مفتی حمید الرحمن اشاعتی سمستی پوری/ استاذ جامعہ اکل کوا
یہ حقیقت ہے کہ موجودہ دور؛ ہندستانی مسلمانوں کے لیے انتہائی آزمائشوں کا دور ہے ۔ اس وقت وطن ِعزیز تاریخ کے نازک موڑ پر آچکا ہے ۔غیر ضروری اور آئین مخالف قوانین کے ذریعہ مسلمانوں کو خوف و دہشت میں مبتلا کیا جارہا ہے۔ مختلف بہانوں سے دستور و آئین کو ہاتھ میں لے کر خوب شور مچایا جارہا ہے ؛اس وقت ملک میں نہ صرف مسلمانوں کی جان ومال خطر ے میں ہے، بل کہ ان کا دین وایمان بھی داوٴ پر لگاہوا ہے۔ مسلمانوں کی اسلامی شناخت کو ختم کرنے ، مسلم پرسنل لاکا خاتمہ کرنے اور ملک کو ہندوراشٹربنانے کی ساری تیاریاں کی جاچکی ہیں ۔ شاید یہی وہ دور ہے، جس کے بارے میں نبی ٴرحمت صلی اللہ علیہ وسلم نے پیشین گوئی فرمائی تھی کہ اس وقت دین پر قائم رہنا ،اتناہی مشکل ہوجائے گا جتنا کہ ہتھیلی پر آگ کا انگارا رکھ کر صبرکرنا مشکل ہے ۔ ان نازک و خطرناک حالات کے نتیجے میں ملک کے مسلمان مختلف گروہوں میں تقسیم ہوچکے ہیں ۔ ان میں سے ایک گروہ؛ جو بڑی تعداد پر مشتمل ہے مکمل مایوس ہوچکا ہے ، اس کی نظر میں اب حالات میں بہتری کا کوئی امکان نہیں۔ اس گروہ کا کہنا ہے کہ ہندستان میں آئندہ اس سے بد تر حالات رونما ہوں گے ۔ مسلمانوں کی جانیں اور ان کی شریعت غیر محفوظ ہوں گی وغیرہ۔ یہ گروہ حالات سے مایوس ہوکر اپنے انجام کا منتظر ہے ،یہ کس قدر حیرت کی بات ہے کہ آج کا مسلمان جو اللہ اوراس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان رکھتا ہے اور جس کااعتماد آخرت کی اصل کام یابی پر ہے ، جو اپنے ساتھ کتاب اللہ اور سنت ِرسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جیسی روشن ومستحکم دلیلیں رکھتا ہے ، لیکن ان سب کے باوجود وہ مال وزر کے نقصان ، دکھ بیماری اور حادثات سے حکومتوں کی سازشوں ودنیوی اصول و قوانین اورحالات کی خرابی سے ڈرتا اور مایوس ہوتاہے؛یہ ایک مومن بندہ اور مسلمان کی سوچ نہیں ہوسکتی ہے ۔ اسلام دشمن عناصر کی سازشیں اور حالات کی خرابی اپنی جگہ مسلَّم ہے ،مگر یہ بھی توایک ناقابل انکار حقیقت ہے کہ ماضی میں ہم اس سے بھی بدتر حالات سے دوچار ہوچکے ہیں اور ہماری پوری تاریخ ہی آزمائشوں اور امتحانات سے گھری ہوئی ہے ؛چناں چہ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں صاف لفظوں میں ارشاد فرمایا ہے :
