ہی کو توڑا جاتا ہے ، جو زیبِ گلستاں ہوتا ہے

اعترافِ کرم ہے،شکایت نہیں:         

            میں بھی رئیس الحفلات والمسابقات حضرت مولاناعبدالرحیم فلاحی ثم المظاہری ابن محمدابراہیم پٹیل کی ذاتِ بابرکات اورستودہ صفات پرقلم اٹھاکرکچھ لکھنے کی جسارت کروں گا۔میرا تو کبھی خواب وخیال میں بھی ایسی غلطی کرنے کا ارادہ نہیں تھا۔ لیکن اللہ جزائے خیر دے استاذجامعہ اورمنیجر”شاہ راہِ علم“مفتی محمدہلال الدین ابراہیمی صاحب کو؛کہ وہ رخصت پر تھے،لیکن جیسے ہی جامعہ کی چار دیواری میں نزول ہواتوراقم السطورسے پہلی ہی ملاقات میں پوچھ بیٹھے کہ :”آپ نے مولاناعبد الرحیم فلاحی# پرلکھاکہ نہیں۔“ میرا جواب نفی میں تھا۔ تو خیرخواہانہ ، مشفقانہ اورمخلصانہ دباوٴ ڈالنے لگے کہ ”آپ کو تو لکھنا ہی پڑے گا“۔ تب کہیں جاکرمیں نے یادوں کے دریچوں کو کھول کراپنی بکھری ہوئی ہمت جُٹائی اورکاغذکے سینے پرقلم کو حرکت دی ہے ۔

            اِس تمہیدکے بعدچلیے جلدی سے آگے کاسفرشروع کرتے ہیں۔ورنہ توتاخیرکی صورت میں گاڑی چھوٹ بھی سکتی ہے ۔ مطلب یہ ہے کہ آپ کامحبوب رسالہ” ماہنامہ شاہ راہ علم“پریس کے حوالے ہوجائے گا اور مضمون یہیں دفترمیں پڑارہ جائے گا، جس کاافسوس بہرحال ہوتارہے گا۔اِس لیے وقت کی کمی اوراُس کی نزاکت کو سامنے رکھ کر میں مختصر تحریرآپ حضرات کی خدمت میں پیش کرنے کی کوشش کروں گاتاکہ آپ کاقیمتی وقت ضائع نہ ہو۔

            ”شاہ راہ علم“ کے صفحات پرآج میں سب سے پہلے وہی لکھوں گا،جوکہ امام الہند،جنگِ آزادی کے سرخیل اورآزادہندستان کے پہلے وزیرتعلیم حضرت مولاناابوالکلام آزاد کے جنازہ پر شورش کاشمیری نے اپنی اشک بار اور پُرنم آنکھوں سے اُن کا نورانی چہرہ کو دیکھ کربرجستہ کہاتھاکہ

کئی دماغوں کا ایک انساں ، میں سوچتا ہوں کہاں گیا ہے

قلم کی عظمت اجڑ گئی ہے ، زباں سے زورِ بیاں گیا ہے

تصویری البم:      

            صدیقی صداقت،فاروقی عدالت،عثمانی سخاوت ،حیدری شجاعت،حسینی استقامت، چہرے پرہردم بشاشت،لباس وپوشاک میں نظافت،مزاج میں نفاست،خاندانی شرافت،علمی لیاقت،فکروذہن سلامت، آنکھوں سے ٹپکتی ذہانت،گفتگومیں حلاوت،قلمی جلالت ،بزرگوں سے ارادت،طلبہ پرہردم نظر عنایت،تھوڑ ے پر صبروقناعت،کم زورں اورلاچاروں کی اعانت، مجلسِ احباب میں ظرافت، مریضوں کی عیادت،وقت کی پوری حفاظت، شوقِ ذکروتلاوت، زورِ خطابت،تفسیری وفقہی مہارت، جلسوں کی صدارت، دینی وعصری پروگراموں کی نظامت،زبان وبیان میں سلاست،طرزوادامیں فصاحت،تدریس میں ثقاہت، اندازِ بلاغت، حالات کی نزاکت، مہمانوں کی ضیافت،وفودِ مسابقہ کی قیادت، مسجد میمنی میں ظہرو عصرکی امامت، ذوق عبادت، معاملات میں امانت ودیانت،اسلاف کی روایت، جذبہٴ علم دین کی اشاعت،زندگی سراپا”کُنْ فِی الدُّنْیَاکَاَنَّکَ غَرِیْبٌ اَوْ عَابِرُسَبِیْلٍ“کی علامت!

