محمد جعفر ملی# رحمانی#
صدردار الافتاء؛ جامعہ اسلامیہ اشاعت العلوم اکل کوا
الحمد للّٰہ رب العالمین ، والصلاة والسلام علٰی رسولہ الکریم ، أما بعد !
فأعوذ باللّٰہ من الشیطان الرجیم ۔ بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم :
قال اللّٰہ عز وجل : ﴿واذکر في الکتٰب ابراہیم إنہ کان صدیقا نبیاo﴾
(سورہٴ مریم : ۴۱)
﴿واذکر في الکتٰب اسمٰعیل إنہ کان صادق الوعد وکان رسولاً نبیًاo﴾
(سورہٴ مریم : ۵۴)
قال رسول اللّٰہ ﷺ : ” اذکروا محاسن موتاکم ، وکفوا عن مساویہم “ ۔
(جامع الترمذي : ۳/۳۳۹ ، رقم : ۱۰۱۹ ، کتاب الجنائز)
ذکرِ محاسن موتیٰ:
اللہ پاک نے اپنی کتاب میں حضراتِ انبیا اور موٴمنین صالحین کا تذکرہ فرمایا، تاکہ دیگر لوگ انہیں اپنا قدوہ واُسوہ، آئیڈیل ونمونہ بنائیں۔اور خود جنابِ نبی ٴکریم صلی اللہ علیہ وسلم نے گزرے ہوئے لوگوں سے متعلق دو باتوں کا حکم فرمایا: ذکرِ محاسن اور کف عن السیئات۔ ذکرِ محاسن کا حکم اس لیے فرمایا تاکہ اُن کے پیچھے رہ جانے والے لوگ اُن کے اوصافِ حمیدہ اور خصائلِ جمیلہ کو اپنائیں اور اُن کی زندگی کے روشن پہلووٴں سے روشنی حاصل کرکے اپنے سفرِ حیات کو طے کریں۔ اور کف عن السیئات کا حکم اس لیے دیا تاکہ جانے والوں کی پردہ پوشی ہو اور بعد والوں میں گناہوں اور معاصی پر جرأت وہمت پیدا نہ ہوکہ فلاں اتنا بڑا آدمی ہونے کے باوجود فلاں فلاں معصیت میں مبتلا تھا، تو ہم تو بہت چھوٹے ہیں۔ ہمیں اس معصیت وگناہ کے کرنے میں کیا مضائقہ وعار ہے۔
میرا ہم نشیں:
متوسط قد وقامت، چھریرہ بدن، کھلتا چہرہ اور اس پر عالمانہ معصومیت، گھنی داڑھی قدرے دراز، کشادہ پیشانی، آنکھوں سے بلا کی ذہانت وباخبری آشکار، سر کے بال سیاہ وسفیدکسی قدر گھنے، عام دنوں کا لباس سادہ وصاف ستھرا، خصوصی انجمنوں، محفلوں اور جلسوں کے موقع پر نہایت عمدہ ونفیس اور جاذب وپُر کشش لباس، کبھی شیروانی تو کبھی صدری، کبھی عمامہ وجبہ، تو کبھی رومال وعبا، جسم شوگر جیسی بیماری سے متأثر، مگر قلب ودماغ ہمیشہ بیدار ومتیقظ، حق گوئی میں بے نظیر وبے مثال، اساتذہ، طلبہ اور دوستوں کے لیے حریر کی طرح نرم وبرد بار، شیریں گفتگو، محبت، شفقت اور ہم دردی سے بھرپور، تقریر ودعا میں دلوں کو رُلانے اور آنکھوں کو نم کردینے والا سوز وگداز، ہر دینی وعصری اجلاس میں نظامت وخطابت کا بے تاج بادشاہ، میدانِ تدریس وتنظیم میں ایک کام یاب مدرس ومنتظم، جوہر شناس وقدر دان، شریک حیات کے لیے ایک بہترین رفیق،بچوں کے لیے ایک شفیق باپ، بھائی اور بہنوں کے لیے ایک مضبوط سہارا، متعلقین ومحبین کے لیے ایک صائبِ رائے مشیر وخیر خواہ ۔ان تمام اوصافِ حمیدہ کو اپنے ذہنوں میں ترتیب دیجیے۔ اس کے بعد جو تصویر اُبھر کر ذہن میں آئے اُسے کہیے: ”عبد الرحیم فلاحی“ جو۱۷/ شعبان۱۴۴۱ھ مطابق: ۱۲/ اپریل بروز اتوار صبح ساڑھے آٹھ بجے اس دارِ فانی کو الوداع کہہ گئے۔
