حیاتِ رحیمی کاآخری ہفتہ

حضرت مولاناعبدالرحیم صاحب فلاحی رحمة اللہ علیہ

کے اِس کام کواتفاق کہاجائے یاحضرت ِمرحوم کی کرامت؟

از:حسین احمدمعروفی قاسمی خادم جامعہ اکل کوا

آئے ہوئی اذاں جوگئے توہوئی نماز……اِس عرصہٴ قلیل میںآ ئے چلے گئے

            ابھی صرف ایک بات کی طرف اشارتاًلکھ رہاہوں(باقی آئندہ حسب توفیق لکھا جاتا رہے گا)کہ حضرت مرحوم نے اپنی وفات سے تقریباً ایک ہفتہ(اتوارسے اتوارتک)پہلے سے،طلبائے جامعہ کی تفسیری صلاحیت کوپروان چڑھانے کے لیے ایک سنہری سلسلہ شروع کیا تھا۔

            ہوایہ کہ ایک دن مغرب کی نمازمیں امام صاحب نے پہلی رکعت میں سورہٴ کہف کا آخری رکوع:

            (اِنَّ الَّذِیْنَ آمَنُوْاوَعَمِلُوْاالصّٰلِحٰتِ کَانَتْ لَہُمْ جَنّٰتُ الْفِرْدَوْسِ نُزُلاً․․․․الخ)

اوردوسری رکعت میں سورہٴ مریم کاآخری رکوع:

             (اِنَّ الَّذِیْنَ آمَنُوْا وَ عَمِلُوْا الصّٰلِحٰتِ سَیَجْعَلُ لَہُمُ الرَّحْمٰنُ وُدًّا․․․․الخ)تلاوت فرمایا۔نمازسے فراغت کے بعد حضرت مرحوم نے اعلان فرمایا کہ ”جوطلبا ان دونوںآ یتوں کی تفسیرلکھ کر لائیں گے توانہیں انعام سے نوازاجائے گا“چناں چہ طلبہٴ عزیزنے اپنی اپنی بساط کے مطابق طبع آزمائی کی ،کچھ طلبا منتہی تھے اوربہت سے ابتدائی درجات کے طلبا تھے، بل کہ اکثریت انہیں کی تھی۔

            الغرض!مہمانان رسول؛ان کی اس چاہت کوبروئے کارلانے میں کوششیں کرنے لگے۔اورحسب اعلان انعامات سے نوازے گئے۔ پھرکیاتھاحضرت مرحوم کوطلباکی اس دل چسپی سے بہت خوشی ہوئی اوراس طرح سے اُنہیں ایک حسین مشغلہ مل گیا۔کیوں کہ حضرت مرحوم میں چھوٹوں کوآگے بڑھانے،بڑابنانے اوران میں خوداعتمادی پیداکرنے کی ایک ایسی عادت تھی جس کا بارباراظہار ہوتے ہوئے،سیکڑوں لوگوں نے دیکھا اور پرکھاہے۔

            بہرحال! پھردوسرے دن امام صاحب نے مغرب کی نمازمیں”وَسَارِعُوْآاِلٰی مَغْفِرَةٍمِّنْ رَّبِّکُمْ وَجَنَّةٍعَرْضُہَاالسَّمٰواتُ وَالْاَرْضُ اُعِدَّتْ لِلْمُتَّقِیْنْo“تلاوت فرمائی۔ توحضرت مرحوم نے اعلان فرمایاکہ اس آیت کی اوراس سے اگلی آیتوں کی تفسیرلکھ کر لائیں اوراپنااستحقاقی انعام بھی حاصل کریں۔

            پھرتیسرے دن امام صاحب نے ”اِنَّ لِلْمُتَّقِیْنَ مَفَازًاoحَدَاِئقَ وَاَعْنَابًا․․․․․الخ“تلاوت فرمائی۔توحضرت کی طرف سے لوازمات کے ساتھ تفسیرلکھنے کااعلان ہوااوریہ کہاگیاکہ”آوٴجنت کی سیر کریں! … اور…اللہ تعالیٰ ہمیں دوزخ سے بچائے“کے عنوان سے لکھاجائے۔

            پھرچوتھے دن توعجیب ہی ہوگیا۔یوں اعلان کیاگیاکہ”اہدناالصراط المستقیم،سورہٴ قریش اورسورہٴ نصرکی تفسیرلکھی جائے“۔

