مفتی عبد الرشید اشاعتی استاذ جامعہ اکل کوا
اسلام کی آمد سے قبل لوگ جاہلیت کے شکار تھے اور وہ دور؛ دورِ جاہلیت کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ جس کے عناصرمیں جہالت و لاعلمی، بے ایمانی وبے یقینی، فسق وفجور، بے حیائی ، تہذیب و شائستگی سے بُعد و دوری ، اخلاقی اقدار کی گراوٹ وکم زوری ، مادیت پرستی ا وردنیا طلبی وغیرہ چیزیں شامل وداخل تھیں؛ جن کے نتیجہ میں پورا معاشرہ انتہائی خطرناک قسم کے جرائم ورذائل کا مرتکب بنا ہوا تھا۔ اور جرائم بھی صرف انفرادی حیثیت کے نہیں، بل کہ اجتماعی قسم کے تھے۔ ایک طرف پورا سماج اپنے خالق ومالک سے بے تعلقی ودوری اورغفلت وناسپاسی کا شکار تھا تو دوسری جانب انسانیت اصول اورشرافت کے اقدار سے بھی کوسوں دور ہوچکا تھا۔قتل و غارت گری، عداوت ودشمنی، قطعِ رحمی وقساوتِ قلبی اور نزاع ولڑائی وغیرہ رذائل وجرائم ان لوگوں کی فطرت ِثانیہ بن چکے تھے۔ یہی وہ امور ہیں، جن کے تسلط وغلبہ نے اُس دور و زمانے کو جاہلیت کا دور بنادیا تھا۔ مگر موجودہ زمانہ جو ترقیات و تطورات کا زمانہ کہلاتا ہے ، سائنسی وعصری علوم کی بہتات کا زمانہ کہا جاتاہے اور مختلف قسم کی نئی نئی ایجادات ومصنوعات کی ریل پیل کا دور مانا جاتا ہے ، اس میں غور کیا جائے تو جاہلی دور کے وہ سارے عناصر یہاں بھی کار فرما نظر آتے ہیں۔ اور پوری شدت و قوت کے ساتھ اپنا کام کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ کہنے کو تو یہ علم وعقل کی روشنی کا دور ہے ، مگر جہالت و ضلالت کی تاریکیاں یہاں بھی پورے طورپر اپنا اڈہ جمائے ہوئے ہیں۔
اس سے زیادہ قابل ِافسوس وحیرت انگیز امر یہ ہے کہ امت ِاسلامیہ؛ جس کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے امت ِوسط اور امت ِخیر کے بلند القاب کے ساتھ ملقب کیا گیاتھا اور جس کی بعثت ہی خیر وبھلائی کی تبلیغ ودعوت، معروفات کی نشر واشاعت اورمنکرات کے ازالے اور روک تھام کے لیے ہوئی تھی اور جس کے حق میں یہ کہا گیا تھاکہ:
﴿کُنْتُمْ خَیْرَ اُمَّةٍ اُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَأمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَ تَنْہَوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِ وَتُوٴْمِنُوْنَ بِاللّٰہِ ﴾(آل عمران:۱۱۰)
ترجمہ: ” تم بہترین امت ہو، جس کو لوگوں کے نفع کے لیے برپا کیا گیا ہے ، تم اچھی باتوں کا حکم کرتے اوربری باتوں سے روکتے ہو اور خود بھی اللہ پر ایمان لاتے ہو۔“