﴿ولنبلونکم بشئ من الخوف والجوع ونقص من الاموال وا لانفس والثمرات ، وبشر الصٰبرین ﴾(البقرة: ۱۵۵)
کہ ہم تمہیں ضرور آزمائیں گے خوف و ہراس کے ذریعے ، قحط سالی کے ذریعے ، مال و افراد میں کمی کے ذریعے الخ۔ لہٰذا ہمیں بالکل بھی مایوس ہونے کی ضرورت نہیں اور نہ ہی میدان چھوڑ کر بھاگنے کی ضرورت ہے ؛کیوں کہ ہم وہ قوم ہیں ، جو کبھی حالات کے سامنے بزدل نہیں ہوئی اور نہ کبھی ہم نے صبر و ہمت کا دامن اپنے ہاتھ سے جانے دیا۔ ہمارے سامنے غزوہٴ خندق کی مثال اب بھی تازہ ہے ، ہم اپنے اندر صدیق ِاکبر رضی اللہ عنہ کا جذبہٴ ایمانی اور عمر فاروق رضی اللہ عنہ کا عدل ہمیشہ موج زن اور زندہ و تابندہ رکھیں گے۔
بے جا تکلیف کا سامنا کیسے کریں؟
کچھ کم عقل اور بے وقوف لوگ تو اللہ سبحانہ وتعالیٰ کو بھی برا بھلا کہہ دیتے ہیں ، جو خالق و مالک اور پالن ہار ہے ،جس کے سوا کوئی معبود نہیں ۔ پھر ہم اور آپ،جو خطاکار ہیں ، غلطیاں کرتے رہتے ہیں،ہماری کیا حیثیت ہے؟ ہمیں تو لوگوں کی بے جا برائی اور تکلیف کا سامنا کرنا ہی پڑے گا۔ ہمیں برباد کرنے کے منصوبے بنیں گے، جب تک آپ ان کے بیچ میں ہیں ، آپ کو اذیت پہنچتی رہے گی ۔ آنسو نکلیں گے ، نینداڑے گی ، جو زمین پر بیٹھا ہوا ہے وہ نہیں گرتا
گرتے ہیں شہسوار ہی میدان ِجنگ میں
وہ طفل کیاگرے ،جوگھٹنوں کے بل چلے
اسلام دشمن لوگ آپ پر اسی لیے تو ناراض ہوتے ہیں کہ آپ علم، صلاحیت ، اخلاق یا مال میں ان سے بڑھنے کی کوشش کررہے ہیں ۔ آپ امن پسند ہیں، آپ کسی پر ناجائز ظلم کو برداشت نہیں کرتے ، آپ آزاد زندگی گزارنا چاہتے ہیں ، اس ملک کے آئین و دستور نے آپ کو جو حق دیا ہے۔وہ آپ کو معاف کرہی نہیں سکتے، جب تک آپ کی صلاحیتیں ختم نہ ہوجائیں اور اللہ کی نعمتیں آپ سے چھن نہ جائیں،آپ ساری اچھائیوں اور خوبیوں سے تہی دامن نہ ہوجائیں۔ بے کار اور صفر ہوکر نہ رہ جائیں ، آپ کی آزادانہ زندگی سلب نہ ہوجائے ۔ غلامی کی زندگی قبول نہ کرلیں ؛یہی و ہ چاہتے ہیں۔ لہٰذا آپ کو ان کی بے جا تکلیف نہ روا باتوں اور غیر ضروری قوانین کو برداشت کرنا ہوگا ۔ احد پہاڑ کی طرح جم جائیے اورایسی چٹان بن جائیے ،جس پر اولے پڑتے ہیں اور ٹوٹ کر بکھر جاتے ہیں ،لیکن چٹان اپنی جگہ جمی رہتی ہے۔ اور اگر آپ ہمت ہار کر مایوس و ناامید ہوجائیں گے تو اسلام دشمن عناصرآپ کی زندگی کو مکدر کردیں گے اور وہ اپنی چال بازی میں کام یاب ہوجائیں گے ۔
مصیبت زدوں سے حوصلہ پائیے!