ڈھونڈوگے ہمیں ملکوں ملکوں ملنے کے نہیں نایاب ہیں ہم
ولادت:
حضرت مولانا عبد الرحیم صاحب فلاحی# رحمہ اللہ نے وطنِ ہندوستان کی معروف مردم خیز اور علم وعمل سے معطر، اپنے بزرگوں اور بڑوں سے غایت درجہ محبت وعقیدت رکھنے والی ریاست”ریاستِ گجرات“ کے ایک چھوٹے سے گاوٴں ”رویدرا“ میں ۱۸/ ۸/ ۱۹۶۳ء کو ایک علمی اور بزرگوں سے وابستہ خانوادہ میں آنکھیں کھولی۔
تعلیم وتربیت:
جامعہ فلاحِ دارین ترکیسر اور مظاہر علوم سہارن پور(جو علمِ حدیث کا مرکز اور تصلُّب فی الدین کی علامت سمجھا جاتا ہے) میں آپ نے عالمیت وفضیلت کی تعلیم وتربیت حاصل کی، جس کا آپ کی شخصیت میں نمایاں اثر دکھائی دیتا تھا۔
دعوت وتبلیغ:
جامعہ مظاہر علوم سے فراغت کے بعد آپ نے ایک معتد بہ وقت جماعت میں لگایا، اپنے ایمان کو بنایا اور جمایا۔ اس کے بعد سن ۱۹۸۷ء سے سن ۲۰۲۰ء تا وفات اپنے اور دوسروں کے ایمان کو بچانے اور سجانے میں لگے رہے، جیسا کہ وہ اپنے بیانوں میں فرمایا کرتے تھے:
…دعوت سے ایمان بنتا ہے۔
…تبلیغ سے ایمان جمتا ہے۔
…مدارس سے ایمان بچتا ہے۔
…خانقاہوں سے ایمان سجتا ہے۔
…اور ہمیں ان سب کی ضرورت ہے۔
جامعہ میں تقرر اور مفوضہ خدمات:
رئیسِ جامعہ، خادمِ کتاب وسنت، معمارِ قوم وملت حضرت مولانا غلام محمد صاحب وستانوی دامت برکاتہ (جو رشتے میں مرحوم کے بہنوئی ہوتے ہیں)نے سن ۱۴۰۷ھ مطابق ۱۹۸۷ء میں جامعہ اسلامیہ اشاعت العلوم اکل کوا میں آپ کا تقررفرمایا۔اس وقت جامعہ میں دینیات، حفظِ قرآنِ پاک اور عربی کے کچھ درجات تک ہی تعلیم تھی۔ اس لیے موصوف نے ابتدائی درجات سے اپنی تدریس کا آغاز فرمایا، پھر جیسے جیسے عربی درجات کی تعلیم میں اضافہ ہوتا گیا ویسے ویسے آپ کی تعلیمی،تدریسی اور تربیتی وتنظیمی فرائض میں بھی اضافہ ہوتا گیا، یہاں تک کہ جس وقت آپ اس دنیا سے رخصت ہوئے، اس وقت درسِ نظامی کی نہایت اہم کتابیں؛ ہدایہ اولین، مشکوة المصابیح حصہ اول، تفسیر بیضاوی، صحیح مسلم، موٴطا امام مالک وغیرہ آپ کے زیر تدریس تھیں۔اور آپ ان کتابوں کے کام یاب و مقبول مدرس و معلم اور مربی تھے۔