اس حقیقت پر مبنی امر پر یقین و اعتراف کے باوجود آج اس امت کا ایک بڑا طبقہ جاہلیت وجہالت کی ان وادیوں میں بھٹکتا اور گمراہی وضلالت کے گھٹا ٹوپ اندھیروں میں ٹھوکریں کھاتا ہوا دکھائی دیتا ہے اور ان کی زندگیوں میں وہی جاہلی عناصر رچ بس گئے ہیں ؛ وہی بے ایمانی وبے یقینی ، وہی خدا سے بُعد و دوری ، وہی مادیت پرستی ودنیا طلبی ، وہی اخلاقی گراوٹ وکم زوری ، وہی فحش وبے حیائی ، وہی ظلم وزیادتی ، وہی عدوان و سرکشی ، وہی بغض و دشمنی اوروہی قتل وغارت گری یہاں بھی نظر آتی ہے ، جو وہاں موجود تھی۔
اس صورت ِحال کی عکاسی کسی عربی شاعر کا یہ شعر پوری طرح سے کررہا ہے
لِمِثْلِ ہٰذَا یَذُوْبُ الْقَلْبُ مِنْ کَمَدٍ
اِنْ کَانَ فِیْ الْقَلْبِ اِسْلَامٌ وَاِیْمَانٌ
اگر دل میں اسلام و ایمان کا کوئی بھی حصہ موجودہو، تواس جیسی صورت ِحال پر دل غم کے مارے پگھلنے لگتا ہے اور اضطراب وبے چینی کے جاں گسل حالات میں ایسا معلوم ہوتاہے کہ کلیجہ منہ کو آجائے گا۔چناں چہ جائزہ لیجیے تو معلوم ہوگا کہ عقائد وایمانیات کا با ب ہو یا اعمال وعبادات کا ، معاشرت کا باب ہو یا معاملات کا ، اخلاقیات کا باب ہو یا سیاسیات کا ، ہرباب میں ہم اسلامی رہ نمائی وہدایت ، اس کی تعلیم و تلقین اور اس کے احکام وفرامین سے دور ہوچکے ہیں یا دور ہوتے چلے جارہے ہیں؛ بل کہ اب بہت سے لوگ کسی کسی چیز میں مکمل طورپر یہودی فلسفے کو اپناتے چلے جارہے ہیں ، تو کسی میں نصاریٰ کو قائد اور آئیڈیل مانتے ہیں ، کسی چیز میں امریکی نظریات کا سہارا لیتے ہیں ، تو کسی میں ہندومت کا بڑے شوق سے حوالہ لیتے ہیں۔ بالفاظ دیگر یوں کہیے کہ ہمارے اندر سے حاسبہٴ مذہبی مفقود ہوچکاہے۔
دین طلبی کی جگہ بیزاری نے لے لی ہے، روحانیت کا ہم نے مادیت سے تبادلہ کرلیا ہے ، ذوق ِخدا طلبی نے دنیا طلبی کے لیے جگہ خالی کردی ہے،فکرِ آخرت پردنیا غالب آچکی ہے ؛ اس طرح موجودہ مسلم معاشرت کی بنیاد خالص اسلام کے بجائے ایسا لگتا ہے کہ مختلف افکار ونظریات ، جدید رجحانات وخیالات اورجاہلانہ رسومات ورواجات کا ایک معجونِ مرکب بن گئی ہے۔ امت کا جو پرانا طبقہ ہے ، وہ تو رسم ورواج ، بدعات ولغویات کے چکرمیں پڑا ہوا ہے، جب کہ نئے ذہن کے لوگ جدت پسند نئے افکار ورجحانات کے پیچھے پڑے ہوئے ہیں۔
ایمان و عقیدے میں بگاڑ:
ان امورمیں سب سے قابل ِلحاظ عقائد وایمانیات کا باب ہے ؛کیوں کہ عقائد وایمان پر اسلام کی عمارت کھڑی ہے۔ اگر عقیدہ صحیح ومضبوط ہے تو اعمال و عبادات بھی قابل ِاعتبار ہوتے ہیں؛ ورنہ ان کا بھی کوئی اعتبار نہیں ہوتا؛لیکن جب ہم اس پر نظر ڈالتے ہیں تو لگتا ہے کہ بہت سے مسلمان کہلانے والے توحید وشرک کے اس فرق وامتیاز سے واقف نہیں، جو اسلام کی لطیف وعمیق تعلیم نے پیش کیا ہے۔ اس لیے بہت سے اہل ِاسلام توحید سے دور اور شرک سے بہت قریب ہوچکے ہیں؛ بل کہ شرک ِجلی کے منحوس اثرات سے بھی بعض لوگ پوری طرح متاثر نظر آتے ہیں۔ خصوصاً عورتوں میں ایمان کی کم زوری ، اعتماد علی اللہ وتوکل علی اللہ کا فقدان ، مظاہر ومقابر پرستی کا رجحان حیرت انگیز طریقہ پراپنے عروج پر پہنچا ہوا ہے۔