اپنے قرب و جوار میں دیکھیے ہرجگہ مصیبت زدہ دکھائی دیں گے۔ ہر خطے میں ہنگامہ برپا ہے ، ہر رخسار پر آنسواورہر وادی میں ماتم بپا ہے۔کتنے المیے اور کتنی مصیبتیں ہیں ! آپ دیکھیں گے کہ مصیبت زدہ آپ تنہا نہیں، بل کہ دوسروں کے مصائب کے مقابلے میں آپ کی مصیبت کم ہے۔ کتنے ہی مریض ہیں، جو سالہا سال سے بستر پر کروٹ بدلتے ، درد سے کراہتے رہتے ہیں اور شفایاب نہیں ہوتے۔ کتنے جیلوں میں بند ہیں ، سالہا سال بیت گئے انہوں نے سورج کی روشنی نہیں دیکھی ، جیل خانے کے علاوہ اور کچھ نہیں جانتے ؛ کتنی عورتیں ہیں جن کے جگر کے ٹکڑے نوخیزی اور عنفوانِ شباب میں چھن گئے ، کتنے ہیں جو پریشان ہیں ، مقروض ہیں، مصیبت میں ہیں۔ آپ ان کے ذریعے تسلی حاصل کریں اور یقینی طور پریہ جان لیں کہ دنیا مومن کے لیے قید خانہ ہے ، غموں اور آفتوں کی جگہ ہے، گھر کے سب لوگ جمع ہوتے ہیں ، ان کی صحت ٹھیک ہوتی ہے ، مال و اولاد کی کثرت ہوتی ہے کہ اچانک موت، فقرو فاقہ، جدائی اور بیماریاں انہیں گھیر لیتی ہیں ۔ لہٰذا اپنے آپ کو مصیبتوں کا سامنا کرنے کا ایسا عادی بنائیں جیسے اونٹ صحرامیں چلنے کا عادی ہوتاہے۔ اپنے قرب و جوار اور پہلے کے لوگوں کے نمونے سامنے رکھیے اور ان کے بیچ اپنا موازنہ کیجیے، تو پتا چلے گا کہ آپ ان کی بہ نسبت زیادہ بہتر ہیں ۔ آپ کوتوصرف ہلکے سے جھٹکے لگے ہیں ، اس پر اللہ کا شکر ادا کریں ، جو اس نے لے لیا اس پر ثواب کی امید رکھیے اور اپنے اردگردکے لوگوں کو دیکھ کر تسلی حاصل کیجیے۔ اس سلسلے میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی ذاتِ گرامی اچھی مثال ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سرپر اونٹ کا اوجھ رکھا گیا ، قدم زخمی ہوئے ، چہرے پر چوٹیں آئیں ، گھاٹی میں بند کیا گیا ، حتی کہ درختوں کے پتے کھانے پڑے ، مکہ سے آپ کو ہجرت کرنے پر مجبور کیا گیا، جنگِ احد میں سامنے کے چار دانت ٹوٹ گئے ، آپ کی زرجہٴ مطہرہ پر بہتان لگایا گیا ، ساتھیوں میں خاصے لوگ شہید ہوگئے ۔ آپ کا بیٹا اور اکثر بیٹیاں آپ کی زندگی میں ہی انتقال کرگئیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پیٹ پر بھوک کے مارے ایک نہیں دو دوپتھر باندھے ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر ساحر ، کاذب ، مجنون اور جھوٹے ہونے کے الزامات لگائے گئے، جو جسمانی اذیتوں سے بڑھ کر تھے، لیکن یہ اذیتیں تو پیش آتی ہی ہیں۔ اس سے پہلے حضرت زکریا علیہ السلام قتل کردیے گئے ، حضرت یحیٰ علیہ السلام کوذبح کردیا گیا، حضرت موسیٰ علیہ السلام کو ستایا گیا، حضرت ابراہیم علیہ السلام کو آگ میں ڈالا گیا، صحابہٴ کرام رضی اللہ عنہم بھی اسی راستے پر چلے ، حضرت عمر رضی اللہ عنہ خون میں نہلائے گئے ، حضرت عثمان رضی اللہ عنہ شہید کیے گئے ، حضرت علی رضی اللہ عنہ کو نیزہ مارا گیا ، ائمہ و صالحین کو کوڑے لگائے گئے ، جیل میں ڈالا گیا ، سزائیں دی گئیں؛یہ سب ہوا لیکن یہ لوگ استقامت کے کوہِ گراں بنے رہیں؛ چناں چہ اللہ پاک قرآن مقدس میں فرماتے ہیں: ﴿ام حسبتم ان تدخلوا الجنة ولما یأتکم مثل الذین خلوا من قبلکم مستہم الباساء والضراء وزلزلوا الخ﴾(البقرة: ۲۱۴)