            اِن مذکورہ بالااوصافِ عالیہ اورخصائلِ حمیدہ کواپنے ذہن ودماغ کے فریم میں سجالیجیے ۔اب جو تصویر ابھرکرآپ کی آنکھوں کے سامنے آئے گی ،رلائے گی اوردل کوتڑپائے گی،وہ مولاناعبدالرحیم فلاحی کی حسین تصویر ہوگی ۔ جو اَب بد قسمتی سے ہمارے درمیان نہیں رہے۔جو۱۷/شعبان المعظم ۱۴۴۱ھ مطابق ۱۲/ اپریل ۲۰۲۰ء کو اتوارکی صبح ۸/ بجے صرف ۲/یوم کی مختصرعلالت کے بعدکھروڈکے”ویل کیئر“اسپتال میں اپنی زندگی کی آخری سانس لی اوراِس دارالغبارسے نکل کردارالقرارمیں ہمیشہ کے لیے قرارپاگئے ۔اناللہ واناالیہ راجعون!

”آسماں اُن کی لحدپرشبنم افشانی کرے“

گم نام تھے گم نام ہی رہے:

            یہ دنیافانی ہے اوریہی اِس کی کہانی ؛قرآن وحدیث کی زبانی ہے ۔یہاں ہرشخص جانے ہی کے لیے آتا ہے ۔ازل سے دستوریہی چل رہاہے کہ جوآئے گاوہ جائے گا۔یہاں کی ہرچیزبگڑنے ہی کے لیے بنتی ہے ۔ اِس بے وفادنیامیں بے شمارلوگ آئے اور چلے گئے۔جن میں انبیا،اولیا،اتقیا،اصفیااوراغنیا سبھی شامل تھے۔اِسی لائن میں فساق وفجاراورمشرکین وکفار بھی کھڑے تھے۔لیکن جب﴿اِذَاجَاءَ اَجَلُہُمْ لاَ یَسْتَاخِرُوْنَ سَاعَةً وَّ لَا یَسْتَقْدِمُوْنَ﴾کی گھنٹی بجی توبلاتاخیر پیوندخاک ہو گئے۔ رخصت ہونے والوں میں۲/قسم کے لوگ نظرآتے ہیں۔ ایک وہ ہیں جواپنی زندگی میں گم نام رہے اورمرنے کے بعدبھی گم نامی کے غارمیں رہے اورآج حال یہ ہے کہ اُن کا کوئی نام لیوا نہیں۔ دوسرے نمبرپرایسی قابل ذکر ہستیاں بھی اِس دنیاسے اُس دنیاکے سفرپررخصت ہوئیں،جو اپنے بے مثال کارناموں اور فیض بخشیوں کی وجہ کر لوگوں کے دلوں میں زندہ جاویدہوگئے ۔اُن کو دنیا کبھی بھی فراموش نہیں کر سکتی ۔ایسی ہی برگزیدہ ہستیوں میں سے ایک ذات ؛ بلبل جامعہ حضرت مولاناعبدالرحیم فلاحی کی بھی تھی۔

ولادت باسعادت :

            ۲۸/ربیع الاول ۱۳۸۳ھ مطابق ۱۸/اگست ۱۹۶۳ء کواتوارہی کے دن صوبہ گجرات کے ضلع بھروچ ، تعلقہ انکلیشورمیں واقع مردم خیزگاوٴں”رویدرا“ میں ہوئی ،جوکہ آپ کاآبائی وطن ہے۔آپ اپنے ۳/ بھائیوں میں دوسرے نمبر پر تھے ۔

قدرِجوہرشاہ داندیا․․․:

            جامعہ فلاحِ دارین ترکیسر(سورت) سے فراغت کے بعد ہندستان کی پیشانی پرچمکنے والے ”جامعہ مظاہرعلوم سہارن پورمیں داخل ہوکردوبارہ سندِحدیث حاصل کی۔جب آپ نے تدریسی زندگی کاآغازکیاہے تو خادم القرآن وعامرالمساجدرئیس الجامعہ حضرت مولاناغلام محمدوستانوی ادام اللہ فیوضہم کی عقابی نگاہ نے تاڑلیاکہ یہ ایک انمول ہیراہے ۔کیوں کہ ہیرے کی قیمت کااندازہ جوہری کوہی ہوتاہے ۔باقی ہم جیسے لوگ توہیرے کوبھی کھیراہی سمجھ لیتے ہیں۔لہٰذاحضرت رئیس جامعہ نے سوچاکہ اگراِسے سلیقے سے تراشاجائے توآئندہ میدانِ زندگی اورشاہ راہِ عمل میں بہت کام آئے گا۔چناں چہ حضرت رئیس جامعہ نے سن ۱۴۰۷ھ مطابق ۱۹۸۷ء میں ازہرِ مہاراشٹر جامعہ اسلامیہ اشاعت العلوم اکل کوا میں ایسے وقت میںآ پ کا تقررفرمالیا،جب کہ جامعہ نے اِس قدر برگ وبار لا کر ایک تناوردرخت کی شکل اختیار نہیں کی تھی۔ احاطہٴ جامعہ میں دینیات، حفظِ قرآنِ پاک اور عربی کے کچھ درجات تک ہی تعلیم محدودتھی۔اِس لیے ابتدائی درجات سے اپنی تدریسی زندگی کا آغاز کیا، رفتہ رفتہ حدودِ جامعہ پھلتاپھولتا گیا تو درجاتِ عربی میں بھی اضافہ ہوتا گیااور آپ کی تعلیمی،تدریسی ،تربیتی اورتنظیمی فرائض میں بھی مسلسل اضافہ ہوتا گیا۔آپ نے اپنی سچی لگن،انتھک محنت اورسعیٴ مسلسل سے رئیس جامعہ کے ہر خواب کو سچ کر دکھایا۔ اِس بے وفا اور بے ثبات دنیا سے رخصتی کے وقت درسِ نظامی کی نہایت ہی اہم کتابیں؛ ہدایہ اولین، مشکوة المصابیح جلد اول، تفسیر بیضاوی، صحیح مسلم اورموٴطا امام مالک وغیرہ آپ کے زیردرس تھیں۔

میں نے پہلی باردیکھا:

            یہ ۱۹۹۸ء کی بات ہے ،جب کہ احقرصوبہ گجرات کے مشہورومعروف ادارہ”جامعہ مظہرسعادت ہانسوٹ “کے کتب خانہ میں اپنی مفوضہ ذمہ داری میں مصروف تھا۔ایک دن نہال اختردربھنگوی نے بتایاکہ چند دنوں بعدجامعہ کی عالی شان مسجد ”مسجدِعائشہ“میں جامعہ اکل کواکے زیرانصرام آل گجرات مسابقة القرآن الکریم کا انعقاد ہونے والاہے،اسی میں شرکت کی تیاری میں بھی کررہاہوں۔ یہ بات اِتنے ہی پرآئی گئی ہوگئی اورسب لوگ اپنے اپنے کام میں جٹ گئے ۔ دن یوں ہی گذرتے رہے اورجامعہ مظہرسعادت کی سعادت مندی کادن بھی آ گیا۔ جب پورے گجرات سے طلبائے عظام اورعلمائے کرام کے قافلے آنے لگے،جس میں مولاناعبداللہ صاحب کاپودروی رئیسِ جامعہ فلاح دارین ترکیسر،سابق شیخ الحدیث مولاناذوالفقاراحمدنروری کے علاوہ راقم کے استاذ محترم مفتی محمد سلمان صاحب منصورپوری استاذحدیث وافتاجامعہ قاسمیہ شاہی مرادآباد بھی شامل تھے۔ بہرحال اُسی پروگرام میں کبھی سائل کے فرائض توکبھی نظامت کے فرائض انجام دیتے ہوئے مولانامرحوم کی زیارت ہوئی تھی ۔ اس سے پہلے شایدکبھی نام بھی سماعت سے نہیں ٹکرایاتھا۔