”توحید “اسلام کا اساسی عقیدہ :
اس امت کی بنیاد واساس اس عقیدہٴ توحید پرقائم ہے ، جس میں شرک کے نام کی بھی گنجائش نہیں۔ وہ عقیدہٴ توحید جو بڑا حساس ونازک ہے ، جس نے دیگر مذاہب کے لحاظ سے اس سلسلے میں ایک امتیازی تعلیم پیش کی ہے۔
عقیدے کی جامع تعریف علامہ حافظ ابن احمد حکمی نے بیان کی ہے۔ وہ اللہ کے واحد وفرد ہونے کی تشریح یوں کرتے ہیں :
الأحد الفرد: الذی لا ضد لہ ، ولاند لہ ، ولا شریک لہ فی الٰہیتہ، وربوبیتہ، ولا متصرف معہ فی ذرة من ملکوتہ، ولا شبیہة لہ، ولا نظیر لہ فی شئ من اسمائہ و صفاتہ ۔
(معارج الوصول: ۱/۸۸)
اس بیان سے توحید کی شرعی تعریف بالکل واضح ہوگئی۔ جس کا خلاصہ یہی ہے کہ توحید یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنی ذات میں بھی اور صفات میں بھی ، اپنے ناموں میں بھی اورکاموں میں بھی ﴿لَیْسَ کَمِثْلِہ شَئْ﴾کا مصداق اورہر لحاظ سے ”وَحْدَہُ لَا شَرِیْکَ لَہ “ ہے۔
اس تعریف کو پیش ِنظر رکھ کر جب امت کے لوگوں کا جائزہ لیا جاتا ہے ، تو بہت سے لوگوں میں اس عقیدے کے خلاف غالیانہ رجحانات ومشرکانہ خیالات، افعال واعمال اور طور طریقے ملتے ہیں۔
(یہ تو ایمان و عقیدے کے سلسلے میں امت کی موجودہ صورت ِحال ہم نے دیکھی۔ اب ذرا عملی و اخلاقی احوال کی جانب بھی نظر کیجیے! آپ کو ایک حیرت انگیز ناقابل ِتصور صورت حال کا سامنا کرنا پڑے گا۔)
بدعات ورسومات کی گرم بازاری :
اس میں سب سے پہلے تو بدعات و رسومات کا ایک ناقابل ِفہم لمبا چوڑا سلسلہ ہے، جو ہر باب میں داخل کیا گیا ہے ۔ کیا نماز ، کیا روزہ، کیا زکوٰة وحج، کیا شادی بیاہ ، کیا غمی کیا پیدائش ، کیا موت۔ پھر ہر مہینے کی الگ الگ بدعات ورسومات طے کی گئی ہیں۔
لوگوں کے نزدیک ان بدعات ورسومات کی اس قدر اہمیت ہے کہ سنت وشریعت کو ترک کردینا ان لوگوں کو گوارا ہوتا ہے ؛ لیکن کیامجال ہے کہ یہ بدعات ورسومات ترک ہوجائیں؟ حتیٰ کہ اہم ترین فرض ؛عبادات بھی ان کے مقابلے میں پامال ہوجاتی ہیں۔
عبادات ِشرعیہ میں ہماری کوتاہی:
رہی بات عباداتِ شرعیہ جیسے نماز ، روزہ ، زکوٰة اور حج وغیرہ کے پابندی کی تو ایک بہت بڑی تعداد مسلمانوں کی وہ ہے ، جو سرے سے ان عبادات کو چھوڑے ہوئے ہے ۔ نمازی بہ مشکل پانچ تا سات فیصد ہوں گے،اس طرح دیگر عبادات کا تناسب بھی بہت کم ہے ۔پھر جو ان عبادات کو انجام دینے والے ہیں ، ان میں سے اکثریت ایسے لوگوں کی ہے ، جو ان عبادات کے صحیح طریقہ و ترکیب ، ان کے شرائط وفرائض ، ان کے سنن وآداب سے واقفیت نہیں رکھتے یا پوری واقفیت نہیں رکھتے، جس کی بنیاد پران کی بجا آوری کامل اور صحیح طور پر نہیں ہوپاتی، مگر ان کو اس کاکوئی احساس نہیں ہے۔
