/ویں قسط: مفتی مجاہد اشاعتی پھلمبری /استاذ جامعہ اکل کوا
آج کے دور میں قرآن کریم کے ساتھ مسلمانوں کا تعلق :
جب ایک سچا پکا مسلمان اُس دور کی جاہلیت اورامت مسلمہ پر اس کے اثرات کو دیکھتاہے تو اس کا گلا گھٹنے لگتا ہے ۔ خصوصاً جب قرآن کریم کے ساتھ اکثر لوگوں کا معاملہ بے اعتنائی وبے توجہی کا ہوتا ہے تو ایک مومن کامل کی روح کانپ جاتی ہے۔
ایک جماعت دنیا میں الجھ کر رہ گئی ہے:
کچھ لوگ تو وہ ہیں جو دنیاوی امور میں اتنے منہمک ہوگئے کہ قرآن کریم کی تلاوت ، اس پر عمل پیرا ہونا اورقرآن کریم میں غور وفکرکرنا ہی بھول گئے ۔ ان میں سے بعض لوگوں کا تذکرہ اللہ رب العزت نے قرآن کریم میں بیان فرمایا :
﴿عَلِمَ اَنْ سَیَکُوْنُ مِنْکُمْ مَّرْضٰی لا وَاٰخَرُوْنَ یَضْرِبُوْنَ فِی الْاَرْضِ یَبْتَغُوْنَ مِنْ فَضْلِ اللّٰہِ لا وَاٰخَرُوْنَ یُقَاتِلُوْنَ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ صلے ز فَاقْرَئُوْا مَا تَیَسَّرَ مِنْہُ ﴾(سورہٴ مزمل : ۲۰)
ترجمہ: اللہ کو علم ہے کہ تم میں کچھ لوگ بیمار ہوں گے اور کچھ دوسرے ایسے ہوں گے جو اللہ کا فضل تلاش کرنے کے لیے زمیں میں سفر کررہے ہوں گے اور کچھ ایسے ؛جو اللہ کے راستے میں جنگ کررہے ہوں گے ۔ لہٰذا تم اس (قرآن ) میں سے اتنا ہی پڑھ لیا کرو جتنا آسان ہو ۔
یہ سارے اعذار کے باوجود پھر بھی یہ کہا گیا ہے کہ﴿ فاقرء وا ما تیسر منہ ﴾نماز تہجد اور تلاوت کی فرضیت اگر چہ منسوخ ہوگئی ہے ۔ البتہ اس کا استحباب اورعند اللہ پسندیدہ ہونا پھر بھی باقی رہا اور اس میں بھی آسانی کردی گئی کہ وقت کی اورتلاوت قرآن کی کوئی تحدید نہیں رکھی گئی۔ہر شخص اپنی اپنی طاقت وفرصت کے مطابق جتنے وقت میں ادا کرسکے ادا کرلے اور اس میں جتنا قرآن پڑھنا آسانی سے ہوسکے پڑھ لے۔
کیا قرآن کریم صرف برکت کے لیے ہے ؟
بعض لوگوں کو دیکھا جاتا ہے کہ وہ قرآن کریم کو محض برکت کی کتاب سمجھتے ہیں کہ نزول قرآن کا مقصد محض برکت حاصل کرنا ہے ۔ اسی لیے وہ لوگ تعویذ وغیرہ اپنے گلوں میں ، گھروں اور گاڑیوں میں لٹکاتے ہیں یا قرآن کریم کی تلاوت محض اپنے گھر وں یا دکانوں کے افتتاح کے موقع پر کرتے ہیں اور بس مقصد یہ ہوتا ہے کہ برکت حاصل ہوں ۔ اور ضرر رساں چیزیں ختم ہوں، بل کہ بعض مرتبہ کچھ تختیاں اپنے سینوں پر یا قبروں پر اور گھروں اور دکانوں کی دیواروں پر بھی لٹکالیتے ہیں ۔
حقیقت یہ ہے کہ ہم نے قرآن کریم کو اپنی عملی زندگی میں لانے کی نہ کوششیں کی اور نہ ہی اس میں تدبر کیا اور نہ تلاوت کی ۔ ہمیں نزول قرآن کے مقصد سے واقف ہونے اور اس پر عمل پیرا ہونے کی ضرورت ہے ۔
مناسب ہے کہ یہاں پر ماہر القادری صاحب کی وہ نظم تحریر کردی جائے ۔
قرآن کی فریاد
طاقوں میں سجایا جاتا ہوں
آنکھوں سے لگایا جاتا ہوں
تعویذ بنایا جاتا ہوں
دھو دھو کے پلایا جاتا ہوں
جزدان حریر و ریشم کے
اور پھول ستارے چاندی کے
پھر عطر کی بارش ہوتی ہے
خوشبو میں بسایا جاتا ہوں
جیسے کسی طوطا و مینا کو
کچھ بول سکھائے جاتے ہیں
اس طرح پڑھایا جاتا ہوں
اس طرح سکھایا جاتا ہوں
جب قول و قسم لینے کے لیے
تکرار کی نوبت آتی ہے
پھر میری ضرورت پڑتی ہے
ہاتھوں پہ اُٹھایا جاتا ہوں
دل سوز سے خالی رہتے ہیں
آنکھیں ہیں کہ نم ہوتی ہی نہیں
کہنے کو میں اک اک جلسے میں
پڑھ پڑھ کے سنایا جاتا ہوں
نیکی پہ بدی کا غلبہ ہے
سچائی سے بڑھ کر دھوکا ہے
اک بار ہنسایا جاتا ہوں
سو بار رلایا جاتا ہوں
یہ میری عقیدت کے دعوے
قانون پہ راضی غیروں کے
یوں بھی مجھے رسوا کرتے ہیں
ایسے بھی ستایا جاتا ہوں
کس بزم میں میرا ذکر نہیں
کس عرس میں میری دھوم نہیں
پھر بھی میں اکیلا رہتا ہوں
مجھ سا بھی کوئی مظلوم نہیں
(جاری……)