دوسری قسط:
مولانا الطاف حسین اشاعتی کشمیری/ استاذ جامعہ اکل کوا
سنن ِالٰہیہ سنت ِمصطفویہ میں:
نبی ٴکریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جو سب سے بڑے اور عظیم ترین مفسرِ قرآن اور آئین ِخداوندی کے سب سے بڑے شارح تھے۔ آپ نے بھی زندگی بھر اپنے قول وفعل اورعمل و کردار سے واضح فرمایا کہ امت کو سنن الٰہیہ کے ساتھ کیسے تعامل کرنا چاہیے، خود تعامل کرکے ہمارے سامنے ان کی عملی تشریح اور توضیح پیش کر دی۔
ایسی بے شمار احادیثِ طیبہ ہیں ، جن میں سنن ِالٰہیہ کو بیان فرمایا گیا ہے۔ حدیث ابن عباس رضی اللہ عنہ میں بہت سی سنن الٰہیہ کو چند مختصر اور جامع کلمات میں ادا فرمایا گیا ہے۔ ان شاء اللہ آگے چل کر سنن کی توضیح میں انہیں آپ کے سامنے رکھا جائے گا، یہاں اختصار کے پیش نظر ایک مثال پر اکتفا کرتا ہوں۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک اونٹنی تھی، جس کا نام ”العَضْباءُ“ تھا۔ وہ اتنی سبک رفتار تھی کہ اس سے آگے کوئی جانور نہیں بڑھ سکتا تھا۔ ایک مرتبہ ایک دیہاتی شخص اپنا نوجوان اونٹ لایا تو وہ ”عَضْبا“ سے سبقت لے گیا، مسلمانوں پر یہ بات بہت ناگوار گزری، اس موقع پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک سنت اللہ کو بتلاتے ہوئے فرمایا:
”إن حقًا علی اللہِ عزَّ وجلَّ، أن لا یَرْتَفِعَ شیءٌ مِن الدنیا إلا وضعَہ“
(ابو داؤد)
اللہ تعالی کا حق ہے کہ دنیا میں جس کسی چیز کو بھی بلندی ملتی ہے تو پھر اسے پستی اور زوال پذیر بھی کرتا ہے۔
اس حدیث کی شرح میں علما لکھتے ہیں:
” مِن سُنَّةِ اللہِ فی خَلْقِہ أنْ بعْدَ الصُّعودِ یَکونُ الہُبوطُ، فلا یَدومُ الحالُ فی الدُّنیا لأحَدٍ۔“
مخلوق کے لیے یہ اللہ کی سنت ہے کہ بلندی کے بعد پستی آتی ہے، دنیا میں ہمیشہ کسی بھی چیز کی ایک حالت نہیں رہتی۔
الحاصل سنتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں بھی بڑی شرح و بسط کے ساتھ سنن ِالہیہ کو واضح کیا گیا ہے۔
سنن الٰہیہ علمائے لغت اور تفسیر کی میز پر:
لفظ ِسنت اور اس کے مشتقات قرآن کریم میں گیارہ آیات میں سولہ مرتبہ آئے ہیں۔
ابن فارس رحمہ اللہ ”مقاییس اللغة“ میں لکھتے ہیں کہ سین اور نون کا مادہ کسی چیز کے سہولت کے ساتھ جاری ہونے اور مسلسل چلتے رہنے کے لیے استعمال ہوتا۔
”سَنَنْتُ المَاءَ“ کا مطلب ہے میں نے پانی کو بہنے دیا، اسے نہیں روکا۔
ابن منظور رحمہ اللہ لکھتے ہیں: کہ ”سنت اللہ“ سے مراد اس کے احکام، امر نہی اور وہ طریقہ ہے، جو اس نے اپنے بندوں کے لیے جاری کیا ہے۔
امام راغب رحمہ اللہ لکھتے ہیں: ”سنة“ سے مراد قابل اتباع طریقہ ہے۔
مولانا وحید الزماں قاسمی کیرانوی رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
”سَنَّ اللّٰہُ سُنَّةً“: اللہ کا کوئی واضح اور پختہ راستہ بتانا۔
تو لغت کے اعتبار سے سنت کے معنی ہوں گے ”الطَّرِیْقَةُ الْمُتَّبَعَة“ قابل اتباع طریقہ، عادت اور سیرت۔