بہت بڑی تعداد ایسے لوگوں کی ہے، جنہیں قرآن کریم پڑھنا نہیں آتا اور جس کو آتا ہے ان میں اکثریت ان کی ہے ، جنہیں صحیح انداز سے تجوید کے ساتھ پڑھنا نہیں آتا؛ مگر اس کا کسی کو احساس تک نہیں ہوتا۔
معاملات میں خرابیاں:
پھرمعاملات کی دنیا میں قدم رکھیں توجو افراط و تفریط اورجو بے اصولی و بے اعتدالی اِس میں پائی جاتی ہے ، وہ نہ صرف اہل اسلام کے حق میں تشویش کا باعث ہے بل کہ اس لحاظ سے بھی سنگین وخطرناک ہے کہ یہ صورتِ حال غیر مسلم اقوام وملل کو اسلام کے بارے میں منفی تصورات قائم کرنے پر ابھارتی وآمادہ کرتی ہے۔ چناں چہ جھوٹ ، مکرو فریب ، دھوکہ بازی وچال بازی، ناپ تول میں کمی ، وعدہ خلافی اور اشیا میں ملاوٹ وغیرہ ناخو ش گوار وانتہائی مکروہ ونازیبا افعال مسلمانوں میں رائج ہوچکے ہیں۔ پھرحلال و حرام میں امتیاز سے لاپرواہی وغفلت ، سودی لین دین میں ابتلا ، مظلوم وضعیف افراد پر ظلم وتشدد کے ذریعہ یا جھوٹی دستاویزات کے ذریعہ ان کا مال چھین لینا، دبالینا ، لڑکیوں اور بہنوں کو وراثت سے محروم کردینا بھی مسلم معاشرے میں کوئی معیوب بات نہیں رہی ؛بل کہ بہت سارے لوگ ان باتوں کو حق سمجھے ہوئے ہیں ، یا یہ خیال کیے ہوئے ہیں کہ معاملات ومعاشرت میں ہم پر کو ئی پابندی نہیں۔ کمائی کے لیے اور اپنی دنیا بنانے کے لیے جو راستہ ، جو حیلہ ، جو تدبیر چاہے اختیار کرسکتے ہیں اور مولوی حضرات کا اس سلسلے میں متنبہ کرنا ان کو عجیب لگتا ہے ، یہاں تک کہ بعض مساجد کے ذمہ داروں کے بارے میں یہ معلوم ہوا کہ انہوں نے سود کی حرمت پر بیان کرنے پر خطیب کو خطابت سے روک دیا؛ گویا یہ باتیں کہنے اوربیان کرنے کی نہیں ہیں۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ، یہ حضرات وہ بات بزبان ِحال کہنا چاہتے ہیں ،جو قوم ِشعیب علیہ السلام نے بزبان ِقال کہی تھی؛ جس کا ذکر قرآن نے ان الفاظ میں کیا ہے کہ:
﴿قَالُوْا یٰشُعَیْبُ اَصَلٰوتُکَ تَاْمُرُکَ اَنْ نَتْرُکَ مَا یَعْبُدُ آبَائُنَا اَوْ اَنْ نَّفْعَلَ فِیْ اَمْوَالِنَا مَا نَشٰوٴُا اِنَّکَ لاََنْتَ الْحَلِیْمُ الرَّشِیْدُ﴾(سورة ہود:۸۷)
ترجمہ: ” انہوں نے کہا اے شعیب! کیا تمہاری دینداری تمہیں اس بات کا حکم دیتی ہے کہ ہم ان چیزوں کی عبادت چھوڑ دیں، جن کو ہمارے آبا ؤو اجداد پوجتے تھے اور یہ کہ ہم اپنے مالوں میں ہماری مرضی کے مطابق تصرف نہ کریں ؟ واقعی تم بڑے عقل مند اوردین پر چلنے والے ہو ۔“