            اگرغورکیاجائے توکئی باتیں سمجھی جاسکتی ہیں،مثلاً:

            (۱)…پہلے دن کے اعلان میں جنت کاتذکرہ ہے ۔

            (۲)…اسی طرح مومنین باعمل کی محبوبیت کا،دنیامیں اللہ تعالیٰ کی طرف سے اعلان ہونے کا ذکر ہے۔

            (۳)…ایسے ہی دوسرے دن کے اعلان میں جنت کی صفات کاتذکرہ ہے۔

            (۴)…تیسرے دن کااعلان ”آوٴجنت کی سیرکریں!“نے توبتلاہی دیاکہ اب میں جنت کوجانے والاہوں۔آپ لوگ گلشن ِجامعہ میں اپنے کاموں میں مصروف رہیں گے اورمیں اپنے رب کی جنت میں سیرکے لیے چلاجاوٴں گا۔

            (۵)…چوتھے اعلان نے توسارامعاملہ ہی صاف کردیاکہ زندگی بھردعاکرتے رہے ”اہدنا الصراط المستقیمoصراط الذین انعمت علیہم “آج اللہ نے سن لی اورمجھے منعم علیہم میں شامل فرما لیا۔

            (۶)…پھرسورہٴ قریش کی تفسیرسے ایک دعوت دے گئے کہ”فلیعبدوارب ہذاالبیتoالذی اطعمہم من جوعo وآمنہم من خوف“آج کے اس لاک ڈاوٴن کے زمانے میں تین کام خاص طور سے کرناہے:

            (۱)اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع۔(۲)اس بات کاخیال رکھناکہ اللہ تعالیٰ کا کوئی بھی بندہ بھوکا نہ سوئے۔(۳)اگرمومنین کو کوئی ڈرائے تو بالکل نہیں ڈرنا،اگرڈرناہے توصرف اللہ وحدہ لاشریک لہ  کی ذات سے،وہی کارسازجہاں ہے اوروہی خوف سے امن وامان بخشے گا۔

            (۷)…پھرسورہٴ نصر نے توپیغام ہی دے دیاکہ ان حالات حاضرہ میں اللہ تعالیٰ کی تقدیس وتحمید میں منہمک ہوجاوٴ اور استغفا ر میں لگ جاوٴ ۔یقینااللہ تعالیٰ بہت بخشنے والے ہیں۔یہ ساری تکلیفات اور آزمائشیں ختم ہوکرہی رہیں گی بس ہمیں رجوع الی اللہ کی ضرورت ہے۔

            چلتے چلتے یہ بھی بتلادوں کہ حضرت مرحوم کی درجنوں کتابیں زیرترتیب ہیں(جواپنے اپنے وقت سے مفتی محمدریحان سلمہ کے زیرنگرانی ان شاء اللہ تعالیٰ آتی رہیں گی۔)تاہم دوکتاب انہوں نے ابھی شروع کی تھیں ان میں سے ایک توبالکل تکمیل کے مرحلہ میں ہے،یہ کتاب دورہ ٴ حدیث کی کتب صحاح ستہ اور دیگر کتابوں سے متعلق ہے۔

            اس کتاب کاایک خوش گوارپہلویہ ہے کہ اولاً مولانا نے ”امورِسبعہ مایتعلق بالمصنِّف ومایتعلق بالمصنَّف“کے نام سے یہ کام شروع کیاتھا۔پھراچانک ایک دن فرمانے لگے کہ”قاری صاحب!“(حسین احمدمعروفی)اس کتاب میں ایک چیز کا اوراضافہ کرکے کتاب کانام ”الابواب الثمانیة“رکھ دیاجائے ۔کیوں کہ جنت کے آٹھ دروازے ہیں اوریہ امور؛احادیث اورمحدثین سے متعلق ہیں،لہٰذاایک منا سبت ہوجائے گی،کیوں کہ خدمت ِحدیث کاصلہ جنت ہی ہے۔مجھے کیامعلوم تھاکہ یہ جنت کے دروازے دیکھنے اور ان میں داخل ہونے کے لیے جارہے ہیں۔رحمة اللّٰہ علیہ رحمة واسعة۔

آسماں تیری لحد پہ شبنم افشانی کرے

سبزہٴ نورستہ اس گھر کی نگہبانی کرے

صرف اِتنا ہی نہیں میت اٹھانے تک تجھے

اہل دل رویا کریں گے اک زمانے تک تجھے