/ویں قسط: مفتی عبد المتین اشاعتی کانڑگانوی)
ابتدا میں انسان نشاط وچستی دکھاتا ہے، بعد میں ماند (سُست) پڑجاتا ہے۔
بعض لوگ بہت تیزی سے حفظِ کلام اللہ کرتے ہیں اور تیزی سے یہ سلسلہ ختم بھی ہوجاتا ہے۔
کسی موسم میں بہت دل چسپی سے پڑھتے ہیں اور پھر کسی موسم میں یہ ترک کردیتے ہیں۔
بعض لوگ بہت سے پارے حفظ کرلینے کے بعد بھی قرآن پاک کا دور اور مراجعہ نہیں کرتے، حتی کہ سب بھول جاتے ہیں۔
بعض لوگ رمضان سے پہلے تک خوب دل لگی سے یاد کرتے ہیں اور رمضان بعد سُستی وکاہلی کا شکار ہوجاتے ہیں۔
بعض لڑکپن میں حفظِ قرآن واحادیث کرلیتے ہیں،لیکن مراجعہ ودور نہ کرنے کی وجہ سے بڑکپن میں بھول بیٹھتے ہیں۔افسوس صد افسوس!
تب کیا راستہ اختیار کیا جائے کہ یاد کرنے کے بعد بھول نہ سکیں؟!
حفظ قرآنِ پاک اور اس کے دور میں استمرار ودوام، اور قرأتِ قرآنِ کریم میں استمرار ودوام ! … آخر اس کے لیے کیا حیلہ کیا جائے؟!
تو یہ سوچیں کہ حفظِ قرآنِ کریم ہماری زندگی کا ایک سنہرا خواب ہے، ایسی تعبیر ہے جو مہد (گہوارے) سے لحد (قبر) تک ہمارے ساتھ رہنے والی ہے، ایک پل کے لیے بھی ہم قرآن کریم سے دور نہیں ہوسکتے، حفظ ومراجعہ (دور) ہرگز نہیں چھوڑ سکتے، حتی کہ اللہ پاک ہمیں اپنی رحمت میں ڈھانپ لیں، اپنی رحمت سایہٴ عاطفت میں جگہ دے دیں!…تو تخیُّل یہ ایسا رازِ پنہاں ہے جسے بہت سے لوگ نہیں سمجھتے!
تخیُّل! آسان کافی وشافی علاج ہے، اس شخص کے لیے جو کم ہمتی کا شکار ہے، جو حفظ کرکے بھول گیا، جس نے قرآنِ کریم دیکھنا چھوڑدیا۔
تخیُّل کہتے کسے ہیں؟!
آئن اسٹائن کہتا ہے: خیال حقیقت سے بھی اہم ہے، بلکہ میں کہتا ہوں کہ خیال ارادہ سے زیادہ قوی ہے، مثلاً: اگر آپ سے یوں کہا جائے کہ:
اپنی آنکھیں بند کیجیے! اور خیال وتصور کیجیے کہ میرے سامنے لیموں ہے، اُس لیموں کا تصور کرکے خیالی چھُری سے اُس لیموں کے دو حصے کیجیے، اور اُس کی ایک قاش (ٹکڑا) اپنے منہ کے سامنے لے جائیں… اور منہ سے قریب کرتے جائیں، پھر لیموں کے رس کو اپنے منہ میں نچوڑنے کا تصور کریں، اب اپنی آنکھیں کھولیں! کیا لیموں کے تصور سے لعاب (تھوک) منہ میں آیا؟ منہ میں پانی آیا؟ ضرور آیا ہوگا، بلکہ لیموں کی خوش بو تک محسوس ہونے لگتی ہے، … اس سے پتہ چلا کہ تخیُّل حقیقتِ عقل سے بھی اہم ہوتا ہے، گویا تخیُّل کرنے والا انسان لیموں کو اپنی آنکھوں سے دیکھ رہا ہوتا ہے۔
الغرض! اسی تخیُّل والی صفت اور رازِ پنہاں کو ہم اپنے ذہن کو تیز اور حافظہ کو مضبوط کرنے کے لیے استعمال کرسکتے ہیں، اور اس کی مدد سے کتابِ باری تعالیٰ کو زبانی یاد کرسکتے ہیں، الحمد للہ!