مفسر ِقرآن حضرت مولانا مفتی محمد شفیع صاحب اس آیت ِکریمہ کے تحت لکھتے ہیں کہ اس کلام سے معلوم ہوا کہ یہ لوگ بھی یوں سمجھتے تھے کہ دین و شریعت کا کام صرف عبادت تک محدود ہے ۔ معاملات میں اس کا کیا دخل ہے ؟ ہر شخص اپنے مال میں جس طرح چاہے تصرف کرے ، اس پر پابندی لگانا دین کا کام نہیں۔ جیسے اس زمانے میں بھی بہت سے بے سمجھ لوگ ایسا خیال کرتے ہیں۔
(معارف القرآن: ۴/۶۶۳)
اورحضرت مفتی محمد شفیع صاحب کے صاحب زادے شیخ الاسلام حضرت مفتی محمد تقی عثمانی صاحب اپنے خطبات ” اسلام اورہماری زندگی “ میں ایک جگہ فرماتے ہیں کہ:
” حضرت شعیب علیہ السلام کی قوم نے کہا تھا کہ ﴿ اَصَلٰوتُکَ تَاْمُرُکَ اَنْ نَتْرُکَ مَا یَعْبُدُ آبَائُنَا اَوْ اَنْ نَّفْعَلَ فِیْ اَمْوَالِنَا مَا نَشٰوٴُا ﴾
(سورة ہود:۸۷)
یعنی یہ جو ہمیں منع کررہے ہیں کہ تم کم مت ناپو، کم مت تولو، انصاف سے لو، حلال وحرام کی فکر کرو، تو یہ آپ نے ہمارے معاشی مسائل میں کہاں سے دخل اندازی شروع کردی؟ تم اگر نماز پڑھنا چاہو تو اپنے گھر جاکرنماز پڑھو۔ کیا تمہاری نماز تمہیں اس بات کا حکم دیتی ہے کہ ہم ان معبودوں کو چھوڑدیں ، جن کی عبادت ہمارے آباو اجداد کرتے تھے؟یا ہمارا جو مال ہے ، اس میں ہم جو چاہیں کریں؟۔ حقیقت میں یہ سرمایہ دارانہ ذہنیت ہے کہ یہ مال ہمارا ہے ، یہ دولت ہماری ہے ، اس پر ہمارا سکہ چلے گا۔ تصرف ہمارا ہے ، ہم جس طرح چاہیں گے کریں گے، جس طرح چاہیں گے کمائیں گے اورجس طرح چاہیں گے خرچ کریں گے ۔ قو م شعیب علیہ السلام کی یہی ذہنیت تھی ۔
الغرض ! ایسا لگتا ہے کہ ان کے نزدیک معاملات وتجارات ، معاشیات واقتصادیات کا باب اسلام کے رہ نما اصول کا سر ے سے محتاج ہی نہیں ؛ جب کہ اسلام اپنے بارے میں قرآن کے ذریعہ یہ اعلان پوری صفائی اور پوری توانائی کے ساتھ کرتا ہے کہ ﴿اَلْیَوْمَ اَکْمَلْتُ لَکُمْ دِیْنَکُمْ ﴾” آج میں نے تمہارے لیے دین ِاسلام کو مکمل کردیا۔“
جب اسلام کو کامل ومکمل کردیا گیا اور یہ اپنی کاملیت واکملیت کے ساتھ منصہ شہود پر جلوہ نما ہے ، تو آخر اس کا کیا مطلب ہوسکتا ہے کہ معاملات اور اقتصادیات میں ہم آزاد ہیں ؟ اور ہمیں اسلام کے رہ نما اصولوں کی اس باب میں کوئی حاجت وضرورت نہیں؟
باب معاشرت واخلاق اور ہم :
رہا معاشرت واخلاق کاباب ، تو اس کو بھی اسلام کی ہدایت وتعلیم سے ہم نے آزاد کر رکھا ہے ۔ جب کہ اس سلسلے میں اسلام ہماری پوری طرح رہ نمائی کرتا ہے ۔ وہ معاشرتی زندگی میں استواری و سدھار کے لیے معاشرے میں مختلف طبقات وافراد کے آپسی حقوق وآداب سکھا تا ہے ۔ ماں باپ کے ، اولاد کے، بیوی اور شوہر کے، رشتے داروں اور پڑوسیوں کے، دوستوں اور شناساوٴں کے، بھائی بہنوں کے اور ان کے سب حقوق وآداب کی ایسی بلندمعیار تعلیم وہدایت دیتا ہے کہ اس سے بلند و بہتر ، اس سے اعلیٰ وافضل ہدایت و تعلیم کا کوئی امکان نہیں ، لیکن ہم نے ان سارے حقوق وآداب کو یکسر فراموش کررکھا ہے۔