جامعہ مظہر سعادت کے کارگزارمہتمم:

            چندسالوں بعدبانی جامعہ؛ جامع المعقول والمنقول حضرت مفتی عبداللہ پٹیل صاحب مظاہری# کو جب بیرونِ ممالک لمبے سفرکی ضرورت پیش آئی توانتظا م وانصرام جامعہ سے خاطرخواہ دل چسپی رکھنے والے کی تلاش ہوئی اورپھریہ نظرحضرت مولاناعبدالرحیم فلاحی# پرجاکراٹک گئی ۔اب آپ نے کچھ ماہ کے لیے جامعہ اشاعت العلوم اکل کواکے درودیوارکو اپنی دل نشینی اورسحرآفرینی سے محروم کرکے جامعہ مظہر سعادت کی قابل رشک چار دیواری کو آبادکیااورمسنداہتمام پر براجمان ہوئے ۔آپ کے ۸/ماہی دورِ نظامت میں جامعہ نے اچھی خاصی ترقی حاصل کی اورشہرت کوچارچاندلگائے۔سبھی کارکنانِ جامعہ کی ہمہ وقت خبرگیری اورناگفتہ بہ صورت حال میں ہر طرح کی امدادواعانت میں بڑھ چڑھ کرحصہ ہی نہیں لیتے،بل کہ ان کے دردکواپنادردسمجھ کر اوڑھنا بچھونا بنا لیتے ۔ احاطہ کی صاف صفائی اورحسنِ انتظام میں کوئی کمی واقع نہیں ہونے دیتے ۔اس کے بعد جب حضرت مفتی صاحب دامت برکاتہم کی واپسی ہوگئی تومولانامرحوم کی بھی واپسی ہوگئی ۔لیکن اپنی خدمت کے۷/سالہ دور میں بارباراُن کی زیارت ہوتی رہی اورمواعظ سے مستفیدہونے کاموقع ملتارہا۔

میں اکل کواآرہاہوں:

            میں نے ابتداہی میں مختصرحالات قلم بندکرنے کاوعدہ کیاہے،اِس لیے اب میں سیدھے اکل کواکی سرزمین پرآجاتاہوں۔یکم رجب المرجب ۱۴۲۵ھ مطابق ۱۸/اگست ۲۰۰۴ء بروزبدھ کو”ست پڑا“کی بنجر اور غیرذی ذرع وادی میں واقع جامعہ اسلامیہ اشاعت العلوم اکل کوا میں اللہ تعالیٰ نے خدمت کامیدان مقدر فرمایا تو ۱۵/دنوں تک حضرت مرحوم سے ملاقات نہیں ہوپائی ۔لیکن ایک دن ایساہواکہ موجودہ دفتراہتمام کے قریب واقع زینہ سے اترتے ہوئے اچانک مدبھیڑہوگئی توچونکتے ہوئے نام لے کرکہنے لگے:ارے آپ یہاں؟کب تشریف لائے؟کیامقصدہے؟یعنی ایک ہی سانس میں کئی سوال!!!جب میں نے صورتِ حال سے آگاہ کیاتو وسعت ظرفی سے دعادیتے ہوئے کہاکہ:” اللہ آپ کی آمدکوجامعہ کے حق میں قبول فرمائے اور امت کے لیے نافع بنائے“۔میں نے آمین کہہ کررخصت چاہی اوراپنے کام پر چل پڑا۔

کام یابی کی سند:

            اُس وقت کرناٹک کے مولاناعبدالقدیرعمری صاحب ناظم تعلیمات ہواکرتے تھے ،لیکن جامعہ کی چہار دیواری میں مولانامرحوم کا طوطی بول رہاتھا۔اُس کے بعدتوروزہی کسی نہ کسی زاویہ سے ملاقات وزیارت ہوتی رہی۔جب جامعہ میں بوریا بستربچھایاہے تودیکھاکہ کسی بھی طرح کے پروگرام میں،چاہے یوم آزادی ہو یا یوم جمہوریہ ،جامعہ کاسالانہ جلسہ ہویاکسی عصری دانش گاہ کاپروگرام ۔اسٹیج پراُن کی شرکت ؛کام یابی کی سندمانی جاتی ہے۔اوراگراُن کی آوازپردہٴ سماعت سے نہ ٹکرائے توسبھی حاضرین وسامعین اورمحبین ومتعلقین کواُن کی کمی کا پورا احساس ہوتااوربزم میں ایک طرح کاپھیکاپن نظرآتاہے۔جیسے ہی مسجدمیمنی کامائک کھلتاویسے ہی سمجھنے والے فوراً سمجھ لیتے کہ اب مولانا عبدالرحیم صاحب کی آوازگونجے گی ۔ماہ محرم الحرام میں بارہاطلبہ کے انعامی جلسہ کی نظامت اور اُن کوکنٹرول کرنے کے لیے مولانا مسعود عالم صاحب اُن کوہی تلاش کرکے لاتے اورپھراُن کی زبان سے اعلان کرواتے ۔

قلم کابادشاہ:

            رئیس الحفلات والمسابقات حضرت مولاناعبدالرحیم فلاحی کی شخصیت صرف درس وتدریس اورمیدانِ نظامت وخطابت میں ہی سمٹی ہوئی نہیں تھی ،بل کہ وہ بہ فضلِ الٰہی قلم کے بھی بادشاہ تھے۔اُن کے گوہربارقلم سے درجنوں کتابیں نکل کرعوام وخواص میں دادتحسین حاصل کرچکی ہیں۔”تحفہٴ تراویح “کے تو کئی زبانوں میں کئی ایڈیشن شائع ہوچکے ہیں۔اُن کی تحریر میں شگفتگی،شائستگی،دل بستگی ،برجستگی ،وابستگی اوروارفتگی ؛سب کچھ شامل ہوا کرتا تھا۔ اگر یقین نہیںآ تاہے توپھرمولانامرحوم کی کتاب” توشہٴ راہِ حیات یعنی تحفہٴ بیٹی“ کامطالعہ ضرورکرلیجیے خود ہی پتاچل جائے گاکہ یہاں کوئی لن ترانی نہیں ہورہی ہے ۔ مرحوم کس طرح سے بیٹی کے ساتھ حقیقت بیانی ؛ قلم کی زبانی کر رہے ہیں،جوکسی اچھے ادیب اورمنجھے ہوئے قلم کارہی کے قلم سے ممکن ہے ۔

            اِسی طرح سے سیکڑوں قلم کاروں کی تصنیفات کواپنی قیمتی تقاریظ سے زینت بخشی۔اُن گراں قدر مضامین کامجموعہ ”قطرہ قطرہ سمندر“یا”نگارشاتِ فلاحی“کے نام سے شائع ہوکرمقبول خاص وعام ہوچکاہے ۔ اِس کے علاوہ اوربھی اُن کے قلمی شاہ کارزیورِطبع سے آراستہ ہوئے ہیں،جن کااحاطہ بھول کربھی نہیں کرناہے ۔ کیوں کہ مضمون طوالت کاشکارہو گاجواِس وقت مناسب نہیں ہے۔

لکھنے کودل چاہتاہے:

            مولانامرحوم کے گوشہ ہائے زندگی کے تانے بانے ،روشن کارنامے ہی احقرکے سامنے اِس طرح بکھرے پڑے ہیں کہ سِراہی نہیں مل رہاہے ۔”سمجھ میں کچھ نہیںآ تاکہ چھیڑوں داستاں کیسے“ ۔لکھنے والوں نے بہت کچھ لکھ کردسترخوان آپ کے سامنے لگادیاہے ،وہاں سے جی بھرکر استفادہ کرلیں۔اِس لیے میں اپنے قلم کو روکنے سے پہلے وفات حسرت آیات کی تاریخ ایک بارپھر دہرا دیناچاہتاہوں،تاکہ ذہن میں پختہ ہوجائے ۔

باقیات صالحات:

            انسان کا جب اِس دنیاسے بوریابسترلپیٹ دیاجاتاہے اوریہاں سے رخصتی ہوجاتی ہے تو اُس کے عمل کا رجسٹربھی بند ہوجاتا ہے، مگر ۳/ چیزوں کا ثواب جاری رہتاہے: جیسا کہ حضرت ابو ہریرہ  کی روایت میں موجودہے کہ: ”إِذَا مَاتَ الْإِنْسَانُ اِنْقَطَعَ عَنْہ عَمَلُہ إِلَّا مِنْ ثَلٰثٍ :صَدَقَةٌ جَارِیَةٌ ، وَ عِلْمٌ یُنْتَفَعُ بِہ ، وَ وَلَدٌ صَالِحٌ یَدْعُوْ لَہ“۔ (ترمذی :ج ۱/ص:۲۵۶)

            اِس حدیث پاک کی تشریح کرتے ہوئے علما لکھتے ہیں کہ : انسان جب مرکراِس دنیاسے چلاجاتا ہے تو اُس کے اعمال مثلاً :نماز، روز، زکوة ، حج اوردیگرکارِخیر کا ثواب لکھا جانا بند ہوجاتا ہے،مگر تین چیزیں ایسی ہیں کہ اُن کا ثواب مسلسل پہنچتا رہتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کی شانِ کریمی ورحیمی کہ وہ اپنے بندوں کو ہر اُس فعل پر اجر عطا فرماتے ہیں، جس کا وجود بندے کے اختیار پر موقوف ہے،چاہے بندے نے خود اُس کام کو انجام دیا ہویا وہ اُس کام کے وجود میں آنے کا سبب بنا ہو۔

            اب حدیث مذکورکی روشنی میں دیکھیں توپتاچلے گاکہ حضرت مولانافلاحی مرحوم نے اپنی آخرت کے لیے بخشش ومغفرت اوردرجات کی بلندی کاسامان وافرمقدارمیں چھوڑاہے ۔ اِس لیے کہ آپ جہاں بہت سے مدارس، مساجد اور مکاتب کی تعمیر کا سبب بنے ہیں،وہیں پرجامعہ میں رہ کرسیکڑوں نہیں ؛بل کہ ہزاروں طالبانِ علوم نبوت کی علمی تشنگی بجھا کر دین وشریعت اورملک وملت کی خدمت کے لیے میدان میں اتاراہے۔ جن کاثواب مولانا مرحوم کو مسلسل پہنچتا رہے گا۔نیز پس ماندگان میں آپ کی اولاد عالم ومفتی اور حافظِ قرآنِ کریم بھی ہیں اور الحمد للہ بچیوں میں بھی دین داری اور صلاح وتقویٰ موجود ہے، جو ”وَلَدٌ صَالِحٌ یَدْعُوْ لَہ“کی صاف ستھری تصویریں ہیں۔

یہ زمانہ عجیب ہے:

            لاک ڈاوٴن کازمانہ ہے اورآپ کی طبیعت قدرے ناسازہوگئی ہے ۔گاڑیوں کی آمدورفت پر بھی پہرہ لگا ہواہے ۔کوئی کہیں نہ آسکتاہے اورنہ جاسکتاہے ۔بہرحال انکلیشورکے نزدیک کھروڈمیں واقع”ویل کیئر اسپتال“ میںآ پ کوداخل کیاگیا۔جہاں پرصرف ۲/ ہی دن کی مختصرعلالت کے بعد۵۷/سال ۴/ ماہ ۱۲/دن ؛یعنی اپنی حیاتِ مبارکہ کے ۹۳۷،۲۰/ایام گذار کر ۱۷/شعبان المعظم ۱۴۴۱ھ مطابق ۱۲/ اپریل۲۰۲۰ء کو اتوارکی صبح ۸/ بجے اپنی زندگی کی آخری سانس پوری کر لی اوراچانک اپنے متعلقین،محبین ،متوسلین اورمنتسبین کوروتا بلکتا اور سسکتا چھوڑ کر اِس فانی دنیاسے نکل کرباقی دنیاکی طرف کوچ کرگئے ۔آخرمیں بارگاہ ِ ربانی میں یہی دعاہے کہ

لحد اُن کی بہر سو بقعہٴ انوار ہو جائے

دریچہ اُس میں جنت کا کھلے گل زار ہو جائے

ایں دعاازمن وازجملہ جہاںآ مین باد!