اس کے علاوہ آپ طلبہ کی خارجی سرگرمیوں میں بھی اچھی خاصی دل چسپی لیا کرتے تھے۔ مثلاً؛ انجمن اصلاح الکلام کی ترتیب وتنظیم، ہفتہ واری اُس کی نگرانی، اس کے سہ ماہی،شش ماہی اور اختتامی اجلاس کے لیے طلبہ کا انتخاب، اُن کی یاد کردہ تقریروں کو سننااور انعامات دے کر ان کی حوصلہ افزائی کرنا۔ اسی طرح دیگر تعلیمی شعبوں کی انجمنوں میں شریک ہونا، مشورے دینا، جامعہ میں منعقد ہونے والے ہر اجلاس کو ہمہ جہت کام یاب ونتیجہ خیز بنانے کی فکر کرنا وغیرہ،یہ آپ کا وصفِ خاص تھا۔
مت سہل ہمیں جانو، پھرتا ہے فلک برسوں
تب خاک کے پردے سے انسان نکلتا ہے
مسابقہٴ قرآن:
وطنِ عزیز ہندوستان میں عام مسلمانوں میں قرآنِ کریم کو صحت وتجوید کے ساتھ پڑھنے کے ذوق وشوق کو پروان چڑھانے اور مدارس وجامعات میں زیر تعلیم طلبہ کی توجہ اس جانب مبذول کرانے، نیز آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد ” اقروٴا القرآن بلحون العرب وأصواتہا “ (شعب الایمان: رقم: ۲۴۰۶)(قرآنِ کریم کوعربوں کے لہجوں اور آوازوں میں پڑھو)پر تلقینِ عمل کے پیشِ نظر جب حضرت رئیسِ جامعہ دامت برکاتہم نے سن ۱۹۹۴ء سے جامعہ کی سرپرستی میں مسابقاتِ قرآنیہ کے انعقاد کا فیصلہ فرمایا، تو ناظمِ مسابقہ کے لیے حضرت رئیس جامعہ کی عقابی وجوہر شناس نگاہ حضرت مولانا عبد الرحیم صاحب فلاحی پر ہی پڑی اور آپ نے اخیر تک اس ذمہ داری کو پورے عدل وانصاف، خوش اسلوبی وسلیقہ مندی ، اخلاص وللہیت اور جاں فشانی کے ساتھ انجام دیا۔ یقینا یہ خدمات آپ کے لیے ذخیرہٴ آخرت ہوں گی۔ إن شاء اللہ!
سرگرمیاں بیرونِ جامعہ:
آپ نے فراغت کے بعد ایک معتد بہ وقت دعوت وتبلیغ میں لگایاتھا۔ اسی کا یہ اثر تھا کہ آپ ہر جمعرات کو کہیں نہ کہیں دعوتی وتبلیغی سفر فرمایا کرتے۔ اکثر وبیشتر یہ اسفارپورے ملک کے گاوٴں دیہات، شہر وقصبات میں بکھرے آپ کے شاگردوں کی دعوت پر ہوا کرتے۔ آپ اپنے ہمراہ اپنے ہم ذوق ومزاج اساتذہٴ جامعہ کو بھی لے لیا کرتے، جس کی وجہ سے یہ اسفار علمی قافلے میں تبدیل ہوجایا کرتے اور اجلاس وپروگرام انتہائی کام یابی سے ہم کنار ہوکر علاقے کے عوام وخواص میں دینی انقلاب، فکر اصلاح وآخرت، دینی وعصری تعلیم کی رغبت جیسے ثمراتِ طیبہ کے لیے بار آور ثابت ہوتے۔
ہیں اور بھی دنیا میں سخن ور بہت اچھے
کہتے ہیں کہ غالب کا ہے اندازِ بیاں اور