پیشہ وار ماہر کھلاڑیوں کو دن میں تین تین گھنٹے تک تخیُّل کی تدریب ومشق کروائی جاتی ہے، انہیں یہ باور کرایا جاتا ہے گویا کہ آپ کھیل کے میدان میں حریف کے مقابل ہیں، اس طریقے سے حریف پر کھیل میں غلبہ کا رُجحان اور طریقہ معلوم ہوتا ہے، خیالی طور پر وہ لوگوں کے شور، آواز اور نعروں کو بھی سنتے ہیں اور اپنا ہدف پورا کرنے میں لگے رہتے ہیں۔اس طریقہٴ کار کو انگلش میں مینٹل ریہرسیل (Mental Rehersal)یعنی تدریباتِ ذہنیہ کہتے ہیں۔
تحقیق سے پتہ چلا ہے کہ جو کھلاڑی ذہنی تدریبات میں زیادہ وقت لگاتا ہے، وہ بمقابلہ جسمانی تدریبات کے افضل طریقے سے کھیلتا ہے، اور اپنے حریف پر جلدی غلبہ پالیتا ہے۔
ایسا ہی ایک تجربہ باسکٹ بال (Basket ball) کھلاڑیوں پر کیا گیا۔ان میں سے ایک فریق جو تدریباتِ ذہنیہ کے بعد میدان میں اُترا، تو اس کے کھیلنے کا انداز سنجیدہ اور غلبہ والا تھا، جب کہ دوسرا فریق جس نے صرف تدریباتِ جسمانیہ پر ہی زور دیا تھا، وہ غیر سنجیدگی کا مظاہرہ کرنے لگا، اورپھربہت جلد مغلوب ہوگیا، اُسے شکست ہوگئی، کیوں کہ وہ دماغی زور لگانے کے بجائے جسمانی طاقت پر زیادہ زور صرف کررہا تھا۔
ایسے ہی وہ کرکٹ (Cricket)کھلاڑی جو صرف جسمانی مشق کرکے میدان میں اُترتا ہے، جارحانہ بلے بازی کرتا ہے، اور بڑے شاٹ کھیلتے ہوئے بہت جلد پویلین /Pavelion (تماشائیوں کی نشست کی طرف)لوٹ جاتا ہے۔
اسی طرح وہ فٹ بال (Foot ball) کھلاڑی جو صرف جسمانی مشق کرکے میدان میں اُترتا ہے، وہ بھی مخالف ٹیم کے مقابلے جارحانہ انداز اختیار کرتا ہے، اور کھیل کے سلسلے میں قانونی خلاف ورزیاں کرکے پیلے کارڈ یا لال کارڈ کا مستحق قرار پاتا ہے، اور پھر پویلین لوٹنے پر مجبور ہوجاتا ہے۔
خلاصہ یہ ہے کہ ذہنی تدریب اور ورزش کے جسمانی ورزش وتدریب کے ساتھ افضل نتائج برآمد ہوتے ہیں۔
آکسفورڈ یونیورسٹی کی تحقیق:
آکسفورڈ یونیورسٹی کی ریسرچ کے مطابق دو جماعتوں کا امتحان رکھا گیا، ان میں سے ایک جماعت کو تخیُّل کی تدریب ومشق کروائی گئی، دوسری جماعت کو بلا تدریب امتحان میں بٹھایا گیا، تو پڑھنے والے طلبہ سب ہی ذہین تھے، لیکن جنہوں نے تخیُّل کی ورزش کی تھی وہ اعلیٰ وممتاز رہے، اُن کے مقابلے جنہوں نے ذہنی تدریب نہیں کی تھی۔
تنبیہ: اہلِ دنیا کے نزدیک حفظ وپختگی کا دار ومدار چوں کہ عقل وذہن پر ہے، اس لیے وہ لوگ دنیوی اعتبار سے اسی سبب (عقل وذہن) کو اختیار کرتے ہیں، ورنہ ہمارے یہاں دینی تعلیم میں عدمِ حفظ یا نقصِ حافظہ کے جملہ اسباب میں سے، گناہوں کی کثرت، معاصی کا صدور، آدابِ تعلیم وتعلُّم کی عدمِ رعایت وغیرہ اور بھی بہت سے اسباب ایسے ہیں، جن کی وجہ سے قوتِ حافظہ پر اثر پڑتا ہے۔ اور کچھ اذکار ،اَوراد اور وظائف ایسے ہیں جن سے حافظہ تیز ہوتا ہے، بشرطیکہ وہ یقین کے ساتھ پڑھے جائیں۔
گناہوں کا حافظہ پر اثر:
امام ابو عبد الرحمن وکیع الرواسی جو امام شافعی رحمہ اللہ کے استاذ اور امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے تلمیذ رشید ہیں،امام موصوف کے نزدیک قوتِ حافظہ کا سب سے بڑا نسخہ معاصی سے اجتناب ہے، اللہ تعالیٰ ہر انسان کو حفظ وفہم کی دولت سے نوازتا ہے، مگر خبائث اور معاصی کی کثرت اس کو کند کردیتی ہے۔
علی بن خشرم کہتے ہیں کہ میں نے امام وکیع کے ہاتھ میں کبھی کوئی کتاب نہیں دیکھی، وہ صرف اپنے حافظہ سے درس دیتے تھے، اُن کی حیرت انگیز قوتِ حافظہ دیکھ کر میں نے اُن سے کوئی ایسی دوا پوچھی، جس سے حافظہ اچھا ہوجائے، امام صاحب نے فرمایا:
” تَرْکُ الْمَعَاصِيْ مَا جَرَّبْتُ مِثْلَہُ لِلْحِفْظِ “ – ”معاصی سے اجتناب سے بڑھ کر قوتِ حافظہ کے لیے کوئی چیز میرے تجربے میں نہیں آئی۔“ (تہذیب التہذیب)
ایک دفعہ کسی شخص نے سوئے حافظہ کی شکایت کی، امام وکیع رحمہ اللہ نے اس کو معاصی سے اجتناب کا مشورہ دیا، اور فرمایا: علم خداوند قدوس کا نور ہے، وہ کسی گنہگار اور عاصی کو عطا نہیں کیا جاتا، درج ذیل اشعار میں اسی واقعہ کا ذکر ہے:
شکوت إلی وکیع سوء حفظي
فأوصاني إلی ترک المعاصي
وعللہ بأن العلم فضل
وفضل اللّٰہ لا یوٴتی لعاصي
(مرآة الجنان للیافعي)
امید ہے کہ طلبہٴ کرام قرآنِ کریم، احادیثِ مبارکہ ، درسیات کے حفظ اور امتحانات کے موقع پر ، ذکر واذکار کے اہتمام کے ساتھ ساتھ، تخیُّل کے اس طریقہٴ کار کو کام میں لاکر اپنے آپ کو عقل مند وزیرک بنانے کی کوشش کریں گے۔إن شاء اللہ العزیز! جاری…………