اصطلاحی معنی کے اعتبار سے اس کی مختلف تعریفات کی گئی ہیں۔
علامہ طاہر بن عاشور رحمہ اللہ اس آیت کریمہ کے تحت لکھتے ہیں:
﴿ سُنَّةَ اللّٰہِ الََّتِی قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلُ وَلَنْ تَجِدَ لِسُنَّةِ اللّٰہِ تَبْدِیلًا﴾ (الفتح: 23)
ترجمہ: (یہی) خدا کی عادت ہے جو پہلے سے چلی آتی ہے اور تم خدا کی عادت کبھی بدلتی نہ دیکھو گے۔
والسنة:” الطریقة والعادة“
والمعنی:سَنَّ اللہُ ذلک سُنةً، أی جعلہ عادة لہ ینصر المؤمنین علی الکافرین إذا کانت نیةُ المؤمنین نصرَ دینِ اللہِ۔
سنة سے مراد طریقہ اور عادت ہے:
مطلب یہ کہ اللہ نے اسے سنت ٹھہرایا ہے، یعنی اپنی عادت بنا لی ہے کہ وہ کافروں کے مقابلے میں مومنین کی نصرت و مدد فرمائے گا، بشرطیکہ مومنین کی نیت اللہ کے دین کی نصرت اور مدد کی ہو۔
علامہ شبیر احمد عثمانی رحمہ اللہ اس آیت کے تحت لکھتے ہیں:
﴿ قَدْ خَلَتْ مِن قَبْلِکُمْ سُنَنٌ فَسِیرُوا فِی الْأَرْضِ فَانظُرُوا کَیْفَ کَانَ عَاقِبَةُ الْمُکَذِّبِینَ﴾
(آل عمران:137)
ترجمہ: ”تم لوگوں سے پہلے بھی بہت سے واقعات گزر چکے ہیں تو تم زمین میں سیر کر کے دیکھ لو کہ جھٹلانے والوں کا کیسا انجام ہوا۔“
یعنی تم سے پہلے بہت قومیں اور ملتیں گزر چکیں، بڑے بڑے واقعات پیش آچکے، خدا تعالیٰ کی عادت بھی بار بار معلوم کرا دی گئی کہ ان میں سے جنہوں نے انبیا علیہم السلام کی عداوت اور حق کی تکذیب پر کمر باندھی اور خدا اور رسول کی تصدیق و اطاعت سے منہ پھیر کر حرام خوری اور ظلم و عصیان پر اصرار کرتے رہے، ان کا کیسا برا انجام ہوا؟ یقین نہ ہو تو زمین میں چل پھر کر ان کی تباہی کے آثار دیکھ لو، جو آج بھی تمہارے ملک کے قریب موجود ہیں، ان واقعات میں غور کرنے سے معرکہٴ احد کے دونوں حریفوں کو سبق لینا چاہیے، یعنی مشرکین جو پیغمبر ِ خدا کی عداوت میں حق کو کچلنے کے لیے نکلے اپنی تھوڑی سی عارضی کامیابی پر مغرور نہ ہوں کہ انکا آخری انجام بجز ہلاکت و بربادی کے کچھ نہیں اور مسلمان کفار کی سختیوں اور وحشیانہ دراز دستیوں یا اپنی ہنگامی پسپائی سے ملول و مایوس نہ ہوں کہ آخر حق غالب و منصور ہو کر رہے گا، قدیم سے سنت اللہ یہ ہی ہے جو ٹل نہیں سکتی۔
شیخ ادہم عاسمی حفظہ اللہ”سنن الٰہیہ“ کی اصطلاحی تعریف پیش کرتے ہوئے یوں فرماتے ہیں:
” ہِیَ الطَّرِیْقَةُ الْمُتَّبَعَةُ فی مُعَامَلَةِ اللہِ لّلْبَشَرِ بِنَاءً عَلیَ أَفْعَالِہِمْ وَسُلُوْکِہِمْ وَمَوْقِفِہِمِ مِنْ شَرْعِ اللّٰہ وَأَنْبِیَائِہِ وَمَا یَتَرَتَّبُ عَلَی ذَلِکَ مِنْ نَتَائِجَ فِی الدُّنْیَا وَالآخِرَةِ.“
سنن الٰہیہ سے مراد انسانوں کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے معاملات میں اختیار کردہ طریقہ اور عادت ہے، جن کی بنیاد ان کے افعال وسلوک اور اللہ کی شریعت اور انبیا علیہم السلام کے تئیں ان کا موقف اور کردار ہوتا ہے اور دنیا وآخرت میں انہیں اعمال و سلوک کے اعتبار سے نتائج مرتب ہوتے ہیں۔