آپ جس علاقے میں بھی سفر فرماتے، وہاں کے مسلمانوں کی دینی و عصری تعلیم، معاشی حالات اور ضروریات کا جائزہ ضرور لیاکرتے۔ اور واپسی پر حضرت رئیس جامعہ دامت برکاتہم کو اپنی روئیدادِ سفر گوش گزار فرماتے، جس کے نتیجے میں خادمِ قوم وملت اپنے متعلقین، محبین اور رفاہی تنظیموں کے تعاون سے عامة المسلین کی دینی ودنیوی ضرورتوں کی طرف ملتفت ہوتے۔ کہیں مکاتب ومدارس کا جال بچھا دیتے، کہیں عصری ودنیوی تعلیم کے لیے اسکولوں اور کالجوں کو قائم فرماتے، کہیں علاج ومعالجے کے لیے ہسپتال تعمیر کرادیتے اور کہیں روزگار ومعاش کے مختلف ذرائع وجود میں لے آتے۔یقینا حضرت رئیس جامعہ دامت برکاتہم کے ان نیک کاموں کے اجر وثواب میں مولانا عبدالرحیم صاحب رحمة اللہ علیہ کو بھی ضرور بالضرور حصہ ملتا رہے گا؛ کیوں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:” الدال علی الخیر کفاعلہ“۔ (سنن ترمذی: رقم: ۲۶۷۰)
آپ رحمة اللہ علیہ کے متعلقین واحباب کا بھی ایک اچھا خاصا حلقہ تھا، جن کے تعاون سے آپ بھی ضرورت کی جگہوں پر مسجدیں تعمیر کرواتے، پینے کے پانی کا نظم فرماتے، بیواوٴں اور یتیموں کی مدد کرتے، غریبوں اور محتاجوں کی شادیوں کے اخراجات مہیا کرواتے، جو آپ کے لیے صدقہٴ جاریہ اور ذخیرہٴ آخرت ہیں۔ ” لما ثبت عنہ سبحانہ أنہ یثیب المکلف بکل فعل یتوقف وجودہ بوجہ ما علی کسبہ سواء فیہ المباشرة والتسبب “ ۔ (مرقاة المفاتیح : ۱/۴۱۲)
پھونک کر اپنے آشیانے کو
بخش دی روشنی زمانے کو
تصنیفات وتالیفات:
اللہ پاک نے مرحوم موصوف کو تدریس کے ساتھ ساتھ تصنیف وتالیف کا بڑا ملکہ عطا فرمایا تھا۔ آپ کی تالیفات وتصنیفات ، علم وادب، کتاب وسنت کی تفسیر وتشریح، پند ونصیحت اور اُردو ادب کی شاہکار ہیں۔ اگرچہ ان کی تعداد کم ہیں، لیکن دریا بکوزہ کی مصداق ہیں۔ مثلاً: تحفہٴ بیٹی۔تحفہٴ تراویح۔ تحفہٴ حفاظ۔ مذکراتِ تفسیریہ۔ مذکراتِ حدیثیہ۔ قطرہ قطرہ سمندر(نگارشاتِ فلاحی) وغیرہ۔
میرا ہم سفر:
۱۴۰۹ھ مطابق ۱۹۸۹ء میں جب مشفق استاذ ومربی ، فقیہ عصر،قاضی القضاة امارتِ شرعیہ، صدر عالی قدر مسلم پرسنل لا بورڈ، بانی وموٴسس اسلامک فقہ اکیڈمی ، حضرت مولانا قاضی مجاہد الاسلام صاحب قاسمی رحمة اللہ علیہ کے ایماپر خادمِ کتاب وسنت حضرت وستانوی #دامت برکاتہم نے احقر کا جامعہ میں تقرر فرمایا اور تدریس کا آغاز ہوا، اُس وقت غیر شادی شدہ ہونے کی وجہ سے اس ناچیز کی رہائش قصرِ خدیجہ میں رہی۔ اُس زمانے میں طلبہ کی تعداد مختصر تھی، اکثر وبیشتر خود حضرت رئیس جامعہ دامت برکاتہم فجر سے قبل طلبہ کو جگانے کے لیے تشریف لے آتے اور گاہے گاہے بوقتِ تعلیم درس گاہوں میں حاضر ہوکر طلبہ واساتذہ کے درس وتدریس کا جائزہ بھی لیا کرتے۔ اُس زمانے میں تدریسی اوقات میں مولانا عبد الرحیم صاحب فلاحی سے مختصر دعا وسلام کا سلسلہ جاری ہوا۔ باہمی دعا وسلام کا یہ سلسلہ رفتہ رفتہ اچھے خاصے تعلق کی صورت اختیار کرگیا۔ پھر اس تعلق نے صداقت واخوت کا روپ لے لیا اور آخر کار اس صداقت واخوت نے دیرینہ رفاقت کی چادر بھی اوڑھ لی۔اور صداقت، اخوت ورفاقت کا یہ تعلق مرحوم کے داغِ مفارقت دینے تک باقی رہا۔ہماری یہ صداقت،اخوت ورفاقت تقریباً تین دہائیوں پر مشتمل ہے۔ چوں کہ ہم دونوں شعبہٴ عالمیت میں ہی اپنا تدریسی سفر جاری رکھے ہوئے تھے، اس لیے دن میں کئی کئی مرتبہ زیارت وملاقات ہوتی۔ مختلف اُمورِ تدریس و تعلیم ، اقوام واشخاصِ عالم، نجی وعائلی مسائل پر گفت وشنید اور تبادلہٴ خیال ہوا کرتا۔ اس حوالے سے بہت سی باتیں، یادیں، دل چسپ واقعات، تجربے اور مشاہدے اس گناہ گار کے دل ودماغ میں محفوظ ہیں، جنہیں سپردِ قرطاس کرنے کا نہ یہ موقع ہے اور نہ محل۔ مرحوم کے ساتھ ۳۲/ سالہ مرافقت ومصاحبت میں کبھی کوئی باہمی رنجش وتلخ مزاجی کی نوبت نہیں آئی۔بارہا ان کے ساتھ دعوتی وتبلیغی اسفار بھی ہوئے، جن میں انسان کی اصل حقیقت واضح اور رونما ہوجایا کرتی ہے، دورانِ سفر وہ میری راحت ومزاج کا بہت زیادہ خیال فرماتے،جو ان کے پیکر حسنِ اخلاق ہونے کا بین ثبوت ہے، اللہ پاک ان کو بندے کے ساتھ اس حسنِ سلوک اور اُن کے اخلاقِ حسنہ کا بہترین بدلہ نصیب فرمائیں!
اس کی امیدیں قلیل، اس کے مقاصد جلیل
اس کی ادا دل فریب، اس کی نظر دل نواز
حادثہٴ فاجعہ:
جامعہ کے تعلیمی سال ۱۴۴۱ھ کی سالانہ تعطیلات سے پہلے ہی ”کرونا وائرس“ کی تباہ کاریوں سے بچانے کے لیے حکومتِ وقت نے پورے ملک میں تالا بندی عائد کردی، جس کی وجہ سے تمام طلبہ اور اساتذہ جامعہ ہی میں مقیم تھے۔ مسجدوں میں مخصوص جماعت کے ساتھ نمازیں ادا کی جارہی تھیں، حضرت مرحوم اور بندے کا یہ معمول تھا کہ اکثر وبیشتر مسجد میمنی میں نماز باجماعت میں شرکت کرتے، نماز کے بعد ملاقات ہوتی، کچھ دیر باہمی گفتگو ہوتی، پھر گھر چلے آتے۔انتقال سے ایک ہفتہ پہلے ہم نے نماز ِجمعہ مسجد میمنی میں ادا کی پھر ساتھ گھر آگئے، ان کا مکان بالکل میرے مکان کے سامنے ہے، بائک سے اُتر کر کچھ دیر کھڑے ہوئے تو میں نے برسبیلِ مزاح ان سے کہا: ”حکومتِ وقت نے بڑی جماعتوں کے ساتھ نمازوں کی ادائیگی پر پابندی لگا رکھی ہے، جب کہ ہمارے ذرائع نے ہمیں یہ خبر دی ہے کہ” آپ کے مکان کے بالائی حصے میں دار المدرسین کے اساتذہ وطلبہ بڑی جماعت کے ساتھ نماز ادا کررہے ہیں اور آپ نماز کے بعد کبھی چائے، تو کبھی شربت وغیرہ کے ذریعے ان مصلیوں کی ضیافت بھی کررہے ہیں۔ آپ حکومت کے قوانین کی خلاف ورزی کررہے ہیں، آپ کی گرفت اور باز پُرس ہوسکتی ہے“، تو مرحوم موصوف بھی جواباً بطورِ مزاح فرمانے لگے: ”نہیں حضور، ہم نے آپ کی حکومت کے قوانین کی خلاف ورزی نہیں کی، نماز باجماعت کا یہ سلسلہ میرے مکان میں نہیں، بل کہ قاری اقبال صاحب کے مکان پر جاری ہے۔ اگر آپ کو شہادت کی ضرورت ہے تو آپ میرے بیٹے رضوان (آپ رحمہ اللہ کے چھوٹے صاحب زادے) سے شہادت طلب کرسکتے ہیں، بل کہ میں نے آج رضوان کے اس سوال پر کہ ”ابا“ آج نمازِ جمعہ کہاں پڑھیں گے؟ یہ کہا کہ جمعہ کی نماز ”مفتی صاحب“ (احقر) کے مکان پر پڑھیں گے“۔اس کے بعد ہم دونوں میرے گھر آئے، کچھ فروٹ کھاکر شربت نوش کیا، میرے بیٹے ”محمد سلمہ“ سے آپ نے طفلانہ مذاق ومستی فرمائی، پھر کہنے لگے: چلو میں چلتا ہوں اور کچھ آرام کرلیتا ہوں۔ اس کے بعد ایک روز بعد نمازِ فجر، ناظمِ مطبخ جناب الحاج حافظ عبد الصمد صاحب (زاد اللہ فی عمرہ ولطفہ) کے پاس ہم دونوں نے چائے نوشی کی۔ میں گھر آگیا اور وہ اپنے دار المطالعہ (ایک چھوٹا سا کمرہ جو دار التجوید کی عمارت میں ہے) میں یہ فرماتے ہوئے چلے گئے کہ ”آج کل میں یہی کوشش کررہا ہوں کہ اختلاط سے بچوں، تاکہ میری وجہ سے کسی کو ”کرونا“ نہ ہوجائے اور کچھ تصنیفی وتالیفی کام بھی ہوجائے۔“
پھر ایک روز نمازِ عصر کے بعد ملاقات ہوئی تو میں نے سلام کیا اور مصافحہ کے لیے ہاتھ بڑھایا تو سلام کا جواب دینے کے بعد بر سبیلِ مزاح فرمانے لگے:”بھائی مصافحہ مت کرو، باہمی فاصلہ بر قرار رکھو، محکمہٴ صحت کی ہدایت ہے“ ۔ میں نے جواباً عرض کیا: ” ارے بھئی مصافحہ کر لو، ہوگا وہی جو خدا چاہے گا۔﴿قل لن یصیبنا إلا ما کتب اللّٰہ لنا ہو مولانا وعلی اللّٰہ فلیتوکل الموٴمنون﴾(سورہٴ توبہ: ۵۱)
اس کے بعد وہ بیمار ہوئے، لیکن بندے کو ان کی بیماری کی اطلاع نہیں ہوئی، جب کہ اُن کی رہائش میری رہائش کے بالکل سامنے ہی تھی۔ بعد میں معلوم ہوا کہ بیمار ہونے پر حضرت رئیس جامعہ دامت برکاتہم أطال اللہ بقائہم سے مشاورت فرماکر اپنے گھر والوں کے ہمراہ بغرضِ علاج ”کھروڈ“ تشریف لے گئے۔ اور ایک روز؛ زیر علاج رہ کر داعیٴ اجل کو لبیک کہہ گئے۔کسے معلوم تھا کہ توکل واحتیاط کے کلمات پر مشتمل یہ گفتگوہماری آخری گفتگو ثابت ہوگی۔
اے خاکِ قبر! دلبرِ مارا نگاہ دار!
اللّٰہم اغفر لہ وارحمہ ، وعافہ وعنہ ، وأکرم نزلہ ، ووسع مدخلہ ، ونقہ من الخطایا کما ینقی الثوب الأبیض من الدنس ، وأبدلہ دارا خیرا من دارہ ، وأہلا خیرا من أہلہ ، وزوجا خیرا من زوجہ ، وأدخلہ الجنة وأعذہ من عذاب القبر۔آمین یا رب العالمین !