ہماری تہذیب وتمدن:
پھر ذرا ہم اپنی اختیار کردہ تہذیب وتمدن پرنظر دوڑاتے چلیں تو پتا چلے گا کہ یا تو ہم اپنے آپ کو ہر قسم کی تہذیب وشائستگی اور اصول ِمعاشرت سے آزاد وبے پرواہ بنائے ہوئے ہیں اور اسے دیکھنے والے دیکھ کر ہم ہی سے نہیں ، اسلام سے بھی دور ہوجاتے ہیں یا پھر ہم نے اسلام کے باغیوں اور مخالفوں ، یہودو نصاریٰ ، ہنود و مجوس کی تہذیب ومعاشرت اپنالی ہے۔ وضع قطع ، لباس و پوشاک ، طرز وانداز ، بول چال ، لب و لہجہ ، نشست وبرخاست ، کھانا اور پینا غرض ہر چیز میں کفار و مشرکین اوریہودو نصاریٰ کا طریقہ ہم کو پسند ہے۔
بہت سے پڑھے لکھے مسلم گھرانوں میں بے حیائی وبے پردگی ، مردوں اور عورتوں کا اختلاط ، ایک فیشن اورقابل ِفخر بات سمجھی جاتی ہے ۔ اس کے بالمقابل شرم و حیا اور حجاب کو ایک معیوب رواج وفرسودہ طریقہ خیال کیا جاتا ہے۔ا ن کی لڑکیاں بے حجابانہ گھومتی پھرتی ہیں، غیر لڑکوں سے تعلقات قائم کرتی ہیں ؛ بل کہ ان کو اپنے گھروں میں لاتی ہیں ، ان کے ساتھ سیر و تفریح کرتی ہیں، کبھی اسکولوں وکالجوں میں ، کبھی اپنے دفتروں میں اور کبھی کسی تقریب یا اور کسی موقعہ سے یہ تعلقات بلا کسی ادنیٰ کراہت کے جاری وساری رہتے ہیں۔مگر ان گھرانوں میں یہ کوئی معیوب بات ہی نہیں سمجھی جاتی ؛ ہاں الٹا قابل ِفخر اورروشن خیالی کی دلیل وعلامت سمجھی جاتی ہے۔
غرض یہ ایک بڑے طبقے کو اسلامی طریقہ ، اسلامی آداب ، اسلامی اصول ،فرسودہ یا موجودہ دور کے لحاظ سے نعوذ باللہ معیوب نظر آتے ہیں۔ کوئی کہتا ہے کہ اس لباس کی کیا ضرورت ہے؟ کوئی کہتا ہے کہ ڈاڑھی نہ رکھا تو کیا مسلمان نہیں ہوسکتا؟ کوئی کہتا ہے کہ حجاب عورتوں کی ترقی میں رکاوٹ ہے ۔ کوئی اس کو دقیا نوسیت کی علامت قرار دیتا ہے ۔ کوئی پوچھتا ہے کہ جدید طریقہ اور طرز وانداز کو اختیار کرنے میں کیا خرابی ہے ؟
مگر سوالات کرنے والے کبھی اس پر غور نہیں کرتے کہ آخر اسلامی طرز وانداز ، اسلامی آداب واصول ، اسلامی لباس وپوشاک اوراسلامی وضع قطع میں آخر کون سی خرابی تھی، جس کی وجہ سے یہ ان کو نامانوس ومعیوب اور ناقابل ِعمل دکھائی دیتے ہیں۔ اوران لوگوں نے اس سے توبہ کرلی ہے؟
غرض یہ ہے کہ ہراعتبار سے ہم میں نقص وعیب ہے ،کمی وکوتاہی ہے ، غفلت وتکاسل ہے اورحق سے اعراض ورو گردانی ہے ، کہنا چاہیے کہ جاہلیت وجہالت کا مکمل تسلط ہے۔
اللہ کرے کہ ہمارے معاشرے میں رواج پذیر جاہلانہ تصورات ونظریات سے ہم توبہ کریں اور دور ہوں اوراس سچے وپاکیزہ اسلامی نظام پر جینے ومرنے کی ہمت کریں ۔ آمین!
مزید تفصیل کے لیے” امت میں اعتقادی و عملی بگاڑ اور علمائے امت کی ذمہ داری“ کا مطالعہ کریں۔