(مسلمانو!) کیا تم نے یہ سمجھ رکھا ہے کہ تم جنت میں یوں ہی داخل ہوجاوٴگے ؟ حالاں کہ ابھی تمہیں اس جیسے حالات پیش نہیں آئے جیسے ان لوگوں کو پیش آئے تھے ، جو تم سے پہلے ہوگزرے ہیں ۔ان پر سختیاں اور تکلیفیں آئیں اور انہیں ہلا ڈالا گیا۔
عسر کے ساتھ یسر ہے :
محترم قارئین! بھوک کے بعد شکم سیری ، پیاس کے بعد سیرابی ، جاگنے کے بعد نیند، مرض کے بعد صحت ہے۔ گم کردہ منزل پائے گا، مشقت اٹھانے والا آسانی حاصل کرے گا، اندھیرے چھٹ جائیں گے، قریب ہے کہ اللہ اپنی فتح یا اپنے کسی فیصلے کو لے آئے۔ جب آپ دیکھیں کہ صحرا دراز سے دراز تر ہوتاجاتاہے ،تو جان لیں کہ اس کے بعد سرسبز و شاداب نخلستان ہے ، جب رسی لمبی پہ لمبی ہوتی جاتی ہے تو یاد رکھیے کہ جلد ہی و ہ ٹوٹ جائے گی۔
آنسو کے ساتھ مسکراہٹ ہے ، خوف کے بعد امن ، گھبراہٹ کے بعد سکون ، آگ نے ابراہیم خلیل اللہ کو نہیں جلایا ؛ کیوں کہ حکم ِربانی سے وہ ابراہیم علیہ السلام کے لیے ٹھنڈک اور سلامتی والی بن گئی ۔ سمندر نے موسیٰ علیہ السلام کو نہیں ڈبویا ، کیوں کہ انہوں نے بلندی اور سچی آواز میں کہا کہ” نہیں! میرا رب میرے ساتھ ہے اور وہ ضرور مجھے راستہ دکھلائے گا۔ “
حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے یار ِغار کو ڈھارس بندھائی کہ ہمارے ساتھ اللہ ہے ؛ لہٰذا امن و سکون اور نصرت حاصل ہوئی ۔ موجودہ برے حالات کے شکار اورمایوس کن صورت حال کے گرفتار، صرف تنگی ، عبرت اور بدبختی ہی کا احساس کرتے ہیں ، ان کی نظر گھر کی دیوار اور دروازے تک ہی ہوتی ہے ، اس کے آگے ان کی رسائی نہیں۔ کاش! وہ پردے کے پیچھے بھی دیکھتے، ان کی فکر و رائے پس ِدیوار تک پہنچ پاتی ؛ لہٰذا تنگ دل نہ ہوں ، ہمیشہ یکساں حالت نہیں رہے گی ، بہترین عبادت اللہ کی رحمت اور آسانی کا انتظار ہے ، زمانہ الٹتا پلٹتا ہے ، گردشِ دوراں جاری رہتی ہے ، غیب مستور ہے اور مدبر ِعالم کی ہر روز نئی شان ہوتی ہے ، امید ہے کہ اللہ اس کے بعد کوئی آسانی کا معاملہ پیدا کرے گا ۔ کیوں کہ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں :
﴿ان مع العسر یسرا ﴾(الانشراح : ۶)
یقینا عسر کے ساتھ یسر ہے ، تنگی کے بعد آسانی ہے ۔
مصیبت و پریشانی کے وقت صبر ِجمیل اختیارکریں:
صبر وتحمل اولو العزم لوگوں کی صفت ہے ۔ یہ لوگ کشادہ ظرفی، قوت ِارادی اور غیرت وخود داری کے ذریعہ آفات و مشکلات کا سامنا کرتے ہیں اور اگر ہم یا آپ صبر نہ کریں تو پھرکیا کرسکتے ہیں ؟ کیا صبر کے علاوہ اور کوئی چارہ ہے ؟ کیا اس کے علاوہ اور کوئی زادِ راہ ہے ؟ ایک بڑے آدمی کا واقعہ ہے کہ وہ مصائب کی آماجگاہ اور المیوں وحادثات کی فرود گاہ بنا ہوا تھا ، لیکن اس نے صبرو توکل علی اللہ کی ڈھال اختیار کیے رکھی ۔