اس تعریف سے یہ بات واضح ہوگئی کہ جیسے بندوں کے اعمال ہوں گے، اسی کے مطابق اللہ تعالیٰ اپنے مقررہ قوانین اور سنن کے لحاظ سے جزا و سزا کا معاملہ کریں گے۔ اور جیسا عمل ہوگا، ویسا ہی نتیجہ برآمد ہوگا، بھلا ہوا تو بھلا، برا ہوا تو برا۔
﴿فَمَن یَعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ خَیْرًا یَرَہُo وَمَن یَعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ شَرًّا یَرَہُ (سورة الزلزلة:7-8)
ترجمہ: ” تو جس نے ذرہ بھر نیکی کی ہوگی وہ اس کو دیکھ لے گااور جس نے ذرہ بھر برائی کی ہوگی وہ اسے دیکھ لے گا۔“
سنن ِالٰہیہ کے موضوع پر مواد:
علمائے امت نے سننِ الٰہیہ کے موضوع پر عربی زبان میں بہت کچھ خامہ فرسائی کی ہے، البتہ اس موضوع پر میرے علم کے مطابق اردو کا دامن ابھی تک تشنہ ہے۔
ہاں! متفرق طور پر اس موضوع سے متعلق اردو میں بھی کچھ مواد مل جاتا ہے۔
کتب ِتفسیر میں ان آیات کی تفسیر دیکھی جا سکتی ہے ، جن میں یہ لفظ اور یہ اصطلاح وارد ہوئی ہے۔
حضرت اقدس مولانا اشرف علی تھانوی رحمہ اللہ نے”جزاء الأعمال“ کے نام سے جو رسالہ رقم فرمایا ہے، وہ بھی سنن ِالٰہیہ میں سے ایک عظیم الشان سنت اللہ سے متعلق ہے، جس کا تعلق زندگی کے ہر شعبے سے ہے اور معاش و معاد کے ہر مرحلے پر اس کا بہت بڑا کردار ہے۔ اس سنت سے متعلق ہم ان شاء اللہ کسی اگلی قسط میں بالتفصیل گفتگو کریں گے۔
ایک سعودی عالم ڈاکٹر حسن بن صالح حمید نے”سنة اللہ فی الأمم من خلال آیات القرآن الکریم“ کے نام سے سات سو تیس صفحات میں ایک بہترین کتاب لکھی ہے، جس میں سنن الٰہیہ کو بڑی عمدگی کے ساتھ سمجھایا گیا ہے۔
جامعة القزوین تطوان مغرب کے استاد دکتور رشید کہوس حفظہ اللہ نے سنن الٰہیہ کے تعلق سے بہت زیادہ کام کیا ہے۔ ان کی اس موضوع پر بہت ساری کتابیں، مقالات اور مضامین ہیں جو مختلف مجلات اور رسالوں کی زینت بنتی رہتی ہیں۔اسی طرح دمشقِ شام کے ایک بڑے عالم شیخ ادہم العاسمی حفظہ اللہ کا سنن الٰہیہ پر ایک بہترین سلسلہ یوٹیوب پر موجود ہے۔ان کے علاوہ بھی عربی زبان میں اس موضوع پر بہت ساری کتابیں اور بہت کچھ مواد موجود ہیں۔
اس سلسلے میں میرا لائحہ عمل:
ان شاء اللہ مختلف علمائے امت کی کتابوں اور علمی مواد سے استفادہ کر کے بالترتیب آپ کے سامنے اس سلسلے کو پیش کرنے کی کوشش کی جائے گی۔
اس تمہیدی قسط کے بعد اگلی قسط میں ان شاء اللہ سنن ِالٰہیہ کے کچھ اوصاف و خصائص کو پیش کیا جائے گا۔ پھر اس کے بعد والی قسطوں میں بالترتیب ایک ایک سنت اللہ کی توضیح و تشریح اور کتاب و سنت سے اس کے نظائر اور مثالیں پیش کرنے کی کوشش کی جائے گی۔وباللہ التوفیق!
اللہ رب العزت اس سلسلے کو ہمارے لیے مفید سے مفید تر بنائے اور سنن الٰہیہ کے تقاضوں کے مطابق ہمیں حیات ِطیبہ نصیب فرمائے اور قیامت کے دن ہم تمام کو سرخرو اور کام یاب و کامران فرمائے۔وماذلک علی اللہ بعزیز . (جاری…)