پس ماندگان:
انسان جب اس دنیا سے رخصت ہوجاتا ہے تو اس کا عمل منقطع وبند ہوجاتا ہے، مگر تین چیزوں کے ذریعے اسے بر ابر ثواب پہنچتا رہتا ہے: صدقہٴ جاریہ، قابلِ انتفاع علم اور نیک وصالح اولاد؛ جو اُس کے لیے دعائے مغفرت کرتی رہیں۔ جیسا کہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی اس روایت :” إذا مات الإنسان انقطع عملہ إلا من ثلاثة : من صدقة جاریة ، أو علم ینتفع بہ ، أو ولد صالح یدعو لہ“۔ (صحیح مسلم : ۲/۴۱)کی توضیح وتشریح کرتے ہوئے حضراتِ علما نے فرمایا : ”انسان جب مرجاتا ہے تو اب اس کے اعمال مثلاً :نماز، روز، زکوة اور حج وغیرہ کا ثواب لکھا جانا بند ہوجاتا ہے، کیوں کہ ثواب عمل کی جزا ہے اور اس کے مرجانے سے عمل بند ہوگیا۔جب عمل بند ہوگیا تو ثواب کا لکھا جانا بھی بند ہوگیا۔مگر تین چیزیں ایسی ہیں کہ ان کا ثواب اسے مسلسل پہنچتا رہتا ہے اور وہ اس لیے کہ اللہ رب العزت اپنے مکلف بندوں کو ہر اس فعل پر اجر وثواب سے نوازتے ہیں، جس کا وجود بندے کے کسب واختیار پر موقوف ہے، خواہ بندے نے خود اس کام کو انجام دیا ہویا وہ اس کام کے وجود میں آنے کا سبب وذریعہ بنا ہو“۔ وہ تین چیزیں یہ ہیں:
(۱) صدقہٴ جاریہ: مراد ہر ایسا فعل؛ جس کا خیر دائمی اور نفع مستمر ہو۔مثلاًوقف۔” فعل دائم الخیر مستمر النفع“۔ (مرقاة: ۱/۴۱۳)
(۲) قابلِ انتفاع علم: مراد علمِ عقائد، علم تفسیر، علم حدیث، علم فقہ واصولِ فقہ کی تدریس اور تصنیف وتالیف ہے۔” المراد بالمنتفع بہ العلم باللّٰہ وصفاتہ وأفعالہ وملائکتہ ، ویدخل فیہ علم الکلام ، أي العقائد والعلم بکتبہ ، ویدخل فیہ التفسیر وبملکوت أرضہ وسمائہ ، ویدخل فیہ علم الریاضي ۔۔۔۔۔ والعلم بشریعة محمد ﷺ ، ویدخل فیہ التفسیر أیضا والحدیث والفقہ وأصولہ ۔ اہ ۔ “۔ (مرقاة: ۱/۴۱۳)
(۳) ولد صالح: یعنی مومن وصالح اولاد ۔ خواہ اولاد دعا کریں یا نہ کریں، کیوں کہ اگر کوئی شخص پھل دار درخت لگائے اور اس درخت کے پھلوں کو کوئی انسان کھائے تو درخت لگانے والے کو پورا پورا ثواب ملتا ہے، خواہ کھانے والا اُسے دعا دے یا نہ دے۔ رہے حدیث پاک کے یہ الفاظ ”یدعو لہ“ تو یہ بطورِ تحریض ہیں کہ اولاد اپنے جانے والے والدین کے لیے دعا کرتے رہیں۔
اس حدیث پاک کو پڑھنے سے کافی حد تک قلبی اطمینان حاصل ہوجاتا ہے کہ ”مولانا عبد الرحیم صاحب فلاحی رحمة اللہ علیہ“ اس کے پوری طرح سے مصداق ہیں۔ کیوں کہ آپ بہت سے مدارس، مساجد اور مکاتب کی تعمیر وتاسیس کا سبب وذریعہ بنے اور آپ نے سیکڑوں نہیں ؛بل کہ ہزاروں طالبانِ علومِ نبوت کو علومِ نبوی کی تعلیم دی اور اپنے پیچھے دینی علوم پر مشتمل بہت سی تصنیفات وتالیفات چھوڑی، جن سے انتفاع ہوتا رہے گا اور مولانا مرحوم کو مسلسل اس کا ثواب پہنچتا رہے گا۔نیز آپ کے پس ماندگان میں آپ کی نرینہ اولاد عالم ومفتی اور حافظِ قرآنِ کریم ہیں اور بچیوں میں بھی دین داری اور صلاح وتقویٰ موجود ہے، جو ”یدعوولدصالح “کی صاف کی صاف تصویر ہیں۔
بچھڑا کچھ اس ادا سے کہ رُت ہی بدل گئی
اک شخص سارے شہر کو ویران کرگیا