بڑوں اور شرفا کی بات یہی ہوتی ہے کہ وہ بلاوٴں اور تکالیف کا مقابلہ کرتے اور حادثات کو دھول چٹا دیتے ہیں ۔ صبر اللہ کے واسطے ہونا چاہیے ، صبر ایسا ہو کہ خلاصی کا یقین ہو، حسن ِانجام کی توقع ہو، اجر کی طلب ہو، یہ نیت ہو کہ گناہوں کاکفارہ ہوجائے ، صبر کریں خواہ کیسی ہی شدید مشقتیں لاحق ہوں، چاہے سب راستے تاریک ہوجائیں ، صبر ہوگا تو نصرت آئے گی؛ کیوں کہ تکلیف کے ساتھ آسانی ہے ، عسر کے ساتھ یسر ہے ۔
ہمار االلہ ہمارے لیے کافی ہے :
ناامیدی اور مایوسی کے بجائے ایک اللہ پر بھروسہ کرنا ، اس پر اعتماد کرنا ، اس کے وعدوں پر یقین ، اس کے ساتھ حسن ِظن رکھنا، اس کے فیصلے کو مان لینا ، یہ یقین کرنا کہ وہ آسانی پیدا کرے گا ۔ یہ چیزیں ایمان کے بڑے ثمرات اور مومنین کی بہترین صفات میں سے ہیں؛جب بندہ حسن ِعاقبت سے مطمئن ہوجاتا ہے اوراپنے ہر معاملہ میں اپنے رب پر بھروسہ کرتا ہے تو اللہ کی مددو حمایت اور تائید و نصرت کا مستحق ہوجاتا ہے ۔
حضرت ابراہیم علیہ السلام کو آگ میں ڈالا گیا تو فرمایا : ہمیں اللہ کافی ہے جو بہترین سہارا ہے؛ چناں چہ اللہ نے آگ کو ان کے لیے گلزار بنادیا ۔ نبی ٴاکر م صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو کفار کے لشکروں سے ڈرایا گیا تو فرمایا : ہمیں اللہ کافی ہے ، وہ بہترین سہارا ہے ۔ ﴿حسبنا اللہ ونعم الوکیل﴾چناں چہ اللہ رب العزت نے اپنی نعمت و فضل سے سرفراز فرمایا ۔ انہیں کوئی تکلیف نہیں پہنچی اور انہوں نے اللہ کی رضا حاصل کرلی اور اللہ بڑے فضل والا ہے۔ انسان اکیلا حادثات سے نہیں لڑ سکتا ، نہ مصائب و مشکلات کا سامنا کرسکتا ہے ، کیوں کہ وہ فطری طور پر کم زور وناتواں پیدا کیا گیا ہے ۔ ہاں ! اگر وہ اپنے رب پر توکل کرے ، اپنے معاملات اس کے سپر کردے تو سب کچھ کرسکتا ہے، اگر یہ نہ ہوتو اس عاجز ولاچار بندے کے کام کون سی تدبیر آئے گی ،جب اس پر مصائب و مشکلات آن پڑیں؛چناں چہ اللہ پاک قرآن کریم میں فرماتے ہیں :
﴿وعلی اللہ فتوکلوا ان کنتم مومنین﴾(المائدہ: ۲۳)
اور صرف اللہ پر توکل کرو اگر تم مومن ہو۔
جو لوگ اپنا بھلا چاہتے ہیں انہیں اللہ پربھروسہ کرنا چاہیے ،جو قوی وغنی ہے ، زبردست قوت والا ہے ، وہی انہیں مشکلات و مصائب سے نکال سکتااور اذیتوں سے بچاسکتا ہے ؛لہٰذا حسبنا اللہ ونعم الوکیل کو حرزِ جان بنالیجیے ۔ اگر آپ کا مال کم ہوجائے ، قرض بڑھ جائے ، آمدنی کم ہوجائے تو پکاریے ﴿حسبنا اللہ ونعم الوکیل﴾جب آپ کو کسی دشمن کا خوف ہو ، کسی ظالم سے ڈر لگے ، کسی افتاد سے گھبرا جائیے تو پکاریے ﴿حسبنا اللہ ونعم الوکیل ﴾اور ﴿کفیٰ بربک ہادیا و نصیرا ﴾تمہارا رب کافی ہے نصرت و کارسازی کے اعتبار سے ۔
دنیا کی زندگی کے متعلق ایک عربی شاعر یہ کہتا ہے
أ بنی ابینا نحن اہل منازل
ابدا غراب البین فیہا ینعق
نبکی علی الدنیا وما من معشر
جمعتہم الدنیا فلم یتفرقوا
أین الجبابرة الاکاسرة الألی
کنز وا الکنوز فلا بیقین ولا بقوا
(لا تحزن :ص ۹۷)
ترجمہ: بھائیو! ہم ایسی بستی میں رہتے ہیں جہاں جدائی کی خبر دینے والا کوا کائیں کائیں کرتا رہتا ہے ۔ ہم دنیا پر روتے ہیں، حالاں کہ دنیا میں کون سے لوگ ہیں جو دنیا میں آئے پھر یہاں سے جدا نہیں ہوئے ۔ وہ جبار اور بڑے بڑے بادشاہ کہاں گئے، جنہوں نے بڑے خزانے جمع کیے ؟! نہ وہ بچے نہ ان کے خزانے۔
مٹے نامیوں کے نشاں کیسے کیسے
زمیں کھاگئی آسماں کیسے کیسے
مشکل حالات میں خوش رہنے کے طریقے ڈاکٹر عائض قرنی کی زبانی (اردو ترجمہ):
۱- پہلی بات یہ دھیان میں رکھیں کہ اگر آپ صرف آج پر نظر رکھیں گے تو ذہن بٹ جائے گا ۔ معاملات ڈانو اں ڈول ہوں گے ، اندیشے و تفکرات بڑھ جائیں گے ، اسی بات کو توابن عمر سے یوں نقل کیا گیا ہے کہ
”صبح کرلو تو شام کا انتظار نہ کرو ، شام کرو تو صبح کے انتظار میں مت رہو ۔“
۲- ماضی کو پورے طور پر بھول جائیں، جو گزر گیا اس پر غور وفکر بے وقوفی اور جنون ہے ۔
۳- مستقبل پر توجہ نہ کریں!کہ وہ عالمِ غیب کی بات ہے ، جب تک وہ نہ آجائے اس کے بارے میں پیشگی فکر مند نہ ہوں ۔
۴- جو اطمینان و سکون اور راحت چاہتا ہو ، اسے اللہ کا ذکر اختیار کرنا چاہیے ۔
۵- بندے پر یہ یقین کرنا لازم ہے کہ ہر شئ قضا و قدر سے ہوتی ہے ۔
۶- کسی کی طرف سے شکریہ کا انتظار نہ کریں ۔
۷- جو ہوا ،ہوسکتا ہے کہ وہی بہتر ہو ۔
۸- مسلمان کے لیے تقدیر کا ہر فیصلہ بہتر ہے۔
۹- جو کچھ آپ کے پاس ہے ، اس کے ساتھ آپ بہت سے لوگوں سے بہتر ہیں۔
۱۰- ایک وقت سے دوسرا وقت آسان ہے۔
۱۱- مصیبت کے وقت دعا ضروری ہے۔
۱۲- مصائب ؛بصیرت کے لیے مرہم اور قلب کے لیے قوت ہوتے ہیں۔
۱۳- تنگی کے ساتھ آسانی بھی ہے۔
۱۴- سامان ِزندگی روٹی ، پانی اور سایہ ہے ، اس کے علاوہ کی فکر نہ کریں۔
۱۵- جس حادثے کا زیادہ اندیشہ ہوتا ہے ، وہ نہیں ہوتا۔
۱۶- آسمان میں آپ کے لیے روزی طے ہے ، جس کا آپ سے وعدہ کیا جارہا ہے۔
۱۷- مصیبت زدوں میں آپ کے لیے عبرت و نمونہ ہے۔
۱۸- اللہ جب کسی قوم کو پسند کرتا ہے ،تو انہیں مبتلائے مصیبت کرتا ہے۔
۱۹- مصیبت میں مسنون دعائیں کریں اوربے کار نہ بیٹھیں۔
۲۰- افواہوں اور فضول باتوں کو چھوڑ دیں ، ان کی تصدیق نہ کریں۔
۲۱- کینہ اور انتقام کی خواہش آپ کی صحت کو نقصان پہنچائے گی ،حریف اور دشمن کو نہیں ۔
۲۲- جو تکلیف بھی پہنچتی ہے وہ گناہوں کا کفارہ ہے۔
۲۳- اللہ پر ایمان اور عمل ِصالح ہی بہترین اور خوش گوار زندگی ہے۔
۲۴- اپنے آپ کو اس کا عادی بنائیں کہ مشکل سے مشکل کام انجام دیں۔
۲۵- آپ کا رب بہت معاف کرنے والا ہے۔